کینہ اور حسد سے بچیں
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
حسد اور کینہ انسان کی روحانی بیماریاں ہیں جن کی وجہ سے انسان اندر ہی اندر گھلتا رہتاہے اور اس کے اعمال تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں۔کسی شخص کی خوشحالی کودیکھ کر دکھ میں مبتلاہونا اور اندر ہی اندر کڑھتے رہنا حسد کہلاتاہے اور کسی کے بارے میں ہمیشہ برا سوچتے رہنایااس کو نقصان پہنچانے کی ترکیبیں سوچتے رہنا کینہ ہے۔ان دونوں بیماریوں سے بچنے کی شریعت میں سختی سے تاکید کی گئی ہے اور ایسے لوگوں کے لئے سخت عذاب کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔جولوگ حسد میں مبتلاہیں ان کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنے کی تعلیم بھی دی گئی ہے۔سورۂ فلق میں اللہ تعالیٰ نے جہاں لوگوں کے شرور سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ کی پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے وہیں حاسدین کے شرور سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے۔ ارشاد ہے: وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ (فلق)اور(میں پناہ مانگتاہوں)حاسد کے شر سے جب کہ وہ حسد کرے۔حسد ایک منفی جذبہ ہے جواحساس کمتری کے شکار لوگوں کے اندر پیداہوتا ہے انسان کا نفس یہ چاہتاہے کہ وہ ہرمعاملہ میں سب سے آگے رہے اور اس کو شہرت وعزت سب سے زیادہ ملے لیکن جب اس کے برعکس ہوتاہے اور کوئی دوسرا آدمی وہ مقام حاصل کرلیتاہے جو اس کی دسترس سے باہر ہے تو وہ حسد کی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں جتنے بھی انسان پید اکئے ہیں ہر ایک کی صلاحیتیں الگ الگ رکھی ہیں شکل وصورت، ڈیل ڈول، لمبائی چوڑائی،طاقت وتوانائی، حسب و نسب اور مال ودولت سب میں تفاوت ہے اب جو چیزیں محنت و مشقت سے حاصل ہونے والی ہیں ان میں تو انسان ان تھک کوششیں کرتاہے او ران تمام چیزوں کو حاصل کرتا ہے جو اس کے لئے وجہ امتیاز بن سکیں اور زندگی کے دوڑ میں وہ دوسرے لوگوں پر فوقیت حاصل کرسکے۔لیکن جب وہ ان چیزوں کے حصول میں ناکام ہوجاتا ہے تو وہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتاہے اور حسد میں مبتلا ہوجاتاہے۔ حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے بزرگی وبرتری کامعیار تقویٰ وطہارت کو رکھاہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارگاہ میں اہل تقویٰ کی ہی قدر کی جاتی ہے باقی شکل وصورت، مال ودولت اور دیگر دنیاوی چیزیں یہ سب فانی ہیں ان میں مسابقت کرکے انسان کو اپناوقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر انسان کو عقل اور سمجھ کی طاقت دی ہے وہ اپنی طاقت کواستعمال کرکے اور اپنی عقل کوبروئے کار لاکر اپنی زندگی خوش گورا بناسکتاہے لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جوخود تومحنت سے جی چراتے ہیں اور دوسروں کی ترقی دیکھ کر جلن میں مبتلا ہوجاتے ہیں بجائے اس کے کہ خود محنت کرکے اس مقام تک پہنچیں،دوسروں سے کینہ اور بغض رکھتے ہیں اور اپنی دنیا وعاقبت دونوں بربادکرلیتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ (یا یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے)کہ اللہ کی طرف سے کسی کو کوئی عطاوبخشش ہوتی ہے تویہ اس کافضل ہے جسے چاہتاہے عطاکرتا ہے، لوگوں کو اس میں حسد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ایسے اعمال کی طرف توجہ دینا چاہئے جو اللہ کے فضل کوان کی طرف متوجہ کردے۔حسد سے بچنے سے متعلق نبی کریمﷺ کے ارشادات کثیر تعداد میں ہیں۔ایک جگہ آپ نے فرمایا:
عن انس بن مالک رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” لَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا، وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ”.(صحیح بخاری۔کتاب الادب۔باب ماینھی عن التحاسد والتدابر۔حدیث نمبر ٦٠٦٥ )
حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”آپس میں بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو، پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کرو، بلکہ اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ ایک بھائی کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ سلام کلام چھوڑ کر رہے۔
بغض و عداوت اور حسدایسی بیماریاں ہیں جن کی وجہ سے آپس میں پھوٹ پڑجاتی ہے اوراتحاد و اتفاق پارہ پارہ ہوجاتاہے اسی لئے نبی کریم ﷺ نے حسد،بغض اورکینہ سے بچنے کی سختی سے تاکیدفرمائی ہے۔اس لئے کہ حسد کی وجہ سے انسان کے نامۂ اعمال میں نیکیاں نہیں رہ پاتی ہیں۔ ارشاد ہے:
عن ابی ھریرۃ رضٰ اللہ عنہ ، اَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ، أَوْ قَالَ: الْعُشْبَ”(ابوداؤد۔کتاب الادب۔باب فی الحسد۔حدیث نمبر٤٩٠٣ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ حسد سے بچو، اس لیے کہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا لیتا ہے، جیسے آگ ایندھن کو کھا لیتی ہے یا کہا گھاس کو (کھا لیتی ہے)۔
معاشرہ کی اصلاح اور ایک صالح ماحول پیداکرنے کی اسلام نے ہمیشہ تلقین کی ہے۔ اسلامی معاشرہ انسان کو حسن و خیر کی دعوت دیتاہے اور شروفساد سے روکتاہے اسی لئے اسلام نے جہاں دیگرمکارہ ومحارم سے بچنے کاحکم دیاہے وہیں حسد سے بچنے کی تعلیم بھی دیاہے اس لئے کہ حسد ایک ایسا مہلک مرض ہے جو معاشرہ کی صالحیت کو تار تار کرکے عناد و دشمنی کی فضا ہموار کرتا ہے اورانسان کی تباہی و بربادی کو دعوت دیتا ہے جس کی وجہ سے دنیامیں بھی ذلت خواری ہوتی اور آخرت میں بھی شدید عذاب کا باعث ہے۔پچھلی اقوام میں سے بعض قومیں اس کی وجہ سے گرفتار عذاب بھی ہوئی ہیں۔ ذیل کی حدیث ملاحظہ فرمائیں:
عن سہل بن ابی امامہ حَدَّثَ، أَنَّهُ دَخَلَ هُوَ وَأَبُوهُ عَلَى انس بن مالک رضی اللہ عنہ بِالْمَدِينَةِ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ، فَإِذَا هُوَ يُصَلِّي صَلَاةً خَفِيفَةً دَقِيقَةً كَأَنَّهَا صَلَاةُ مُسَافِرٍ أَوْ قَرِيبًا مِنْهَا فَلَمَّا سَلَّمَ، قَالَ أَبِي: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، أَرَأَيْتَ هَذِهِ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ أَوْ شَيْءٌ تَنَفَّلْتَهُ؟ , قَالَ: إِنَّهَا الْمَكْتُوبَةُ وَإِنَّهَا لَصَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَخْطَأْتُ إِلَّا شَيْئًا سَهَوْتُ عَنْهُ، فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ:” لَا تُشَدِّدُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَيُشَدَّدَ عَلَيْكُمْ، فَإِنَّ قَوْمًا شَدَّدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ فَشَدَّدَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَتِلْكَ بَقَايَاهُمْ فِي الصَّوَامِعِ وَالدِّيَار وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ , ثُمَّ غَدَا مِنَ الْغَدِ، فَقَالَ: أَلَا تَرْكَبُ لِتَنْظُرَ وَلِتَعْتَبِرَ، قَالَ: نَعَمْ، فَرَكِبُوا جَمِيعًا فَإِذَا هُمْ بِدِيَارٍ بَادَ أَهْلُهَا وَانْقَضَوْا وَفَنُوا خَاوِيَةٍ عَلَى عُرُوشِهَا، فَقَالَ: أَتَعْرِفُ هَذِهِ الدِّيَارَ، فَقُلْتُ: مَا أَعْرَفَنِي بِهَا وَبِأَهْلِهَا، هَذِهِ دِيَارُ قَوْمٍ أَهْلَكَهُمُ الْبَغْيُ وَالْحَسَدُ إِنَّ الْحَسَدَ يُطْفِئُ نُورَ الْحَسَنَاتِ وَالْبَغْيُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ أَوْ يُكَذِّبُهُ وَالْعَيْنُ تَزْنِي وَالْكَفُّ وَالْقَدَمُ وَالْجَسَدُ وَاللِّسَانُ وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ أَوْ يُكَذِّبُهُ. (ابوداؤد۔کتاب الادب۔ باب فی الحسد۔حدیث نمبر٤٩٠٤ )
حضرت سہل بن ابی امامہ کا بیان ہے کہ وہ اور ان کے والد عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں جب وہ مدینے کے گورنر تھے، مدینے میں انس رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو دیکھا، وہ ہلکی یا مختصر نماز پڑھ رہے ہیں، جیسے وہ مسافر کی نماز ہو یا اس سے قریب تر کوئی نماز، جب انہوں نے سلام پھیرا تو میرے والد نے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے، آپ بتائیے کہ یہ فرض نماز تھی یا آپ کوئی نفلی نماز پڑھ رہے تھے تو انہوں نے کہا: یہ فرض نماز تھی اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے اور جب بھی مجھ سے کوئی غلطی ہوتی ہے، میں اس کے بدلے سجدہ سہو کر لیتا ہوں، پھر کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: اپنی جانوں پر سختی نہ کرو کہ تم پر سختی کی جائے اس لیے کہ کچھ لوگوں نے اپنے اوپر سختی کی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کر دی تو ایسے ہی لوگوں کے باقی ماندہ لوگ گرجا گھروں میں ہیں انہوں نے رہبانیت کی شروعات کی جو کہ ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی پھر جب دوسرے دن صبح ہوئی تو کہا: کیا تم سواری نہیں کرتے یعنی سفر نہیں کرتے کہ دیکھو اور نصیحت حاصل کرو، انہوں نے کہا: ہاں (کرتے ہیں) پھر وہ سب سوار ہوئے تو جب وہ اچانک کچھ ایسے گھروں کے پاس پہنچے، جہاں کے لوگ ہلاک اور فنا ہو کر ختم ہو چکے تھے اور گھر چھتوں کے بل گرے ہوئے تھے، تو انہوں نے کہا: کیا تم ان گھروں کو پہنچانتے ہو؟ میں نے کہا: مجھے کس نے ان کے اور ان کے لوگوں کے بارے میں بتایا؟ (یعنی میں نہیں جانتا) تو انس نے کہا: یہ ان لوگوں کے گھر ہیں جنہیں ان کے ظلم اور حسد نے ہلاک کر دیا، بیشک حسد نیکیوں کے نور کو گل کر دیتا ہے اور ظلم اس کی تصدیق کرتا ہے یا تکذیب اور آنکھ زنا کرتی ہے اور ہتھیلی، قدم جسم اور زبان بھی اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔
حسد یہ ہے کہ آدمی کسی دوسرے کے پا س موجود نعمت کے ختم ہونے کی تمنا کرے جو یقینا حرام ہے۔لیکن ایک صورت ایسی بھی ہے جو جائز ہے۔جس کو رشک کے نام سے جانا جاتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کوکوئی نعمت عطاکی ہے تودوسرے لوگ بھی یہ تمنا اور خواہش رکھیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ایسی نعمت سے نواز دے۔ ظاہر ہے اس طرح کی تمنا اور خواہش رکھنے کاہر انسان کوحق ہے کہ اپنے خالق سے امید رکھے کہ وہ اسے اپنی رحمت سے نوازے گا۔اس لئے یہ صورت جائز ہے۔ احادیث میں اس کے متعلق صراحت موجود ہے۔
قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ , وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ حِكْمَةً فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا”(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الزہد۔باب:الحسد۔حدیث نمبر٤٢٠٨ )
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:رشک و حسد کے لائق صرف دو لوگ ہیں: ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا اور پھر اس کو راہ حق میں لٹا دینے کی توفیق دی، دوسرا وہ جس کو علم و حکمت عطا کی تو وہ اس کے مطابق عمل کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا ہے۔
مال ودولت اللہ تعالیٰ کی عطا اور بخشش ہے اور اس کو اللہ کی راہ میں صرف کرناسب سے بڑی سعادت ہے اس لئے اگر کسی کو یہ نعمت و سعادت حاصل ہے تو وہ شخص دنیا میں بھی عزت پاتاہے اور آخرت میں بھی اس کے لئے بہترین نعمتیں تیار ہیں۔اسی طرح علم و حکمت بھی اللہ کی بخشش و عطا ہے اور اس پر عمل کرنا اور دوسروں کو عمل کی دعوت دینا، اس کی تعلیم دینا یہ ایک سعادت عظمیٰ ہے جس کی خواہش وتمنا رکھنا بھی سعادت مندی ہے اس لئے ایسی چیزوں میں رشک کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن ہے۔مذکورہ بالا حدیث میں اسی کابیان ہے۔ اس کے علاوہ دنیاوی عزت وجاہ اور شہرت و ناموری کی خواہش دلوں میں پال کر رکھنا ایک ناپسندیدہ عمل ہے جس سے اجتناب لازمی ہے۔
جس طرح حسد سے بچنے کی تعلیم دی گئی ہے اسی طرح کینہ سے بچنے کی تعلیم بھی دی گئی ہے۔اس لئے کہ اپنے بھائی سے کینہ رکھنا ایسا عمل ہے جو انسان کی مغفرت میں رکاوٹ پیداکردیتا ہے، دیگر صالح اعمال بھی اس کے کام نہیں آتے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں جب کہ اللہ کی رحمت موسلادھار بارش کی طرح برستی ہے اس وقت بھی کینہ رکھنے والا شخص اللہ کی رحمت سے محروم ہوتاہے۔ اس لئے اس بیماری سے بچنے کی سخت تاکید کی گئی ہے۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، فَيُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدٍ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، إِلَّا رَجُلًا كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ، فَيُقَالُ: أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا، أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا، أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا “(صحیح مسلم۔کتاب البر والصلہ والآداب۔با ب النھی عن الشحناء والتہاجر۔حدیث نمبر٦٥٤٤ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں پیر اور جمعرات کے دن، پھر ہر ایک بندہ کی مغفرت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کرتا مگر وہ شخص جو کینہ رکھتا ہے اپنے بھائی سے اس کی مغفرت نہیں ہوتی اور حکم ہوتا ہے ان دونوں کو دیکھتے رہو جب تک مل جائیں، ان دونوں کو دیکھتے رہو جب تک مل جائیں۔
عزت وذلت اور شہرت وناموری یہ ساری چیزیں اللہ کی طرف سے ملتی ہیں۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت اور عزت و شہرت عطاکی ہے ان کو چاہئے کہ وہ ہر وقت اللہ کا شکر اداکرتے رہیں اور دوسرے لوگوں کو چاہئے کہ ان کی عزت وعظمت کو قبول کریں نہ یہ کہ خواہ مخواہ جلن اور حسد کے شکار ہوجائیں۔ اس لئے کہ حاسد اپنے حسد کی وجہ سے خود ہی اپنا سکون غارت کرتاہے اور اپنے اعمال کو بھی برباد کرتاہے۔دنیا میں حاسد کو یہ نقصان ہوتاہے کہ کسی کے ساتھ اس کے تعلقات خوشگوار نہیں رہتے بلکہ وہ اپنے سے آگے بڑھ جانے والے ہر شخص سے بدگمان رہتاہے۔نہ وہ خود دوسروں کو عزت کی نظر سے دیکھتا ہے او رنہ ہی اسے معاشرے میں عزت ملتی ہے۔حاسد کے اندر بد اعتمادی،بد اخلاقی، الزام تراشی اور بہتان جیسی مہلک بیماریاں پید اہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ خود بھی پریشان رہتاہے اوراپنے آس پاس رہنے والوں کو بھی پریشان کردیتاہے۔
جنت میں چونکہ ہر طرح کاسکون ہوگا اور وہاں کسی طرح کی بے سکونی اور پریشانی کاکوئی نام ونشان نہیں ہوگا اس لئے یہ اہل جنت کی خاص صفات میں سے ہے کہ ان کے درمیان آپس میں کوئی حسد،کینہ، بغض اور دشمنی نہیں ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جنتیوں کے دلوں میں سے یہ سب بیماریاں جنت میں داخلہ سے پہلے ہی نکال دیں گے۔اس لئے دل میں کینہ او ربغض رکھنے والوں کے لئے جنت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
Hi my loved one! I wish to say that this article is awesome, great written and include almost all vital infos. I would like to look more posts like this .
fantástico este conteúdo. Gostei bastante. Aproveitem e vejam este conteúdo. informações, novidades e muito mais. Não deixem de acessar para aprender mais. Obrigado a todos e até a próxima. 🙂
Este site é realmente fascinate. Sempre que acesso eu encontro coisas incríveis Você também vai querer acessar o nosso site e descobrir detalhes! Conteúdo exclusivo. Venha descobrir mais agora! 🙂