عہد و پیمان پوراکرنا
تحریر: مفتی محمدآصف اقبال قاسمی
انسانی زندگی میں ایک بہت ہی اہم چیز ایفائے عہد یعنی قول وقرار کا پورا کرنا ہے۔ اس کے ذریعے انسانوں کے درمیان معاملات میں خوشگواری پیداہوتی ہے اور نظام کائنات کو متوازن رکھنے میں ممد و معاون ہو تاہے۔کوئی بھی ملک،قوم،فردیا قبیلہ کسی بات پر کوئی عہد کرے یا کسی طرح کا وعدہ کرے لیکن بر وقت اس کی تعمیل و تکمیل نہ کرے تو ماحول میں ایک طرح کی بد مزگی پیدا ہو جاتی ہے اور اگر کوئی قوم وعدہ خلافی پراتر جائے تو ان کے معاملات کشیدگی اورتباہی کا شکار ہوجائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ایفائے عہدکو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔قرآن وحدیث میں وعدہ پورا کرنے کا حکم اور اس کے فوائد نیز جولوگ وعدہ پوراکرنے والے ہیں ان کی پزیرائی کی گئی ہے۔سورہ بقرہ آیت 177 میں جہاں اللہ تعالیٰ نے نیکیوں اورنیک لوگوں کاشمار کیا ہے اس میں دیگر اوصاف کے ساتھ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا(وہ لوگ جو اپنے وعدوں کوپورا کرتے ہیں جب کہ وہ وعدہ کریں) بھی ذکر کیاہے۔اسی طرح سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر34 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَ اَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْؤُلًا (وعدہ پورا کروبے شک وعدہ کے بارے میں باز پرس ہوگی۔
وَ اَوْفُوْا بِعَھْدِ اللّٰہِ اِذَا عٰھَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰہَ عَلَیْکُمْ کَفِیْلًا اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ(٩١ ) وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثًا تَتَّخِذُوْنَ اَیْمَانَکُمْ دَخَلًا بَیْنَکُمْ اَنْ تَکُوْنَ اُمَّۃٌ ھِیَ اَرْبٰی مِنْ اُمَّۃٍ اِنَّمَا یَبْلُوْکُمُ اللّٰہُ بِہٖ وَ لَیُبَیِّنَنَّ لَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ(٩٢ ۔سورۃ النحل۔)
ترجمہ: اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جب کہ تم آپس میں قول وقرار کرو اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد مت توڑو، حالانکہ تم اللہ تعالیٰ کو اپنا ضامن ٹھہرا چکے ہو، تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کو بخوبی جان رہا ہے اور اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے توڑ ڈالا، کہ تم اپنی قسموں کو آپس کے مکر کا باعث ٹھیراؤ، اس لیے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے بڑھا چڑھا ہوجائے۔ بات صرف یہی ہے کہ اس عہد سے اللہ تمہیں آزما رہا ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے لیے قیامت کے دن ہر اس چیز کو کھول کر بیان کر دے گا جس میں تم اختلاف کر رہے تھے۔
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُوَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا(٢٣ )لِّیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِھِمْ وَ یُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ اِنْ شَآءَ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْھِمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(٢٤ ۔احزاب)
ترجمہ: مومنوں میں سے کچھ مرد ایسے ہیں جنھوں نے وہ بات سچ کہی جس پر انھوں نے اللہ سے عہد کیا، پھر ان میں سے کوئی تو وہ ہے جو اپناعہد پورا کر چکا اور کوئی وہ ہے جو انتظار کر رہا ہے اور انھوں نے نہیں بدلا، کچھ بھی بدلنا، تاکہ اللہ سچوں کو ان کے سچ کا بدلہ دے اور منافقوں کو عذاب دے اگر چاہے، یا ان کی توبہ قبول فرمائے۔ بلاشبہ اللہ ہمیشہ سے بیحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
یہ آیت انس بن نضیر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے جس کا انہیں سخت افسوس تھا کہ میں سب سے پہلی جنگ میں جس میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس شریک تھے میں شامل نہ ہو سکا اب جو جہاد کا موقعہ آئے گا میں اللہ تعالیٰ کو اپنی سچائی دکھا دوں گا اور یہ بھی کہ میں کیا کرتا ہوں؟ اس سے زیادہ کہتے ہوئے خوف کھایا۔ اب جنگ احد کا موقعہ آیا تو انہوں نے دیکھا کہ سامنے سے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ واپس آ رہے ہیں انہیں دیکھ کر تعجب سے فرمایا کہ ابوعمرو! کہاں جا رہے ہو؟ واللہ مجھے احد پہاڑ کے اس طرف سے جنت کی خوشبوئیں آ رہی ہیں۔ یہ کہتے ہی آپ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور مشرکوں میں خوب تلوار چلائی۔ چونکہ مسلمان لوٹ گئے تھے یہ تنہا تھے ان کے بے پناہ حملوں نے کفار کے دانت کھٹے کر دئیے تھے اور کفار لڑتے لڑتے ان کی طرف بڑھے اور چاروں طرف سے گھیر لیا اور شہید کر دیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کواسّی سے اوپر زخم آئے تھے کوئی نیزے کا کوئی تلوار کا کوئی تیر کا۔ شہادت کے بعد کوئی آپ رضی اللہ عنہ کو پہچان نہ سکا یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو پہچانا اور وہ بھی ہاتھوں کی انگلیوں کی پوریں دیکھ کر۔ انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اور یہی ایسے تھے جنہوں نے جو کہا تھا کر دکھایا۔ (تفسیر ابن کثیر)
ایفائے عہد انبیاء کرام کی خاص صفت
وعدہ او رعہد وپیمان کوپورا کرنا انبیاء کرام کی صفت ہے نبی کریمﷺ میں یہ صفت بدرجۂ اتم موجود تھی۔وعدہ خلافی کرنا شیطان کی صفت ہے۔
عن عبد اللہ بن ابی حمساء رضی اللہ عنہ قَالَ:” بَايَعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَيْعٍ قَبْلَ أَنْ يُبْعَثَ، وَبَقِيَتْ لَهُ بَقِيَّةٌ فَوَعَدْتُهُ أَنْ آتِيَهُ بِهَا فِي مَكَانِهِ، فَنَسِيتُ ثُمَّ ذَكَرْتُ بَعْدَ ثَلَاثٍ، فَجِئْتُ فَإِذَا هُوَ فِي مَكَانِهِ، فَقَالَ: يَا فَتًى، لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَيَّ أَنَا هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثٍ أَنْتَظِرُكَ”“۔(سنن ابوداؤد۔ کتاب الادب، باب فی العدۃ۔حدیث نمبر٤٩٩٦ )
حضرت عبداللہ بن ابو حمساء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے بعثت سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک چیز خریدی اور اس کی کچھ قیمت میرے ذمے رہ گئی تو میں نے آپ سے وعدہ کیا کہ میں اسی جگہ اسے لا کر دوں گا، پھر میں بھول گیا، مجھے تین (دن) کے بعد یاد آیا تو میں آیا، دیکھا کہ آپ اسی جگہ موجود ہیں، آپ نے فرمایا: ”اے جوان! تو نے مجھے زحمت میں ڈال دیا، اسی جگہ تین دن سے میں تیرا انتظار کر رہا ہوں۔
نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کوبھی وفاء عہد کی تعلیم دی ہے اور ہر حال میں وعدوں کو پورا کرنے کاحکم دیاہے۔ذیل کی حدیث میں غور فرمائیں کہ غزوہ بدر جس میں کفار کے ساتھ سخت مقابلہ درپیش تھا اور آپ ﷺ کو ایک ایک آدمی کی ضرورت تھی لیکن آپ نے اپنے ایک صحابی کوجنگ میں جانے سے روک دیا محض اس لئے کہ انہوں نے کفار سے ایک وعدہ کرلیاتھا۔
عن حذیفۃ بن الیمان رضی اللہ عنہ قَالَ: ” مَا مَنَعَنِي أَنْ أَشْهَدَ بَدْرًا إِلَّا أَنِّي خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِي حُسَيْلٌ، قَالَ: فَأَخَذَنَا كُفَّارُ قُرَيْشٍ، قَالُوا: إِنَّكُمْ تُرِيدُونَ مُحَمَّدًا، فَقُلْنَا: مَا نُرِيدُهُ مَا نُرِيدُ إِلَّا الْمَدِينَةَ، فَأَخَذُوا مِنَّا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ، لَنَنْصَرِفَنَّ إِلَى الْمَدِينَةِ وَلَا نُقَاتِلُ مَعَهُ، فَأَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْنَاهُ الْخَبَرَ فَقَالَ: انْصَرِفَا نَفِي لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ وَنَسْتَعِينُ اللَّهَ عَلَيْهِمْ “.(صحیح مسلم۔کتاب الجہاد والسیر،باب الوفا بالعہد۔حدیث نمبر4639)
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، مجھے بدر میں آنے سے کسی چیز نے نہ روکا مگر یہ کہ میں نکلا اپنے باپ حسیل کے ساتھ (یہ کنیت ہے حذیفہؓ کے باپ کی اور بعض نے حِسل کہا ہے) تو ہم کو قریش کے کافروں نے پکڑا اور کہا: تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانا چاہتے ہو، سو ہم نے کہا: ہم ان کے پاس نہیں جانا چاہتے بلکہ ہم مدینہ میں جانا چاہتے ہیں۔ پھر انہوں نے ہم سے اللہ کا نام لے کر عہد اور اقرار لیا کہ ہم مدینہ کو پھر جائیں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر نہیں لڑیں گے جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ہم نے یہ سب قصہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم چلے جاؤ مدینہ کو ہم ان کا اقرار پورا کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے ان پر مدد چاہیں گے ۔
بدعہدی پروعید
نبی کریم ﷺ نے وعدہ کو پورا نہ کرنا منافق کی علامت بتایاہے۔
عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَلَّةٌ مِنْهُنَّ، كَانَتْ فِيهِ خَلَّةٌ مِنْ نِفَاقٍ حَتَّى يَدَعَهَا، إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ “، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ سُفْيَانَ: وَإِنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ، كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ. (مسلم۔ کتاب الایمان،باب خصال المنافق۔حدیث نمبر ٢١٠ )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس میں چار باتیں ہوں گی، وہ تو پکا منافق ہے اور جس میں ان چاروں میں سے ایک خصلت ہو گی تو اس میں نفاق کی ایک ہی خصلت ہے، یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب اقرار کرے تو اس کے خلاف کرے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، جب جھگڑا کرے تو ناحق چلے اور طوفان جوڑے۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ، إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ۔(مسلم۔ کتاب الایمان،باب خصال المنافق۔ حدیث نمبر ٢١١ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی نشانیاں تین ہیں، جب بات کرے تو جھوٹی، جب وعدہ کرے تو خلاف کرے، جب امانت لے تو اس میں خیانت کرے۔
نبی کریم ﷺ نے وعدوں کوپورا کرنے کی تاکید فرمائی ہے اورجولوگ وعدوں کو پورا نہیں کرتے ان کے لئے سخت وعید فرمائی ہے۔ایسے لوگوں کو قیامت کے دن سخت رسوائی کاسامنا ہوگا۔ ان کے لئے ذلت کاایک جھنڈا ہوگا جو ان کے پشت پر نصب کیا جائے گا۔
ایفائے عہد ایمانی شعار
عہد وپیمان چاہے مسلمانوں سے ہو یا کسی اور قوم سے بہر حال ان کی پاسداری ایمان والوں کے لئے لازم ہے۔صلح حدیبیہ کاعہد اور مدینہ میں یہود کے ساتھ معاہدہ اس پردلیل ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے دوسری اقوام سے کئے گئے عہد وپیمان کو بھی پورا کیا ہے۔
عن عاصم بن سلیمان قَالَ قُلتُ لانس بن مالک رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَبَلَغَكَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” لَا حِلْفَ فِي الْإِسْلَامِ”، فَقَالَ: قَدْ حَالَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ قُرَيْشٍ، وَالْأَنْصَارِ فِي دَارِي. )صحیح بخاری۔ کتاب الکفا لۃ، باب قول اللہ تعالیٰ۔ والذین عاقدت ایمانکم فآتوھم نصیبھم۔حدیث نمبر ٢٢٩٤ )
حضرت عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا آپ کو یہ بات معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا، اسلام میں جاہلیت والے عہد و پیمان نہیں ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خود انصار اور قریش کے درمیان میرے گھر میں عہد و پیمان کرایا تھا۔
عن ابن عمر رضی اللہ عنہ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” إِنَّ الْغَادِرَ يُنْصَبُ لَهُ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُقَالُ هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ”.(ابوداؤد۔کتاب الجہاد،باب فی الوفاء بالعہد۔حدیث نمبر٢٧٥٦ )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بدعہدی کرنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا اور کہا جائے گا: یہ فلاں بن فلاں کی بدعہدی ہے۔
ایفائے وعدہ سے متعلق نبی کریم ﷺ کے ارشادات بکثر ت وارد ہوئے ہیں اس لئے ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ ہر وقت اورہرحال میں اپنے وعدے اور عہد کوپورا کرے۔ چاہے اس میں اس کانقصان ہی کیوں نہ ہو۔نبی کریمﷺ نے پوری زندگی وعدے کی پابندی کی اور آپ ؐکے بعد آپؐ کے اصحاب کرام نے نہایت سختی کے ساتھ اپنے وعدوں اور عہدوں کی پابندی کی ہے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور رومیوں کے درمیان ایک متعین وقت تک کے لیے یہ معاہدہ تھا کہ وہ آپس میں لڑائی نہیں کریں گے، (اس مدت میں) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے شہروں میں جاتے تھے، یہاں تک کہ جب معاہدہ کی مدت گزر گئی، تو انہوں نے ان سے جنگ کی، ایک شخص عربی یا ترکی گھوڑے پر سوار ہو کر آیا، وہ کہہ رہا تھا: اللہ اکبر، اللہ اکبر، وعدہ کا پاس و لحاظ ہو بدعہدی نہ ہو لوگوں نے اس کو بغور دیکھا تو وہ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو ان کے پاس بھیجا، اس نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:”جس شخص کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو معاہدہ نہ توڑے اور نہ نیا معاہدہ کرے جب تک کہ اس معاہدہ کی مدت پوری نہ ہو جائے، یا برابری پر عہد ان کی طرف واپس نہ کر دے”، تو یہ سن کر معاویہ رضی اللہ عنہ واپس آ گئے۔(سنن ابوداؤد۔کتاب الجہاد، باب فی الامام یکون بینہ وبین العدو عہد فیسیر الیہ۔حدیث نمبر٢٧٥٩ )
عہد وپیمان کو پورا کرنا ایمان کے کمال کی نشانی ہے اور بد عہدی ایمان کے نقص کی علامت ہے اس لئے ایمان والوں کو یہ چاہئے کہ ہر حال میں اپنے عہد کو پور اکرنے کی کوشش کریں۔
I want to convey my gratitude for your kindness for individuals that must have assistance with this study. Your personal dedication to getting the message along came to be extraordinarily important and have continuously helped some individuals much like me to get to their desired goals. The important help indicates a great deal to me and substantially more to my office workers. Warm regards; from all of us.
Thank you a bunch for sharing this with all of us you really understand what you’re speaking about! Bookmarked. Please additionally visit my web site =). We can have a link trade agreement between us!