توحید

تحریر مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیَّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَ عَلٰی آلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔

توحید کامطلب:توحید کے لغوی معنی ایک ماننے کے ہیں اور اصطلاح شریعت میں اللہ کو ایک ماننے، اس کی ذات وصفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرانے کو توحید کہتے ہیں۔ایک موحد کے لئے ضروری ہے کہ وہ جس طرح اللہ کو ایک مانتاہے اسی طرح اس کی صفات میں بھی کسی کوشریک نہ مانے اور کائنات کے ذرے ذرے کا تدبیر کرنے والا اللہ ہی کو مانے۔

خالق کائنات اللہ جل مجدہ نے اس کائنات کو بنایا، اس میں طرح طرح کی مخلوقات پیدافرمایااور ان سب میں اشرف اور اعلیٰ انسان کو بنایا اور اس کو خلافت ارضی سے نوازا۔یہ حق جل مجدہ کی بڑی نوازش ہے۔ ورنہ اس کائنات میں جسامت اور ڈیل ڈول کے اعتبار سے دیگر مخلوقاتِ ارضی وسماوی میں انسان کی کوئی حیثیت واہمیت نہیں ہے۔لیکن علم وعقل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو شرافت وکرامت کا تاج پہناکر اس ربعِ مسکوں پرایک باعزت مقام عطاکیا اور ہر چیز کو اس کے لئے مسخر کردیا ہے۔ اس فضل واحسان کا لازمی تقاضا ہے کہ انسان اپنے خالق و مالک کو پہچانے اوراسی کی عبادت کرے۔ اس کی عبادت میں کسی اور کو شریک نہ کرے۔ دعائیں اسی سے مانگے،نذرو نیاز اسی کے لئے کرے اور ہر وقت اس کی رضا کی تلاش میں رہے۔

خالق کائنات حضرت حق جل مجدہ نے جب سے اس دنیا کووجود بخشا اسی وقت سے ایمان کاسلسلہ بھی جاری ہے اللہ کے نیک بندے اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں سے یہی چاہتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان لائیں۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیھم الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اور ان کے ذریعے اپنا پیغام انسانوں تک پہنچایا کہ اے لوگوں تمہارا مالک،خالق اور معبود ایک ایسی ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اس پر ایمان لاکر اپنے معبود حقیقی کے سامنے سراطاعت تسلیم کردو۔

دنیا کے تمام انسان چاہے ہ بت پرست ہوں،آتش پرست ہوں۔کفرو شرک میں مبتلا ہوں یا تثلیث کے قائل ہوں،یا منکرومرتد یا دہریہ ہوں۔ جنگلوں، پہاڑوں دریاؤں،شہروں اور گاؤں میں رہنے والے سب کا معبود ایک ہی ذات ہے جس نے انہیں پیداکیا،عقل وہ ہوش دیا،زندگی گذارنے کے طریقے سکھائے، چیزوں کو برتنے اور استعمال کرنے کا طریقہ سکھایا۔اس لئے ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ اس ذات واحد پر ایمان لائیں اور اس کے علاوہ جتنے معبودانہوں نے اپنی طرف سے بنا رکھاہے ان سب کو پیچھے چھوڑ دیں۔اسی میں ان کی کامیابی ہے اس لئے کہ وہی ایک ذات ہے جو لائق پرستش ہے۔قرآن کہتاہے:

ذَالِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ھُوَ الْبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْعَلیُّ الْکَبِیْرُ(٦٢حج)

ترجمہ: یہ اس لیے کہ حق اللہ ہی کی ہستی ہے اور جنہیں اس کے سوا پکارتے ہیں وہ باطل ہیں اور بے شک اللہ ہی بلند مرتبہ بڑائی والا ہے۔

اس کائنات میں آفاقی و انفسی جتنی نعمتیں ہیں ان سب کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے بلاکسی عوض کے پیداکیا اورانہیں استعمال کرنے کاپورا حق دیا اس کا لازمی تقاضاہے کہ انسان اس پر ایمان لائے،تاکہ ان نعمتوں کا شکر بھی ادا ہو اور آئندہ ان نعمتوں کا تسلسل بھی برقرار رہے۔

اللہ کا کوئی شریک نہیں

اہل عرب کے یہاں یہ تصور تو موجود تھا کہ زمین و آسمان کی پیدائش، آسمان سے بارش برسانا اور زمین سے پودے اگانایہ سب اللہ تبارک وتعالیٰ کے کام ہیں لیکن ساتھ ہی ان کا یہ عقیدہ بھی تھاکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بہت سارے کام ان بتوں کے حوالے کررکھے ہیں جنہیں فیصلے کا پورا اختیار ہے اسی لئے وہ لوگ ان بتوں کی پرستش کیا کرتے تھے۔ لیکن نبی کریمﷺ کی بعثت کے بعد اللہ تعالیٰ نے اعلان کرادیا کہ کائنات کا انتظام سنبھالنے کے لئے خالق کائنات کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ خود پورے نظام عالم کو سنبھالے ہوئے ہیں اس لئے تمام مشرکانہ عقائد سے کنارہ کش ہوکر ایک ا  لہٰ واحد کی پرستش کرو اور اسی سے اپنی مرادیں مانگو۔اسی لئے شرک کو قرآن کریم میں ظلم عظیم سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس سے بچنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔نبی کریم ﷺ کے ارشادات بھی اس معاملے میں بالکل واضح ہیں۔آپ ﷺ  نے شرک کو ہلاک کرنے والی چیز بتایا ہے:

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ، قَالَ: اِجْتَنِبُوْا الْمُوْبِقَاتَ اَلشِّرْکُ بِاللّٰہِ وَالسِّحْرْ۔ (صحیح بخاری،کتاب الطب، باب الشرک والسحر من الموبقات)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تباہ کر دینے والی چیز اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے اس سے بچو اور جادو کرنے کرانے سے بھی بچو۔“

اسی طرح ایک حدیث میں آپ ﷺ نے اللہ کی عبادت اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانے کو اللہ کا حق قرار دیا ہے جو اس کے بندوں پر لازم ہے:

 عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللّٰہ عَنْہ، قَالَ:کُنْتُ رَدِفَ رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ، عَلٰی حِمَارٍ یُقَالَ لَہٗ عُفَیْرُ، قَالَ: فَقَالَ:یَا مُعَاذْ، تَدْرِیْ مَا حَقُّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ، وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ؟ قَالَ: قُلتُ: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ، قَالَ:”فَاِنَّ حَقُّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ، اَنْ یَّعْبُدُوْا اللّٰہَ وَلَایُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْءًا، وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، اَنْ لَّایُعَذِّبَ مَنْ لَّایُشْرِکَ بِہٖ شَیْءًا، قَالَ: قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اَفَلَا اُبَشِّرُ النَّاسَ قَالَ: لَا تُبَشِّرْھُمْ فَیَتَّکِلُوْا.(صحیح بخاری،کتاب الایمان، باب الدلیل علی من مات علی التوحید دخل الجنۃ)

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گدھے پر سوار تھا جس کا نام ”عفیر“ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے معاذ! تو جانتا ہے اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟“ میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اسی کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ جو شخص شرک نہ کرے اللہ اس کو عذاب نہ دے۔“ میں نے کہا: یارسول اللہ! میں لوگوں کو بشارت نہ دے دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں بشارت نہ دو ایسا نہ ہو کہ وہ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں۔“

بشارت دینے سے منع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شرک سے بچنا اور اللہ کو اپنا معبود حقیقی ماننا اگرچہ افضل الاعمال بلکہ اول الاعمال ہے لیکن اس کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کی بہت سی مرضیات ہیں جن پرعمل کرنا ایک مومن کے لئے ہر وقت لازم ہے۔ آپ ﷺ کو یہ خوف تھا کہ کہیں لوگ اس بشارت کو سن کر دوسرے اعمال کوچھوڑدیں اور اسی پر تکیہ کرکے بیٹھ جائیں۔

اللہ کون ہے

جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں انہیں یہ معلوم ہے کہ اللہ کون ہے،لیکن جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے،یااللہ کے علاوہ کسی اور معبود کی پرستش کرتے ہیں ان کے سامنے جب اللہ کا ذکر آتاہے تو ان کے ذہن و خیال میں یہ سوال ابھرتاہے کہ اللہ کون ہے۔آئیے ہم قرآن کریم میں تلاش کرتے ہیں کہ اللہ کون ہے؟اس لئے کہ قرآن کریم اللہ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے اور اس سے بہتر اللہ کا تعارف اور اس کی پہچان کسی اور ذریعہ سے نہیں ہو سکتی۔ اسی کتاب کے ذریعہ عرب کے بدؤوں نے اللہ کو پہچانا، اس کی معرفت حاصل کی اور جن معبودوں کو وہ اپنا کارساز سمجھتے تھے ان کو چھوڑ کر معبود حقیقی کی طرف مائل بسجود ہوئے۔قرآن کریم ہمیں اللہ کی معرفت کراتاہے۔سورہ بقرہ آیت نمبر ۵۵۲ میں جسے ہم آیت الکرسی کے نام سے جانتے ہیں اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں:

اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ اَلحَیُّ القَیُّومُ لَا تَاخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَومٌ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الاَرضِ مَن ذَا الَّذِی یَشفَعُ عِندَہٗٓ اِلَّا بِاِذنِہٖ یَعلَمُ مَا بَینَ اَیدِیھِم وَ مَا خَلفَھُم وَ لَا یُحِیطُونَ بِشَیءٍ مِّن عِلمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآءَ وَسِعَ کُرسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ وَ لَا یَؤُدُہٗ حِفظُھُمَا وَ ھُوَ العَلِیُّ الَعَظِیمُ(٢٥٥)

ترجمہ:اللہ (وہ ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں، زندہ ہے، ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے، نہ اسے کچھ اونگھ پکڑتی ہے اور نہ کوئی نیند، جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے اسی کا ہے، کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے، جو کچھ ان کے سامنے اور جو ان کے پیچھے ہے و ہ جانتا ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرتے مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین کو سمائے ہوئے ہے اور اسے ان دونوں کی حفاظت نہیں تھکاتی اور وہی سب سے بلند، سب سے بڑا ہے۔

یعنی اللہ کی ذات ازل سے موجود ہے اور ابد تک قائم رہنے والی ہے۔ اس کائنات کی تدبیر وتنظیم میں اسے کسی طرح کی تھکان نہیں آتی جس کی وجہ سے اسے آرام کی ضرورت نہیں۔وہ ذات اس کائنات کے ذرے ذرے کامالک ہے،وہ ذات ہمارے پہلے کی چیزوں کو بھی جاننے والی ہے اور ہمارے بعد آنے والی چیزوں کو بھی جاننے والی ہے، اس کا علم ہر شیئ کو محیط ہے اور کسی اور کے بس میں یہ نہیں ہے کہ اس کے علم کااحاطہ کرسکے۔

اللہ اس معبود حقیقی کا نام ہے جس نے اس کائنات کو بغیر کسی نمونے کے بنایا،سجایا او راس کے نظم ونسق کے لئے بہترین تدبیریں کیں۔وہ ذات اپنے آپ میں کامل ہے اسے کسی کے مدد کی ضرورت نہیں وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گااس کا کوئی ہمسر نہیں۔نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی کی اولاد ہے۔

بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ  اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَکُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ وَ ھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْم(۱۰۱)ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْہُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ وَّکِیْلٌ(١٠٢)لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَ ھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَ ھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ(١٠٣ سورہ انعام)

وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اس کی اولاد کیسے ہو گی، جب کہ اس کی کوئی بیوی نہیں اور اس نے ہر چیز پیدا کی اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔یہی اللہ تمھارا رب ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔ سو تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔ اسے نگاہیں نہیں پاتیں اور وہ سب نگاہوں کو پاتا ہے اور وہی نہایت باریک بیں، سب خبر رکھنے والا ہے۔

اللہ کی ذات ہر چیز کو ابتداءً پید اکرنے والی ہے۔ اسی نے زمین وآسمان کو ایک خاص نہج پر پید اکیا اور ان کو انسان کے لئے مسخر کردیا۔یہ عظیم مخلوقات اگرچہ ذوی العقول میں شامل نہیں ہیں لیکن انہیں بھی اللہ کی عظمت کاادراک حاصل ہے اور وہ اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرتی ہیں۔بنی اسرائیل نے اللہ کی وحدانیت میں شرک کو شامل کیا جس کو قرآن کریم اس انداز سے بیان کرتاہے:

وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحمٰنُ وَلَدًا(88 )لَقَد  جِئتُم شَیءًا اِدًّا(٨٩ )تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرنَ  مِنہُ وَ تَنشَقُّ الاَرضُ وَ تَخِرُّ الجِبَالُ ھَدًّا(٩٠)اَن دَعَوا لِلرَّحمٰنِ وَلَدًا(٩١ )وَ مَا یَنبَغِی لِلرَّحمٰنِ اَن یَّتَّخِذَ وَلَدًا(٩٢ )اِن کُلُّ مَن فِی  السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحمٰنِ عَبدًا(٩٣)لَقَد اَحصٰھُم وَعَدَّھُم عَدًّا(٩٤) )سورۃ المریم)

ترجمہ: اور انھوں نے کہا رحمان نے کوئی اولاد بنا لی ہے۔  بلاشبہ یقینا تم ایک بہت بھاری بات کو آئے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان  اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ڈھہہ کر گر پڑیں۔ کہ انھوں نے رحمان کے لیے کسی اولاد کا دعویٰ کیا۔ حالانکہ رحمان کے لائق نہیں کہ وہ کوئی اولاد بنائے۔آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے وہ رحمان کے پاس غلام بن کر آنے والا ہے۔ بلاشبہ یقینا اس نے ان کا احاطہ کر رکھا ہے اور انھیں خوب اچھی طرح گن کر شمار کر رکھا ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک قیامت کے دن اس کے پاس اکیلا آنے والا ہے۔

نصاریٰ نے عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنادیاجب کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بغیر باپ کے اپنے امر سے پیدا فرمایا۔اسی طرح یہود نے عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنادیا جب کہ وہ بھی اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر اتنابڑ االزام ہے کہ  آسمانوں میں شگاف پید اہوجائے اور وہ خوف سے گرپڑیں اور زمین شق ہوجائے۔پہاڑگرپڑیں اس لئے کہ یہ سب مخلوقات اللہ کی عظمت وجلال کا مظاہرہ کررہی ہیں اور اس کے سامنے اپنی گردیں جھکائیں ہوئی ہیں۔ یہ انسان ہے جو اللہ کی عظمت کو پہچاننے سے انکار کررہاہے اور اس کی وحدانیت میں کسی اور کو شریک کررہا ہے۔اللہ تعالیٰ ان تمام شرکاء سے پاک ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ یَعْدِلُوْنَ(۱) وَالَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰٓی اَجَلًا وَ اَجَلٌ مُّسَمًّی عِنْدَہٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ (٢ )وَ ھُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِ یَعْلَمُ سِرَّکُمْ وَ جَھْرَکُمْ وَ یَعْلَمُ مَا تَکْسِبُوْن(۳)  (انعام)

 ترجمہ:سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیروں اور روشنی کو بنایا، پھر (بھی) وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، اپنے رب کے ساتھ برابر ٹھہراتے ہیں۔ وہی ہے جس نے تمھیں حقیر مٹی سے پیدا کیا، پھر ایک مدت مقرر کی اور ایک اور مدت اس کے ہاں مقرر ہے، پھر (بھی) تم شک کرتے ہو۔ اور آسمانوں میں اور زمین میں وہی اللہ ہے، تمھارے چھپے اور تمھارے کھلے کو جانتا ہے اور جانتا ہے جو تم کماتے ہو۔

ایمان کی قرآنی دعوت

قرآن کریم کی وہ آیات جن میں اللہ تعالیٰ نے مطلق انسان سے خطاب کیا ہے، جس میں ساری انسانیت داخل ہے عام طور سے ایمان کی دعوت سے متعلق ہے ان آیا ت میں اللہ تعالیٰ نے مختلف دلائل کے ساتھ ایک ذات کی موجود گی کو ثابت کیا ہے جو خالق کائنات بھی ہے اور اس کی منتظم کار بھی۔ یعنی اس کائنات کے انتظام وانصرام کو بخوبی چلانے کے لئے اس ذات کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔اس لئے وہی ایک ذات ہے جو عبادت کے لائق ہے،جسے ہم ”اللہ“ کے نام سے جانتے ہیں۔باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(٢١) الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَاءً وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقاً لَّکُمْ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۲  بقرہ)

ترجمہ۔اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمھیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم بچ جاؤ۔ جس نے تمھارے لیے زمین کو ایک بچھونا اور آسمان کو ایک چھت بنایا اور آسمان سے کچھ پانی اتارا، پھر اس کے ساتھ کئی طرح کے پھل تمھاری روزی کے لیے پیدا کیے، پس اللہ کے لیے کسی قسم کے شریک نہ بناؤ، جب کہ تم جانتے ہو۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت اور معبودیت کو بیان کیا ہے  کہ وہی ذات ہے جس نے تمہیں اور تم سے پہلے آنے والے لوگوں کو عدم سے وجود بخشااور ان کے لئے زمین وآسمان کی ساری نعمتیں کھول دیا۔جس نے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور بادلوں کے ذریعہ پانی برساکر زمین کو اس قابل بنایا کہ وہ تمہارے لئے غلہ اور پھلوں کو بطور رزق مہیا کرے۔بے شک وہ ذات اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔لہذ ااس ذات گرامی پر ایمان لاؤ۔اس سے پہلے یہ بات آچکی ہے کہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا تباہی وبربادی کادہانہ ہے۔اس کی مزید وضاحت سورہ فاطر کی ابتدائی آیا ت ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کی تخلیق،ملائکہ کی پیدائش اور ان کی حقیقت،رحمتوں کو نازل کرنے اور روکنے کے اختیار کو بیان کرکے پوری انسانیت کو ایمان کی دعوت دی ہے۔نیز یہ بھی بتادیا ہے شیطان تمہارا ازلی دشمن ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اس کے دھوکے میں آکر اپنے معبود حقیقی کو بھول جاؤ۔ارشاد ہے:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰٓءِکَۃِ رُسُلًا اُولِیْٓ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۱َ) یَفْتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَھَا وَ مَا یُمْسِکْ فَلَا مُرْسِلَ لَہٗ مِنْ بَعْدِہٖ وَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(۲)یٓاَیُّھَا النَّاسُ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ھَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہِ یَرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ(۳) اِنْ یُّکَذِّبُوْکَ فَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ وَ اِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ(۴)یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَاللّٰہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَ لَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ(۵)اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ  فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ(۶)اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ کَبِیْرٌ(۷) اَفَمَنْ زُیِّنَ لَہٗ سُوْٓءُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًا فَاِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ فَلَا تَذْھَبْ نَفْسُکَ عَلَیْھِمْ حَسَرٰتٍ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(8) اللّٰہُ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ  الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ  سَحَابًا فَسُقْنٰہُ اِلٰی بَلَدٍمَّیِّتٍ فَاَحْیَیْنَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا کَذٰلِکَ النُّشُوْرُ(۹) فاطر

ترجمہ۔سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، فرشتوں کو قاصد بنانے والا ہے جو دو دو اور تین تین اور چار چار پروں والے ہیں، وہ مخلوق کی بناوٹ میں جو چاہتا ہے اضافہ کر دیتا ہے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔جو کچھ اللہ لوگوں کے لیے کسی بھی رحمت میں سے کھول دے تو اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جو بند کر دے تو اس کے بعد اسے کوئی کھولنے والا نہیں اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔اے لوگو! اللہ کی نعمت یاد کرو جو تم پر ہے، کیا اللہ کے سوا کوئی پیدا کرنے والا ہے، جو تمھیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، تو تم کہاں بہکائے جاتے ہو؟اور اگر وہ تجھے جھٹلائیں تو یقیناً تجھ سے پہلے کئی رسول جھٹلائے گئے اور سب کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔اے لوگو! یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے تو کہیں دنیا کی زندگی تمھیں دھوکے میں نہ ڈال دے اور کہیں وہ دھوکے باز تمھیں اللہ کے بارے میں دھوکا نہ دے جائے۔ بے شک شیطان تمھارا دشمن ہے تو اسے دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے گروہ والوں کو صرف اس لیے بلاتا ہے کہ وہ بھڑکتی آگ والوں  میں سے ہو جائیں۔وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان کے لیے بہت سخت عذاب ہے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اچھے عمل کیے ان کے لیے بڑی بخشش اور بہت بڑا اجر ہے۔ تو کیا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل مزین کر دیاگیا تو اس نے اسے اچھا سمجھا (اس شخص کی طرح ہے جو ایسا نہیں؟) پس بے شک اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اورہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے، سو تیری جان ان پر حسرتوں کی وجہ سے نہ جاتی رہے۔ بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔اور اللہ ہی ہے جس نے ہواؤ ں کو بھیجا، پھر وہ بادل کو ابھارتی ہیں، پھر ہم اسے ایک مردہ شہر کی طرف ہانک کر لے جاتے ہیں، پھر ہم اس کے ساتھ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتے ہیں، اسی طرح اٹھایا جانا ہے۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ ہم نے زمین و آسمان اور ان کے اندر جتنی چیزیں ہیں ان سب کو پہلی دفعہ بغیر کسی نمونہ کہ بنایااور فرشتوں کو زمین وآسمان کے درمیان رابطہ کا ذریعہ بنایا جو اللہ کا حکم رسولوں تک پہنچاتے ہیں۔ پرندوں کی طرح ان کے پر ہیں تاکہ وہ اڑ کر جہاں چاہیں جاسکیں۔ان میں بعض دوپروں والے،بعض تین اور بعض چار پروں والے ہیں۔اور نبی کریم ﷺ نے ایک بار حضرت جبرئیل کو اس حال میں دیکھا کہ ان کے چھ سو پر ہیں اور ہر دوپروں کے بیچ مشرق و مغرب کے بیچ کا فاصلہ ہے۔

عن ابن مسعود: انہ رای جبریل لہ ست ماءۃ جناح۔(صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق۔باب اذا قال احدکم آمین………………)

حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا، تو ان کے چھ سو بازو تھے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ تمہارا رب اپنی تخلیق میں کمیت اور کیفیت ہر اعتبار سے جو چاہے زیادتی کرتاہے اور کائنات کو جس طرح چاہے رچاتا بساتاہے،وہ جوچاہتاہے وہ ہوکر رہتاہے کوئی اس کے ارادے اور مشیت کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔

لَا اِلٰہَ اِلّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ اَللّٰہُمّ لَا مَانِعَ لِمَااَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ    (صحیح بخاری۔ ابواب صفۃالصلوۃ۔ باب الذکر بعد الصلوۃ)

ترجمہ:اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے، اور اسی کے لیے حمد ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اے اللہ! جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں، اور جو تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں، اور مالدار کی مالداری تیرے عذاب سے بچا نہیں سکتی۔

پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ جب خالق و راز ق اللہ کی ذات ہے تو پھر تم کیسے بہک جاتے ہواور اللہ کے علاوہ دوسروں کے سامنے جھک جاتے ہو۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو خطاب فرمایا ہے کہ اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلاتے ہیں تو کوئی تعجب یا حیرانی کی بات نہیں اس سے پہلے بھی بہت سے انبیا گزرے ہیں جنہیں جھٹلا یا گیا اس لئے آپ غمگین نہ ہوں اور اپنا کام کرتے رہیں۔یقینا جو لو گ گمراہ ہو ئے ان کا حساب اللہ کے یہاں ہوگا۔جو لوگ شیطان کی جال میں پھنسے اور دنیا کی رنگینوں میں الجھ کر رہ گئے  ان کے لئے آخرت میں حسرت و یاس کے سوا کچھ نہ رہے گا۔

قیامت کا منظر

 ایک وقت ایسا آنے والا ہے کہ دنیا کی ساری رنگینیا ں اور اس میں موجود دلکش نظارے ہو اہوجائیں گے اور یہ پوری کی پوری زمین الٹ پلٹ ہو جائے گی۔یہ منظر ایسا بھیانک ہو گا کہ لوگ ڈر کے مارے مدہوشی کے عالم میں پاگلوں والی حرکتیں کرنے لگیں گے۔جب اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے تو یہ زمین جھٹکے کھانے لگے گی اور پوری کائنات میں ایک بھونچال آجائے گا یہ وہ وقت ہوگا کہ حاملہ عورتیں اپنی حمل گرادیں گی اور دودھ پلانے والی عورتیں اپنے بچے کو بھول جائیں گی۔اللہ تعالیٰ نے اس منظر کو قرآن کریم میں اس طرح بیان کیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْءٌ  عَظِیْمٌ(۱)یَوْمَ تَرَوْنَھَا تَذْھَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَھَا وَ تَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَ مَا ھُمْ بِسُکٰرٰی وَ لٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ(۲)حج

ترجمہ:اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔جس دن تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی اس سے غافل ہوجائے گی جسے اس نے دودھ پلایا اور ہر حمل والی اپنا حمل گرا دے گی اور تو لوگوں کو نشے میں دیکھے گا، حالانکہ وہ ہرگز نشے میں نہیں ہوں گے اور لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کو ایک عظیم زلزلہ سے تعبیر کیا ہے۔زلزلہ  ایک ایسا لفظ ہے  جس کےمعنی حرکت دینے اور ہلانے  کے ہیں لیکن اس حرکت میں شدت کے معنی پوشیدہ ہیں ۔ جس حرکت کو زلزلہ سے تعبیر کیا جاتاہے وہ کوئی عام حرکت یا ہلا نا نہیں ہے بلکہ جھنجھوڑ دینے والی حرکت ہے ۔ اصطلاحی اعتبار سے بھی زلزلہ ایسی چیز ہے جو زمین کے ہر چیز کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتی ہے اور  چند لمحوں کا زلزلہ پوری دنیا کو جھنجھوڑ دینے کے لئے کافی ہوتا ہے ۔یہ زمین کی ایسی حرکت ہے جس کی خبر انسان کو پہلے سے نہیں ہوتی اور اتنی ترقی کے باوجود بھی انسان  زلزلے کے وقوع سے پہلے بالکل لاعلم رہتاہے۔قیامت کا زلزلہ تو ایسا خوفناک اور شدید ہوگا کہ دنیا نے ایسا زلزلہ کبھی دیکھا بھی نہیں ہوگا۔اس زلزلے میں زمین کی ایک چیز الٹ پلٹ ہوجائے گی اور ایسا خوف وہراس طاری ہوگا کہ انسان ایک دوسرے کی پہچان تک بھول جائے گا اور  دنیا کا سب سے مضبوط ترین رشتہ جو ماں اور بچے کا ہے اس میں بھی ایسی بے گانگی ہو جائے گی کہ ماں اپنے دودھ پلائے ہوئے بچے کو بھی بھول جائے گی ۔ماں کے پیٹ میں موجود حمل جس سے ماں کبھی بھی  لاپرواہی نہیں کرتی ،خود تکلیفیں اٹھاتی ہے لیکن کوئی ایسی حرکت نہیں کرتی جس سے اس کے پیٹ میں پلنے والے بچے کوکوئی نقصان پہنچے اسے بھی بھول جائے گی ۔ اور عام انسانوں کاحال یہ ہوگا کہ وہ  نشہ کی حالت میں ہوں گے حالانکہ یہ کوئی نشہ نہیں ہوگا بلکہ اللہ کے عذاب کا خوف دلوں پر ایسا طاری ہوگا کہ انسان اپنا ہوش وحواس کھوبیٹھے گا۔

اس زلزلے کی ہولناکی کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقامات پربھی بیان کیا ہے ۔سورہ زلزال میں ارشاد ہے:

إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا ۔(زلزال ١ ۔٢)  جب زمین سخت ہلا دی جائے گی، اس کا سخت ہلایا جانا۔ اور زمین اپنے بوجھ نکال باہر کرے گی ۔

زمین  کے اپنے بوجھ باہر نکالنے سے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

 عن ابی ھریرۃ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” تَقِيءُ الْأَرْضُ أَفْلَاذَ كَبِدِهَا أَمْثَالَ الْأُسْطُوَانِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، فَيَجِيءُ الْقَاتِلُ فَيَقُولُ: فِي هَذَا قَتَلْتُ، وَيَجِيءُ الْقَاطِعُ فَيَقُولُ: فِي هَذَا قَطَعْتُ رَحِمِي، وَيَجِيءُ السَّارِقُ فَيَقُولُ: فِي هَذَا قُطِعَتْ يَدِي، ثُمَّ يَدَعُونَهُ فَلَا يَأْخُذُونَ مِنْهُ شَيْئًا “.(صحیح مسلم حدیث نمبر٢٣٤١ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمین اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کو قے کر دے گی جیسے بڑے کھمبے ہوتے ہیں سونے سے اور چاندی سے اور خونی آئے گا اور کہے گا اسی کے لئے میں نے خون کیا تھا اور ناتوں کا کاٹنے والا آئے گا اور کہے گا کہ اسی کے لئے میں نے اپنے ناتے والوں کا حق کاٹ لیا اور چور آئے گا اور کہے گا کہ اسی کے واسطے میرا ہاتھ کاٹا گیا پھر سب کے سب اسے چھوڑ دیں گے اور کوئی اس میں سے کچھ نہ لے گا۔“

اور  سورہ حاقہ میں ارشاد ہے:

وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً فَيَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ(الحاقة:١٥ ، ١٤)  اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھایا جائے گا، پس دونوں ٹکرا دیے جائیں گے، ایک بار ٹکرا دینا۔ تو اس دن ہونے والی ہو جائے گی۔ 

اور سورہ واقعہ میں ارشاد ہے :

إِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَكَانَتْ هَبَاءً مُّنبَثًّا(الواقعة:٦  -٤)  جب زمین ہلائی جائے گی، سخت ہلایا جانا۔ اور پہاڑ ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے،خوب ریزہ ریزہ کیا جانا۔ پس وہ پھیلا ہواغبار بن جائیں گے۔

اس کے علاوہ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر قیامت کی ہولناکی اور اس کی شدت کوبیان کیا گیا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے قیامت کے وقوع کے بعد لوگوں کی میدان حشر میں حاضری کانقشہ اس طرح کھینچا ہے:

عن ابی ذر قَالَ: إِنَّ الصَّادِقَ الْمَصْدُوقَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , حَدَّثَنِي:” أَنَّ النَّاسَ يُحْشَرُونَ ثَلَاثَةَ أَفْوَاجٍ: فَوْجٌ رَاكِبِينَ طَاعِمِينَ كَاسِينَ، وَفَوْجٌ تَسْحَبُهُمُ الْمَلَائِكَةُ عَلَى وُجُوهِهِمْ وَتَحْشُرُهُمُ النَّارُ، وَفَوْجٌ يَمْشُونَ وَيَسْعَوْنَ يُلْقِي اللَّهُ الْآفَةَ عَلَى الظَّهْرِ فَلَا يَبْقَى حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَتَكُونُ لَهُ الْحَدِيقَةُ يُعْطِيهَا بِذَاتِ الْقَتَبِ لَا يَقْدِرُ عَلَيْهَا”.(سنن نسائی حدیث نمبر٢٠٨٨ )

ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بیان کیا کہ لوگ قیامت کے دن تین گروہ میں جمع کیے جائیں گے: ایک گروہ سوار ہو گا، کھاتےاور پہنتے اٹھے گا، اور ایک گروہ کو فرشتے اوندھے منہ گھسیٹیں گے، اور انہیں آگ گھیر لے گی، اور ایک گروہ پیدل چلے گااور دوڑے گا۔ اللہ تعالیٰ سواریوں پر آفت نازل کر دے گا، چنانچہ کوئی سواری باقی نہ رہے گی، یہاں تک کہ ایک شخص کے پاس باغ ہو گا جسے وہ ایک پالان والے اونٹ کے بدلے میں دیدے گا جس پر وہ قادر نہ ہو سکے گا۔

یہ حاضری  انسان کے اپنے اعمال کے حساب سے ہوگی جن کے اعمال نیک ہوں گے ان پر اللہ کی رحمت ہوگی اور وہ  پہلے گروہ میں شامل ہوں گے جنہیں سواریاں بھی میسر ہوں گی اور ان کے لئے کھانے پینے کے سامان اور کپڑے بھی مہیا کئے جائیں گے اور جن کے اعمال میں نیکیاں نہیں ہوں گی وہ دوسرے اور تیسرے گروہ میں شامل ہوں گے جو حساب سے پہلے ہی اللہ کے غضب کے شکار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں پہلے گروہ میں شامل فرمائے ۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *