اللہ کی نعمتوں کا شمار اور ان کاشکراداکرنا
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
اللہ تعالیٰ نے انسان کو کرامت کا تاج عطاکرکے پید افرمایا اوراس کی ضرورتوں کے پورا کرنے کے لئے طرح طرح کے اشیاء پید افرمائے ہیں جن کا شمار کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ قرآن کریم میں اپنی نعمتوں کاشمار کیا ہے اور یہ بتلایا ہے کہ یہ اشیاء جن کو تم رات دن استعمال کرتے اور برتتے ہو یہ سب اللہ تبارک وتعالیٰ کی تخلیق کردہ ہیں اور اس کا لازمی اثر یہ ہونا چاہئے کہ اس کی نعمتوں کویاد کرکے اس کا شکربجالا ؤ اور اس کی بندگی سے سرِمو انحراف نہ کرو بلکہ اس خالق کائنات کے سامنے اپنا سرِ نیاز ہمیشہ خم رکھو اور اسی کی عبادت کرو، اسی کے لئے نذر و نیاز کرو اور اسی کوخالق ومالک سمجھ کر اس کی اطاعت و فرماں برداری کے لئے ہمیشہ تیار رہو۔ایک جگہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(٢١ ) الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَاءً وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقاً لَّکُمْ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (٢٢ ۔ (البقرۃ)
ترجمہ: اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے کو لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے۔جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کرکے تمہیں روزی دی، خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ اپنی بعض نعمتوں کو ذکر فرماکر انسان کو ان کی شکر گزاری یعنی اپنی عبادت پر ابھارا ہے۔ ایک جگہ ارشاد باری ہے:
قُلْ ھُوَ الَّذِیْ اَنشَاَکُمْ وَجَعَلَ لَکُمْ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْءِدَۃَ قَلِیْلًا مَا تَشْکُرُوْنَ (الملک۔(٢٣ )
ترجمہ: کہہ دیجئے کہ وہی (اللہ) ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو۔
آنکھیں کان اور دل یہ انسان کے اہم اعضائے جسمانی ہیں اگر ان میں سے کوئی ایک کمزور پڑ جائے تو انسان کی زندگی کس مپرسی کا شکار ہوجاتی ہے۔ ان نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ہمہ وقت اللہ کی شکر گزاری میں ہی لگا رہے۔اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کوگناکر انسان کویہ جتلایا ہے کہ اتنی بڑی نعمتوں کے بعد بھی تم بہت کم شکر گزاری کرتے ہو۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بولنے،سننے،سمجھنے اورچلنے پھرنے کے ساتھ ساتھ علم کی عظیم دولت سے نوازا اور لکھنے کی قوت بھی عطا کی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس طرح کیاہے:
اَلرَّحْمٰنُ (١ )عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ (٢ )خَلَقَ الْاِنسَانَ (٣ )عَلَّمَہُ الْبَیَانَ (٤ )الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ (٥ )وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِ (٦ )وَالسَّمَآءَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِیزَانَ(٧ ) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیزَانِ (٨ )وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تُخْسِرُوا الْمِیزَانَ(٩ )وَالْاَرْضَ وَضَعَہَا لِلْاَنَامِ (١٠ )فِیْہَا فَاکِہَۃٌ وَّالنَّخْلُ ذَاتُ الْاَکْمَامِ (١١ ) وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّیْحَانُ (١٢ )فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (١٣ ۔الرحمن)
ترجمہ: (اللہ جو) نہایت مہربان ہے۔ اسی نے قرآن کی تعلیم فرمائی۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا۔ اسی نے اس کو بولنا سکھایا۔ سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں۔ اور ستارے اور درخت سجدہ کر رہے ہیں۔ اور اسی نے آسمان کو بلند کیا اور ترازو قائم کی۔ کہ ترازو (سے تولنے) میں حد سے تجاوز نہ کرو۔ اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تولو اور تول کم مت کرو۔ اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی۔ اس میں میوے اور کھجور کے درخت ہیں جن کے خوشوں پر غلاف ہوتے ہیں۔ اور اناج جس کے ساتھ بھُس ہوتا ہے اور خوشبودار پھول۔ تو (اے گروہِ جن و انس!) تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
انسان کی تخلیق، اس کی تعلیم،بولنے کی طاقت،سورج،چاند، ستاروں کا اپنے اپنے محور میں محوِگردش رہنا،ستاروں اور درختوں کامطیع وفرماں بردار ہونا،آسمان و زمین اور انصاف کی علامت ترازو کوپیداکرناپیڑ پودوں میں پھلوں او ر خوشوں کوپیداکرنااور خوشبودار پھولوں کی تخلیق یہ سب علامات گناکر اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ بتلایاہے کہ تم کن کن نعمتوں کاشکر اداکرو گے۔اس لئے تمہارے لئے شکر گزاری کاواحد راستہ یہ ہے کہ اپناسرِاطاعت اللہ کے سامنے جھکادو اور اپنی عاجزی کااعتراف کرلو۔ اس کے علاوہ سورۂ رحمن میں اللہ تعالیٰ نے دنیاوی واخروی بہت سی نعمتوں کاذکرکرکے انسان کو یہ باور کرایا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کاشکر اداکرنا انسان کے بس سے باہر کی چیز ہے۔
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ وَ مَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ(١٢ ) وَ اِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَ ھُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(١٣ ) وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَ لِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ (١٤ ۔لقمان)
ترجمہ: اور ہم نے یقیناً لقمانؑ کو حکمت دی تھی کہ تو اللہ تعالیٰ کا شکر کر ہر شکر کرنے والا اپنے ہی نفع کے لئے شکر کرتا ہے جو بھی ناشکری کرے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور تعریفوں والا ہے۔اور جب کہ لقمانؑ نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں،یہ کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔
ان آیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے لقمان علیہ الصلوۃ والسلام پر اپنی نوازش کاذکر کرکے شکر کرنے کا حکم دیاہے کہ شکر کرنا درحقیقت شکر کرنے والے کے لئے نفع بخش ہے اور یہ جتلادیا ہے اللہ تعالی ناشکری کرنے والوں سے بے نیاز ہے۔ اسی طرح ماں کی پرورش اور بچے سے محبت کے جذبے کاحوالہ دے کر انسان کو شکرگزاری پرابھاراہے۔اللہ تعالیٰ کو واحد،یکتا اور قادرمطلق ماننا اور شرک سے مکمل طور پر بری ہوجانا بہت بڑ ا شکر ہے۔ اسی لئے حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے شرک سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے اور یہ بھی فرمایا کہ شرک ظلم عظیم ہے۔
اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تو اس قدر ہیں کہ انسان ان کا احاطہ بھی نہیں کرسکتا۔ارشاد باری ہے:
وَ اٰتٰکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ(٣٤ ۔ابراھیم)
ترجمہ: (اور اللہ نے) تمہیں تمہاری مانگی ہوئی ہرچیزکودیا ہے۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتے۔ یقیناً انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔
در اصل اللہ کی نعمتوں کویاد کرنااور اس کے سامنے اپنی عاجزی کوتسلیم کرلینا ہی ان نعمتوں کا شکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرنا اور ان کاشکر اداکرنا تمہاری نجات کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو بھی اپنی نعمتوں کی یاد دہانی بار بار کرائی ہے قرآن کریم میں جگہ جگہ بنی اسرائیل کواپنی نعمتوں اوراپنی نوازشوں کی یاد دہانی کرائی ہے۔نبی کریم ﷺ پر اللہ تعالیٰ کے جوخاص انعامات ہیں ان کو بھی یاددلایاہے اوران سب کے بدلے شکراداکرنے کا حکم دیاہے ارشاد ہے:
اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَآوٰی (٦ )وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی (٧ )وَوَجَدَکَ عَاءِلًا فَاَغْنٰی (٨ )فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلاَ تَقْہَرْ (٩ )وَاَمَّا السَّاءِلَ فَلاَ تَنْہَرْ (١٠ ) وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (١١ ۔ضحیٰ)
ترجمہ: کیا اس نے تجھے یتیم پا کر جگہ نہیں دی۔ اور تجھے راہ بھولا پا کر ہدایت نہیں دی۔ اور تجھے نادار پاکر تونگر نہیں بنا دیا؟۔ پس یتیم پر تو بھی سختی نہ کیا کر۔ اور نہ سوال کرنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ۔ اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتا رہ۔
شکر کی چند صورتیں
امام بیہقی نے اللہ کی نعمتوں کا شکر اداکرنے کی چند صورتیں بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک مومن کویہ اعتقاد رکھناچاہئے کہ ہمارے اوپرجتنی نعمتیں ہیں وہ اللہ تعالیٰ کابہت بڑا انعام ہیں اوریہ صرف اللہ کافضل اوراحسان ہے اورپوری کوشش کے بعد بھی ہم اس کی نعمتوں کے شکر کاحق ادانہیں کرسکتے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کازبان ودل سے اظہا رکرے اور اس کی حمدو ثناکرتارہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو کرنے کاحکم دیا ہے بندہ ان کوکرے اورجن چیزوں سے روک دیاہے ان سے بالکل رک جائے اور عملی طورپراللہ کی اطاعت میں سخت کوشش کرتارہے۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ بندہ اس بات سے ڈرتارہے کہ کہیں ایسانہ ہوکہ اللہ تعالیٰ نے جونعمتیں دے رکھی ہیں کسی وقت ان کوچھین لے۔ہمیشہ اللہ سے پناہ مانگتا رہے اوراپنی عاجزی کااظہا ر کرتا رہے۔
پانچویں صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کوجومال ودولت عطاکیاہے اس کواللہ کی راہ میں خرچ کرے اور فخر و غرور نہ کرے اورنہ ہی ریاونمود کواپنے پاس پھٹکنے دے،اللہ کی خلق کے ساتھ غمخواری اورہمدردی کابرتاؤکرے۔
اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کااظہار چاہتے ہیں
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کوجونعمتیں عطاکررکھی ہیں وہ ان کااظہار چاہتے ہیں اوریہ چاہتے ہیں کہ ان نعمتوں کے آثار ظاہر ہوں۔
عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ اللَّهَ يُحِبَّ أَنْ يَرَى أَثَرُ نِعْمَتِهِ عَلَى عَبْدِهِ “(ترمذی کتاب الادب عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔باب ماجاء ان اللہ تعالیٰ یحب ان یری اثر نعمتہ علی عبدہ۔حدیث نمبر ٢٨١٩ )
حضرت عمرو ابن شعیب اپنے باپ دادا( رضی اللہ عنہم) کے حوالے سے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھنا پسند کرتا ہے۔“
یعنی جس کی جیسی حیثیت ہوایسا ہی کھائے پئے پہنے اوڑھے اور خواہ مخواہ اپنی حالت ایسی بنا کر نہ رکھے کہ لوگ اس کوامداد کامستحق سمجھنے لگیں۔
کھانے میں عیب لگانا ناشکری ہے
اللہ کی نعمتوں میں عیب تلاش کرنا اور ان میں خامیاں نکالنا اہل ایمان کاشیوہ نہیں ہے۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قَالَ: ” مَا عَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا قَطُّ، كَانَ إِذَا اشْتَهَى شَيْئًا أَكَلَهُ وَإِنْ كَرِهَهُ تَرَكَهُ “(صحیح مسلم۔کتاب الاشربہ،باب لایعیب الطعام۔ حدیث نمبر ٥٣٨٠ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کھانے پر کبھی عیب نہیں لگایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جی چاہتا تو کھا لیتے نہیں تو چھوڑ دیتے۔
ناشکری جہنم میں جانے کا سبب
نبی کریمﷺ نے تو انسانوں کی نا شکری اورکفران نعمت کوجہنم میں جانے کے اسباب میں سے شمار کیاہے۔
عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ،عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: ” يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ، وَأَكْثِرْنَ الِاسْتِغْفَارَ، فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ جَزْلَةٌ: وَمَا لَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ؟ قَالَ: تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، وَمَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَغْلَبَ لِذِي لُبٍّ مِنْكُنَّ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَالدِّينِ؟ قَالَ: ” أَمَّا نُقْصَانُ الْعَقْلِ، فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ تَعْدِلُ شَهَادَةَ رَجُلٍ، فَهَذَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ، وَتَمْكُثُ اللَّيَالِي، مَا تُصَلِّي، وَتُفْطِرُ فِي رَمَضَانَ، فَهَذَا نُقْصَانُ الدِّينِ “.(صحیح مسلم۔کتاب الایمان،باب بیان نقصان الایمان بنقص الطاعات……………حدیث نمبر۔٢٤١ )
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عورتوں کی جماعت! تم صدقہ دو اور استغفار کرو کیونکہ میں نے دیکھا جہنم میں اکثر عورتیں ہیں۔“ ایک عقلمند عورت بولی: یا رسول اللہ! کیا سبب ہے؟ عورتیں کیوں زیادہ ہیں جہنم میں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لعنت بہت کرتی ہیں اور خاوند کی ناشکری کرتی ہیں، میں نے عقل اور دین میں کم اور عقل مند کو بے عقل کرنے والی تم سے زیادہ کسی کو نہ دیکھا۔“ وہ عورت بولی: ہماری عقل اور دین میں کیا کمی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عقل کی کمی تو اس سے معلوم ہوتی ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے اور دین میں کمی یہ ہے کہ عورت کئی دن تک (ہر مہینے میں) نماز نہیں پڑھتی (حیض کی وجہ سے) اور رمضان کے روزے نہیں رکھتی۔ (حیض کے دنوں میں)۔“
جب ایک انسان کی ناشکری کے سبب سے انسان جہنم میں داخل ہوسکتاہے تو اللہ ناشکری کاکیاحال ہوگا۔اللھم احفظنا۔
اللہ کی دو بڑی نعمتیں
حق تعالیٰ نے انسان کوبہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے ان میں صحت اور فارغ البالی دو بڑی نعمتیں ہیں نبی کریم ﷺ نے ان دونوں نعمتوں کوبطور خاص غنیمت جان کر ان کو اللہ کی اطاعت میں صرف کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔اس لئے کہ بہت سارے لوگ ان نعمتوں کی قدر نہیں کرتے اور ان کوویسے ہی گزار دیتے ہیں اورجب یہ چیزیں چھن جاتی ہیں تو کف افسوس ملتے ہیں۔
عن بن عباس رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ “.(ترمذی۔کتاب الزہد عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،باب ماجاء فی ان الصحۃ والفراغ نعمتان مغبون فیھما کثیر من الناس۔حدیث نمبر٢٣٠٤ )
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں۔صحت اور فراغت۔“
انسان کی صحت ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرنی چاہئے اپنی طاقت وتوانائی کو اللہ کی اطاعت، اس کے دین کی اشاعت اور اپنے رب کی عبادت میں صرف کرنا چاہئے۔اسی طرح فراغت بھی ایک بڑی نعمت ہے اس کوبھی عبادت،خدمت خلق اور اشاعت دین میں صرف کرکے ان نعمتوں کو اللہ کے خزانے میں محفوظ کردیناچاہئے۔اس لئے کہ نہ معلوم یہ نعمتیں کب چھن جائیں اور ہمارے پاس سوائے افسوس کے کوئی چارہ نہ رہے۔
اولاد او رمال ودولت بھی اللہ کی طرف سے عظیم نعمتیں ہیں اس لئے ان نعمتوں کی قدر کرنا چاہئے۔مال ودولت اور اولاد کو فخر ومباہات نہیں سمجھنا چاہئے۔ اس لئے کہ یہ چیزیں اللہ کی طرف سے عطا وبخشش ہیں اور وہ ذات ہر وقت اس پرقادر ہے کہ ان نعمتوں کو چھین لے۔اس عطا وبخشش کاتقاضا یہی ہے کہ اولادکو ہمیشہ نیک راہ کی تلقین کرتے رہنا چاہئے اور مال و دولت کو خلق اللہ کی خدمت میں خرچ کرتے رہنا چاہئے۔
علم وہنر بھی اللہ تعالیٰ کی خاص عطا وبخشش ہیں۔اس لئے اپنے علم وہنر کو بھی انسانیت کی بھلائی اورخیر خواہی میں صرف کرناچاہئے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جس سے اللہ کی مخلوق کو نقصان پہنچے۔
قوت واقتدار بھی اللہ کی خاص نعمت ہے۔اسے بھی خدمت خلق اور کمزور توانالوگوں کی حمایت ونصرت میں استعمال کرنا چاہئے اور اس قوت وطاقت کو خلق اللہ کے خلاف استعمال کرکے اپنے عاقبت کو خراب نہیں کرنا چاہئے۔
اس کے علاوہ بے شمار نعمتیں ہیں جو انسان پر بادوباراں کی طرح برس رہی ہیں جو انسان کے حد احصاء سے باہر ہیں اس لئے ہر انسان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری میں لگے رہنا چاہئے۔