اللہ سے محبت
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنا ایمان کاایک اہم شعبہ ہے۔ایک مومن کے لئے اللہ کی محبت ہی اس کو نیک اعمال پر ابھارتی ہے اوراللہ کی ناراضگی سے بچانے کاسبب بنتی ہے اس لئے کہ محبوب کے پسندیدہ اعمال کواختیار کرنا اوراس کے ناپسندیدہ اعمال سے پرہیز کرنا ہی محبت کاتقاضا ہے اوراگراس میں کمی بیشی ہوئی تواس کا مطلب ہے کہ محبت حقیقی حاصل نہیں۔
محبت انسان کے دل میں ابھرنے والا ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو اپنا سب کچھ محبوب کے قدموں میں ڈال دینے پرمجبور کردیتاہے اور جس کو کسی سے واقعی محبت ہوجاتی ہے اس کے اشارے پر وہ جان دینے کو تیار رہتاہے۔محبت کے اسباب ووجوہ کسی چیزمیں ایساکمال پیداہوجانا ہے جو محبوب کے علاوہ اور کسی میں نظر نہ آئے۔ مخلوقات میں بھی بہت سارے کمالات اور اوصاف پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے ان سے محبت کی جاسکتی ہے لیکن یہ کمالات اول تو اس کے اپنے ذاتی نہیں ہوتے بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے عطاکردہ ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ کامل بھی نہیں ہوتے اس لئے مخلوقات سے محبت کامل ہو ہی نہیں سکتی۔ اس لئے کہ جن کمالا ت کی وجہ سے ان سے محبت کی جاتی ہے کبھی نہ کبھی ان میں نقص نظر آئے گا جو محبت میں کمی اورنفرت کاباعث ہوسکتی ہے۔ لیکن اللہ جل شانہ اپنے صفات وکمالات میں کامل واکمل بھی ہے اور اس کی صفات ذاتی بھی ہیں جن میں نہ کمی کاتصور کیا جاسکتاہے اورنہ ہی کبھی ختم ہونا ممکن ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا مطلوب بھی ہے اور یہ محبت دائمی بھی ہوگی جس کو کبھی زوال نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ محبت کے جتنے بھی اسباب ہیں ان سب کاخالق اللہ جل شانہ ہی ہیں توجب خلق اتنی حسین ہے تو خلّاق عالم کتنا حسین ہوگا۔ یہ انسان کے تصورو ادراک سے بالا تر ہے اور جب خلّاق عالم سے محبت ہوجائے توتمام کی تمام خلق خود ہی اس کی ہوجائے گی۔
ہر کہ عاشق شد جمال ذات را
اوست سید جملہ موجودات را
جوشخص اللہ کے جمال کاعاشق ہوجائے وہ تمام موجودات کاسردار ہے
اور حقیقت یہی ہے کہ دل لگانے والی ذات تو صرف اللہ ہی کی ذات ہے اس لئے کہ اس کے علاوہ جتنی چیزیں ہیں وہ سب فانی ہیں۔ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ عرب میں سب سے اچھا کلام لبید شاعر کاہے۔
اَلَاکُلُّ شَیْءٍ مَاخَلَااللّٰہِ بَاطِلٌ
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَامَحَالَۃَ زَائِلٌ
ہرچیز جواللہ کے سواہے،باطل ہے اورہرنعمت یقیناً زائل ہوجانے والی ہے
(صحیح بخاری ۔کتاب مناقب الانصار۔باب القسامۃ فی الجاھلیۃ۔حدیث نمبر٣٨٤١ )
اس کے علاوہ اللہ تبارک وتعالی کی نعمتیں انسان پرہروقت ہرلمحہ باد وباراں کی طرح برس رہی ہیں اورانسان اپنی ذات میں ہر ہرقدم پراللہ تعالیٰ کی رہنمائی کامحتاج ہے۔ اس کے ارادہ ومشیت کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھاسکتا اس کی مرضی کے بغیر وہ ہِل بھی نہیں سکتااس لئے بھی وہ ذات ہمیشہ محبت کیے جانے کے لائق ہے تاکہ اس کے انعام واکرام کاسلسلہ ہمیشہ جاری رہے نیز بندہ اس بات کابھی محتاج ہے کہ یوم الآخرۃیعنی جزا کے دن اللہ تعالیٰ کی محبت کی نظر اس پررہے تاکہ اس کی آگے کی منزلیں آسان ہوتی چلی جائیں اوروہ کامیابی کی منزل سے ہم کنار ہوسکے۔ اسی لئے اللہ کے رسولﷺ نے باربار صحابہ کرام کو اللہ کی محبت کی تعلیم دی اس پر لوگوں کوابھارا اور اس کی افادیت واہمیت کوذہن ودل میں بٹھانے کی کوشش کرتے رہے جس کانتیجہ یہ ہواکہ صحا بۂ کرام نے اللہ کی محبت کاایسابیڑ ااٹھایاکہ دنیامیں اس کی نظیر نہیں ملتی انہوں نے اللہ کے دین کی عظمت اوراس کی سربلندی کے لئے اپنے گھر بار آل واولاد سب کو تَج دیا اوراعلائے کلمۃاللہ کے لئے اپنی جان جان آفریں کے سپر د کردیا۔
اللہ تعالیٰ بھی محبت کاجواب محبت سے دیتے ہیں جولوگ اللہ کی محبت کادم بھرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی ہے اور ان کے لئے بڑے بڑے وعدے فرمائے ہیں۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (بقرہ آیت۔١٦٥ )
ترجمہ: کچھ لوگ وہ ہیں جواللہ کے سوا کئی کئی شریک بناتے ہیں ان سے اللہ کے ساتھ محبت جیسی محبت کرتے ہیں اورجو لوگ ایمان والے ہیں وہ اللہ کے ساتھ بہت شدید محبت رکھنے والے ہیں۔
قُلْ اِنْ کَانَ آبَاءُکُمْ وَ اَبْنَاءُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃً تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسَاکِنَ تَرْضَوْنَھَا اَحَبُّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَأتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ وَاللّٰہُ لَایَہْدِی الْقَوْمَ الفٰسِقِیْنَ۔(توبہ ٢٤ )
ترجمہ:آپ فرمادیجئے کہ اگر تمہارے ماں باپ،تمہارے بھائی برادر،تمہاری بیویاں،تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے مال جنہیں تم نے کمایا ہے اورتمہاری تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہواورتمہارے پسندیدہ گھر،تمہیں بہت محبوب اورپیارے ہیں اللہ سے بھی اوراس کے رسول سے بھی اورجہاد فی سبیل اللہ سے بھی توپھر تم منتظر رہو اس وقت کے جب اللہ تعالیٰ اپناعذاب لے آئے گا۔اوراللہ تعالیٰ گنہگاروں،نافرمانوں کی رہنمائی نہیں فرماتا۔
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبِکُمُ اللّٰہُ(آل عمران آیت۔ ٣١ )
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ اگرتم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کریں گے۔
اللہ کی محبت کے سامنے ہر چیز ہیچ ہے
حقیقت یہ ہے کہ جس دل میں اللہ کی محبت گھرکرجائے اس کو ایمان کا مزہ ملنے لگتاہے اورپھر اس کے سامنے دنیاکی ساری چیزیں ہیچ نظر آتی ہیں یہی وجہ ہے کہ سخت مشکل حالات میں بھی صحابۂ کرام نے دین کوچھوڑ کر کوئی دوسری راہ اپنانا گوارہ نہیں کیا ۔نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین باتیں ہیں، جس میں ہوں گی، وہ ان کی وجہ سے ایمان کی مٹھاس اور حلاوت پائے گا۔ ایک تو یہ کہ اللہ اور اس کے رسول سے دوسرے سب لوگوں سے زیادہ محبت رکھے، دوسرے یہ کہ کسی آدمی سے صرف اللہ کے واسطے دوستی رکھے، تیسرے یہ کہ کفر کو پھر اختیار کرنا بعد اس کے کہ اللہ نے اس کو نجات دی اس کو اتنا برا جانے جیسے آگ میں پڑنا۔“
(صحیح مسلم۔ کتاب الایمان،باب بیان خصال من اتصف بہن وجد حلاوۃ الایمان)
اللہ جل شانہ سے محبت کاتقاضا یہی ہے کہ اس کے ماسوا سے منھ موڑکر کامل اللہ ہی کی طرف متوجہ ہوجائیں اور اس کے علاوہ اگر کسی سے محبت بھی ہو تو صرف اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس محبت کوپسند کرتے ہوں ظاہر ہے کہ محبوب جس کوپسند کرتاہے محب کہ لئے ضروری ہے کہ وہ محبوب کے محبوب کو بھی محبت کی نگاہ سے دیکھے بلکہ اس سے محبت کرے یہ چیز محبوب کی محبت کو اورزیادہ مضبوط کرتی ہیں۔ اللہ کی محبت ہی ایک مومن کوایمان کی بلند چوٹیوں تک پہچانے کاذریعہ ہے ا س کے بغیر کوئی بھی شخص دین کی سربلندی حاصل نہیں کرسکتا۔ امام بیہقی نے سفیان بن عیینہ کاقول نقل کیاہے:
وَاللّٰہِ لَاتَبْلُغُوْا ذَرْوَۃَ ھٰذَا الْاَمْرِ حَتّٰی لَایَکُوْنُ شَیْءٌ اَحَبُّ اِلَیْکُمْ مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ،وَمَنْ اَحَبَّ الْقُرْآنَ فَقَدْ اَحَبَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ(اللہ کی قسم تم لوگ اس وقت تک (دین کی) چوٹی تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ تمہارے نزدیک کوئی چیز بھی اللہ سے زیادہ پیاری نہ رہے اورجس نے قرآن سے محبت کیا اس نے اللہ سے محبت کیا۔)نبی کریم ﷺ نے اسی محبت کو حاصل کرنے کی ترغیب اپنی امت کو دی ہے اوراسی محبت کی تعلیم پچھلے انبیاء اپنی امت کو دیاکرتے تھے۔
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”داؤد علیہ السلام کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ تھی: اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْءَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ اَحَبَّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبُّ اِلیَّ مِنْ نَّفْسِیْ وَمَالِیْ وَمِنَ الْمَاءِ الْبارِدِ ”اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں، اور میں اس شخص کی بھی تجھ سے محبت مانگتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے، اور ایسا عمل چاہتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے، اے اللہ! تو اپنی محبت کو مجھے میری جان اور میرے مال سے زیادہ محبوب بنا دے، اے اللہ! اپنی محبت کو ٹھنڈے پانی کی محبت سے بھی زیادہ کر دے“، (راوی) کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب داود علیہ السلام کا ذکر کرتے تو ان کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے: وہ لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھے۔(سنن الترمذی۔کتاب الدعوات عن رسول اللہ ﷺ، باب منہ)
اللہ کی محبت کاتقاضا یہ ہے کہ بندہ اس کے اوامر کو بجالائے اور نواہی سے بالکل رک جائے۔اوامر میں وہ تمام عبادات شامل ہیں جنہیں کرنے کااللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور نواہی میں وہ تمام محرمات شامل ہیں جو اللہ کی ناراضی کا سبب بنتے ہیں۔اس لئے بندہئ مومن جب ان عبادات کو کماحقہ بجالاتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل ہو تاہے جو محبت کی معراج ہے اور پھرمَن تُو شُدَمْ تُو مَنْ تُوشُدِی کی طرح اللہ تعالیٰ اس کا ہاتھ بن جاتے ہیں جن سے وہ پکڑتاہے اور اس کے کان بن جاتے ہیں جن سے وہ سنتاہے اور اس کی آنکھ بن جاتے ہیں جن سے وہ دیکھتا ہے یعنی اللہ کی مرضی اس کے شامل حال ہوجاتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔
(صحیح بخاری۔ کتاب الرقاق،باب التواضع)
ایک مومن کے لئے اللہ کے دین میں اونچا مقام حاصل کرنے کے علاوہ اور کیا خواہش ہوسکتی ہے۔اللہ کے دین پرچل کر سربلندیوں تک پہنچنا ہی ایک مومن کی معراج ہے اوراس کاذریعہ اوروسیلہ یہ ہے کہ بندہ اللہ سے اس قدرمحبت کرے کہ دنیا کی کسی اورشی سے اتنی محبت نہ کرے۔قرآن کریم چونکہ اللہ کی کتاب ہے اوراس کے ذات سے نکلی ہوئی بات ہے اس لئے قرآن کریم سے محبت کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی محبت میں داخل ہے۔اور یہ تو محبت کے اصول میں سے ہے کہ جس سے محبت کی جائے اس کے سوا کسی اورطرف دیکھابھی نہ جائے چہ جائیکہ اس سے محبت کی جائے۔
محبت کے معانی ومفہوم
شیخ حلیمی ؒنے فرمایا کہ اللہ کی محبت بہت سے مفہوم ومعانی کانام ہے:
(۱) یہ عقیدہ رکھناکہ اللہ تعالیٰ پراعتبارمحمود اورقابلِ تعریف ہے،اللہ تعالیٰ کی جتنی صفات ہیں وہ اس کی مدح و ثنا ہیں۔
(۲) یہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کامحسن ہے،نعمتیں عطاکرنے والاہے اور ان پرفضل و عنایات کرنے والاہے۔
(۳) یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے والاہراحسان اس بات سے بہت بڑ ا اورعظیم ہے کہ بندے کاکوئی قول یاکوئی عمل ا س کاشکر اداکرسکے۔ اگرچہ وہ قول یاعمل کتنے ہی اچھے ہوں اور کتنے ہیں زیادہ ہوں۔
(۴) اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کو نہ کم سمجھے اور نہ کمتر سمجھے اوراس کے احکامات کوبہت اورپور اسمجھے۔
(۵) عام اوقات اورزیادہ تر اوقات میں اس بات سے ڈرتارہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ اس سے منھ نہ موڑلیں اورکہیں اللہ تعالیٰ اس سے اپنی وہ معرفت نہ چھین لے جواسے عطاکرکے اس کوعزت دی تھی اورکہیں اس سے اپنی وہ توحید نہ چھین لے جس کے ساتھ ا س کوآراستہ اورمزین کیاہے۔
(۵) اپنی تمام امیدیں اللہ تعالیٰ ہی سے وابستہ رکھے کسی بھی حال میں یہ خیال بھی نہ کرے کہ وہ اس سے مستغنی ہے۔
(۷) مذکورہ تمام معانی کااس کے دل میں پکاہونااورجگہ پکڑنااسے اس بات پراکسائے کہ وہ اللہ کے ذکر پرمداومت اورہمیشگی کرے ایسے احسن طریقے پرجواس کی قدرت میں اوراس کے بس میں ہوسکے۔
(۸) اللہ کے فرائض اداکرنے میں حرص کرے اورحسب استطاعت نفلی عبادات وخیرات کے ذریعہ اللہ کاقرب حاصل کرنے کے لئے بھی حرص کرے۔
(۹) دوسرے لوگوں سے اللہ کی تعریف سنے اوراس بات کواللہ کی بارگاہ میں تقرب سمجھے اوراللہ کی راہ میں خفیہ اورظاہر جہاد ومجاہدہ کرے ان چیزوں سے جوغافل کرنے والی ہیں۔ اللہ سے محبت کرے اس شخص سے بھی جواللہ سے محبت کرتا ہے۔
(۰۱) اگرکسی سے بھی اللہ کاذکر سنے تو اس کی اعانت کرے ان امور کے خلاف جواس کی راہ میں خلل اوررکاوٹ بنیں یا محسوس کرے اس سے بھٹکنا اورگمراہ ہونا اس کی راہ سے خفیہ یاظاہر، تو اس سے جد ا ہوجائے۔ اگرچہ یہ معانی کسی ایک مقام پرمذکور نہیں ہیں مگر نبی کریمﷺ سے متفرق طورپرضرور آئے ہیں نبی کریمﷺکے سوا (دوسرے اہل علم سے) بھی مذکور ہیں۔(بیہقی فی شعب الایمان، محبۃاللہ عز وجل،معانی المحبۃ)
ایمان والوں کو چاہئے کہ فانی چیزوں کی محبت دل سے نکال کر اس ذات سے محبت کریں جو ہمیشہ سے ہے او رہمیشہ رہنے والی ہے۔جس کی نوازشیں ہر لمحے اور ہر آن انسان پربرس رہی ہیں۔ جن کاشمار کرنا بھی حضرتِ انسان کے بس میں نہیں ہے۔