اللہ سے امید قائم کرنا
تحریر : مفتی محمدآصف اقبال قاسمی
اللہ تبارک وتعالیٰ ارحم الرحمین ہیں،رب العالمین ہیں، اس کائنات کے ذرہ ذرہ پر اسی کی حکمرانی ہے جسے چاہتاہے اپنی نعمتوں سے نوازتاہے اور جس سے چاہتاہے چھین لیتاہے۔ ہست کو نیست اور نیست کو ہست میں بدلنے کی قدرت رکھتاہے۔ جوذات ان تمام کمالات کی حامل ہے وہ ذات یقینًا اس لائق ہے کہ اس سے امیدیں وابستہ کی جائیں اور اگر کچھ مانگنا ہو تو اسی سے مانگیں۔ اس لئے کہ اس کی ادنیٰ توجہ ہمیں سب کچھ عطا کرسکتی ہے اور اس کی ذراسی ناراضی ہمیں تمام تر نعمتوں سے محروم کرسکتی ہے۔نیز اللہ تعالی ٰکے ارشاد کے مطابق: “کہ میری رحمت میرے غضب پرسبقت لے گئی” ہرانسان کواللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید رکھنی چاہئے۔اللہ تعالیٰ سے امید قائم رکھناانسان کوطاعات پر ابھارنے والی چیز ہے۔اسی کے ذریعہ انسان کے اندر اخلاص او رتواضع کی کیفیت پید ا ہوتی ہے اس لئے کہ امید کی کیفیت جتنی مضبوط ہوگی اللہ کی رحمت اتنی ہی متوجہ ہوگی۔
خوف وطمع خشوع وخضوع کاسبب
اما م بیہقی ؒ نے فرمایا کہ جس طرح خوف کے مستحکم ہونے سے خشوع وخضوع اورعجز و انکساری پیداہوتی ہے اسی طرح جس وقت امید مستحکم ہوجاتی ہے تو اس سے خشوع وخضوع اور انتہائی عجز وانکساری پیداہوتی ہے۔اس لئے کہ خوف اورامید ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں۔اس لئے کہ خائف اپنے خوف کی حالت میں اسی کی دعا کرتاہے اوراسی کے بارے میں درخواست اورالتجا کرتاہے۔اورراجی یعنی امید کرنے والااپنی امید کی حالت میں اسی چیز سے خائف بھی ہوتاہے جس کی امید کرتاہے اوراللہ تعالی سےاس کے بارے میں پناہ بھی مانگتا ہے اور اس کے پھیر دینے کی التجا بھی کرتاہے تو خلاصہ یہ ہو اکہ ہرخائف امید کرنے والا ہوتاہے اورہر امید کرنے والا خائف ہوتاہے اسی مناسبت ومطابقت سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خوف ورجا کو ایک ساتھ بیان کیاہے:
وَادْعُوْہُ خَوفًا وَّطَمَعًا اِنَّ رَحْمَۃَ اللّٰہ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ (اعراف١٥٦ )
ترجمہ: اور اس (اپنے رب)کو ڈر اور توقع سے پکارو بے شک اللہ نیک کام کرنے والوں سے قریب ہے۔
اس آیت کریمہ میں دعا ء کے آداب اور اس کی قبولیت کے اسباب بتائے گئے ہیں ایک تویہ کہ آدمی کودعاکرتے وقت اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں میرے اعمال کی کوتاہی پر نظر کرکے اللہ تعالیٰ میری دعا کو رد نہ فرمادیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ کی رحمت عامہ کو پیش نظررکھتے ہوئے یہ امید رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ میری دعا کو ضرور قبول فرمائیں گے۔ ا س لئے کہ اہل ایمان کو اپنے گناہوں سے بے خبر بھی نہیں رہنا چاہئے اورنہ ہی اللہ کی رحمت سے مایوس ہوناچاہئے کیونکہ یہ دونوں چیزیں ایمانی صفات کے خلا ف ہیں او رآگے اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتادیا کہ اللہ کی رحمت نیک کام کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ نیز اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:یَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَیَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ (اسراء 57 ) وہ اس کی رحمت کی امید کرتے ہیں اوراس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔امام قرطبی نے ا س آیت کے تحت حضرت سہل بن عبد اللہ کایہ قول نقل کیاہے کہ انہوں نے فرمایا کہ امید اورخوف انسان پردوزمانے ہیں،پس جب یہ دونوں برابر ہوں اس کے احوال صحیح اوردرست ہوتے ہیں، اوراگر ان میں سے ایک ترجیح پاجائے تودوسرا باطل ہوجاتا ہے۔ (تفسیر قرطبی) نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے:وَ یَدْعُوْنَنَارَغَبًا وَرَھْبًا وَکَانُوْا لَنَا خَاشِعِیْنَ(الانبیاء٩٠ ) اوروہ(انبیاء علیھم الصلوۃوالسلام) ہمیں امید کرتے ہوئے اورخوف رکھتے ہوئے پکارتے ہیں اور وہ ہم سے ڈرتے ہیں۔یعنی وہ رغبت وخوف یعنی راحت اورتکلیف کی ہرحالت میں اللہ کوپکارتے ہیں اور ایک یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ اپنی عبادت ودعا کے وقت امید وبیم دونوں کے درمیان رہتے ہیں اللہ تعالیٰ سے قبول کی امیدبھی رہتی ہے اوراپنے گناہوں اورکوتاہیوں کی وجہ سے خوف بھی رہتاہے۔(مستفاد از تفسیرقرطبی)
نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو بار بار یہ تعلیم دی ہے کہ اللہ کی رحمت کی امید اوراس کے غضب اورناراضگی کاخوف ہر وقت تمہارے سامنے رہے۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلے بھی ویسے ہی ہو تے ہیں۔ ایک نوجوان صحابی جو موت و حیات کے کشمکش سے جوجھ رہے تھے ایسی حالت میں نبی کریم ﷺ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اورآپ نے ان سے پوچھا کہ تم کیا پارہے ہو یعنی کیسا محسوس کررہے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں خوف اور امید دونوں پارہاہوں توآپؐ نے فرمایا:
لَایَجْتَمِعَانِ فِیْ قَلْبٍ مُّؤْمِنٍ اِلَّااَعْطَاہُ اللّٰہُ الَّذِیْ یَرْجُوْا مِنْہُ،وَآمَنَہٗ مِنَ الَّذِیْ یَخَافُ(جس بندے کے دل میں یہ دو چیزیں (امید وبیم) جمع ہوجاتی ہیں اللہ تعالیٰ اس کووہ چیز عطاکردیتے ہیں جس کی وہ امید کرتاہے اوراس چیز سے امن عطاکردیتے ہیں جس سے وہ ڈرتاہے۔
(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الزہد،باب ذکر الموت والاستعداد لہ۔ حدیث نمبر ٤٢٦١ )
اللہ سے رحم وکرم کی امید رکھنا
بندہ اپنے رب کے بارے میں جو گمان رکھتاہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ویسا ہی فیصلہ فرمادیتے ہیں۔ایک حدیث قدسی میں نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِی ْوَاَنَا مَعَہٗ اِذَادَعَانِیْ میں اپنے بندے کے گمان کے قریب ہوں جووہ میرے ساتھ کرتاہے اور میں اس کے ساتھ ہوتاہوں جب وہ مجھے بلائے۔
(صحیح مسلم۔کتاب الذکر والدعاء۔باب الحث علی ذکر اللہ تعالیٰ۔ حدیث نمبر٦٨٠٥ )
یعنی بندہ اگر اللہ تعالی سے اپنے متعلق اچھی امید رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ وہی معاملہ فرماتے ہیں۔اگر وہ کسی چیز سے خوف محسوس کرتاہے اوراللہ تعالیٰ سے امن کی امید رکھتاہے۔ تو اللہ تعالیٰ اسے امن عطا فرماتے ہیں۔اور اگر اپنے اعمال کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کی ناراضگی سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے غضب اورناراضگی سے امن بخشتے ہیں۔ الغرض حسن ظن کے ساتھ احسان الہی ہے اورسوئے ظن کے ساتھ عقاب الہی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ بھی یہی چاہتے ہیں کہ اس کے بندے اس کے رحمت کی امید لگائے رکھیں اورمایوسی کے قریب نہ جائیں۔اس لئے ایک مومن بندہ کوہروقت اللہ تعالیٰ سے رحم وکرم کی امید ہی باندھناچاہئے۔اللہ کی تعالی کی صفات میں صفت رحمت بہت نمایا ں اور وسیع ہے اور غضب کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ رحمت کو پسند فرماتے ہیں اس لئے اللہ کے بندوں کو اس سے رحمت کی امید ہی رکھنا چاہئے اس لئے کہ دنیامیں رحمت و شفقت کی جتنی قسمیں ہیں چاہے وہ حاکم کی شفقت اپنی رعایا کے لئے ہو، استاد کی شفقت و رحمت اپنے شاگردوں کے لئے ہو، ماں باپ کی شفقت ومہربانی اپنی اولا د کے لئے ہو یا اس کے علاہ رحمت وشفقت کے جتنے اقسام ہیں اور جس جذبۂ ترحم کے ذریعہ مخلوقات ایک دوسرے کے ساتھ رحم وکرم کامعاملہ کرتی ہیں وہ تمام کی تمام اللہ کی رحمت کا سوّاں حصہ ہیں اسی ایک حصہ کی رحمت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں بانٹ دیا اور باقی ننانوے درجے رحمت کے اپنے پا س رکھاجس سے وہ قیامت کے دن اپنی مخلوق پررحمت ومہربانی فرمائے گا۔جس ذات نے اتنے اہتمام کے ساتھ اپنی رحمتوں کو مخلوق کے لئے بچاکررکھاہو یقیناً وہ ذات رحمت کی امید کرنے کے قابل ہے۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ،عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:” إِنَّ لِلَّهِ مِائَةَ رَحْمَةٍ , قَسَمَ مِنْهَا رَحْمَةً بَيْنَ جَمِيعِ الْخَلَائِقِ , فَبِهَا يَتَرَاحَمُونَ , وَبِهَا يَتَعَاطَفُونَ , وَبِهَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَى أَوْلَادِهَا , وَأَخَّرَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ رَحْمَةً , يَرْحَمُ بِهَا عِبَادَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (ابن ماجہ۔کتاب الزہد،باب مایرجیٰ من رحمۃ اللہ تعالیٰ۔حدیث نمبر ٤٢٩٣ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں، ان میں سے ایک رحمت کو تمام مخلوقات کے درمیان تقسیم کر دیا ہے، اسی کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر رحم اور شفقت کرتے ہیں، اور اسی وجہ سے وحشی جانور اپنی اولاد پر رحم کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں محفوظ کر رکھی ہیں، ان کے ذریعے وہ قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم کرے گا۔
عن ابی سعید رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ , يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ , مِائَةَ رَحْمَةٍ , فَجَعَلَ فِي الْأَرْضِ مِنْهَا رَحْمَةً , فَبِهَا تَعْطِفُ الْوَالِدَةُ عَلَى وَلَدِهَا , وَالْبَهَائِمُ بَعْضُهَا عَلَى بَعْضٍ , وَالطَّيْرُ , وَأَخَّرَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ , فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ , أَكْمَلَهَا اللَّهُ بِهَذِهِ الرَّحْمَةِ” (ابن ماجہ۔کتاب الزہد،باب مایرجیٰ من رحمۃ اللہ تعالیٰ۔حدیث نمبر٤٢٩٤ )
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل نے جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، سو رحمتیں پیدا کیں، زمین میں ان سو رحمتوں میں سے ایک رحمت بھیجی، اسی کی وجہ سے ماں اپنے بچے پر رحم کرتی ہے، اور چرند و پرند جانور بھی ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں، اور ننانوے رحمتوں کو اس نے قیامت کے دن کے لیے اٹھا رکھا ہے، جب قیامت کا دن ہو گا، تو اللہ تعالیٰ ان رحمتوں کو پورا کرے گا۔
قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ , لَمَّا خَلَقَ الْخَلْقَ كَتَبَ بِيَدِهِ عَلَى نَفْسِهِ , إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي (ابن ماجہ۔کتاب الزہد،باب مایرجیٰ من رحمۃ اللہ تعالیٰ۔حدیث نمبر٤٢٩٥ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب ا للہ عزوجل نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنے ہاتھ سے اپنے اوپر یہ لکھا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر یہ لازم کرلیاہے کہ میں غضب کے بجائے رحمت کامعاملہ غالب رکھوں گا۔
عن ابن عمر رضی اللہ عنہ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ غَزَوَاتِهِ , فَمَرَّ بِقَوْمٍ , فَقَالَ:” مَنِ الْقَوْمُ” , فَقَالُوا: نَحْنُ الْمُسْلِمُونَ , وَامْرَأَةٌ تَحْصِبُ تَنُّورَهَا , وَمَعَهَا ابْنٌ لَهَا , فَإِذَا ارْتَفَعَ وَهَجُ التَّنُّورِ , تَنَحَّتْ بِهِ , فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالَ:” نَعَمْ” , قَالَتْ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَرْحَمِ الرَّاحِمِينَ؟ قَالَ:” بَلَى” , قَالَتْ: أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَرْحَمَ بِعِبَادِهِ مِنَ الْأُمِّ بِوَلَدِهَا؟ قَالَ:” بَلَى” , قَالَتْ: فَإِنَّ الْأُمَّ لَا تُلْقِي وَلَدَهَا فِي النَّارِ , فَأَكَبَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِي ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيْهَا , فَقَالَ:” إِنَّ اللَّهَ لَا يُعَذِّبُ مِنْ عِبَادِهِ إِلَّا الْمَارِدَ الْمُتَمَرِّدَ , الَّذِي يَتَمَرَّدُ عَلَى اللَّهِ , وَأَبَى أَنْ يَقُولَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ۔(ابن ماجہ۔کتاب الزہد،باب مایرجیٰ من رحمۃ اللہ تعالیٰ۔حدیث نمبر٤٢٩٧ )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں شریک تھے کہ آپ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے تو پوچھا:تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا: ہم مسلمان ہیں، ان میں ایک عورت تنور میں ایندھن جھوک رہی تھی، اور اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا، جب تنور کی آگ بھڑک اٹھی وہ اپنے بیٹے کو لے کر ہٹ گئی، اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں عورت نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا اللہ سارے رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں وہ بولی: کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ رحم نہیں کرے گا جتنا ماں اپنے بچے پر کرتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں“؟ اس نے کہا: ماں تو اپنے بچے کو آگ میں نہیں ڈالتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر جھکا دیا، اور روتے رہے پھر اپنا سر اٹھایا، اور فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے انہی بندوں کو عذاب دے گا جو بہت سرکش و شریر ہیں، اور جو اللہ تعالیٰ کے باغی ہوتے ہیں اورلاالہ الا اللہ“ کہنے سے انکار کرتے ہیں۔
عن ابن عمر رضی اللہ عنہ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” يُصَاحُ بِرَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ , فَيُنْشَرُ لَهُ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ سِجِلًّا , كُلُّ سِجِلٍّ مَدَّ الْبَصَرِ , ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: هَلْ تُنْكِرُ مِنْ هَذَا شَيْئًا , فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ , فَيَقُولُ: أَظَلَمَتْكَ كَتَبَتِي الْحَافِظُونَ , ثُمَّ يَقُولُ: أَلَكَ عُذْرًا؟ أَلَكَ عنْ ذَلِكَ حَسَنَةٌ؟ فَيُهَابُ الرَّجُلُ فَيَقُولُ: لَا , فَيَقُولُ: بَلَى , إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَاتٍ , وَإِنَّهُ لَا ظُلْمَ عَلَيْكَ الْيَوْمَ , فَتُخْرَجُ لَهُ بِطَاقَةٌ فِيهَا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ , قَالَ: فَيَقُولُ: يَا رَبِّ مَا هَذِهِ الْبِطَاقَةُ مَعَ هَذِهِ السِّجِلَّاتِ , فَيَقُولُ: إِنَّكَ لَا تُظْلَمُ , فَتُوضَعُ السِّجِلَّاتُ فِي كِفَّةٍ وَالْبِطَاقَةُ فِي كِفَّةٍ , فَطَاشَتِ السِّجِلَّاتُ وَثَقُلَتِ الْبِطَاقَةُ۔(ابن ماجہ۔کتاب الزہد،باب مایرجیٰ من رحمۃ اللہ تعالیٰ۔حدیث نمبر٤٣٠٠ )
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن تمام لوگوں کے سامنے میری امت کے ایک شخص کی پکار ہو گی اور اس کے ننانوے دفتر پھیلا دئیے جائیں گے، ہر دفتر حد نگاہ تک پھیلا ہو گا، پھر اللہ عزوجل فرمائے گا: کیا تم اس میں سے کسی چیز کا انکار کرتے ہو؟ وہ کہے گا: نہیں، اے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا میرے محافظ کاتبوں نے تم پر ظلم کیا ہے؟ پھر فرمائے گا: کیا تمہارے پاس کوئی نیکی بھی ہے؟ وہ آدمی ڈر جائے گا، اور کہے گا: نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: نہیں، ہمارے پاس تمہاری کئی نیکیاں ہیں، اور آج کے دن تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا، پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس پر اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ لکھا ہو گا، وہ کہے گا: اے میرے رب! ان دفتروں کے سامنے یہ پرچہ کیا حیثیت رکھتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: آج تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا، پھر وہ تمام دفتر ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں، وہ سارے دفتر ہلکے پڑ جائیں گے اور پرچہ بھاری ہو گا۔
یقینا اللہ رب العزت کی رحمت اس کے بندوں پر برستی رہتی ہے اس لئے اللہ کی رحمت سے کبھی ناامید نہیں ہونا چاہئے بلکہ رجا ء وامید کا رشتہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے قائم رکھنا چاہئے اور اس ذات اقدس کے ساتھ ہمیشہ حسن ظن رکھنا چاہئے خاص طور سے موت کے وقت اللہ تعالیٰ سے حسن ظن قائم کرناچاہئے۔جیسا کہ اس حدیث سے ظاہر ہوتاہے:
عن جابر رضی اللہ عنہ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِثَلَاثٍ، يَقُولُ: ” لَا يَمُوتَنَّ أَحَدُكُمْ إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ بِاللَّهِ الظَّنَّ۔(صحیح مسلم۔کتاب الجنۃ وصفتہ نعیمہا واھلہا۔باب الامر بحسن الظن باللہ تعالیٰ عند الموت۔حدیث نمبر٧٢٢٩ )
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے آپؐ کی وفات سے تین روز پہلے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک نہ مرے، مگر یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھتاہو۔
بندۂ مومن کی حالت یہ ہونی چاہئے کہ جب وہ اپنی کوتاہیوں پرنظر کرے تو اسے یہ خوف محسوس ہو کہ کہیں میرا رب مجھ سے ناراض نہ ہو جائے اور جب رب العالمین کی وسیع رحمت پر نظر کرے تو اسے اپنے مغفرت کی امیدقائم ہوجائے۔یہی کمال ایمان کی علامت ہے۔