آصف قاسمی

اصحاب اخدود کاواقعہ

پیشکش: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پچھلی امتوں کے واقعات اس لئے بیان کئے ہیں تاکہ ہم ان سے عبرت ونصیحت حاصل کریں ان ہی میں ایک واقعہ اصحاب الاخدود کا ہے جس کا ذکر سورہ بروج میں آیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ(٤ )النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ(٥ ) إِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُودٌ(٦ ) وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودٌ(٧ )( سورہ البروج )

ترجمہ :مارے گئے اس خندق والے۔ جو سراسر بہت ایندھن والی آگ تھی ۔ جب وہ اس کے اوپر بیٹھے ہوئے تھے ۔ اور وہ اس پر جو وہ ایمان والوں کے ساتھ کر رہے تھے، گواہ تھے۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے جنہوں نے گڈھے کھود کر اس میں آگ جلایا اور پھر ایمان والوں کو اس میں ڈال کر جلادیا اور پھر کناروں پر بیٹھ کر ان کے جلنے کا نظارہ دیکھتے رہے ۔ یمن کا ایک کا بادشاہ ذونواس جو یہودی تھا اور مسیحیوں سے اس کا سلوک اچھا نہ تھا۔ مسیحی اس کے مجبور کرنے پر بھی اپنا مذہب چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے تو اس نے صاف کہہ دیا کہ وہ یا تو یہودیت اختیار کر لیں یا قتل ہونے کے لیے تیار ہوجائیں۔ یمن کے تمام مسیحی جان دینے پر آمادہ ہو گئے۔ بادشاہ نے ایک وسیع خندق کھدوائی، جس میں ان سب کو زندہ دفن کر دیا گیا۔ اس کے بعد خدا کا عذاب نازل ہوا اور بادشاہ کے ساتھ اس کی قوم بھی تباہ ہو گئی۔ اصحاب الاخدود سے مراد بادشاہ ذونواس اور اس کے پیرو ہیں۔ خود مسیحیوں میں بھی یہی روایت مشہور ہے۔ 523 ء میں یمن کے یہودی بادشاہ ذونواس نے نجران کے مسیحیوں پر ظلم وستم ڈھائے جسے قرآن مجید نے، اصحاب الاخدود، کے نام سے ذکر کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کا واقعہ  اس طرح بیان کیا ہے :

  صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم سے پہلے ایک بادشاہ تھا اور اس کا ایک جادوگر تھا۔(پہلے کے بادشاہوں کا یہ دستور تھا کہ وہ اپنے پاس جادوگروں ،کاہنوں اور نجومیوں کو رکھا کرتے تھے ) جب وہ جادوگر بوڑھا ہو گیا تو بادشاہ سے بولا: میں بوڑھا ہو گیا ہوں میرے پاس کوئی لڑکا بھیج میں اس کو جادو سکھلاؤں۔ بادشاہ نے اس کے پاس ایک لڑکا بھیجا، وہ اس کو جادو سکھلاتا تھا۔( وہ لڑکا جب جادو سیکھنے کے لئے اپنے گھر سے اس جادوگر کے پاس جاتا تو) اس لڑکے کی آمدورفت کی راہ میں ایک راہب تھاوہ لڑکا اس کے پاس بیٹھتا اور اس کا کلام سنتا۔ اس کو بھلا معلوم ہوتا۔ جب جادوگر کے پاس جاتا تو راہب کی طرف ہو کر نکلتا اور اس کے پاس بیٹھتا پھر جب جادوگر کے پاس جاتا تو (دیر سے آنے کی وجہ سے وہ )جادوگر اس کو مارتا۔ آخر لڑکے نے جادوگر کے مارنے کا راہب سے گلہ کیا۔ راہب نے کہا: جب تو جادوگر سے ڈرے تو یہ کہہ دیا کر میرے گھر والوں نے مجھ کو روک رکھا تھا اور جب تو اپنے گھر والوں سے ڈرے تو کہہ دیا کر کہ جادوگر نے مجھ کو روک رکھا تھا۔ اسی حالت میں وہ لڑکا رہا کہ ناگاہ ایک بڑے قد کے جانور پر گزرا جس نے لوگوں کو آمدورفت سے روک دیا تھا۔ لڑکے نے کہا کہ آج دریافت کرتا ہوں جادوگر افضل ہے یا راہب افضل ہے۔ اس نے ایک پتھر لیا اور کہا: الہیٰ! اگر راہب کا طریقہ تجھ کو جادوگر کے طریقہ سے زیادہ پسند ہو تو اس جانور کو قتل کر تاکہ لوگ چلیں پھریں۔ پھر اس نے پتھر سے اس جانور کو مارا ،اس پتھر سے وہ جانور مر گیا اور لوگ چلنے پھرنے لگے۔ پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اس سے یہ حال کہا۔ وہ بولا: بیٹا! تیرا رتبہ مجھ سے بڑھ گیا  تو مجھ سے بلند مقام پر پہنچ گیا اس لئے مجھے لگتاہے کہ عنقریب آزمایا جائے گا پھر اگر تو آزمایا جائے تو میرا نام نہ بتلانا۔ اس لڑکے کا یہ حال تھا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا اور ہر قسم کی بیماری کا علاج کرتا۔  بادشاہ کاایک مصاحب تھا جو اندھا ہوگیا تھے اس نے یہ حال سنا تو وہ  بہت سے تحفے تحائف  لے کر اس لڑکے کے پاس آیا اور کہنے لگا: کہ اگر تو مجھ کو اچھا کردے تویہ سب مال تیرا ہے ۔ لڑکے نے کہا: میں کسی کو اچھا نہیں کرتا، اچھا کرنا تو اللہ کا کام ہے۔ اگر تو اللہ پر ایمان لائے تو میں اللہ سے دعا کروں وہ تجھ کو اچھا کر دے گا۔ وہ مصاحب اللہ پر ایمان لایا۔ اللہ نے اس کو اچھا کر دیا۔ وہ بادشاہ کے پاس گیا اور اس کے پاس بیٹھا جیسا کہ بیٹھا کرتا تھا۔ بادشاہ نے کہا: تیری آنکھ کس نے روشن کی؟ مصاحب بولا: میرے مالک نے۔ بادشاہ نے کہا: میرے سوا تیرا کون مالک ہے؟ مصاحب نے کہا: میرا اور تیرا دونوں کا مالک اللہ ہے۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور مارنا شروع کیا اور مارتا رہا یہاں تک کہ اس نے لڑکے کا نام لیا۔ وہ لڑکا بلایا گیا بادشاہ نے اس سے کہا: اے بیٹا! تو جادو میں اس درجہ پر پہنچا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا ہے اور بڑے بڑے کام کرتا ہے؟ وہ بولا: میں تو کسی کو اچھا نہیں کرتا، اللہ اچھا کرتا ہے۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور مارتا رہا یہاں تک کہ اس نے راہب کا نام بتلایا۔ وہ راہب پکڑا ہوا آیا۔ اس سے کہا گیا: اپنے دین سے پھر جا۔ اس نے نہ مانا، بادشاہ نے ایک آرہ منگوایا اور راہب کے سر پر رکھا اور اس کو چیر ڈالا یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو کر گرا۔ پھر وہ مصاحب بلایا گیا اس سے کہا گیا: تو اپنے دین سے پھر جا۔ اس نے بھی نہ مانا۔ اس کے سر پر بھی آرہ رکھا اور چیز ڈالا یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو کر گرا۔ پھر وہ لڑکا بلایا گیا۔ اس سے کہا: اپنے دین سے پلٹ جا۔ اس نے بھی نہ مانا۔ بادشاہ نے اس کو اپنے چند مصاحبوں کے حوالے کیا اور کہا: اس کو فلاں پہاڑ پر لے جا کر چوٹی پر چڑھاؤ۔ جب تم چوٹی پر پہنچو تو اس لڑکے سے پوچھو: اگر وہ اپنے دین سے پھر جائے تو خیر نہیں تو اس کو دھکیل دو۔ وہ اس کو لے گئے اور پہاڑ پر چڑھایا۔ لڑکے نے دعا کی الہٰی! تو جس طرح سے چاہے مجھے ان کے شر سے بچا۔ پہاڑ ہلا اور وہ لوگ گر پڑے۔ وہ لڑکا بادشاہ کے پاس چلا آیا۔ بادشاہ نے پوچھا: تیرے ساتھی کدھر گئے؟ اس نے کہا: اللہ نے مجھ کو ان کے شر سے بچایا۔ پھر بادشاہ نے اس کو اپنے چند مصاحبوں کے حوالے کیا اور کہا: اس کو لے جاؤ ایک ناؤ پر چڑھاؤ اور دریا کے اندر لے جاؤ، اگر اپنے دین سے پھر جائے تو خیر ورنہ اس کو دریا میں دھکیل دو۔ وہ لوگ اس کو لے گئے لڑکے نے کہا: الہٰی! تو مجھ کو جس طرح چاہے ان کے شر سے بچائے۔ وہ ناؤ اوندھی ہو گئی اور لڑکے کے ساتھی سب ڈوب گئے اور لڑکا زندہ بچ کر بادشاہ کے پاس آیا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا: تیرے ساتھی کہاں گئے؟ وہ بولا: اللہ تعالیٰ نے ان سے مجھ کو بچایا۔ پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا: تو مجھ کو نہ مار سکے گا یہاں تک کہ میں جو بتلاؤں وہ کرے۔ بادشاہ نے کہا: وہ کیا؟ اس نے کہا: تو سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر اور ایک لکڑی پر مجھ کو سولی دے، پھر میرے ترکش سے ایک تیر لے اور کمان کے اندر رکھ پھر کہہ اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا مالک ہے مارتا ہوں، پھر تیر مار۔ اگر تو ایسا کرے گا تو مجھ کو قتل کرے گا۔ بادشاہ نے سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا اور اس لڑکے کو ایک لکڑی پر سولی دی، پھر اس کے ترکش سے ایک تیر لیا اور تیر کو کمان کے اندررکھ کر کہا: اللہ کے نام سے مارتا ہوں جو اس لڑکے کا مالک ہے اور تیر مارا۔ وہ لڑکے کی کنپٹی پر لگا۔ اس نے اپنا ہاتھ تیر کے مقام پر رکھا اور مر گیا، اور لوگوں نے یہ حال دیکھ کر کہا: ہم تو اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے۔ ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے، ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے۔ کسی نے بادشاہ سے کہا: جس چیز سے تو ڈرتا تھا اللہ کی قسم وہی ہوا یعنی لوگ ایمان لے آئے۔ بادشاہ نے راہوں کے ناکوں پر خندقیں کھودنے کا کا حکم دیا۔ پھر خندقیں کھودی گئیں اور ان کے اندر خوب آگ بھڑکائی اور کہا: جو شخص اس  لڑکے کے دین سےنہ پھرے اس کو ان خندقوں میں دھکیل دو یا اس سے کہو کہ ان خندقوں میں گرے۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ ایک عورت آئی اس کے ساتھ اس کا ایک بچہ بھی تھا، وہ عورت آگ میں گرنے سے جھجکی تو اس کے بچے   نے کہا: اے ماں! صبر کر تو سچے دین پر ہے۔مرنے کے بعد تو تجھے چین ہی چین ہے تو پھر دنیا کی مصیبت سے کیوں ڈرتی ہے ۔

(صحیح مسلم کتاب الزھد ورالرقائق ۔ باب قصۃ اصحاب الاخدود والساحر والراھب والغلام حدیث نمبر ٧٥١١ )

یہ واقعہ دین کی دعوت اور اس کے لئے اپنی جان تک قربان کردینے  کی ترغیب دیتاہے ۔ اس لڑکے کےکہنے سے وہ بادشاہ تو ایمان نہیں لایا لیکن اس نے ایک ایسی ترکیب نکالی کے اس کی جان تو گئی لیکن ساتھ ہی ہزاروں لوگوں نے ایمان قبول کرلیا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *