انسانی جان کی حرمت و عظمت
تحریر :مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
انسان کی جان محترم اور قابل تعظیم ہے اس لئے اس کی حرمت کاخیال ہمیشہ رکھنا چاہئے اور جان بوجھ کر اسے ہلاکت میں نہیں ڈالنا چاہئے اورنہ ہی جزوی نقصان کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جس طرح کسی دوسرے شخص کی جان لینا حرام ہے اسی طرح اپنی جان لینا یعنی خود کشی کرناحرام ہے اوردونوں کی سزا جہنم کا دردناک عذاب ہے۔قرآن وحدیث میں انسانی جان کی حرمت اوراس کی حفاظت کی بہت تاکید آئی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا (29)وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّ ظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَارًا وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا(٣٠ ۔نساء)
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ، مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضا مندی سے خرید وفروخت ہو، اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے اور جو شخص یہ سرکشی اورظلم سے کرے گا تو عنقریب ہم اس کو آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ پرآسان ہے۔
حضرت عمرو بن عاصؓ نے اس آیت کریمہ سے ٹھنڈی کی شدت سے بچنے کے لئے تیمم کے جواز پر استدلال کیا ہے۔
عن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ، قَالَ:” احْتَلَمْتُ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ فِي غَزْوَةِ ذَاتِ السُّلَاسِلِ فَأَشْفَقْتُ إِنِ اغْتَسَلْتُ أَنْ أَهْلِكَ، فَتَيَمَّمْتُ ثُمَّ صَلَّيْتُ بِأَصْحَابِي الصُّبْحَ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا عَمْرُو، صَلَّيْتَ بِأَصْحَابِكَ وَأَنْتَ جُنُبٌ؟ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي مَنَعَنِي مِنَ الِاغْتِسَالِ، وَقُلْتُ: إِنِّي سَمِعْتُ اللَّهَ، يَقُولُ: وَلا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا سورة النساء آية 29، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا” (سنن ابوداؤد:کتاب الطہارۃ،باب اذاخاف الجنب بردا ًایتیمم حدیث نمبر٣٣٤ )
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ ذات السلاسل کی ایک ٹھنڈی رات میں مجھے احتلام ہو گیا اور مجھے یہ ڈر لگا کہ اگر میں نے غسل کر لیا تو مر جاؤں گا، چنانچہ میں نے تیمم کر کے اپنے ساتھیوں کو فجر پڑھائی، تو لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: “عمرو! تم نے جنابت کی حالت میں اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی؟”، چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل نہ کرنے کا سبب بتایا اور کہا: میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنا کہ و لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بیشک اللہ تم پر رحم کرنے والا ہے” یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور آپ نے کچھ نہیں کہا۔
لہذااگر کہیں پرایسا ہوکہ پانی کے استعمال سے جان جانے کاخطرہ ہوتوتیمم کرکے ہی نماز پڑھنی چاہئے اور اپنی جان کی حفاظت کرنی چاہئے۔
مومن کا قتل خلود فی النار کاسبب
کسی مسلمان کی جان لینا اتنا بڑاسنگین جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو خلود فی النار کاسبب بتایا ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے لئے اپنے شدید غضب اور سخت عذاب کا اعلان بھی کیا ہے۔
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّلَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(٩٣ ۔نساء)
ترجمہ: اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا جہنم ہے جس میں و ہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے اوراس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار رکھا ہے۔
اللہ کاغضب ہی انسان کی تباہی وبربادی کے لئے کافی ہے اوپر سے اللہ کی لعنت اور عذاب عظیم کی دھمکی۔ کسی کے قتل کویہ چیزیں کتنی شدید بنادیتی ہیں۔ اس لئے انسانی جان کو نقصان پہنچانے کے بارے میں کسی ایمان والے کوسوچنا بھی نہیں چاہئے۔
ان ابْنَ عَبَّاسٍ سُئِلَ عَمَّنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا ثُمَّ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى، فَقَالَ ابن عَبـَاسٍ وَأَنَّى لَهُ التَّوْبَةُ! سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:” يَجِيءُ مُتَعَلِّقًا بِالْقَاتِلِ تَشْخَبُ أَوْدَاجُهُ دَمًا فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ سَلْ هَذَا فِيمَ قَتَلَنِي” , ثُمَّ قَالَ:” وَاللَّهِ لَقَدْ أَنْزَلَهَا اللَّهُ ثُمَّ مَا نَسَخَهَا”(نسائی:کتاب تحریم الدم،باب تعظیم الدم حدیث نمبر٤٠٠٤ )
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا کیا گیا جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا، پھر توبہ کی، ایمان لایا اور نیک عمل کئے پھر راہ راست پر آ گیا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اس کی توبہ کہاں ہے؟ میں نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”وہ قاتل کو پکڑے آئے گا اور اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، تو وہ کہے گا: اے میرے رب! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟“ پھر (ابن عباس رضی اللہ عنہما نے) کہا: اللہ تعالیٰ نے اس آیت (وَمَنْ قَتَلَ مُوْئمِنًا مُتَعَمِّدًا……) کو نازل کیا اور اسے منسوخ نہیں کیا۔
قتل ناحق ایک جرم عظیم ہے جو لوگ اس کےمرتکب ہوتے ہیں دوہرے عذاب کے مستحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا آخَرَ وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِِلَّا بِالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا (٦٨ )یُضَاعَفْ لَہٗ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہِ مُہَانًا (٦٩ ) اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلٰٓئکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَّکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَحِیْمًا (٧٠ ۔فرقان)
ترجمہ: اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کردیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے، نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا۔ اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جائے گا اور وہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گا۔ سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے۔
رزق کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرو
انسانی جان کی اسی حرمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بچوں کے قتل کوبھی منع کیا۔کہ محض اس وجہ سے کہ بچے کاخرچ کہاں سے اورکیسے آئے گا اپنے بچوں کوقتل مت کرو۔زمانہ جاہلیت میں جس طرح بیٹیوں کوشرم کی وجہ سے پید اہوتے ہی قتل کر دیاجاتا تھا۔اس کوتو اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہی ہے۔ ساتھ ساتھ ایسے بچے جوابھی تک اس دنیا میں نہیں آئے اوروہ اپنی ماں کے پیٹ میں زیر تخلیق ہیں یاپرورش پارہے ہیں ان کے قتل کوبھی منع کیا او ریہ بتایا کہ تمہاری اور دنیا کے ہر رینگنے والی شئ کی روزی میرے ذمہ ہے اورمیں ہرحال میں رزق پہنچاتا ہوں۔اس لئے رزق کے حصول کے لئے تمہیں ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور ان سب کے باوجود بھی اگر کوئی اولاد کا قتل کرتاہے تو اللہ کے یہاں دردناک عذاب کے لئے تیا ررہے۔
وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَ اِیَّاکُمْ اِنَّ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا(٣١ ) وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَ سَآءَ سَبِیْلًا (٣٢ )وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ اِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْرًا(٣٣ ۔بنی اسرائیل)
ترجمہ: اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو، ان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں۔ یقیناً ان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیوں کہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے۔اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کردیا ہے ہرگز ناحق قتل نہ کرنا اور جو شخص مظلوم ہونے کی صورت میں مار ڈالا جائے ہم نے اس کے وارث کو طاقت دے رکھی ہے پس اسے چاہئے کہ مار ڈالنے میں زیادتی نہ کرے بیشک وہ مدد کیا گیا ہے۔
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اَلَّا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْءًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاوَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاھُمْ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ(١٥١ ۔انعام)
ترجمہ: آپ کہیے کہ آؤ میں تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام کر دیا ہے، وہ یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو۔ ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں اور بے حیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاؤ خواہ اعلانیہ ہوں خواہ پوشیدہ اور جس کا خون کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے اس کو قتل مت کرو، ہاں مگر حق کے ساتھ، ان کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو۔
مومن کی جان بیت اللہ سے زیادہ محترم
نبی کریم ﷺ نے مومن کی جان کو بیت اللہ سے زیادہ محترم بتایا ہے۔
عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ،قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ , وَيَقُولُ:” مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ , مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ , وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ , لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ حُرْمَةً مِنْكِ مَالِهِ وَدَمِهِ وَأَنْ , نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا”.(سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن،باب حرمۃدم المومن ومالہ۔حدیث نمبر٣٩٣٢ )
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے:”تو کتنا عمدہ ہے، تیری خوشبو کتنی اچھی ہے، تو کتنا بڑے رتبہ والا ہے اور تیری حرمت کتنی عظیم ہے، لیکن قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمدؐ کی جان ہے، مومن کی حرمت (یعنی مومن کے جان و مال کی حرمت) اللہ تعالیٰ کے نزدیک تجھ سے بھی زیادہ ہے، اس لیے ہمیں مومن کے ساتھ حسن ظن ہی رکھنا چاہئے”۔
رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع سے آپسی خون خرابہ اورقتل وقتال کی حرمت پرخاصا زور دیا۔
عن عمر بن احوص رضی اللہ عنہ ،قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ لِلنَّاسِ: ” أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟ ” قَالُوا: يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ، قَالَ: ” فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ إِلَّا عَلَى نَفْسِهِ، أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ عَلَى وَلَدِهِ، وَلَا مَوْلُودٌ عَلَى وَالِدِهِ، أَلَا وَإِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ مِنْ أَنْ يُعْبَدَ فِي بِلَادِكُمْ هَذِهِ أَبَدًا، وَلَكِنْ سَتَكُونُ لَهُ طَاعَةٌ فِيمَا تَحْتَقِرُونَ مِنْ أَعْمَالِكُمْ فَسَيَرْضَى بِهِ “(ترمذی کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ،باب ماجاء دمائکم واموالکم علیکم حرام)
عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں سے خطاب کرتے سنا: ”یہ کون سا دن ہے؟“ لوگوں نے کہا: حج اکبر کا دن ہے، آپ نے فرمایا: “تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزت و آبرو تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اس شہر میں تمہارے اس دن کی حرمت و تقدس ہے، خبردار! جرم کرنے والے کا وبال خود اسی پر ہے، خبردار! باپ کے قصور کا مواخذہ بیٹے سے اور بیٹے کے قصور کا مواخذہ باپ سے نہ ہو گا، سن لو! شیطان ہمیشہ کے لیے اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ تمہارے اس شہر میں اس کی پوجا ہو گی، البتہ ان چیزوں میں اس کی کچھ اطاعت ہو گی جن کو تم حقیر عمل سمجھتے ہو، وہ اسی سے خوش رہے گا”۔
کن لوگوں کا قتل جائز ہے
انسانی جان کی اسی حرمت کو باقی رکھتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے میدان جنگ میں بھی عورتوں اور بچوں نیز ضعفاء کوقتل کرنے سے منع کیاہے۔فقط ایسے لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت ہے جومیدان جنگ میں برسرِپیکار ہیں۔لیکن جس نے ہتھیار ڈال دیئے اور اطاعت کی تو اس کوقتل کرناحرام قرار دیاگیا ہے۔
عن مقداد بن عمرا الکندی رضی اللہ عنہ حَلِيفَ بَنِي زُهْرَةَ حَدَّثَهُ، وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:” يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَقِيتُ كَافِرًا فَاقْتَتَلْنَا، فَضَرَبَ يَدِي بِالسَّيْفِ فَقَطَعَهَا، ثُمَّ لَاذَ مِنِّي بِشَجَرَةٍ، وَقَالَ: أَسْلَمْتُ لِلَّهِ، أَأَقْتُلُهُ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَقْتُلْهُ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّهُ طَرَحَ إِحْدَى يَدَيَّ، ثُمَّ قَالَ: ذَلِكَ بَعْدَ مَا قَطَعَهَا، أَأَقْتُلُهُ؟ قَالَ: لَا تَقْتُلْهُ، فَإِنْ قَتَلْتَهُ، فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِكَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ، وَأَنْتَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ كَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ”.(بخاری۔کتاب الدیات،باب قول اللہ تعالی ومن یقتل مومنامتعمدا فجزاۂ جہنم۔حدیث نمبر٦٨٦٥ )
حضرت مقداد بن عمرو الکندی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا وہ بدر کی لڑائی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! اگر جنگ کے دوران میری کسی کافر سے مڈبھیڑ ہو جائے اور ہم ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش کرنے لگیں پھر وہ میرے ہاتھ پر اپنی تلوار مار کر اسے کاٹ دے اور اس کے بعد کسی درخت کی آڑ لے کر کہے کہ میں اللہ پر ایمان لایا تو کیا میں اسے اس کے اس اقرار کے بعد قتل کر سکتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے قتل نہ کرنا۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے تو میرا ہاتھ بھی کاٹ ڈالا اور یہ اقرار اس وقت کیا جب اسے یقین ہو گیا کہ اب میں اسے قتل ہی کر دوں گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے قتل نہ کرنا کیونکہ اگر تم نے اسے اسلام لانے کے بعد قتل کر دیا تو وہ تمہارے مرتبہ میں ہو گا جو تمہارا اسے قتل کرنے سے پہلے تھا یعنی معصوم الدم اور تم اس کے مرتبہ میں ہو گے جو اس کا اس کلمہ کے اقرار سے پہلے تھا جو اس نے اب کیا ہے۔
تین صورتیں ایسی ہی جن میں مسلمان کاخون حلال ہوتاہے۔ ایک تو وہ شخص ہے جوشادی شدہ ہونے کے باوجود زناکاارتکاب کرے۔اس شخص کورجم کرکے قتل کردیاجائے گا۔دوسرے وہ جس نے کسی مسلمان کو عمداً قتل کردیا۔ایسے شخص کوقصاصاً قتل کردیاجائے گااورتیسرا مرتد ہے جوایمان لانے کے بعد اسلام سے پھر جائے۔اس کے علاوہ باقی اور کسی صورت میں خون،خون ناحق ہی ہوگا اور اس کابدلہ جہنم کاعذاب الیم ہے۔
عن ابی امامۃ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ ان عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ فَسَمِعَهُمْ وَهُمْ يَذْكُرُونَ الْقَتْلَ، فَقَالَ: إِنَّهُمْ لَيَتَوَاعَدُونِي بِالْقَتْلِ فَلِمَ يَقْتُلُونِي وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:” لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا فِي إِحْدَى ثَلَاثٍ: رَجُلٌ زَنَى وَهُوَ مُحْصَنٌ فَرُجِمَ، أَوْ رَجُلٌ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ، أَوْ رَجُلٌ ارْتَدَّ بَعْدَ إِسْلَامِهِ”، فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا فِي إِسْلَامٍ وَلَا قَتَلْتُ نَفْسًا مُسْلِمَةً وَلَا ارْتَدَدْتُ مُنْذُ أَسْلَمْتُ. (سنن ابن ماجہ:کتاب الحدود،باب لایحل دم امریئ مسلم الا فی ثلاث حدیث نمبر٢٥٣٣ )
حضرت ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ان (بلوائیوں) کو جھانک کر دیکھا، اور انہیں اپنے قتل کی باتیں کرتے سنا تو فرمایا: “یہ لوگ مجھے قتل کی دھمکی دے رہے ہیں، آخر یہ میرا قتل کیوں کریں گے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”کسی مسلمان کا قتل تین باتوں میں سے کسی ایک کے بغیر حلال نہیں: ایک ایسا شخص جو شادی شدہ ہو اور زنا کا ارتکاب کرے، تو اسے رجم کیا جائے گا، دوسرا وہ شخص جو کسی مسلمان کو ناحق قتل کر دے، تیسرا وہ شخص جو اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے پھر جائے (مرتد ہو جائے)، اللہ کی قسم میں نے نہ کبھی جاہلیت میں زنا کیا اور نہ اسلام میں، نہ میں نے کسی مسلمان کو قتل کیااور نہ ہی اسلام لانے کے بعد ارتداد کا شکار ہوا۔
آج کل جو لوگ چلتے پھرتے بازاروں یا ہوٹلوں میں دھماکے کرتے اور معصوموں کی جان لینے کے درپہ رہتے ہیں،وہ ذرا ان احادیث اور قرآنی آیات پر غور کریں،کہ جن لوگوں کو انہوں نے دھماکے سے اڑادیاان کی کیاغلطی تھی اوراگر کسی کی غلطی تھی تو دھماکہ کرکے سزادینے کااختیار ان کو کس نے دیا؟ اور پھر ستم یہ کہ اس کو جہاد کانام دے دیا جاتاہے۔خوب جان لیں کہ اسلامی جہاد میں اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی،کہ چلتے پھرتے راہگیروں کوقتل کردیا جائے۔ اس لئے یہ جو کچھ بھی دنیامیں ہورہا ہے،اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔یہ سراسر اسلام اورمسلمانوں کونقصان پہنچانے کی ایک سوچی سمجھی تدبیر ہے۔جس کو ہتھیار بناکر مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتاہے۔