توکل
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
توکل کے معنی ہیں بھروسہ کرنا۔اور اصطلاح شرع میں توکل کے معنی ہیں اللہ پر بھروسہ کرنا۔ یعنی دنیا کی ہرحرکت کافاعل اللہ کوہی سمجھنا اور یہ سمجھنا کہ دنیا میں جوکچھ بھی ہورہا ہے وہ سب اللہ کی مرضی سے ہی ہورہاہے۔ ایک مومن کو ہر حال میں یہ مستحضر رہناچاہئے کہ جوکچھ بھی ہمیں ہوتاہو ا نظرآرہاہے اس کے پیچھے کارساز حقیقی کی مشیت کارفرماہے اس کی اجازت کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتاہے۔
توکل کامطلب
اس کائنات کواللہ تعالیٰ نے ایک مستحکم اورمضبوط نظام کے ساتھ باندھ رکھاہے ہر چیز کے اندر کچھ خاصیتیں پید ا کررکھی ہیں جب ان چیزوں کو بروئے کا رلایاجاتاہے تو ان کی مخفی صلاحیتیں نتائج کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں جیسے آگ کی خاصیت ہے جلانا اور گرمی پہنچانا،جب اس کواستعمال میں لایا جائے گا تو نتیجے کے طور پرگرمی پہونچے گی اور اس میں پڑنے والی چیز جل جائے گی یہی قدرت کانظام ہے اورہمیں ہر چیز کو فطرت کے بنائے ہوئے اصولوں کے تحت استعمال کرنے اوربرتنے کاحکم دیاگیاہے لیکن ایک مومن کی خاصیت یہ ہے کہ وہ تمام اسباب کو بروئے کار لانے کے بعد نتائج کواللہ کے اوپر چھوڑ دیتا ہے کہ میرے بس میں جوتھا وہ میں نے کر لیا اب ان اسباب سے نتائج کا پیداکرنا اللہ کا کام ہے اگر وہ چاہے گا تو ان اسباب کی خصوصیات اور صلاحتیوں کے مطابق نتائج برآمد ہوں گےاور اگر نہیں چاہے گا تو نہیں ہوں گے ا سی کانام توکل ہے۔
اسباب کواختیا ر کئے بغیر نتیجے کاانتظار کرنا توکل نہیں۔ ہاں اللہ تعالیٰ اس بات پربھی قادر ہیں کہ بغیر اسباب کے بھی نتیجہ برآمد کردیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے خصوصی اختیار ات میں سے ہے جسے وہ اپنی مرضی سے جب چاہے استعمال کرتے ہیں جیسے ہمیں اگراولاد کی خواہش ہے توفطری قوانین کے مطابق شادی کرنی ہوگی اورمجامعت وغیرہ کے مراحل سے گذرناہوگاپھراللہ تعالیٰ چاہیں تواولاد دے بھی سکتے ہیں اور محروم بھی کرسکتے ہیں لیکن ایسے شواہد موجود ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے مظاہرے بغیر اسباب کے بھی دکھائے ہیں جیسے آدم وحوا اور عیسیٰ علیہم السلام کی پیدائش۔
توکل ایمان کا لازمی حصہ
توکل درحقیقت توحید کا ایک لازمی نتیجہ ہے اس لئے کہ ایک مومن جب لاالہ الا اللہ کا اقرار کرتاہے توگویا وہ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اس دنیاکاخالق،مالک، رازق، اورہرشیئ معدوم کو عدم سے وجود دینے والی ذات ایک اللہ کی ذات اقدس ہے ا س کی اجازت و مرضی کے خلاف ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ اس لئے ایک مومن کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے ہرمعاملے میں اللہ ہی پر بھروسہ کرے اور ہر چیز کافاعل حقیقی اللہ کی ذات کو ہی سمجھے۔ اسباب وتدابیر کو ضرور برتے اور ان کو استعمال میں لائے لیکن بھروسہ ان اسباب وتدابیر کے بجائے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پر رکھے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومنین مخلصین کی یہی صفات بیان فرمائی ہیں۔باری تعالیٰ کاارشاد ہے:
اِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَاِذَاتُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیَاتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ(سورۃ الانفال، آیت، ۲)
ترجمہ: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کانام آئے توان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جائیں توان کاایمان بڑھ جائے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
اس آیت کریمہ اور اس سے اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی خاص صفات بیان فرمائی ہیں اگر ان صفات میں سے کسی بھی صفت میں کمی رہ جاتی ہے تو اس کامطلب ہے کہ ایمان میں کمی اورکھوٹ ہے ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ ایمان والو ں کے دل میں اللہ کی عظمت و کبریائی اتنی رچی بسی ہوتی ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کانام آتاہے تو ان کے دل سہم جاتے ہیں۔ یہاں ایک بات واضح رہے کہ ظاہری خوف کامطلب اطمینان کاختم ہوجانا ہے جیسے کسی کو راستے میں کسی خطرناک قسم کے موذی جانورکاخوف ہو یاکسی ظالم وجابر بادشاہ یا کسی ڈاکو لٹیرے کاخوف یہ سب اطمینان وسکون کوختم کرنے والاخوف ہے جوآدمی کے سکون واطمینان کوسلب کرلیتاہے۔ لیکن وہ خوف جس کاتعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق ہے اس خوف سے مومنین کے دل کوایک گونہ اطمینان نصیب ہوتا ہے جواس کی خاصیات میں سے ہے جیسا کہ ایک جگہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ یعنی خوشخبری سنادیجئے ان متواضع مومنین کو کہ جب ان کے سامنے اللہ کاذکر کیاجائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔
دوسری صفت یہ بیان کی گئی کہ جب ان کے اوپر اللہ کے کلام کی تلاوت کی جاتی ہے توان کاایمان بڑھ جاتاہے۔جس کو حلاوت ایمان سے تعبیر کیاگیاہے۔
اورتیسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ پربھروسہ رکھتے ہیں۔یعنی ہر سبب کو کارگر بنانے والی ذات اللہ تعالیٰ کوہی سمجھتے ہیں اوراسی کو کارساز حقیقی مانتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَْد جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا وَقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ(آل عمران۔١٧٣ )
ترجمہ: جن (مومنین) کو لوگوں نے کہا کہ لوگوں (مکہ والوں)نے تمہارے لئے جمعیت اکٹھا کررکھی ہے سو تم ان سے ڈروتو ان کا ایمان اورزیادہ ہوگیا اور انہوں نے کہا کہ اللہ ہمارے لئے کافی اوربہترین کارساز ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ مومن کے سامنے چاہے جتنا بڑا معاملہ آجائے اورچاہے وہ جس قدر پریشانیوں میں گھر جائے لیکن اس کااپنے اللہ سے رشتہ اتنا مضبوط اورمستحکم ہوتا ہے کہ وہ ہرحال میں اللہ پر ہی بھروسہ کرتاہے۔
اسباب و تدابیر توکل کے منافی نہیں
واضح رہے کہ توکل کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اسباب وآلات کوچھوڑدیاجائے بلکہ مرادیہ ہے کہ اسباب کواختیار کیاجائے لیکن بھروسہ صرف اللہ کی ذات پر ہی کیاجائے اس لئے کہ اسبا ب بھی تو اللہ کی تخلیقات میں سے ہی ہیں دنیا میں جتنے بھی اسباب پیداکئے گئے وہ سب اللہ کی نعمتیں ہیں ان کو استعمال میں لانا اوربرتنا توکل کے منافی نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کے رسول کی تعلیم ہے کہ اسباب کواختیار کرو پھر اللہ پرتوکل کرو ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ میں اونٹنیوں کوچرانے جاتا ہوں تومیں ان کونمازکے وقت کیاکروں ان کوباندھ دیا کروں یاکھلا رہنے دیا کروں اور اللہ پر توکل کروں؟ تو آپ ؐنے فرمایا کہ پہلے اس کی پنڈلی کو رسی سے باندھ دو پھر اللہ پرتوکل کرو اس سے یہ ثابت ہوا کہ توکل اختیا رکرنا اسباب کو بروئے کار لانے کے منافی نہیں ہے یااسباب کو اختیار کرناتوکل کے منافی نہیں ہے بلکہ دونوں کے درمیان ایک مضبوط رشتہ ہے پہلانمبر اسباب و تدابیر کوحاصل ہے اوردوسرا نمبر توکل علی اللہ کو۔ لیکن فضیلت دوسرے نمبر کو حاصل ہے۔
اسباب و آلات کے استعمال اور تدابیر کواختیار کرنے کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب جناب نبی کریم ﷺ کو دیا ہے میدان جنگ میں نماز پڑھنے کاطریقہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو سکھایا اور بتایا کہ جب نماز کاوقت ہوجائے تو آپ آدھی جماعت کو لے کراللہ کے سامنے نماز کے لئے کھڑے ہوجائیں اور باقی آدھے دشمن کے سامنے سینہ سپررہیں پھرجب یہ لوگ ایک رکعت نماز پڑھ لیں تو باقی آدھے لوگ آکر آپ کی امامت میں نماز پڑھ لیں واضح رہے کہ جولوگ نماز کے لئے آئیں وہ بھی خالی ہاتھ نہ رہیں بلکہ انہیں بھی ہتھیار بند رہنے کی ہدایت دی گئی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن ان کو نہتّا سمجھ کر یکبارگی حملہ کردے ارشاد باری ہے:
وَ اِذَا کُنْتَ فِیْھِمْ فَاَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَآءِفَۃٌ مِّنْھُمْ مَّعَکَ وَلْیَاْخُذُوْٓا اَسْلِحَتَھُمْ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَآءِکُمْ وَلْتَاْتِ طَآءِفَۃٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ وَلْیَاْخُذُوْا حِذْرَھُمْ وَ اَسْلِحَتَھُمْ وَدَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِکُمْ وَ اَمْتِعَتِکُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْکُمْ مَّیْلَۃً وَّاحِدَۃً وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ کَانَ بِکُمْ اَذًی مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَنْ تَضَعُوْٓا اَسْلِحَتَکُمْ وَ خُذُوْاحِذْرَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا(نساء۔١٠٢ )
ترجمہ: جب آپ ان میں موجود ہوں اور ان کو نماز میں کھڑا کریں تو چاہئے کہ ان میں سے ایک جماعت آپ کے ساتھ کھڑی ہوجائے اور اپنے ہتھیار اور بچاؤبھی ساتھ لے لیں پھر جب یہ سجدہ کرلیں تو ہٹ جائیں آپ کے پیچھے اور دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وہ آجائیں تو وہ آپ کے ساتھ نماز پڑھیں اوروہ اپنے بچاؤ اور ہتھیار ساتھ رکھیں۔ کفار یہ چاہتے ہیں کہ اگر تم اپنے سامان اورہتھیاروں سے غافل ہوجاؤ تو وہ یکبارگی تم پر حملہ کردیں اورتم پر کوئی گناہ نہیں اگر بارش سے کوئی تکلیف ہو یاتم بیمار ہو تو اپنے ہتھیار رکھ دو اوراپنے بچاؤ کا سامان ساتھ رکھو ۔ بے شک اللہ نے کافروں کے لئے ذلت آمیز عذاب تیار کررکھاہے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے صلوۃ خوف کی کیفیت بیان فرمادی ہے۔ نماز کی حالت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن اس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ نے توکل کے ساتھ اسباب و تدابیر اختیار کر نے کی تعلیم دی ہے۔ ظاہر ہے حضور پاکﷺ اور صحابۂ کرام سے زیادہ متوکل کون ہوسکتاہے۔لیکن اس کے باوجود ان کوبھی اسباب و تدابیر کے استعمال سے بری ہوکر توکل کاحکم نہیں دیاگیا ہے جس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ توکل اسباب کو اختیارکرنے کے بعد ہی ہے۔ہاں ایک مومن بندے کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ اسباب کواختیار ضرور کرتاہے لیکن بھروسہ ان اسباب کے بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر ہی کرتاہے۔
رسول اللہ ﷺ کی سنت اور آپ کی اسوہ سے یہی پتہ چلتاہے کہ ایسے حالات جہاں مکمل طور سے ظاہری اسباب نہیں پائے جاتے تو حتی الامکان جہاں تک اسباب مہیا ہوئے آپ نے ان سے کبھی اعراض نہیں فرمایا بلکہ جس حد تک آپ اسباب اختیار کرسکتے تھے آپ نے ان اسباب کوبرتا اوراختیار کیا اور اس کے بعد معاملہ اللہ کے اوپر چھوڑدیا غزوات النبی ﷺ میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں:
”آنحضرت ﷺ کے افعال سے تویہاں تک اس اعتدال کاپتہ چلتاہے کہ معجزات میں بھی جوکہ بالکل خرقِ عادت کے ظہور میں آتے ہیں (یعنی بظاہر کائناتی نظام کے خلاف ہوتے ہیں) ان میں بھی تدابیر اوراسباب کی صورت کوملحوظ رکھا گیاہے۔ چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی دعوت کاقصہ جوجنگ احزاب میں خندق کھودنے کے وقت ظہورمیں آیا اس کاشاہد ہے آنحضرت نے ان کو فرمایا تھا کہ ہانڈی چولھے پر سے مت اتارنا پھراس میں آکر آب دہن (لعاب مبارک) ملادیااوروہ چندآدمی کی خوراک لشکر کے لشکر کوکافی ہوگئی۔“(ملفوظات کمالات اشرفیہ ملفوظہ نمبر ٤٤١ ص١٠٣ )
نبی کرم ﷺ کے معجزات کامطالعہ کریں تو پتہ چلتاہے کہ آپ ؐ نے معجزات کے ظہور میں بھی ظاہری اسباب کوترک نہیں فرمایا۔ذیل کی حدیث ملاحظہ کریں۔
عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ أَنَّهُ قَالَ: ” رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَانَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ، فَالْتَمَسَ النَّاسُ الْوَضُوءَ، فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَضُوءٍ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ الْإِنَاءِ يَدَهُ، وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَتَوَضَّئُوا مِنْهُ، قَالَ: فَرَأَيْتُ الْمَاءَ يَنْبُعُ مِنْ تَحْتِ أَصَابِعِهِ، فَتَوَضَّأَ النَّاسُ حَتَّى تَوَضَّئُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ “(مسلم کتاب الفضائل،باب فی معجزات النبی ﷺ حدیث نمبر٥٩٤٢ )
حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کواس حالت میں دیکھاکہ عصر کاوقت آگیا تھا اورلوگوں نے وضو کے لئے پانی تلاش کیا لیکن پانی نہیں ملا،پھر تھوڑا سا وضو کاپانی آنحضرت ﷺ کے لئے لایا گیا۔ آپؐ نے اس برتن میں اپنادست مبارک رکھ دیا اورصحابہ کرام کو اس سے وضو کرنے کاحکم فرمایا۔،حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھاکہ پانی آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹ رہا ہے پھر سب نے وضو کیا حتی کہ سب سے آخری شخص نے بھی وضو کیا۔
اس سے پہلے حضرت جابرؓ کی دعوت کا واقعہ معلوم ہوچکاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہانڈی چولھے سے مت اتارنا اورپھر صحابہ کرام کوآپ نے کھانے کے لئے کہا اورتمام موجود صحابہ کرام نے شکم سیر ہوکر کھا یااورکھانا جتناپہلے تھا اتناہی رہا۔معجزہ کے طور پر اگر حضور پاک ﷺ چاہتے تو اللہ سے دعاکرتے اور آسمان سے کھانا منگوالیتے جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے مائدہ نازل کیاگیا۔ لیکن آپؐ نے ایسانہیں کیا بلکہ چولھے پر ہانڈی چڑھارہنے کا حکم دے کر اسباب کواختیار فرمایا اور پھر اس میں برکت کی دعافرمائی۔دوسرا واقعہ جوحضرت انسؓ نے بیان فرمایا اس میں بھی اگر آپ ﷺ چاہتے تو ویسے ہی انگلیوں سے پانی جاری کرنے کی دعا کر دیتے اور اللہ تعالیٰ ویسے ہی پانی جاری فرمادیتے لیکن آپؐ کے سامنے جب تھوڑا ساپانی لایاگیا تب آپ نے اس میں اپنا دست مبارک ڈال کر دعافرمائی اورآپ کی انگلیوں سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑے یہ سب امت کی تعلیم کے لئے ہے کہ اسباب کو اختیار کر کے اللہ تعالیٰ پر توکل کرناچاہئے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی پوری زندگی آپؐ کی ہدایات، سنت اور آپؐ کے اسوہ کو اپنایا اوراسی کے مطابق اپنی زندگی گزاری اسباب و تدابیر کو بھی اختیار کیا، اللہ پر توکل بھی کیا، مثبت اور منفی دونوں حالات میں کبھی بھی سنت کونہیں چھوڑا۔خلیفہ دوم حضرت عمرفاروقؓ نے 18ھ میں اپنی رعایا کاحال معلوم کرنے کے لئے ملک شام کا سفر کیا۔ دورانِ سفر ایک واقعہ کاذکر حضرت عبد اللہ ابن عباس نے یوں کیاہے :
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَرَجَ إِلَى الشَّامِ حَتَّى إِذَا كَانَ بِسَرْغَ لَقِيَهُ أُمَرَاءُ الْأَجْنَادِ، أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، وَأَصْحَابُهُ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ الْوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِأَرْضِ الشَّأْمِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقَالَ عُمَرُ: ادْعُ لِي الْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ، فَدَعَاهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ، وَأَخْبَرَهُمْ أَنَّ الْوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّأْمِ، فَاخْتَلَفُوا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: قَدْ خَرَجْتَ لِأَمْرٍ وَلَا نَرَى أَنْ تَرْجِعَ عَنْهُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: مَعَكَ بَقِيَّةُ النَّاسِ وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا نَرَى أَنْ تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الْوَبَاءِ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ: ادْعُوا لِي الْأَنْصَارَ فَدَعَوْتُهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ، فَسَلَكُوا سَبِيلَ الْمُهَاجِرِينَ، وَاخْتَلَفُوا كَاخْتِلَافِهِمْ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ: ادْعُ لِي مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ مَشْيَخَةِ قُرَيْشٍ مِنْ مُهَاجِرَةِ الْفَتْحِ، فَدَعَوْتُهُمْ فَلَمْ يَخْتَلِفْ مِنْهُمْ عَلَيْهِ رَجُلَانِ، فَقَالُوا: نَرَى أَنْ تَرْجِعَ بِالنَّاسِ وَلَا تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الْوَبَاءِ، فَنَادَى عُمَرُ فِي النَّاسِ، إِنِّي مُصَبِّحٌ عَلَى ظَهْرٍ فَأَصْبِحُوا عَلَيْهِ، قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ: أَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللَّهِ! فَقَالَ عُمَرُ: لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ: نَعَمْ، نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ إِلَى قَدَرِ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ لَكَ إِبِلٌ هَبَطَتْ وَادِيًا لَهُ عُدْوَتَانِ إِحْدَاهُمَا خَصِبَةٌ وَالْأُخْرَى جَدْبَةٌ، أَلَيْسَ إِنْ رَعَيْتَ الْخَصْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ وَإِنْ رَعَيْتَ الْجَدْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ، قَالَ: فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَكَانَ مُتَغَيِّبًا فِي بَعْضِ حَاجَتِهِ، فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِي فِي هَذَا عِلْمًا: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ، قَالَ: فَحَمِدَ اللَّهَ عُمَرُ، ثُمَّ انْصَرَفَ. (بخاری کتاب الطب، باب مایذکر فی الطاعون۔ حدیث نمبر٥٧٢٩ )
حضرت عمرؓ شام کے ملک کو روانہ ہوئے جب سرغ میں پہنچے تولشکر کے سردار حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ اوران کے رفقاء ملے انہوں نے کہا شام کے ملک میں وبا شروع ہوگئی ہے۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے یہ سن کر مجھ سے کہا اگلے اگلے مہاجرین کوبلالے،میں نے بلالیا حضرت عمر ؓ نے ان سے مشورہ کیا۔ان سے بیان کیا کہ وہاں طاعون شروع ہوگیاہے انہوں نے اختلاف کیا کوئی کہنے لگا ہم ایک ارادے سے نکلے ہیں اب طاعون سے ڈر کر ہم کولوٹنا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔کسی نے کہا آپ کے ساتھ وہ بڑے بڑے صحابہ کرام ہیں جوباقی رہ گئے ہیں ہم مناسب نہیں جانتے کہ آپ ان کووبائی ملک میں لے جائیں۔حضرت عمر ؓ نے کہااچھااب تم جاؤ میں نے تمہاری رائے سن لی پھرمجھ سے کہااچھا اب انصارکو بلا۔ میں نے ان کوبلایا حضرت عمرؓ نے ان سے بھی مشورہ لیا انہوں نے بھی مہاجرین کی طرح اختلاف کیا کوئی کہنے لگا، چلو کوئی کہنے لگا لوٹ جاؤ،حضرت عمرؓ نے ان سے بھی کہا جاؤ۔ پھرکہا کہ یہاں قریش کے کچھ بوڑھے لو گ ہوں توان کوبلالے یعنی ان مہاجرین میں سے جنہوں نے مکہ فتح سے پہلے ہجرت کی تھی میں ان کو بلایاانہوں نے متفق اللفظ یہ رائے دی کہ آپ کالوٹ جانا مناسب ہے ا وروبائی ملک میں لوگوں کولے جاکر ڈالنا ہرگز مناسب نہیں۔یہ سنتے ہی حضرت عمرؓ نے منادی کردی کہ میں صبح کواونٹ پر سوار ہوکر مدینہ کی طرف مراجعت کروں گا صبح کو ایساہی ہو احضرت عمرؓ مع ساتھیوں کے مدینہ کی طرف لوٹ کر چلے۔ ابوعبیدہ بن جراح کہنے لگے۔ کیااللہ کی تقدیرسے بھاگتے ہو؟ حضرت عمرؓ نے کہااگریہ کلمہ اورکوئی کہتا تومیں اس کوسزادیتا البتہ ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف ہی بھاگتے ہیں۔ابو عبیدہ یہ تو بتلا اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اورتم ایک کنارے میں پہنچو جس کے دوکناروں میں ایک کنارہ تو سرسبز ہو اورایک سوکھا،اور تم سرسبز کنارہ میں اونٹ چَراؤ تو یہ اللہ کی تقدیر سے ہوگا اور اگر سوکھے کنارے پر چراؤ تویہ بھی تقدیر سے ہوگا۔ابن عباسؓ نے کہاحضرت عبد الرحمن بن عوف آئے وہ ان مشوروں میں شریک نہیں ہوئے تھے کہیں کام کاج کے لئے گئے ہوئے تھے انہوں نے یہ سب باتیں سن کرکہا میرے پا س اس مسئلہ میں دلیل موجود ہے۔ میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا کہ آپ فرماتے تھے جب تم سنو کسی ملک میں وباپھیلی ہے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر اس ملک میں پھیلے جہاں تم ہو تو بھاگ کر وہاں سے نہ نکلو۔یہ سن کر حضرت عمرؓ اللہ کاشکربجا لائے کہ ان کی رائے حدیث کے موافق ہوئی اورمدینہ کی طرف لوٹ گئے۔
کسی کو بیماری میں مبتلا کرنا اور کسی کوبیماری سے بچا دینا یہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہوتاہے۔کسی بیمار کے ساتھ رہنے،ا س کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے بیماری نہیں پکڑتی اسی لئے اسلام میں بیمار کی تیمارداری اوراس کی عیادت کو باعث ثواب اور ایک مسلم پر دوسرے مسلم کاحق بتایاگیاہے۔ یہاں پر جونبی کریم ﷺ کاحکم ہے کہ جہاں وباپھیل جائے وہاں نہ جاؤ اوراگرجہاں تم موجود ہو اور وہاں وباپھیل جائے تووہاں سے نہ بھاگو ا س کی وجہ یہ ہے کہ جو کچھ ہوناہے وہ تواللہ کی طرف سے ضرور ہوگا لیکن ہلاکت کے ظاہری اسباب سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے اور حضرت عمر فاروقؓ نے صحابہ کرام کی رائے کے بعد یہی صورت اختیار کی کہ شام کی طرف نہ جاکر مدینہ کی طرف مراجعت فرمائی۔
ہاں بعض اوقات ایسے حالات بھی پیداہوجاتے ہیں کہ نگاہ اسباب وتدابیر سے ہٹ کر خالص حق جل مجدہ کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے اوریہ درجہ مقربین خاص کاہے۔کیوں کہ کارسازحقیقی وہی ایک ذات ہے اس کے علاوہ کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةً قِبَلَ نَجْدٍ، فَأَدْرَكَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَادٍ كَثِيرِ الْعِضَاهِ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ شَجَرَةٍ، فَعَلَّقَ سَيْفَهُ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا، قَالَ: وَتَفَرَّقَ النَّاسُ فِي الْوَادِي يَسْتَظِلُّونَ بِالشَّجَرِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ رَجُلًا أَتَانِي وَأَنَا نَائِمٌ، فَأَخَذَ السَّيْفَ فَاسْتَيْقَظْتُ، وَهُوَ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِي فَلَمْ أَشْعُرْ إِلَّا وَالسَّيْفُ صَلْتًا فِي يَدِهِ، فَقَالَ لِي: مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ قَالَ، قُلْتُ: اللَّهُ، ثُمَّ قَالَ فِي الثَّانِيَةِ: مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ قَالَ، قُلْتُ: اللَّهُ، قَالَ: فَشَامَ السَّيْفَ فَهَا هُوَ ذَا جَالِسٌ، ثُمَّ لَمْ يَعْرِضْ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “(مسلم کتاب الفضائل باب توکّلہ علی اللہ تعالیٰ۔ حدیث نمبر٥٩٥٠ )
ہم نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ نجد کی طرف ایک غزوہ کیا توہم نے رسول اللہ ﷺ کو ایک وادی میں پایا جہاں کانٹے دار درخت بہت تھے۔ آنحضرت ﷺ ایک درخت کے نیچے اترے اوراپنی تلوار ایک شاخ سے لٹکادی اورصحابہ کرام اس وادی میں درختوں کے سایہ میں متفرق ہوگئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں سورہاتھا تو ایک شخص میرے پاس آیااور اس نے تلوار اتارلی،میں بیدار ہوا تو وہ میرے سر پرکھڑ اتھا،مجھے اس وقت احساس ہوا جبکہ ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں آگئی تھی تو اس نے کہااب تمہیں مجھ سے کون بچا سکتاہے آپ نے فرمایا کہ میں نے کہااللہ،اس نے پھر دوبارہ کہا کہ اب آپؐ کومجھ سے کون بچاسکتاہے؟ میں نے کہا اللہ،یہ سن کر اس نے تلوار نیام میں کرلی اوروہ شخص یہ بیٹھا ہے، پھرآنحضرت ﷺ نے اس سے کچھ تعرض نہیں کیا۔
غور فرمائیں نبی کریم ﷺ ایک درخت کے نیچے آرام فرمارہے ہیں ایسی حالت میں ایک شخص آپؐ کی تلوار پر قبضہ کرلیتاہے اور تلوار سونت کر آپ کے سرپرسوارہوجاتاہے۔ جب آپ بیدار ہوتے ہیں تو سوال کرتاہے کہ آپ کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ یہاں پر آپ ؐ اس سے یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ میرے ساتھ صحابہ کرام کی بڑی جماعت ہے وہ تمہاراتکہ بوٹی کردیں گے یاآپ صحابہ کرام کوآواز بھی دے سکتے تھے جوہر وقت آپ پر جان نچھاور کرنے کے لئے تیار رہا کرتے تھے،لیکن اس میں یہ خطرہ تھاکہ کہیں وہ شخص اچانک حملہ نہ کربیٹھے تویہاں پر آپؐ نے سارے سہاروں کوچھوڑ کر صرف اصلی سہار اللہ کاہی نام لیا کہ ایسی حالت میں اللہ ہی مجھے بچا سکتاہے اورہوابھی ایساہی کہ اس شخص پر ہیبت طاری ہوگئی اوراس نے تلوار نیام میں کرلی۔یہ بھی امت کے لئے تعلیم ہے کہ جب اسباب وتدابیر کہیں نظرنہ آئیں تو اس وقت کارساز حقیقی کی طرف رجوع کرناچاہئے اور توکل علی اللہ کا دامن مضبوطی سے تھام لیناچاہئے۔