رسالت
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اقرار کے بعد دوسرا بنیادی عقیدہ اللہ کے بھیجے ہوئے انبیاء ورسل پرایمان لانا ہے۔ یہ وہ برگزیدہ ہستیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے موقع بہ موقع انسانیت کی بھلائی کے لئے اس دنیامیں مبعوث فرمایا۔ یہ انبیاء و رسل پورے اخلاص اورجذبۂ شفقت وترحم کے ساتھ قوم کی بھلائی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے، اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر لوگوں کوسناتے رہے، راہ حق سے بھٹکے ہوئے لوگوں کوسیدھی راہ دکھاتے رہے، نیک لوگوں کوجنت کی بشارت اوربرے لوگوں کو جہنم کے دردناک عذاب سے ڈراتے رہے۔ اگرچہ اس راہ میں انہیں بہت ساری رکاوٹوں کابھی سامنا کرنا پڑا،ان کی قوموں نے انہیں طرح طرح سے ستایا،لیکن ان میں سے کسی نے بھی اپنی قوم سے بدلہ نہیں لیا بلکہ برابر انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے رہے۔
انبیاء کرام تمام کے تمام انسان تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں انسانوں کی بھلائی اوران کی رہنمائی کے لئے بھیجاتھا۔تمام انبیاء و رسل معصوم تھے۔ برائی کاادنیٰ شائبہ بھی ان کی زندگیوں میں نہیں تھا۔
نبی ا ورسول میں فرق
نبی نباء سے مشتق ہے جس کے معنی خبرکے ہیں، نبی کے معنی خبر دینے والے کے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہوتے ہیں اور اللہ کی باتیں جن کاادراک عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے،وہ لوگوں کوبتاتے اور خبر دار کرتے ہیں اس لئے انہیں نبی کہاجاتاہے۔
رسول رسالت سے مشتق ہے جس کے معنی پہنچانے کے ہیں رسول کے معنی پہنچانے والے، پیغامبر اور قاصد کے ہیں چونکہ رسول،اللہ کے حکم کواس کے بندوں تک پہنچانے کاذریعہ بنتے ہیں اس لئے انہیں رسول کہاجاتاہے۔معنوی اعتبار سے نبی اور رسول میں کوئی فرق نہیں ہے اس لئے کہ دونوں اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان ایک واسطہ ہوتے ہیں اوربندوں کاتعلق اللہ سے جوڑنے کاکام کرتے ہیں۔ لیکن اصطلاحی اعتبار سے اہل علم نے ان دنوں میں فرق بتایا ہے۔ عقائدکی مشہو رکتاب شرح عقائد نسفی میں نبی اور رسول کی تعریف اس طرح ہے:
نبی: اِنْسَانٌ بَعَثَہُ اللّٰہُ اِلَی النَّاسِ لِتَبْلِیْغِ الْاَحْکَامِ وَلِتَعْلِیْمِ الشَّرِیْعَۃِ۔نبی ایسے انسان ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی طرف تبلیغ احکام اور تعلیم شریعت کے لئے مبعوث فرمایا۔
رسول: اِنْسَانٌ بَعَثَہُ اللّٰہُ اِلَی النَّاسِ لِتَعْلِیْمِ الشَّرَاءِعِ وَمَعَہُ دِیْنٌ مُتَجَدِّدٌوَّکِتَابٌ مُّتَجَدِّدٌ۔ رسول ایسے انسان ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی طرف شریعت کی تعلیم کے لئے مبعوث فرمایا اور ان کے ساتھ نئی شریعت اورنئی کتاب بھی ہو۔
لیکن قرآن کریم اوراحادیث کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ رسول کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کے پاس نئی شریعت یا نئی کتاب بھی ہو۔ اس لئے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو رسول کہاہے حالانکہ آپؑ پرکوئی نئی کتاب نازل نہیں کی گئی اور نہ ہی نئی شریعت دی گئی۔ سورہ مریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا۔(مریم۔٥٤ )کتاب میں اسماعیل (علیہ السلام) کاذکر کیجئے بے شک وہ وعدہ کے سچے تھے اور نبی و رسول تھے۔
حضرت تھانویؒ کی تحقیق
اس معاملہ میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تحقیق زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے جو بیان القرآن میں مذکورہ بالا آیت کے ذیل میں درج ہے۔
”رسول او رنبی کی تفسیر میں اقوال متعدد ہیں تتبعِ آیات مختلفہ سے جوبات احقر کے نزدیک محقق ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ان دونوں کے مفہوم میں عموم خصوص من وجہٍ ہے۔ رسول وہ ہے جو مخاطبین کو شریعت جدیدہ پہنچادے خواہ وہ شریعت اس رسول کے اعتبار سے جدیدہ ہو جیسے تورات وغیرہ یاصرف مرسل الیھم کے اعتبار سے جدیدہ ہو جیسے اسماعیل علیہ السلام کی شریعت کہ وہی شریعت ابراہیمیہ تھی لیکن قوم جرہم کو اس کاعلم حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی سے حاصل ہو ااور خواہ وہ رسول نبی ہو یا نہ ہو جیسے ملائکہ کہ ان پررسل کااطلاق کیا گیاہے اور وہ انبیاء نہیں ہیں یا جیسے انبیا کے فرستادے اصحاب جیسا سورہ یسین میں ہے اِذْجَاءَ ھَا الْمُرْسَلُوْنَ (یس۔13)اور نبی وہ ہے جو صاحب وحی ہوخواہ شریعت جدیدہ کی تبلیغ کرے یا شریعت قدیمہ کی جیسے اکثر انبیائے بنی اسرائیل کہ شریعت موسویہ کی تبلیغ کرتے تھے۔ پس من وجہٍ وہ عام ہے من وجہٍ یہ عام ہے۔ پس جن آیتوں میں دونوں مجتمع ہیں اس میں تو کوئی اشکال نہیں کہ عام وخاص کاجمع ہونا صحیح ہے اور جس موقع پردونوں میں تقابل ہو ا ہے جیسے وَمَااَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُوْلٍ وَّلَانَبِیٍّ (الحج۔٥٢ ) چونکہ عام وخاص مقابل ہوتے نہیں اس لئے وہاں نبی کو عام نہ لیں گے بلکہ مبلغ شریعت کے ساتھ خاص کر لیں گے۔ پس معنی یہ ہوں گے مَااَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ صَاحِبِ شَرْعٍ جَدِیْدٍ وَلَاصَاحِبِ شَرْعِ غَیْرِ جَدِیْدٍلیکن چونکہ اب متبادر لفظ رسول سے صاحب نبوت ہوتاہے اس لئے غیر نبی پر اطلاق اس کا بوجہ ابہام درست نہیں۔جیسے اس وقت بعض اہل زیغ اپنے لئے وحی اور رسالت بلکہ نبوت کے اطلاق کو جائز رکھتے ہیں اور تفسیر بھی ان الفاط کی بدل ڈالی۔ نعوذ باللہ۔“(تفسیربیان القرآن۔ج۲ ص۔٤٤٨ )
رسولوں پر ایمان لانے کا مطلب
رسولوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کی تصدیق کریں کہ تمام کے تمام انبیاء و رسل معصوم تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں انسانیت کی فلاح وبہبود کے لئے منتخب فرمایا۔انہوں نے پوری امانت داری کے ساتھ اللہ کا پیغام انسانوں تک پہنچایا اور اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی۔ نبیوں میں سب سے اول حضرت آدم علیہ السلام اورآخری نبی حضر ت محمد مصطفی ﷺ ہیں۔آپؐ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا اورآپؐ کے بعد کوئی نبی پیدانہیں ہوگا۔آپؐ قیامت تک آنے والی تمام نسلوں کے لئے نبی بناکربھیجے گئے۔ آپؐ کی رسالت انسانوں اورجنوں سب کے لئے عام ہے۔ اسی لئے کلمۂ طیبہ جس کے اقرارکے بغیرکوئی بھی مومن نہیں ہوسکتا۔اس میں لاالہ الااللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ ایک جزو لاینفک بن گیاہے ایک مومن جب اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کااقرار کرکے اس کی شہادت دیتاہے توساتھ ہی ساتھ اس کے نبی محمد رسول للہ ﷺ کی نبوت ورسالت کااقرار کرکے اس کی شہادت بھی دیتاہے کہ آپؐ اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جگہ جگہ ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالرسل کی تاکیدبھی فرمایا ہے۔ ارشاد ہے:آمِنُوْ ابِاللّٰہِ وَرَسُولِہٖ(الحدید۔٧ )ایمان لاؤ اللہ کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ۔اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے او پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اپنے رسول پربھی ایمان لانے کی تاکید فرمائی ہے۔دوسری جگہ ارشاد ہے :
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ لَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ اُولٰٓءِکَ سَوْفَ یُؤْتِیْھِِمْ اُجُوْرَھُمْ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (نساء ۔١٥٢ )
ترجمہ: جولوگ ایمان لائے اللہ پر اور اس کے تمام رسولوں پر اوران میں سے کسی میں کوئی فرق نہیں کیا یہی وہ لوگ ہیں جن کوعنقریب ان کااجردیاجائے گا اور اللہ تعالیٰ نہایت مہربان اورمغفرت کرنے والا ہے۔
اٰمَنَ الرَّسُولُ بِمَآ اُنزِلَ اِلَیہِ مِن رَّبِّہٖ وَ المُؤمِنُونَ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہ وَ مَلٰٓءِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ لَا نُفَرِّقُ بَینَ اَحَدٍ مِّن رُّسُلِہٖ وَ قَالُوا سَمِعنَا وَ اَطَعنَا غُفرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیکَ المَصِیرُ(البقرہ۔٢٨٥ )
ترجمہ: رسول اُس پرایمان لائے جو اُن پر اتاری گئی ان کے رب کی طرف سے اورسارے مومنین ایمان لائے ہیں۔ ہرایک ایمان لایااللہ کے ساتھ اوراس کے فرشتوں اوراس کی کتابوں اوراس کے رسولوں کے ساتھ ہم ان رسولوں میں سے کسی میں کوئی فرق نہیں کرتے اور انہوں نے کہا ہم نے سنااور اطاعت کی اورہم تیری بخشش کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔
نیز اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓءِکَۃِ وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآءِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ(البقرۃ ١٧٧ )
ترجمہ: نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنے چہروں کومشرق یا مغرب کی طرف پھیر لو لیکن نیکی یہ ہے کہ جو اللہ پرایمان لایااورآخرت، ملائکہ، کتاب، اور نبیوں پرایمان لایا اور اپنی محبت کے باجود اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں مسافروں،سائلوں اورگردن کوچھڑانے میں خرچ کیا اورنماز قائم کیا اورزکوۃ اد اکیا اور اپنے وعدوں کوپوراکرنے والے جب وہ وعدہ کریں اورتنگی میں اور بیماری میں اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے ہیں وہی لوگ سچے ہیں اور وہی پرہیز گارہیں۔
ا س آیت کریمہ کی تفسیرکرتے ہوئے تفسیر مظہری میں لکھاہے: ”ہمیں چاہئے کہ ہم اس کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان تفریق نہ کریں۔ ان میں سے سب سے اول حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور سب سے آخری اورافضل رسول ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔انبیا ء کے ساتھ ایمان لانے میں تعداد کی تعیین جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا”مِنْھُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَمِنْھُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ (ان میں سے بعض کاذکرہم نے تمہارے سامنے کیا اور بعض کوتم پربیان نہیں کیا) اور جوتعداد بعض احادیثِ اَحادمیں موجود ہے وہ قطعیت کافائدہ نہیں دیتی اورایمان کا دارومداد دلائل قطعیہ پرہے۔تمام کے تمام انبیاء صغیرہ اورکبیرہ گناہوں سے معصوم ہیں۔ان میں سے بعض بعض کی تصدیق کرتے ہیں اورایمانیات میں ان کے مابین کوئی اختلاف نہیں۔البتہ فروعِ اعمال میں اختلاف ہے اوراس کی علت احکام میں نسخ کا جاری ہوناہے……“ (تفسیر مظہری)
نبی کریم ؐ نے بھی اپنے ارشادات میں بار بار اس پر توجہ دلائی ہے کہ اللہ پرایمان لانے کے ساتھ ساتھ اس کے نبیوں اوررسولوں پرایمان لاناضروری ہے۔حدیث جبریل میں مذکور ہے۔ قَالَ فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الِایْمَانِ قَالَ: اَنْ تُوْئمِنَ بِاللّٰہِ،وَمَلَاءِکَتِہٖ ،وَکُتُبِہٖ، وَرُسُلِہٖ،وَالْیَوْمِ الْاٰخِر، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَِشَرِّہٖ(جبریلؑ نے) کہا مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ نے فرمایا کہ تم ایمان لاؤ اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پراورتقدیر کے خیر وشر پر۔
ان تمام آیات واحادیث کی روشنی میں یہ ثابت ہوتاہے کہ اللہ پرایمان لانے کے ساتھ ساتھ رسولوں کی تصدیق نہایت ضروری ہے اورہم جس نبدۂ رحمتؐ کی امت میں ہیں ان کی صداقت پریقین کامل ہو نا ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ اس لئے کہ آپ نے جوکچھ بھی کہاوہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ اِنْ ھُوَ اِلَّاوَحْیٌ یُّوْحی آپ جوکچھ بولتے ہیں اپنی طرف سے نہیں بلکہ وہ وحی ہوتی ہے نیز اللہ تبارک و تعالیٰ کاارشاد ہے مَااٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَانَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا رسول ؐ جوتمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ یعنی اللہ کے رسول ؐ نے ہمیں جس چیز کوکرنے کاحکم دیاہے ا س کوکریں۔اس لئے کہ آپؐ کا حکم بعینہٖ حکمِ الہی ہے اورجس چیزسے منع کردیں اس سے رک جائیں اس لئے کہ یہی منشا ئے الہی ہے۔اس لیے ایک مومن کے لئے نبیؐ کی اطاعت ہر حال میں فرض ہے۔
عَن اِبن عمر رضی اللہ عنہ ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ، إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ” ( بخاری کتاب الایمان باب فان تابوا واقامو الصلوۃ فخلو ا سبیلھم حدیث نمبر۔٢٥ )
حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے حکم دیاگیاہے کہ لوگوں سے قتال کروں یہاں تک وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورمحمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اورنماز قائم کریں اور زکوۃ دیں پھرجب وہ یہ کرچکیں توان کاخون اوران کامال مجھ سے محفوظ ہوگیا مگر اسلام کے حق سے اوران کاحساب اللہ کے اوپرہے۔
نبیؐ کے فیصلے کو دل وجان سے تسلیم کرنا
چاہے ہماری طبیعت مانے یا نہ مانے نبیؐ کے حکم کے سامنے سرِاطاعت جھکادیناہی ایمان کا تقاضا اورایک مومن کا طرہئ امتیازہے اس لئے کہ نبی کریم ﷺ کی اطاعت بعینہٖ اللہ جل جلالہٗ کی اطاعت ہے۔نبی کریمﷺ کی زبانی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اعلان فرمادیاہے قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ آپ کہہ دیجئے کہ اگرتم اللہ سے محبت کرتے ہوتومیری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔اس لئے نبیؐ کی اطاعت میں اگر ہمیں اپنی جان اپنامال یہاں تک کہ آل و اولاد بھی قربان کرنے کی نوبت آجائے تو ذرا بھی جھجک پیدانہیں ہونی چاہئے۔نبی ؐ کے حکم کے سامنے سرِ اطاعت خم کردیناچاہئے۔کسی بھی معاملے میں جب نبی کریم ﷺ کافیصلہ سامنے آجائے تو اس پر عمل کرنا ایمان کالازمی حصہ ہے۔جب تک آپ ؐ کے فیصلے کو دل وجان سے تسلیم نہ کرلیں ایمان کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ باری تعالیٰ کاارشاد ہے:
فَلَاوَرَبِّکَ لَایُوْئمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُواتَسْلِیْمًا(٦٥ ۔ نساء)
ترجمہ: آپ کے رب کی قسم ہے کہ وہ لوگ مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ اپنے جھگڑوں میں آپ کوحَکَم(فیصل) نہ مانیں پھرآپ کے فیصلہ سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور بلا چوں وچراقبول نہ کرلیں۔
نبی کریم ﷺ کے فیصلے کے بعد امت میں سے کسی بھی فرد کے لئے اس کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی کہ وہ آپ ؐ کے فیصلے کو نہ مانے اور اپنا اختیار استعمال کرے اور اگر کسی نے انحراف کرنے کی جرات کی تو وہ سراسر گمراہی میں جاپڑے گا۔سورہ احزاب میں اللہ تعالی کاارشادہے:
مَاکَا نَ لِمُوْمِنٍ وَلَا مُوْئمِنَۃٍ اِذَاقَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَمْراً اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَمَنْ یَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلّ ضَلَالًا مُّبِیْنًا(احزاب۔٣٦ )
ترجمہ: کسی مومن مرد وعورت کے لئے اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول کافیصلہ آجانے کے بعد اپنااختیاراستعمال کرے اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔
صحابۂ کرام کاکمال اتباع
صحابۂ کرام ؓ نے اپنا سب کچھ نبیؐ کے حکم کے سامنے قربان کردیا ضرورت پڑی تومال کانذرانہ پیش کیا،ضرورت پڑی تو اپنی جان بھی پیش کردی،گھربار، دھن دولت سب کچھ قربان کرکے رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کاخطاب بارگاہ الہی سے حاصل کرلیا۔
رسول اللہ ﷺ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کاپیغام لے کر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پا س گئے۔ انہوں نے کہا ”میں اس سے نکاح نہیں کروں گی۔ آپؐ نے فرمایا! ایسانہ کہو اوران سے نکاح کرلو۔حضرت زینبؓ نے جواب دیاکہ اچھاپھرکچھ مہلت دیجئے۔ میں سوچ لوں۔ ابھی یہ باتیں ہورہی تھی کہ وحی نازل ہوئی اوریہ مذکورہ بالاآیت اتری۔ اسے سن کرحضرت زینبؓ نے فرمایا یارسول اللہ! کیاآپ ا س نکاح سے رضامند ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ تو حضرت زینبؓ نے جواب دیاکہ بس پھرمجھے کوئی انکار نہیں میں،اللہ کے رسول کی نافرمانی نہیں کروں گی۔ میں نے اپنانفس اس کے نکاح میں دے دیا۔(تفسیر ابن کثیر تفسیر آیت 36سورہ احزاب)
مسند احمد میں ہے کہ ایک انصاری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی لڑکی کا نکاح جلیبیب رضی اللہ عنہ سے کر دو۔ انہوں نے جواب دیا کہ اچھی بات ہے۔ میں اس کی ماں سے بھی مشورہ کر لوں۔ جا کر ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا، ہم نے فلاں فلاں ان سے بڑے بڑے آدمیوں کے پیغام کو رد کر دیا اور اب جلیبیب رضی اللہ عنہ سے نکاح کر دیں۔ انصاری اپنی بیوی کا یہ جواب سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جانا ہی چاہتے تھے کہ لڑکی جو پردے کے پیچھے سے یہ تمام گفتگو سن رہی تھی بول پڑی کہ ”تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کورد کرتے ہو؟ جب حضور اس سے خوش ہیں تو تمہیں انکار نہ کرنا چاہیے۔“ اب دونوں نے کہا کہ بچی ٹھیک کہہ رہی ہے۔ بیچ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس نکاح سے انکار کرنا گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام اور خواہش کو رد کرنا ہے، یہ ٹھیک نہیں۔
چنانچہ انصاری سیدھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ”کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے خوش ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں میں تو اس سے رضامند ہوں۔ کہا ”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکاح کر دیجئے“، چنانچہ نکاح ہو گیا۔ ایک مرتبہ اہل اسلام مدینہ والے دشمنوں کے مقابلے کے لیے نکلے، لڑائی ہوئی جس میں جلیبیب رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے انہوں نے بھی بہت سے کافروں کو قتل کیا تھا جن کی لاشیں ان کے آس پاس پڑی ہوئی تھیں۔ انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ”میں نے خود دیکھا ان کا گھر بڑا آسودہ حال تھا۔ تمام مدینے میں ان سے زیادہ خرچیلا کوئی نہ تھا“۔ (تفسیر ابن کثیر تفسیر آیت 36 سورہ احزاب)
ایک صحابیِ رسول کے کمال اتباع اور ادب کوامام ابوداؤ نے بیان فرمایا ہے۔ حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ باہر تشریف لے گئے تو راستے میں ایک بلند قبہ بناہو ا دیکھا تو صحابۂ کرامؓ سے پوچھاکہ یہ کیا ہے؟ صحابۂ کرام نے بتایاکہ یہ قبہ فلاں انصاری کاہے حضورؐیہ سن کر خاموش ہوگئے،پھروہ انصاری صحابی جن کاوہ مکان تھا،خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور سلام عرض کیاآپ نے منہ پھیرلیا اور کئی دفعہ ایساہی کیا،اس سے وہ صحابی سمجھ گئے کہ آپؐ ناراض ہیں،توصحابہ کرام سے معاملہ پوچھا،صحابہ نے بتایاکہ حضورؐ نے تمہاراقبہ دیکھاتھا۔یہ سن کرصحابی نے سمجھاکہ شاید اسی قبہ کے بنانے سے ناراض ہیں، وہ واپس گئے اور اپنامکان منہدم کرکے زمین کے برابر کردیا۔پھرکسی وقت اللہ کے نبی اس طرف سے گزرے اوراس قبہ کونہ پاکر سوال کیاکہ قبہ کیاہوا؟ تب صحابہ نے پوراواقعہ آپ کوسنایا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ہر عمارت اس کے مالک پر وبال ہے مگر جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔ (یعنی ضروری حد تک تعمیر کی اجازت ہے۔) (ابوداؤد کتاب الادب۔باب ماجاء فی البناء)
حدیبیہ کاپورا واقعہ اتباع رسول اور عشق نبوی کی مثال ہے۔رسول اللہ ﷺ مع اصحاب کرام عمر ہ کے ارادے سے مکہ تشریف لے جارہے تھے لیکن مکہ والوں نے آپؐ کو راستے میں روک دیا۔ اس موقع پر صحابہ کرام کاخون جوش میں آیالیکن آپؐ نے منع فرمادیا پھرکسی نے بھی ضد نہیں کی۔ یہاں تک کہ صلح کامعاہدہ ہو ا اورظاہری طور پر نہایت دب کر معاہدہ ہو ا بعض صحابہ نے اعتراض ضرور کیا لیکن جب حضوراکرم ؐ نے اسے فتح مبین قرار دیا تو کسی نے بھی قیل وقال نہیں کی بس آمَنَّا وَصَدَّقْنَا کا مظاہر ہ کیا اسی درمیان ایک روح فرساواقعہ پیش آیا۔ جو عام آدمی کی قوت برداشت سے باہر تھا۔لیکن حضور پاک ﷺ کے حکم کے سامنے سب نے سرِ اطاعت تسلیم کیا۔ واقعہ یہ ہو اکہ ابھی صلح کے شرائط طے ہوہی رہے تھے کہ ایک صحابی ابو جندلؓ بن سہیل بن عمرو بیڑیاں پہنے وہاں آئے اوررسول اللہ ﷺکے پاس پہنچے۔سہیل نے (ابوجندل کے باپ جن کو مکہ والوں نے سفیر بناکر آپؐ سے صلح کے لئے بھیجا تھا) ابو جندلؓ کو دیکھا اس نے بڑھ کر ان کے منہ پرتھپڑ مار ا اورگردن تھام لی اورپھررسول للہ ﷺ سے مخاطب ہوکرکہا کہ اس کے آنے سے پہلے میرے اورتمہارے درمیان معاملہ طے ہوچکاہے۔آپؐ نے فرمایا صحیح ہے۔ اب سہیل ان کی گردن پکڑ کے انہیں دھکا دیتاہوا اورکھینچتا ہواقریش کی طرف پلٹانے لگااورابوجند لؓ نے انتہائی بلند آواز سے چلانا شروع کیا۔اے مسلمانوں! مجھے مشرکین کے پا س لوٹایا جارہاہے میرے ایمان کی وجہ سے مجھے اس مصیبت میں ڈالا جارہا ہے۔ اس جملے نے مسلمانوں کے زخمی دلوں پراورنمک پاشی کی۔ رسول اللہ ﷺ نے ابوجندلؓ سے کہااپنے دل کوقابومیں رکھ اللہ تعالیٰ تمہارے اور تمہارے جیسے دوسرے مجبور لوگوں کے لیے جلد اس مصیبت سے نکالنے کی سبیل کرنے والاہے چونکہ ہم نے اہل مکہ سے صلح کرکے معاہدہ کرلیا ہے اوراس کے ایفاکواپنے اوپرلازم قرار دیا ہے اس لیے اب ہم ان کے ساتھ بے وفائی نہیں کرسکتے۔ لہٰذا حضور ﷺ کی بات مان کر ابوجندلؓ واپس چلے گئے، مشرکوں کے بیچ رہ کر تکالیف برداشت کرناگوارا کر لیا لیکن حضور پاک ﷺ کے عہد کی پاسداری کی اور صحابہ کرام نے بھی کمال ادب کامظاہرہ کیا۔
(تاریخ ابن خلدون حصہ اول ص ۱۱۱۔ نیزتواریخ اسلام کی تمام معتدل کتابوں میں یہ واقعہ مذکور ہے۔)
اس کے علاوہ بے شمار واقعات ہیں جوصحابہ کرام کے جذبۂ اطاعتِ رسول سے معمور ہیں۔جوہمیں بار بار جھنجھوڑتے ہیں کہ اے مسلمانو! تم کدھر جارہے ہوکامیابی کاراستہ چھوڑ کر خوشنما سراب کی طرف دوڑ پڑے ہوجو تمہیں بربادی کے دہانے تک پہونچادے گا۔ آج مسلمان اپنے نبی کاراستہ چھوڑ کر یوروپ کی چکاچوند کی طرف لپک رہاہے جوایمان کو کھوکھلاکردینے والاہے۔ اس دنیامیں عزت اورآخرت میں کامیابی کاصرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم ہرطرف سے نظریں ہٹا کر اطاعت رسول کی طرف مڑجائیں، اسی میں ہماری بقاکاراز مضمر ہے۔ اس کے علاوہ جتنے راستے ہیں سب تباہی کی طرف لے جانے والے ہیں۔
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ زمین چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
(اقبال)