آصف قاسمی

زبان کی حفاظت

تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی 

انسانی بدن میں دوسرے اعضا کے بہ نسبت زبان کوایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ زبان کے ذریعہ انسان اپنے مافی الضمیرکو اداکرتاہے اوراپنی بات دوسروں تک پہنچاتاہے۔ زبان ہی کے ذریعے انسان اللہ کی بڑائی اور اس کی کبریائی کو بیان کرتاہے۔کھانا پینا جو انسان کی اہم ضروریات میں سے ہے اس کے لئے بھی زبان بہت زیادہ ضروری چیز ہے۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے زبان کی حفاظت پر بار بار تاکید فرمائی اور توجہ دلائی ہے کہ زبان پرہمیشہ اللہ کی حمدو ثنا جاری رکھو۔جھوٹ، غیبت،چغلی،گالی گلوج اوربیہودہ گوئی سے اپنی زبان کوملوث نہ کرو۔جھوٹ کی برائی، اس کے برے اثرات اور سچ کی اہمیت اور اس کے جزا کوبیان کرتے ہوئے باری تعالیٰ کاارشاد ہے:

فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَبَ عَلٰی اللّٰہِ وَکَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِذْ جَاءَ ہُ اَلَیْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِلْکٰفِرِیْنَ (٣٢ )وَالَّذِیْ جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ (٣٣ )لَہُمْ مَا یَشَاءُ وْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ ذٰلِکَ جَزَآءُ الْمُحْسِنِیْنَ (٣٤ )لِیُکَفِّرَ اللّٰہُ عَنْہُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا وَیَجْزِیَہُمْ اَجْرھُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (٣٥ ۔زمر)

ترجمہ:    اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولے؟ اور سچا دین جب اس کے پاس آئے تو اسے جھوٹا بتائے؟ کیا ایسے کفار کے لیے جہنم ٹھکانا نہیں ہے؟ اور جو سچے دین کو لائے اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ پارسا ہیں۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس ہر وہ چیز ہے جو یہ چاہیں، نیک لوگوں کا یہی بدلہ ہے۔ تاکہ اللہ تعالیٰ ان سے ان کے برے کاموں کو دور کردے اور جو نیک کام انہوں نے کیے ہیں ان کا اچھا بدلہ عطا فرمائے۔  

دوسری جگہ ارشاد ہے:

وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ(١١٦ )مَتَاعٌ قَلِیْلٌ وَّ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(١١٧ نحل)

ترجمہ:    کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لو، سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے ہیں۔ انہیں بہت معمولی فائدہ ملتا ہے اور ان کے لئے ہی دردناک عذاب ہے۔

 جب بولو تو اچھی بات بولو ورنہ چپ رہو

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اچھی بات کہے یا پھر چپ رہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:مَا یِلْفَظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَا لَدَیْہِ رََقِیْبٌ عَتِیْدٌ “انسان جو بات بھی زبان سے نکالتا ہے تو اس کے (لکھنے کے لیے) ایک چوکیدار فرشتہ تیار رہتا ہے۔”اس لئے ہر مومن کو چاہئے کہ زبان کی حفاظت کرے اور اپنی زبان کوکسی ایسی چیز سے ملوث نہ کرے جو اس کی دنیااور عاقبت کو خراب کردے۔نبی کریم ﷺ کو اپنی امت سے انتہا درجہ محبت تھی اسی وجہ سے وہ ہمیشہ فکر مند رہتے تھے کہ امت کا کوئی فرد اپنی غلطیوں کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا نہ ہوجائے۔آپ نے فرمایا:

عن سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ، وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنْ لَهُ الْجَنَّةَ”.(صحیح بخاری۔کتاب الرقاق،باب حفظ اللسان۔حدیث نمبر٦٤٧٤ )

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”میرے لیے جو شخص دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (شرمگاہ) کی ذمہ داری دیدے میں اس کے لیے جنت کی ذمہ داری دیتا ہوں۔”

زبان اللہ تعالی کی نعمت ہے اس زبان کے ذریعے انسان آخرت کی اونچے منازل کوطَے کر سکتاہے اور اسی زبان کے ذریعے انسان جہنم کے گہر ے غار میں گر بھی سکتاہے اسی لئے نبی کریم ﷺ  نے فرمایا:

عن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ”(صحیح بخاری۔کتاب الرقاق،باب حفظ اللسان حدیث نمبر٦٤٧٥ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔“

ایک چھوٹا سا کلمہ ہلاکت کا سبب بن سکتاہے

کبھی کبھی بندہ ہنسی مذاق میں یا لطف اندوزی کے لئے کوئی بات کہہ دیتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس سے کچھ نہیں ہوگا لیکن اللہ کے فرشتے اس بات کونقل کرلیتے ہیں اورجب میزان عمل قائم ہوگا تو ایسا بھی ہوسکتاہے کہ وہ چھوٹی سی بات اس کو جہنم تک پہنچادے۔ اسی طرح بندہ اپنی زبان سے کوئی خیر کی بات نکال دیتا ہے لیکن وہ اس کو اتنی اہمیت نہیں دیتاہے لیکن اس ایک کلمہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند فرمادیتے ہیں۔رسو ل اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :

عن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:” إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مَا يَتَبَيَّنُ فِيهَا، يَزِلُّ بِهَا فِي النَّارِ أَبْعَدَ مِمَّا بَيْنَ الْمَشْرِقِ”(صحیح بخاری کتاب الرقاق،باب حفظ اللسان۔٦٤٧٧ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “بندہ ایک بات زبان سے نکالتا ہے اور اس کے متعلق سوچتا نہیں۔ جس کی وجہ سے وہ دوزخ کے گڑھے میں اتنی دور گر پڑتا ہے جتنا مغرب سے مشرق دور ہے۔“

نیز آپﷺ کا ارشاد ہے:

عن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ لَا يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَرْفَعُهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَاتٍ، وَإِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ لَا يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَهْوِي بِهَا فِي جَهَنَّمَ”.(بخاری کتاب الرقاق،باب حفظ اللسان۔ حدیث نمبر٦٤٧٨ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے  بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بندہ اللہ کی رضا مندی کے لیے ایک بات زبان سے نکالتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اسی کی وجہ سے اللہ اس کے درجے بلند کر دیتا ہے اور ایک دوسرا بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے۔“

کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کی مثال

زبان سے نکلے ہوئے کلمات انسان کی دنیوی واخروی معاملات میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔کلمہ لا الہ الا اللہ بھی ایک کلمہ ہے جو انسان اپنی زبان سے اداکرکے اسلام میں داخل ہوتاہے جو ایمان کی بنیادی شرط ہے۔ایک کلمہ جو بندہ کی زبان پرجاری ہوتا ہے اس کی وجہ سے اس کادرجہ اس قدر بلند ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کی مثال شجرۂ طیبہ سے دی ہے جس کی جڑیں زمین میں اورشاخیں آسمان میں ہوتی ہیں اور برے کلمات ایسے درخت کی مثال ہیں جن کی جڑیں اتنی کمزور ہوتی ہیں کہ ان کوقرارنصیب نہیں ہوتا۔

اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُھَا فِی السَّمَآء(٢٤ )تُؤْتِیْٓ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّھَاوَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ(٢٥ )وَ مَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیْثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیْثَۃِ نِ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَالَھَا مِنْ قَرَارٍ(٢٦ ۔ابراھیم)

ترجمہ:    کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ بات کی مثال کس طرح بیان فرمائی، مثل ایک پاکیزہ درخت کے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں۔ جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت اپنے پھل لاتا ہے اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے سامنے مثالیں بیان فرماتے ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ناپاک بات کی مثال گندے درخت جیسی ہے جو زمین کے کچھ ہی اوپر سے اکھاڑ لیا گیا۔ اسے کچھ ثبات تو ہے نہیں۔

زبان کے بہت سارے مفاسد ہیں جو انسان کو گہری کھائی میں گرادینے والے ہیں ان میں سے چند کاذکر یہاں کیا جاتاہے۔

جھوٹ

جھوٹ:تمام برائیوں کی جڑہے اوریہ ایک ایسا گناہ ہے جوانسان کے اعمال کوکھا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے جھوٹ بولنے والے کو ظالم کہا ہے اور ایسے لوگوں پرلعنت فرمائی ہے۔

وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اُولٰٓئکَ یُعْرَضُوْنَ عَلٰی رَبِّھِمْ وَ یَقُوْلُ الْاَشْھَادُ ھٰٓؤْلَآءِ الَّذِیْنَ کَذَبُوْا عَلٰی رَبٍّھِمْ اَلَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ(١٨ ۔ھود)

ترجمہ:    اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو خدا پر جھوٹ افتراء کرے ایسے لوگ اللہ کے سامنے پیش کئے جائیں گے اور گواہ کہیں گے کہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ بولا تھا۔ سن رکھو کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِنْ ھٰذٰا اِِلَّاْاِفْکُ نِ افْتَرَاہُ وَاَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ آخَرُوْنَ فَقَدْ جَاءُ وا ظُلْمًا وَّزُورًا (٤ ۔ فرقان)

 ترجمہ:   اور کافر کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) من گھڑت باتیں ہیں جو اس (مدعی رسالت) نے بنالی ہیں اور لوگوں نے اس میں اس کی مدد کی ہے۔ یہ لوگ (ایسا کہنے سے) ظلم اور جھوٹ پر (اْتر) آئے ہیں۔

ان دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو ظلم سے تعبیر کیاہے۔اصل میں ظلم یہ ہے کہ کسی شیئ کواس کے اصل مقام سے ہٹا کر کسی ایسی جگہ رکھ دیا جائے جواس کامقام نہیں ہے۔پہلی آیت میں لوگوں کے افترا علی اللہ کاذکر ہے جووضع الشی فی غیر محلہٖ کے روسے ظلم ہے اور دوسری آیت میں نبی کریم ﷺ او رقرآن کو من گھڑت بات قرار دینا اس کے اصل مقام سے ہٹانا ہے۔ اس لئے یہ دونوں ظلم ہیں اوریہ ظلم کرنے والے لوگ اپنی ذات پرظلم کررہے ہیں۔اس لئے کہ اس کاخمیازہ انہیں ہی آخرت میں بھگتنا پڑے گا۔

نبی کریم ﷺ نے بھی اپنے ارشادات میں جھوٹ سے بچنے کی تلقین بارہا فرمائی ہے۔نبی کریم ﷺ کی طرف سے کوئی بات جھوٹی طور پربیان کرنا بہت بڑ اگناہ ہے۔ایک حدیث میں یوں ارشاد ہے:

عن المغیرۃ رضی اللہ عنہ قال  سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:” إِنَّ كَذِبًا عَلَيَّ، لَيْسَ كَكَذِبٍ عَلَى أَحَدٍ، فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ”.(مسلم:مقدمہ، باب فی التحذیرمن الکذب علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث نمبر ٥   )

حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے:”میرے اوپر جھوٹ باندھنا ایسا نہیں ہے جیسے اور کسی پر جھوٹ باندھنا۔ پھر جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔“

کسی پر جھوٹ باندھنے سے جھوٹ بولنے والے کا نقصان ہو گا یا جس پر جھوٹ باندھا اس کا بھی یا اور چند آدمیوں کاہوسکتاہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے سے ایک عالم گمراہ ہو گا اورپوری امت اس نقصان کے زَد میں آئے گی۔ اس لئے کسی جھوٹی بات کوحضور اکرم ﷺ کی طرف منسوب کرنا ایک شدید گناہ ہے اور اس کی سزا بھی اتنی ہی سخت ہے۔اسی لئے عام طور سے صحابۂ کرام حدیثیں بیان کرنے سے احتراز کرتے تھے۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

عن عبد اللہ بن زبیر قال قال قلت للزبیر رضی اللہ عنھما ،مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُحَدِّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا يُحَدِّثُ عَنْهُ أَصْحَابُهُ؟ فَقَالَ:” أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَ لِي مِنْهُ وَجْهٌ وَمَنْزِلَةٌ، وَلَكِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ: مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ”.(ابوداؤدکتاب العلم،باب فی التشدید فی الکذب علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔حدیث نمبر۔٣٦٥١ )

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے زبیر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: “آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور صحابہ کی طرح حدیثیں کیوں نہیں بیان کرتے؟ تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک طرح کی قربت و منزلت حاصل تھی لیکن میں نے آپ کو بیان فرماتے ہوئے سنا ہے:”جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے”۔

نبی کریم ﷺ کو جھوٹ سب سے زیادہ ناپسند تھا اور آپ جھوٹے آدمی سے شدید نفرت کرتے تھے۔

عن عائشۃ رضی اللہ عنہ ، قَالَتْ: ” مَا كَانَ خُلُقٌ أَبْغَضَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْكَذِبِ، وَلَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ يُحَدِّثُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْكِذْبَةِ فَمَا يَزَالُ فِي نَفْسِهِ حَتَّى يَعْلَمَ أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ مِنْهَا تَوْبَةً “(سنن ترمذی۔کتاب البروالصلۃ۔ باب ماجاء فی الصدق والکذب۔١٩٧٣ )

حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک جھوٹ سے بڑھ کر کوئی اور عادت نفرت کے قابل اور ناپسندیدہ نہیں تھی اور جب کوئی آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھوٹ بولتا تو وہ ہمیشہ آپ کی نظر میں قابل نفرت رہتا یہاں تک کہ آپ جان لیتے کہ اس نے جھوٹ سے توبہ کر لی ہے۔

سچائی انبیاء وصدیقین کی صفت ہے اس لئے سچ انسان کو جنت کی طرف لے جاتا ہے اورجھوٹ شیطانی صفت ہے اس لئے وہ جہنم کی طرف راہ دکھاتاہے۔

عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ،قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ حَتَّى يُكْتَبَ صِدِّيقًا، وَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ كَذَّابًا “(صحیح مسلم۔ کتاب البر والصلہ باب قبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ ۔حدیث  نمبر6637)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”سچ نیکی کی طرف راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کو لے جاتی ہے اور آدمی سچ بولتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ لیا جاتا ہے اور جھوٹ برائی کی طرف راہ دکھاتا ہے اور برائی جہنم کو لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے۔“

غیبت

زبان کی بری کھیتیوں میں سے ایک غیبت بھی ہے جو انسان کوجہنم کاایندھن بنادیتی ہے۔ غیبت یہ ہے کہ کسی شخص کی کوئی برائی اس کے پیٹھ پیچھے لوگوں کے درمیان بیان کی جائے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ، أَنَّهُ قِيلَ:” يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْغِيبَةُ؟ قَالَ: ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ قِيلَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ، قَالَ: إِنْ كَانَ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدِ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدْ بَهَتَّهُ (سنن ابوداؤدکتاب الادب،باب فی الغیبۃحدیث نمبر۔٤٨٧٤ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرض کیا گیا:” اللہ کے رسول ﷺ! غیبت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تمہارا اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرنا کہ اسے ناگوار ہو” عرض کیا گیا اور اگر میرے بھائی میں وہ چیز پائی جاتی ہو جو میں کہہ رہا ہوں تو آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر وہ چیز اس کے اندر ہے جو تم کہہ رہے ہو تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر جو تم کہہ رہے ہو اس کے اندر نہیں ہے تو تم نے اس پر بہتان باندھا”۔

غیبت میں اگرچہ سچائی ہوتی ہے لیکن اس سچائی سے دوسرے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے اور غیبت کرنے والے کو کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا بلکہ الٹا اس کے نامۂ اعمال میں ایک گناہ کااضافہ ہوجاتاہے۔نبی کریم ﷺ نے غیبت کو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے کے برابر قرار دیا ہے اورآپؐ نے معراج کے سفر میں ایسے لوگوں کو گرفتارِعذاب دیکھاہے۔

عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” لَمَّا عُرِجَ بِي مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَهُمْ أَظْفَارٌ مِنْ نُحَاسٍ يَخْمُشُونَ وُجُوهَهُمْ وَصُدُورَهُمْ فَقُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ يَا جِبْرِيلُ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ لُحُومَ النَّاسِ وَيَقَعُونَ فِي أَعْرَاضِهِمْ” (سنن ابوداؤدکتاب الادب،باب فی الغیبۃ۔حدیث نمبر٤٨٧٨ )

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مجھے معراج کرائی گئی، تو میرا گزر ایسے لوگوں پر سے ہوا، جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے منہ اور سینے نوچ رہے تھے، میں نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ وہ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے (غیبت کرتے) اور ان کی بے عزتی کرتے تھے”۔

بدگمانی

ایک دوسرے کے ٹوہ میں پڑنے اور غیبت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مردار بھائی کے گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے:

یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنْ الظَّنِّ اِِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِِثْمٌ وَلاَ تَجَسَّسُوا وَلاَ یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًااَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَحِیْمٌ (١٢ ۔حجرات)

ترجمہ:    اے ایمان والو! بہت سے گمان سے بچو، یقینا بعض گمان گناہ ہیں اور نہ جاسوسی کرو اور نہ تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے بھائی کا گوشت کھائے، جب کہ وہ مردہ ہو، سو تم اسے نا پسند کرتے ہو اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

جولوگ غیبت کواپنااوڑھنابچھونا بنا لیتے ہیں اور بناغیبت کئے ان کوچین نہیں ملتا ایسے لوگوں کو رسول اللہ ﷺ نے خبردار کیا ہے کہ اگر تم لوگوں کے عیوب کے پیچھے پڑو گے تو اللہ تمہارے عیوب کے پیچھے پڑجائے گااور اللہ تعالیٰ جس کے پیچھے پڑجائیں اس کے لئے بچنے کی کوئی راہ نہیں ہے۔

عن ابی برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ ،قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” يَا مَعْشَرَ مَنْ آمَنَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يَدْخُلِ الْإِيمَانُ قَلْبَهُ لَا تَغْتَابُوا الْمُسْلِمِينَ وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ، فَإِنَّهُ مَنِ اتَّبَعَ عَوْرَاتِهِمْ يَتَّبِعُ اللَّهُ عَوْرَتَهُ وَمَنْ يَتَّبِعِ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ فِي بَيْتِهِ”. (سنن ابوداؤدکتاب الادب،باب فی الغیبۃ)

حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنی زبان سے اور حال یہ ہے کہ ایمان اس کے دل میں داخل نہیں ہوا ہے مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو، اس لیے کہ جو ان کے عیوب کے پیچھے پڑے گا، اللہ اس کے عیب کے پیچھے پڑے گا اور اللہ جس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اسے اسی کے گھر میں ذلیل و رسوا کر دے گا”۔

زبان سے نکلی ہوئی چھوٹی سی بات انسان کو جنت یا جہنم کا راستہ دکھاسکتی ہے اس لئے ایک مومن بندہ کوہر بات سوچ سمجھ کر کرنی چاہئے اور ایسی بات اپنی زبان پر کبھی بھی نہیں آنے دینا چاہئے جو اسے قعرِمذلت میں ڈال دے اور اگر کبھی ایسی غلطی صادر ہوجائے تو اللہ سے مغفرت کی درخواست کرنی چاہئے اور اپنے اس گناہ سے توبہ کرنے میں جلدی کرنا چاہئے۔

آج کل طنز ومزاح ایک مستقل فن کی صورت اختیا رکر گیا ہے جس میں ایک خلاف واقعہ بات کو اس انداز سے پیش کیا جاتاہے کہ لوگ اس سے لذت محسوس کریں اور بولنے والے یا لکھنے والے کو دادو تحسین سے نوازیں۔خوب سمجھ لیں کہ اس طرح کی خلاف واقعہ باتیں انسان کے اعمال کو تباہ وبرباد کردینے والی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *