میراث میں لڑکیوں کا حصہ

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
میراث کا بیان قرآن میں
میراث سےمتعلق اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں جس طرح کی تقسیم اور ہر قرابت دار کے لئے جس طرح کے حصص متعین کیا ہے دنیاکے کسی اور مذہب اور کسی اور قانون میں ایسی تقسیم نہیں کی گئی ہے۔
اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں جس طرح دنیا کی بےشمار برائیاں موجود تھیں ۔میراث سےمتعلق بھی نہایت ظالمانہ بلکہ غیر انسانی قانون رائج تھا ۔ اس وقت میراث میں صرف مردوں کو ہی نہیں بلکہ طاقت ورمردوں کو ہی میراث میں حصہ ملتا تھا اور مورث اعلیٰ کی میراث سے عورتوں کو تو کوئی حصہ ملتا ہی نہیں تھا اوراگر لڑکے نابالغ ہوتے تو انہیں میراث سے محروم کردیا جاتاتھا۔ اوس بن ثابتؓ کاانتقال ہوا توان کے دولڑکیا ں اور ایک لڑکا موجود تھا۔ لیکن لڑکا نابالغ تھا ۔ اس لئے عرب کے رائج دستور کے مطابق لڑکیاں اور ان کی ماں توصنف نازک ہونے کی وجہ سےمحروم ہوگئیں اور لڑکا نابالغ ہونے کی وجہ سے محروم ہوگیا ۔ قریبی رشتہ داروں میں اوس بن ثابت کے چچا زاد بھائی موجود تھے انہوں نے پورےمال پر قبضہ کرلیا ۔ اوس بن ثابت کی بیوہ اہلیہ نے ان سے درخواست کی کہ اگر مال میراث میں لڑکیوں کا حصہ نہیں ہے تو کم سےکم وہ ان کی لڑکیوں سے شادی کرلیں تاکہ ان کی گذر بسر کاانتظام ہوجائے لیکن انہوں نے اس سے انکار کردیا ۔ مجبور ہوکر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور ساراماجرا سنایا ۔ اس وقت تک میراث کےاحکام نازل نہیں ہوئے تھے ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے فورا کوئی جواب نہیں دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی یہ آیت نازل فرمائی :
لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا (نساء آیت 7) مردوں کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لیے بھی اس میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، اس میں سے جو اس (مال) سے تھوڑا ہو یا بہت، اس حال میں کہ مقرر کیا ہوا حصہ ہے۔

یہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے بالکل واضح کردیا کہ میراث میں مردوں اور عورتوں کا حصہ متعین ہے اس میں بالغ نابالغ چھوٹے بڑےکمزور اور طاقتور سب ہی داخل ہیں ۔ یہ پہلی آیت ہے جس میں میراث سےمتعلق ہدایات دی گئی ہیں ۔
آج کے دور میں وہ صورت حال تو نہیں ہے جو زمانۂ جاہلیت میں رائج تھی کہ عورتوں اور نابالغ بچوں کو میراث سےمحروم کردیا جاتا تھا ۔ آج کےدور میں مسلمان ان تمام مسلمہ حقوق کومانتے ہیں میں عورتوں کو حقوق دیئے گئے ہیں ۔ لیکن پھر بھی عورتوں کو میراث سے محروم کردیا جاتاہے۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ عورتوں کو اس بات پر مجبور کیا جاتاہے کہ وہ اپنا حق چھوڑ دیں ۔ اس کی ایک صورت تویہ ہوتی ہے کہ مورث اعلیٰ کے انتقال کےبعد بھائی یا چچا حضرات پوری جائداد پر قابض ہوجاتے ہیں اور بہنیں اور بھتیجیا ں کچھ کر نہیں پاتیں ۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ بہنوں کو بیٹھا کر انہیں سمجھایا جاتاہے کہ تم تو گھر چھوڑ کر دوسری جگہ چلی گئی یا چلی جاؤگی اگر تم نے اپنے بھائیوں سے حصہ لے لیا تو پھر کس منہ سےدوبارہ اپنے بھائیوں کے یہاں آؤگی اور اگر تم نے بھائیوں کے لئے اپنا حصہ چھوڑ دیا تو وہ لوگ تمہاری قدر کریں گے اور آنے جانے کا راستہ بھی کھلا رہے گا۔ کچھ عورتیں تو شرماشرمی میں اپنا حصہ چھوڑ دیتی ہیں اور کچھ دباؤ میں آکر ۔ یہ طریقہ بھی اسلامی مزاج کے خلاف ہے اور عورتوں کو میراث سے محروم کرنا ہے ۔ جس طرح زمانۂ جاہلیت میں عورتوں کو میراث سے محروم کردیا جاتاتھا۔
اسلامی نظام میں میراث سے متعلق جواحکام ہے وہ بالکل واضح ہیں اور قرآن کریم میں ہروارث کاحصہ متعین کردیا گیا ہے۔ تقسیم میراث کےنظام سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ کسی بھی انسان کے مرنے کے بعد زندہ لوگوں پر کس طرح کے حقوق لازم ہیں اور اس میت کےمال کو استعمال کرنے کا طریقہ کیا ہے۔میت کے مال سے متعلق پہلا حق یہ ہے کہ اس کی تجہیز ووتکفین کا انتظام کیا جائے ۔ دوسرے نمبر پر اس کے قرضوں کو اداکیا جائے ۔ تیسرے نمبر پر اس کی وصیتوں کونافذ کیا جائے اور چوتھے نمبر پر وراثت کو تقسیم کیا جائے۔
تقسیم وراثت کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے تفصیلی احکامات نازل فرمائے ہیں جس مرد عورت سب کے حقوق متعین کردیئے گئے ۔جنہیں اصحاب فروض کہا جاتاہے ۔ان میں چار مرد اور آٹھ عورتیں ہیں ۔ اسی سے اندازہ ہوجاتاہےکہ اللہ تعالیٰ نے میراث میں عورتوں کوکتنی اہمیت دی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا(سورہ نساء آیت ١١ )
اللہ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں تاکیدی حکم دیتا ہے، مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر حصہ ہے، پھر اگر وہ دو سے زیادہ عورتیں (ہی) ہوں، تو ان کے لیے اس کا دوتہائی ہے جو اس نے چھوڑا اور اگر ایک عورت ہو تو اس کے لیے نصف ہے۔ اور اس کے ماں باپ کے لیے، ان میں سے ہر ایک کے لیے اس کا چھٹا حصہ ہے، جو اس نے چھوڑا، اگر اس کی کوئی اولاد ہو۔ پھر اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث ماں باپ ہی ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے، پھر اگر اس کے (ایک سے زیادہ) بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے، اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائے، یا قرض (کے بعد)۔ تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے تم نہیں جانتے ان میں سے کون فائدہ پہنچانے میں تم سے زیادہ قریب ہے، یہ اللہ کی طرف سے مقرر شدہ حصے ہیں،بے شک اللہ ہمیشہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔

[…] اورنہ ہی عصبات میں سے ہیں۔ ذوی الارحام کی چار قسمیں ہیں (١ ) بیٹیوں یا پویتوں کی اولاد۔یعنی نواسے اور نواسیاں (٢ ) نانا ، نانی (٣ ) حقیقی بھائیوں کی بیٹیاں یا علاتی […]
[…] کے حصے قرآن میں متعین ہیں علم فرائض وراثت کی تقسیم تحریر: مفتی محمد آصف اقبال […]