مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

 امانت داری ایمان کااہم ترین شعبہ

 

امانت داری

 

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

امانت داری کی اہمیت

امانت داری ایمان کااہم ترین حصہ ہے اس لئے ایک مومن کو امانت کی حفاظت اپنے ایمان کی طرح کرنی چاہئے۔قرآن و حدیث میں امانت کی اہمیت اور خیانت سے بچنے کی جتنی تاکید ہے اس کو دیکھ کر اللہ اورآخرت پر یقین رکھنے والا شخص کبھی خیانت کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔ ایک مرد مومن کو ہمیشہ اس بات کا احساس رہنا چاہئے کہ وہ کسی کا حق نہ دبائے اورنہ کسی کی امانت میں کمی یا کوتاہی کاارتکاب کرے۔ اس لئے کہ ہرشخص کو ایک دن اللہ کے یہاں حاضر ہونا ہے اور اپنے کیے کاحساب دینا ہے۔وہ ایسا دن ہوگا جس دن کوئی شخص کسی کوایک نیکی دینے کو تیار نہیں ہوگاایسے وقت میں جب خیانت کے نتیجے میں اس کی نیکیاں دوسروں میں تقسیم کردی جائیں گی تو اس کاکیاحال ہوگااور کون اس کی مدد کرے گا۔اسی لیے قرآن وحدیث میں امانت کی حفاظت اور اس کو صاحب حق تک پہنچانے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ارشاد ہے:

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَاوَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالَعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا(٥٨ ۔نساء)

  ترجمہ:  اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ! اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل وانصاف سے فیصلہ کرو! یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالیٰ کر رہا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ سنتا ہے، دیکھتا ہے۔

امانت کی ادائیگی میں بھول چوک سے کہیں کوئی غلطی صادر نہ ہوجائے اور انسان آخرت میں پریشانیوں میں مبتلا ہوجائے اس سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم فرمایا کہ جب کوئی معاملہ کرو تو اس کولکھ لیاکرو اور اگر سفر وغیرہ کی وجہ سے کوئی لکھنے والا موجود نہ ہوتو کوئی سامان رہن(گروی)رکھ لو اور اس پر گواہ بنا لو اور گواہوں کواللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ وہ گواہی کوچھپائیں نہیں اس لئے کہ گواہ بھی امین ہوتاہے اور گواہی ایک طرح کی امانت ہے جسے وقت پڑنے پرپوری ایمانداری سے ادا کردینا چاہئے۔  

وَ اِن کُنتُم عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَم تَجِدُوا کَاتِبًا فَرِھٰنٌمَّقبُوضَۃٌ فَاِن اَمِنَ بَعضُکُم بَعضًا فَلیُؤَدِّ الَّذِی اؤتُمِنَ اَمَانَتَہٗ وَلیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ وَ لَا تَکتُمُوا الشَّھَادَۃَوَ مَن یَّکتُمھَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌقَلبُہٗ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعمَلُونَ عَلِیمٌ(٢٨٣ ۔بقرہ)

ترجمہ:    اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو، ہاں اگر آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو تو جسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کردے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپالے وہ گنہگار دل والا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔

سب سے بڑی امانت اللہ تعالیٰ کاکلام اور اس کے نازل کردہ احکام ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے آسمانوں،زمینوں اور پہاڑوں پرپیش کیا لیکن ان سب نے اس بوجھ کے اٹھانے سے اپنی کمزوری کی وجہ سے انکار کردیا،لیکن انسان نے اس بوجھ کو اپنے نازک کندھوں پراٹھا لیااور جب اس نے امانت کوقبول کرلیا تو انسان کی ذمہ داری ہے کہ اس کی کما حقہ حفاظت کرے اور اس میں کوئی کوتاہی نہ برتے۔اب جو شخص اس امانت کی ادائیگی کا حق اداکرے گا اللہ تعالیٰ یقیناً اسے انعام واکرام سے نوازیں گے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْھَا وَ حَمَلَھَا الْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا(٧٢ ۔احزاب)

ترجمہ:    ہم نے امانت کو آسمانوں پر زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اسے اٹھا لیا، وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے۔

 مجلس میں کی گئی گفتگو بھی امانت ہے

کسی مجلس میں کوئی بات کی جائے اور اس کو راز میں رکھنے کی تاکید کردی جائے تو اس کا افشاء کر نا خیانت میں داخل ہے۔ اسی طرح سفیر اور قاصد بھی ایک طرح سے امین ہوتا ہے اور اس کو جتنی باتیں بتانے کے لئے اختیار دیا گیا ہے اس سے زیادہ بتا دینا خیانت میں داخل ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایاں کہ تم اللہ اور رسول کی امانتوں میں خیانت نہ کرو۔

یٰٓا أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْن(٢٧ ۔انفال)

ترجمہ:    اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول (کے حقوق یا باتوں) میں جانتے ہوئے خیانت مت کرو اور اپنی قابل حفاظت چیزوں میں خیانت مت کرو۔

یہ آیت ابولبابہ بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری ہے۔ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے یہودیوں کے پاس بھیجا تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی شرط کے ماننے پر قلعہ خالی کر دیں ان یہودیوں نے آپ ہی سے مشورہ دریافت کیا تو آپ نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیر کر انہیں بتا دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تمہارے حق میں یہی ہوگا۔ اب ابو لبابہ رضی اللہ عنہ بہت ہی نادم ہوئے کہ افسوس میں نے بہت برا کیا اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خیانت کی۔ اسی ندامت کی حالت میں قسم کھا بیٹھے کہ جب تک میری توبہ قبول نہ ہو میں کھانے کا ایک لقمہ بھی نہ اٹھاؤں گا چاہے مر ہی جاؤں۔ مسجد نبوی میں آ کر ایک ستون کے ساتھ اپنے تئیں بندھوا دیا نو دن اسی حالت میں گذر گئے غشی آ گئی بیہوش ہو کر مردے کی طرح گر پڑے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی توبہ قبول کر لی اور یہ آیتیں نازل ہوئیں لوگ آئے آپ کو خوشخبری سنائی اور اس ستون سے کھولنا چاہاتو انہوں نے فرمایا واللہ میں اپنے تئیں کسی سے نہ کھلواؤں گا بجز اس کے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست مبارک سے کھولیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے انہیں کھولا تو آپ عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے نذر مانی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول کر لے تو میں اپنا کل مال اللہ کی راہ میں صدقہ کر دونگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں صرف ایک تہائی فی سبیل اللہ دے دو یہی کافی ہے۔(تفسیر ابن کثیر)

اس طرح کا ایک واقعہ حضرت حاطب ابن ابو بلتعہ کا بھی ابن کثیر نے بخاری ومسلم کے حوالے سے نقل کیاہے: کہ فتح مکہ والے سال انہوں نے قریش کو خط بھیج دیا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے سے انہیں مطلع کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کر دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی ان کے پیچھے دوڑائے اور خط پکڑا گیا۔ حاطب رضی اللہ عنہ نے اپنے قصور کا اقرار کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی گردن مارنے کی اجازت چاہی کہ اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں سے خیانت کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو یہ بدری صحابی ہے۔ تم نہیں جانتے بدری کی طرف اللہ تعالیٰ نے بذات خود فرما دیا ہے جو چاہو تم کرو میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔

بہر حال مسلمانوں کے امیر کی طرف سے اگر کوئی فیصلہ کیاگیا اور اس کوراز میں رکھنے کی تلقین کی گئی تو اس مجلس میں جتنے بھی حاضرین ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ مجلس کی ایک ایک بات کی حفاظت کریں اور اس میں خیانت کا ارتکاب ہرگز نہ کریں۔

سرگوشی میں کی گئی بات امانت ہے

 اگر کوئی شخص اپنی کوئی بات اس انداز میں بیان کرے کہ اس کورازمیں رکھنے کااشارہ کررہاہوجیسے سرگوشی میں کہے۔یا بات کرتے وقت ادھرادھردیکھے کہ کوئی سن نہ لے تو وہ بات بھی امانت ہے اور اس کو کسی کے سامنے ظاہر کردیناخیانت ہے۔

 عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ ،عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا حَدَّثَ الرَّجُلُ الْحَدِيثَ ثُمَّ الْتَفَتَ فَهِيَ أَمَانَةٌ “(سنن ترمذی:کتاب البر والصلۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ باب ماجاء ان المجالس امانۃ حدیث نمبر١٩٥٩ )

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب کوئی آدمی تم سے کوئی بات بیان کرے پھر دائیں بائیں مڑ کر دیکھے تو وہ بات تمہارے پاس امانت ہے۔”

مشیر کوامین ہوناچاہئے

اگر کوئی شخص کسی بھی امر میں مشورہ طلب کرے تو مشورہ دینے والا امین ہوتا ہے اس لئے اسے چاہئے کہ پوری امانت داری سے مشورہ بھی دے اور اس بات کو رازسمجھ کر اس کی حفاظت بھی کرے۔

  عن ام سلمۃ رضی اللہ عنھا ،قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ “سنن ترمذی:کتاب الادب عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،باب ان المستشار مؤتمن۔ حدیث نمبر٢٨٢٣ )

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مشیر یعنی جس سے مشورہ لیا جائے اس کو امین ہونا چاہیئے”۔

امانت کا اٹھ جانا قیامت کی علامت

امانت کا اٹھ جانا قیامت کی علامتوں میں سے ہے۔قیامت کے قریب امانت داری لوگوں میں سے ختم ہوجائے گی یہاں تک کہ پوری آبادی میں اکّا دکّا کوئی امانت دار ڈھونڈنے سے ملے گا۔

عن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” إِذَا ضُيِّعَتِ الْأَمَانَةُ، فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ”، قَالَ: كَيْفَ إِضَاعَتُهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:” إِذَا أُسْنِدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ”.(بخاری :کتاب الرقاق،باب رفع الامانۃ۔ حدیث نمبر6496)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔“ پوچھاگیا۔ یا رسول اللہ! امانت کس طرح ضائع کی جائے گی؟ فرمایا ”جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کر دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو۔“

عن حذیفۃ بن الیمان رضی اللہ عنہ ،قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ، قَدْ رَأَيْتُ أَحَدَهُمَا وَأَنَا أَنْتَظِرُ الآخَرَ، حَدَّثَنَا أَنَّ الأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ، ثُمَّ نَزَلَ الْقُرْآنُ فَعَلِمُوا مِنَ الْقُرْآنِ وَعَلِمُوا مِنَ السُّنَّةِ، ثُمّ حَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِ الأَمَانَةِ، قَالَ: ” يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ، فَتُقْبَضُ الأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ الْوَكْتِ، ثُمَّ يَنَامُ النَّوْمَةَ، فَتُقْبَضُ الأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ الْمَجْلِ كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكَ، فَنَفِطَ، فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا وَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ أَخَذَ حَصًى فَدَحْرَجَهُ عَلَى رِجْلِهِ، فَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ لَا، يَكَادُ أَحَدٌ يُؤَدِّي الأَمَانَةَ، حَتَّى يُقَالَ: إِنَّ فِي بَنِي فُلَانٍ رَجُلًا أَمِينًا، حَتَّى يُقَالَ لِلرَّجُلِ: مَا أَجْلَدَهُ، مَا أَظْرَفَهُ، مَا أَعْقَلَهُ، وَمَا فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنَ إِيمَانٍ، وَلَقَدْ أَتَى عَلَيَّ زَمَانٌ، وَمَا أُبَالِي أَيَّكُمْ بَايَعْتُ، لَئِنْ كَانَ مُسْلِمًا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ دِينُهُ، وَلَئِنْ كَانَ نَصْرَانِيًّا أَوْ يَهُودِيًّا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ سَاعِيهِ، وَأَمَّا الْيَوْمَ فَمَا كُنْتُ لِأُبَايِعَ مِنْكُمْ إِلَّا فُلَانًا وَفُلَانًا “(صحیح مسلم کتاب الایمان،باب  رفع الامانۃ من بعض القلوب وعرض الفتن علی القلوب۔حدیث 367)

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دو باتیں بیان کیں ایک تو میں نے دیکھ لی اور دوسری کا انتطار کر رہا ہوں۔ حدیث بیان کی ہم سے کہ”امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ پر اتری۔ پھر انہوں نے حاصل کیا قرآن کو اور حاصل کیا حدیث کو۔” پھر حدیث بیان کی آپ نے ہم سے کہ ”امانت اٹھ جائے گی تو فرمایا: ایک شخص تھوڑی دیر سوئے گا پھر اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی اور اس کا نشان ایک پھیکے رنگ کی طرح رہ جائے گا، پھر ایک نیند لے گا تو امانت دل سے اٹھ جائے گی اور اس کا نشان ایک چھالے کی طرح رہ جائے گا جیسے تو ایک انگارہ اپنے پاؤں پر لڑھکائے، پھر کھال پھول کر ایک چھالہ نکل آئے، اس کے اندر کچھ نہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنکری لے کر اپنے پاؤں پر لڑھکائی اور فرمایا: ”لوگ لین دین کریں گے اور ان میں سے کوئی ایسا نہ ہو گا جو امانت کو ادا کرے یہاں تک کہ لوگ کہیں گے کہ فلاں قوم میں ایک شخص امانت دار ہے اور یہاں تک کہ ایک شخص کو کہیں گے وہ کیسا ہوشیار اور خوش مزاج اور عقلمند ہے اور اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہ ہو گا۔“ پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے اوپر ایک زمانہ گزر چکا ہے جب میں بے کھٹکے ہر ایک سے معاملہ کرتا۔ اس لئے کہ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کا دین اس کو بے ایمانی سے باز رکھتا اور جو نصرانی یا یہودی ہوتا تو حاکم اس کو بے ایمانی سے باز رکھتا لیکن آج کے دن تو میں تم لوگوں سے کبھی معاملہ نہ کروں گا البتہ فلاں اور فلاں شخص سے کروں گا۔

امانت داری نبی کریم ﷺ کی خاص صفت تھی نبوت سے پہلے بھی آپﷺ کا لقب امین تھا جب کہ قریش سمیت تمام اہل مکہ آپ کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے اورآپ کی مخالفت میں پوری قوت صر ف کردی تھی اور آپؐ کو مع اصحاب کرام کے بدنام کرنے کی تمام تر سازشیں کرنے کے باوجود کسی نے آپؐ کی امانت داری پرکبھی بھی سوال نہیں اٹھایا۔یہاں تک کہ اتنی شدید مخالفتوں کے باوجود لوگ اپنی امانتیں آپ کے پاس جمع رکھا کرتے تھے اور آپ ؐ نے ان امانتوں کا اتنا خیال رکھا کہ جب آپ ہجرت فرمانے لگے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو وہ تمام امانتیں سپرد کردیں کہ تم ان لوگوں کی امانتیں پہنچاکر ہجرت کروگے۔

پوری امت کے لئے ایک سبق ہے ایسے ناگفتہ بہ حالات میں بھی نبی کریم ﷺ نے امانت داری کا خیال رکھا اور خیانت کا ایک ادنی شائبہ بھی آنے نہیں دیا۔

عہدے اورمناصب جن کو ملے ہیں ان سب کو امین ہونا ضروری ہے۔اس لئے کہ یہ عہدے اورمناصب سب کے سب امانت ہیں اور انہیں ان کی پوری حفاظت کرنی چاہئے۔ سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے لوگ،انتظامی امور کے عہدیداران،حکومت کے وزراء، مدارس کے مہتمم حضرات،مسجد کے متولیان اور ہرشعبے کہ ذمہ دار حضرات اپنے عہدوں کو مال غنیمت نہ سمجھیں بلکہ قوم کی امانت سمجھ کر پور ی ذمہ داری سے ان عہدوں کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں ورنہ کل قیامت کے دن پوری قوم ان کی گریبان پکڑے گی اور ان کے پاس کوئی جائے مفر نہیں ہوگا۔اس لئے تمام ایمان والوں کو ہرحال میں امانت داری کواپناشیوہ بنانا چاہئے اور خیانت کی تمام قسموں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index