بعث ونشور

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
موت کے بعد دوبارہ اٹھایاجانا
بعث ونشور کا مطلب مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے۔یعنی آخرت کی زندگی کے لئے اللہ تعالیٰ تمام مُردوں کوزندہ کریں گے۔یہ اٹھایا جانا دوطرح سے ہوگا ایک انفرادی اور ایک اجتماعی۔ انفرادی طور پر برزخ کی زندگی ہے، جب کوئی انسان مرجاتا ہے تو دنیامیں جتنے بھی مذاہب کے ماننے والے ہیں چاہے وہ جس طرح سے بھی انسان کو عالم برزخ کے حوالے کریں، چاہے اس کو جلاکر اس کی راکھ اڑادی جائے یا اسے پانی میں بہادیاجائے یااسے زمین کے اندر دفن کردیا جو بھی صورت اختیار کی جائے۔ اللہ کے فرشتے اسے اللہ کے حکم سے زندہ کرتے ہیں اور اس سے چند سوالات کرتے ہیں۔ جب وہ ان سوالوں کا صحیح جواب دے دیتا ہے تو اس کے لئے جنت کی نعمتیں جاری کردی جاتی ہیں اور اگر صحیح جواب نہیں دے سکا توپھر اس پرمختلف قسم کے عذاب مسلط کردیئے جاتے ہیں۔لیکن یہ حساب انسان کا مکمل حساب نہیں ہے بلکہ ہلکے پھلکے چند سوالات جن کی صراحت احادیث میں آئی ہے کئے جاتے ہیں اور اس بندہ کے صحیح جواب پر جو نعمتیں اس کو دی جاتی ہیں یا غلط جواب پر جس عقوبت میں مبتلا کیا جاتاہے وہ بھی مکمل نہیں ہے۔ اصل حساب تو اس وقت ہوگا جب ساری خلقت اللہ کے سامنے حاضرہوگی اور سب سے تفصیلی حساب لیا جائے گا اور اس وقت اللہ کا جو فیصلہ ہوگا جنت یا جہنم کاوہاں کی سزا یا جزا دائمی اور مکمل ہوگی۔
قبر میں سوال وجواب
احادیث کی تصریح کے مطابق بندۂ کافر جب عالم برزخ میں پہونچتاہے اوراس سے یہ تینوں سوالات کئے جاتے ہیں توہ حیرت واستعجاب کے ساتھ فرشتوں کو دیکھتا رہ جاتا ہے اور ہر سوال کے جواب میں کہتا ہے ھَا ھَا لَااَدْرِیْ ہائے مجھے کچھ نہیں معلوم۔جب وہ ان سوالوں کے جواب نہیں دے پاتاہے تو فرشتے اسے عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں او روہ قیامِ قیامت تک اسی طرح عذاب میں مبتلا رہے گا۔اورجب بندۂمومن برزخ کے حوالے ہوتاہے تو اس کے پاس بھی اللہ کے فرشتے ویسے ہی آتے ہیں اس کو زندہ کرکے اس سے بھی وہی سوالات کرتے ہیں چونکہ مومن اپنی پوری زندگی اپنا خالق و مالک اور پروردگار اللہ تعالیٰ ہی کو مانتاہے اس لئے وہ پہلے سوال کے جواب میں فوراً کہتا ہے رَبِّیَ اللّٰہُ میرا رب اللہ ہے۔اوراللہ کی ربوبیت و معبودیت پر یقین کرتا ہے تو ظاہر ہے وہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے دین اسلام پرعمل بھی کرتاہے اس لئے اس کے لئے دوسرا سوال بھی غیر مانوس نہیں ہوتااورجب فرشتے اس سے دوسرا سوال اس کے دین سے متعلق کرتے ہیں تو وہ فوراً جواب دیتاہے دِیْنِی اَلْاِسْلَامٌ میر ادین اسلام ہے۔ اورظاہر ہے دین اسلام پرعمل نبیؐ کی اتباع کے بغیر ممکن نہیں اس لئے تیسرا سوال بھی اس کے لئے مانوس ہی ہوتاہے اس لئے فرشتے اس سے اس کے رسول کے متعلق جب سوال کرتے ہیں تو وہ فوراً جواب دیتاہے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ یہ میرے رسول محمد ﷺ ہیں۔ جب ان سوالات کے جواب فرشتوں کوصحیح صحیح مل جاتے ہیں تو فرشتے بھی اس کے لئے جنت کی کھڑکیاں کھول دیتے ہیں اور قبر کو کشادہ کردیا جاتا ہے اوروہ نہایت آرام سے میٹھی نیند سوجاتاہے اور پھروہ ایک ہی بار قیامت کے دن اٹھے گا جب کہ اللہ کی طرف سے بعث کاصور پھونک دیا جائے گا۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
عَنِ البَرِاءِ بنِ عَازِبٍ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ سورة إبراهيم آية 27 , قَالَ: نَزَلَتْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ يُقَالُ لَهُ مَنْ رَبُّكَ , فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ، وَدِينِي دِينُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ”.(سنن نسائی۔ کتاب الجنائز، باب عذاب القبر۔٢٠٥٩ )
حضرت براء بن عازب ؓآنحضرت ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؐ نے فرمایا یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِیْ الآخِرَۃِ (اللہ تعالیٰ ثابت قدم رکھتاہے۔ ان لوگوں کو جو ایمان لائے قول ثابت کے ساتھ دنیااورآخرت کی زندگی میں)عذاب قبرکے بارے میں نازل ہوئی ہے،مردہ سے کہاجاتاہے کہ تیر ارب کون ہے؟ وہ جواب دیتاہے کہ میر ارب اللہ ہے۔اورمیرے نبی حضرت محمد ﷺ ہیں، اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرمان یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِیْ الآخِرَۃِ۔(ابراھیم۔٢٧ )کا یہی مطلب ہے۔
مردہ جب زمین میں دفن کردیا جاتاہے تو زیادہ دیر نہیں گزرتی یہاں تک کہ وہ دفن کرکے واپس جانے والوں کے قدموں کی چاپ سنتا رہتا ہےکہ اللہ کی طرف سے فرشتے حاضر ہوجاتے ہیں اور اس سے سوال و جواب کاسلسلہ شروع ہوجاتاہے۔
عن انس رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:” الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ , وَتُوُلِّيَ , وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ حَتَّى إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ، أَتَاهُ مَلَكَانِ فَأَقْعَدَاهُ , فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيَقُولُ: أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، فَيُقَالُ: انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّةِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا، وَأَمَّا الْكَافِرُ أَوِ الْمُنَافِقُ , فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ، فَيُقَالُ: لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ، ثُمَّ يُضْرَبُ بِمِطْرَقَةٍ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً بَيْنَ أُذُنَيْهِ فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ(صحیح بخاری کتاب الجنائزباب المیت یسمع خفق النعال حدیث نمبر١٣٣٨ )
انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کر کے اس کے لوگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ دیکھ جہنم کا اپنا ایک ٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے جنت میں تیرے لیے ایک مکان اس کے بدلے میں بنا دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس بندہ مومن کو جنت اور جہنم دونوں دکھائی جاتی ہیں اور رہا کافر یا منافق تو اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں ‘ میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا وہی میں بھی کہتا رہا۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے کچھ سمجھا اور نہ اچھے لوگوں کی پیروی کی۔ اس کے بعد اسے ایک لوہے کے ہتھوڑے سے بڑے زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقہ سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق سنتی ہے۔
ابوداؤد کی ایک روایت کے مطابق بندے سے تین سوال کئے جاتے ہیں اور جب بندہ تینوں سوالوں کے جواب دے دیتاہے تو اس کے لئے جنت کی بشارت اور جنت میں اس کا متعین مقام بھی دکھادیا جاتاہے اور اسے یہ بھی دکھادیا جاتاہے کہ اگر تم نے سوالوں کا صحیح جواب نہیں دیا ہوتا تو تمہارا ٹھکانہ جہنم کے اندر کیا ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس انجام سے بچالیا۔
عن البراء بن عازب قال:” خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة رجل من الانصار، فانتهينا إلى القبر، ولما يلحد، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم، وجلسنا حوله، كانما على رءوسنا الطير، وفي يده عود ينكت به في الارض، فرفع راسه، فقال: استعيذوا بالله من عذاب القبر، مرتين او ثلاثا , زاد في حديث جرير هاهنا، وقال: وإنه ليسمع خفق نعالهم إذا ولوا مدبرين، حين يقال له: يا هذا، من ربك؟ وما دينك؟ ومن نبيك؟ قال هناد: قال: وياتيه ملكان، فيجلسانه، فيقولان له: من ربك؟ فيقول: ربي الله، فيقولان له: ما دينك؟ فيقول: ديني الإسلام، فيقولان له: ما هذا الرجل الذي بعث فيكم؟ قال: فيقول: هو رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيقولان: وما يدريك؟ فيقول: قرات كتاب الله، فآمنت به، وصدقت، زاد في حديث جرير، فذلك قول الله عز وجل: يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة سورة إبراهيم آية 27، ثم اتفقا، قال: فينادي مناد من السماء ان قد صدق عبدي، فافرشوه من الجنة، وافتحوا له بابا إلى الجنة، والبسوه من الجنة، قال: فياتيه من روحها وطيبها، قال: ويفتح له فيها مد بصره، قال: وإن الكافر، فذكر موته، قال: وتعاد روحه في جسده، وياتيه ملكان فيجلسانه، فيقولان له: من ربك؟ فيقول: هاه هاه هاه لا ادري، فيقولان له: ما دينك؟ فيقول هاه هاه لا ادري، فيقولان: ما هذا الرجل الذي بعث فيكم؟ فيقول: هاه هاه لا ادري، فينادي مناد من السماء ان كذب، فافرشوه من النار، والبسوه من النار، وافتحوا له بابا إلى النار، قال: فياتيه من حرها، وسمومها، قال: ويضيق عليه قبره حتى تختلف فيه اضلاعه” زاد في حديث جرير، قال: ثم يقيض له اعمى، ابكم معه مرزبة من حديد، لو ضرب بها جبل لصار ترابا، قال: فيضربه بها ضربة يسمعها ما بين المشرق والمغرب إلا الثقلين، فيصير ترابا، قال: ثم تعاد فيه الروح”.(سنن ابو داؤد۔ کتاب السنۃ،باب فی المسالۃ فی القبر وعذاب القبر.حدیث نمبر٤٧٥٣ )
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انصار کے ایک شخص کے جنازے میں نکلے، ہم قبر کے پاس پہنچے، وہ ابھی تک تیار نہ تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، جس سے آپ زمین کرید رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا: ”قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو“ اسے دو بار یا تین بار فرمایا، یہاں جریر کی روایت میں اتنا اضافہ ہے: اور فرمایا: ”اور وہ ان کے جوتوں کی چاپ سن رہا ہوتا ہے جب وہ پیٹھ پھیر کر لوٹتے ہیں، اسی وقت اس سے پوچھا جاتا ہے، اے جی! تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ اور تمہارا نبی کون ہے؟“ ہناد کی روایت کے الفاظ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا رب (معبود) کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے، میرا رب (معبود) اللہ ہے، پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے، پھر پوچھتے ہیں: یہ کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا؟ وہ کہتا ہے: وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، پھر وہ دونوں اس سے کہتے ہیں: تمہیں یہ کہاں سے معلوم ہوا؟ وہ کہتا ہے: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اور اس پر ایمان لایا اور اس کو سچ سمجھا“ جریر کی روایت میں یہاں پر یہ اضافہ ہے: ”اللہ تعالیٰ کے قول”يثبت الله الذين آمنوا“(سورہ ابراہیم ۔27)سے یہی مراد ہے“ (پھر دونوں کی روایتوں کے الفاظ ایک جیسے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر ایک پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا لہٰذا تم اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھا دو، اور اس کے لیے جنت کی طرف کا ایک دروازہ کھول دو، اور اسے جنت کا لباس پہنا دو“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”پھر جنت کی ہوا اور اس کی خوشبو آنے لگتی ہے، اور تا حد نگاہ اس کے لیے قبر کشادہ کر دی جاتی ہے“۔ اور رہا کافر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا: ”اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے، اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے اٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں: تمہارا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: ہا ہا! مجھے نہیں معلوم، وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: یہ آدمی کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا؟ وہ کہتا ہے: ہا ہا! مجھے نہیں معلوم، پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: ہا ہا! مجھے نہیں معلوم، تو پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے: اس نے جھوٹ کہا، اس کے لیے جہنم کا بچھونا بچھا دو اور جہنم کا لباس پہنا دو، اور اس کے لیے جہنم کی طرف دروازہ کھول دو، تو اس کی تپش اور اس کی زہریلی ہوا (لو) آنے لگتی ہے اور اس کی قبر تنگ کر دی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ادھر سے ادھر ہو جاتی ہیں“ جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہے: ”پھر اس پر ایک اندھا گونگا (فرشتہ) مقرر کر دیا جاتا ہے، اس کے ساتھ لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے اگر وہ اسے کسی پہاڑ پر بھی مارے تو وہ بھی خاک ہو جائے، چنانچہ وہ اسے اس کی ایک ضرب لگاتا ہے جس کو مشرق و مغرب کے درمیان کی ساری مخلوق سوائے آدمی و جن کے سنتی ہے اور وہ مٹی ہو جاتا ہے“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”پھر اس میں روح لوٹا دی جاتی ہے“۔
دنیا کی زندگی سب کچھ نہیں
عالم برزخ سے متعلق قرآن کریم کی آیات کثیر تعداد میں موجود ہیں جگہ جگہ مختلف انداز سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کوسمجھایااورباورکرایاہے کہ یہ دنیاکی زندگی ہی اصل نہیں ہے بلکہ اس زندگی کے خاتمہ کے بعدایک اور زندگی شروع ہونے والی ہے جو تمہارے سامنے ہی ہے البتہ تم دنیا کی رنگا رنگی اورمال و دولت کی ریل پیل میں اسے بھولے ہوئے ہو پھر اچانک جب تمہاری اس دنیاوی زندگی کاتارٹو ٹ جائے گااوربرزخ کے احوال کاسامناہو گا تو سب کچھ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے۔ سورہ تکاثر پوری کی پوری عالم برزخ سے ہی متعلق ہے ارشادہے:
اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ (۱)حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ (۲)کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ (۳)ثُمَّ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ (۴)کَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ (۵)لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَ (۶)ثُمَّ لَتَرَوُنَّہَا عَیْنَ الْیَقِیْنِ (۸)ثُمَّ لَتُسْءَلُنَّ یَوْمَءِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ (۸۔سورۃ التکاثر )
ترجمہ: (مال ودولت) کے کثرت کی حرص نے تم کو غفلت میں ڈال دیاہے۔ یہاں تک کہ تم نے قبروں کو دیکھ لیا۔ ہاں ہاں تم عنقریب جان لوگے، پھر ہاں ہاں تم عنقریب جان لوگے،ہاں ہاں اگر تم یقین کے ساتھ جان لو، تم یقیناً دوزخ کودیکھ کر رہو گے پھر تم اس کو یقین کی آنکھ سے دیکھ لوگے پھرتم سے نعمتوں کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔
مطلب یہ ہے کہ انسان کی حرص وہوس نے اس کی آنکھیں بند کردی ہے، ہر آدمی اس سوچ میں پڑ اہے کہ میں کس طرح دنیا کی ساری دولت اپنے دامن میں سمیٹ لوں اسے یاد نہیں ہے کہ یہ دنیا فانی ہے او رہمیں اس کو چھوڑ کر جانا ہے اور جو کچھ ہم نے کیا، کمایا اور لُٹایا ہے ان سب کا حساب بھی دینا ہے انسان ایک ایک پیسہ جمع کرکے کل کے لئے رکھتاہے لیکن اسے اپنے کل کی خبر نہیں ہے کہ وہ کل جو آنے والی ہے وہ دولت سے چلنے والی نہیں ہے بلکہ وہ تو اعمال پر چلنے والی ہے قبر کی منزل جو روز بروز اس کے قریب آرہی ہے وہاں یہ سکّے کام نہیں آئیں گے بلکہ وہاں تو وہ اعمال کام آئیں گے جو اس نے کئے ہیں۔اللہ تعالی نے فرمایا تمہیں ابھی ہوش نہیں ہے لیکن جب قبر میں جاؤگے اور وہاں تمہیں ساری چیزیں اپنی آنکھوں سے نظر آئیں گی تب تمہیں ساری باتیں سمجھ میں آجائیں گی، وہاں جاکر پتہ چلے گا کہ دولت کیاچیز ہے۔ دنیا میں جس کو کمانے کے لئے انسان خون پسینہ ایک کردیتا ہے راتوں کی نیند قربان کرکے ایک ایک پیسہ جمع کرتا ہے تب جاکر کچھ روپیے اس کے پاس جمع ہوتے ہیں لیکن آخرت میں جاکر اس کومعلوم ہوگاکہ اس دولت کا حساب دینا اس کے کمانے سے کئی گنازیادہ مشکل کام ہے وہاں تو کوئی چور راستہ نہیں ہے واپسی کے سارے دروازے بند ہوچکے ہوں گے اورانسان کے لئے بھاگنے کی کوئی راہ نہیں ہوگی۔ اس وقت انسان کفِ افسوس ملے گا لیکن اب عمل کاوقت ختم ہوچکاہوگااور جز ا وسز اکادور شروع ہوچکاہوگا اب تو نتیجے سامنے آئیں گے اور وہ کچھ نہیں کرپائے گا۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا :
قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ ذَهَبٍ لَأَحَبَّ أَنْ يَكُونَ لَهُ ثَانِيًا، وَلَا يَمْلَأُ فَاهُ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ (سنن ترمذی۔ کتاب الزہد عن رسول اللہ ﷺ ، باب ماجاء لو کان لابن آدم وادیان من مال لابتغی ثالثا۔٢٣٣٧ )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر آدمی کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو اسے ایک دوسری وادی کی خواہش ہو گی اور اس کا پیٹ کسی چیز سے نہیں بھرے گا سوائے مٹی کے۔ اور اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کی توبہ قبول کرتا ہے جو اس سے توبہ کرے“
ترمذی کی ایک دوسری حدیث حضرت ابوھریرہؓ سے مروی ہے کہ رسولؐ نے ارشاد فرمایا: قَلْبُ الشَّیْخِ شَابٌّ عَلٰی حُبِّ اِثْنَیْنِ طُوْلِ الْحَیَاۃِ وَ کَثْرَۃِ الْمَالِ بوڑھے آدمی کا قلب دوچیزوں کی محبت میں جوان ہوتاہے لمبی زندگی اورمال کی کثرت پر۔ ( سنن ترمذی کتاب الزہد ۔حدیث نمبر 2338)
ایک جگہ آپ کا ارشادہے: اِنَّ لِکُلِّ اُمَّۃٍ فِتْنَۃٌ وَفِتْنَۃُ اُمَّتِیَ الْمَالُ۔ہرامت کے لئے ایک فتنہ ہے اورمیری امت کا فتنہ مال ہے۔
ان احادیث میں اللہ کے رسولﷺ نے مال کی محبت اورلمبی زندگی کی خواہش کوناپسند فرمایا ہے اور اس کوفتنہ قرار دیا ہے ا س لئے کہ جس کی زندگی جتنی کم ہوگی اس پرگناہوں کے بوجھ اتنے ہی کم ہوں گے اورجس کے پاس مال کم ہوگااس کاحساب بھی اتنی ہی جلدی ہوجائے گا۔
مساکین کی فضیلت
دنیا میں جس کے پاس جتنا ہی کم مال ہے وہ آخرت میں اتنی ہی جلدی حساب سے فارغ ہو جائے گا اور اگر اس نے اپنی زندگی اللہ کی اطاعت میں گزاری ہے تو یقینا مالداروں سے بہت پہلے جنت میں داخل ہوجائے گا ۔ اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ ہمیشہ مسکینوں کے ساتھ اٹھائے جانے کی دعا کیا کرتے تھے۔ ایک روایت ہے :
عن انس رضی اللہ عنہ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا وَأَمِتْنِي مِسْكِينًا وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ” , فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: ” إِنَّهُمْ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا، يَا عَائِشَةُ لَا تَرُدِّي الْمِسْكِينَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، يَا عَائِشَةُ أَحِبِّي الْمَسَاكِينَ وَقَرِّبِيهِمْ فَإِنَّ اللَّهَ يُقَرِّبُكِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ “(سنن الترمذی۔ کتاب الزہد عن رسول اللہ ﷺ ،باب ماجاء ان فقراء المہاجرین یدخلون الجنۃ قبل اغنیائھم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کہا (اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْناً وَاَمِتْنِیْ مِسْکِیْناً وَاحْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔) اے اللہ مجھے مسکین زندہ رکھئے اورمسکین ہی موت دیجئے اور قیامت کے دن مسکینوں کے ساتھ ہی حشر فرمائیے۔ حضرت عائشہؓ نے پوچھا اے اللہ کے رسولؐ کیوں؟ آپﷺ نے فرمایا: بے شک وہ (مساکین) اپنے مالداروں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوجائیں گے اے عائشہ کسی مسکین کو واپس مت کرو چاہے کھجور کاایک ٹکڑ اہی ہو۔اے عائشہ مسکینوں سے محبت کرو اوران کواپنے قریب کرو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تم کو قریب کریں گے۔
بعض روایا ت میں تو پانچ سوسال پہلے داخلے کا ذکر بھی آتاہے اس لئے انسان جتنا ہلکا پھلکاہوکر رہے وہ اس کے لئے بہتر ہے۔
عن مطرف بن عبداللہ بن شخییر رضی اللہ عنھم أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْرَأُ: ” أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ “، قَالَ: ” يَقُولُ ابْنُ آدَمَ: مَالِي مَالِي، وَهَلْ لَكَ مِنْ مَالِكَ إِلَّا مَا تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ، أَوْ أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ، أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ “(سنن الترمذی۔ کتاب التفسیر عن رسول اللہ ﷺ،باب ومن سورۃ التکاثر۔حدیث نمبر٣٣٥٤ )
حضرت شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچے جب آپ آیت الھکم التکاثرالخ ”زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کر دیا“، تلاوت فرما رہے تھے، آپ نے فرمایا: ”ابن آدم میرا مال، میرا مال کہے جاتا ہے۔ مگر بتاؤ تو تمہیں اس سے زیادہ کیا ملا جو تم نے صدقہ دے دیا اور آگے بھیج دیا یا کھا کر ختم کر دیا یا پہن کر بوسیدہ کر دیا؟
اس لئے انسان کے لئے بہترین مال وہی ہے جو اس نے صدقہ کرکے آخرت کی طرف بھیج دیا وہ اس کے کام آنے والا مال ہے باقی جو کچھ ہے وہ اسی دنیا میں رہ جائے گااور فنا ہوجائے گا۔
آخرت کی پہلی منزل قبر
قبر آخرت کی منزلوں میں سے سب سے پہلی منزل ہے اگریہ منزل آسانی سے گزرگئی توآخرت کی تمام منزلیں آسان ہوجائیں گی اور اگر بندہ اسی میں پھنس گیا توا ٓخرت کی دوسری منزلیں اورمشکل ہوتی چلی جائیں گی۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
عَنْ ھانی موْلَى عُثْمَانَ , قَالَ: كَانَ عثمان بن عفان اِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ يَبْكِي حَتَّى يَبُلَّ لِحْيَتَهُ , فَقِيلَ لَهُ: تَذْكُرُ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ , وَلَا تَبْكِي وَتَبْكِي مِنْ هَذَا , قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:” إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ , فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ , وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ” , قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا قَطُّ إِلَّا وَالْقَبْرُ أَفْظَعُ مِنْهُ”.“۔(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الزہد، باب ذکر القبر والبلی۔حدیث نمبر٤٢٦٧ )
ہانی بربری مولیٰ عثمان کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو رونے لگتے یہاں تک کہ ان کی ڈاڑھی تر ہو جاتی، ان سے پوچھا گیا کہ آپ جنت اور جہنم کا ذکر کرتے ہیں تو نہیں روتے اور قبر کو دیکھ کر روتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”قبر آخرت کی پہلی منزل ہے، اگر وہ اس منزل پر نجات پا گیا تو اس کے بعد کی منزلیں آسان ہوں گی، اور اگر یہاں اس نے نجات نہ پائی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے سخت ہیں“، اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے کبھی قبر سے زیادہ ہولناک کوئی چیز نہیں دیکھی۔
ا س کے علاوہ کثیر روایات احادیث کے ذخیرہ میں موجود ہیں جن سے قبر کے سوالات، وہاں کے حالات اورعذاب وغیرہ کاذکر ملتاہے اس لئے ایک مومن کواول تو اس پرایمان رکھنا چاہئے کہ قبر کے جوبھی حالات نبی کریمؐ نے بیان فرمادیئے ہیں وہ برحق ہیں اور پھر اس کے لئے آپؐ نے جو ہدایات فرمائی ہیں ان پرعمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
نفخۂ ثانیہ
دوسری بار اٹھایا جانا اس وقت ہوگا جب کہ یہ دنیا ختم ہوجائے گی اور ہر ذی روح کو موت دے دی جائے گی۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے سارے مردے اپنی قبروں سے اٹھ کر میدان حشر کی طرف دوڑ پڑیں گے اورپھر ہر شخص کا فیصلہ عدل کے ساتھ کردیا جائے گا۔باری تعالیٰ کاارشاد ہے:ثُمَّ اِِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوْنَ (15)ثُمَّ اِِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ (16 ۔المومنون) پھر اس کے بعد تمہیں ضرور مرنا ہوگا، پھر تم قیامت کے دن دوبارہ اٹھائے جاؤ گے۔ایک جگہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَاِِذَا ہُمْ مِنَ الْاَجْدَاثِ اِِلٰی رَبِّہِمْ یَنسِلُوْنَ (٥١ )قَالُوْا یٰوَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَاہٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ (٥٢ )اِِنْ کَانَتْ اِِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِِذَا ہُمْ جَمِیْعٌ لَدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ (٥٣ )فَالْیَوْمَ لاَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْءًا وَّلاَ تُجْزَوْنَ اِِلَّا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (٥٤ ۔ یس)
ترجمہ: اور صور میں پھونکا جائے گا تو اچانک وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف تیزی سے دوڑ رہے ہوں گے۔ کہیں گے ہائے ہمار ی بربادی! کس نے ہمیں ہماری سونے کی جگہ سے اٹھا دیا؟ یہ وہ ہے جو رحمن نے وعدہ کیا اور رسولوں نے سچ کہا تھا۔ نہیں ہوگی مگر ایک ہی چیخ، تو اچانک وہ سب ہمارے پاس حاضر کیے ہوئے ہوں گے۔ پس آج کسی جان پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا اور نہ تمھیں اس کے سوا کوئی بدلہ دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے۔
ایک جگہ اور ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّ غَیْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمْ وَ نُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّکُمْ وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْءًا وَ تَرَی الْاَرْضَ ھَامِدَۃً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْھَا الْمَآءَ اھْتَزَّتْ وَ رَبَتْ وَ اَم نْبَتَتْ مِنْ کُلِّ زَوْجٍ بَھِیْجٍ(۵) ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّہٗ یُحْیِ الْمَوْتٰی وَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۶)وَّ اَنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ لَّا رَیْبَ فِیْھَا وَ اَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ(۷۔ حج)
ترجمہ: اے لوگو! اگر تم اٹھائے جانے کے بارے میں کسی شک میں ہو تو بے شک ہم نے تمھیں حقیر مٹی سے پیدا کیا، پھر ایک قطرے سے، پھر کچھ جمے ہوئے خون سے، پھر گوشت کی ایک بوٹی سے، جس کی پوری شکل بنائی ہوئی ہے اور جس کی پوری شکل نہیں بنائی ہوئی، تاکہ ہم تمھارے لیے واضح کریں اور ہم جسے چاہتے ہیں ایک مقررہ مدت تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں، پھر ہم تمھیں ایک بچے کی صورت میں نکالتے ہیں، پھر تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی وہ ہے جو قبض کر لیا جاتا ہے اور تم میں سے کوئی وہ ہے جو سب سے نکمّی عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے، تاکہ وہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے۔ اور تو زمین کو مردہ پڑی ہوئی دیکھتا ہے، پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تو وہ لہلہاتی ہے اور ابھرتی ہے اور ہر خوبصورت قسم میں سے اگاتی ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور (اس لیے) کہ وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور (اس لیے) کہ وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ اور (اس لیے) کہ قیامت آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں اور (اس لیے) کہ اللہ ان لوگوں کو اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں۔
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بعث بعد الموت کے تذکرے کثرت سے آئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مختلف انداز سے مثالیں دے دے کر یہ بات سمجھایا کہ بعث ونشور بالکل یقینی ہے اس میں کسی طرح کی شک کاکوئی موقع نہیں ہے اس لئے ایمان والوں کے لئے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ اٹھائے جانے پر ایمان لانا ضروری ہے۔
ویسے تو ہر انسان کی موت اس کے لئے قیامت ہے اس لئے کہ مرنے کے بعد ہر انسان اب قیامت کے دن ہی اٹھے گالیکن جولوگ بچ جائیں گے ان کی یکبارگی موت کے لئے قیامت کاوقوع ہوگا اوراس کے بعد صور پھونکا جائے گا جس سے تمام مردے اپنی قبروں سے اٹھ کر میدان حشر کی طرف جمع ہونا شروع ہوجائیں گے اورپھراللہ تبارک وتعالیٰ ایک ایک فرد سے اس کے اعمال کاتفصیلی حساب لیں گے جو نیک ہوں گے ان کے لئے جنت اور اس کی سدابہا ر نعمتیں ہیں اور جو بد کردار ہوں گے ان کے لئے جہنم اور اس کے دردناک عذاب کاسامنا ہوگا۔
