دوسروں کے مال میں دست درازی سے بچنا

تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
مال غیر میں تصرف : سود ،رشوت اور ناجائز تصرفات
اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بہت ساری چیزوں کا مالک انسان کوبنادیا ہے اور اس میں اسے تصرف کا پورا اختیار دے رکھا ہے۔ اسی لئے انسان ان چیزوں کی حفاظت کے تما م جتن کرتاہے۔ تاکہ وہ اشیاء اس کی ملکیت میں باقی رہیں اور ان کواستعمال میں لاکر وہ فائدہ حاصل کرے۔ایسے اموال جن میں تصرف کا حق کسی خاص آدمی کو ہی حاصل ہے اس میں بلااجازت کسی کی بھی دست درازی حرام ہے۔ چاہے وہ چوری ہو،لوٹ ہو یااس کی کوئی اورصورت ہو۔اسی طرح صاحب مال کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر کسی کے مال پرقبضہ کرلینا چاہے وہ صاحب مال کی اجازت سے ہی کیوں نہ ہو،یاصاحب مال خود ہی پیش کیوں نہ کررہا ہو،حرام ہے۔جیسے رشوت، سود،ناجائز تاوان وغیرہ۔ اس لئے کہ یہاں پر صاحب مال کی طرف سے ظاہری طور پر اجازت یاپیشکش ضرور نظر آتی ہے لیکن وہ اس کی مجبوری ہے۔ اس میں اس کے دل کی رضامندی شامل نہیں ہے۔اگر اس کو اختیار دے دیا جائے تو وہ اپنامال کسی کوبھی دینے کے لئے کبھی بھی تیار نہیں ہوگا۔اسی طرح امانت کامال جس کے پاس جمع ہواس میں بھی تصرف کاحق صرف صاحب مال کو ہے۔امین کوبلااجازت تصرف کاکوکوئی اختیا ر نہیں ہے۔ ملکی خزانوں، اموال زکوٰۃ،یاکسی کمپنی وغیرہ کے مالیات میں غبن وغیرہ بھی اسی میں داخل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے اموال میں تصرف کو سختی سے منع کیاہے۔ ارشاد ہے۔
وَ لَا تَاْکُلُوْٰٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْن(١٨٨ ۔بقرہ)
ترجمہ:اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم وستم سے اپنا کر لیا کرو، حالانکہ تم جانتے ہو۔
جو لوگ دوسروں کے اموال پر ناجائز قبضہ کرلیتے ہیں۔چاہے وہ اپنی طاقت کے ناجائز استعمال سے ہو یا حکام کورشوت کھلاکر کسی کی جائداد پر قبضہ کی صورت میں ہویا جھوٹی گواہی دلوا کر، ہرصورت میں یہ مال حرام ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں سے اپنی شدید ناراضی کااظہار کیاہے۔
اِنَّ الَّذِینَ یَشتَرُونَ بِعَھدِ اللّٰہِ وَ اَیمَانِھِم ثَمَنًا قَلِیلًا اُولٰٓءِکَ لَا خَلَاقَ لَھُم فِی الاٰخِرَۃِ وَ لَا یُکَلِّمُھُم اللّٰہُ وَ لَا یَنظُرُ اِلَیھِم یَومَ القِیٰمَۃِ وَ لَا یُزَکِّیھِم وَ لَھُم عَذَابٌ اَلِیمٌ (۷۷۔آل عمران)
ترجمہ: بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ تعالیٰ نہ تو ان سے بات چیت کرے گا نہ ان کی طرف قیامت کے دن دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
سود
حرام مالوں میں سود ایک ایسی قسم ہے جواللہ تعالیٰ کونہایت ناپسندیدہ ہے اور جو لوگ سودی کاروبار کرتے ہیں اور سود کامال کھاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے جنگ کااعلان فرمایا ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِن کُنتُم مُّؤمِنِینَ (٢٧٨ ) فَاِن لَّم تَفعَلُوا فَاذَنُوا بِحَربٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُولِہٖ وَ اِن تُبتُم فَلَکُم رُءُ وسُ اَموَالِکُم لَا تَظلِمُونَ وَ لَا تُظلَمُونَ(٢٧٩ ۔بقرہ)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کوخبر دار کیاہے کہ اللہ کی نا راضگی والے اعمال سے اپنے آپ کوبچاؤ اور حرام مال سے اپنے آپ کو محفوظ رکھو، سود سے بالکل کنارہ کشی اختیا رکرو۔ ورنہ اللہ کے غضب و عتاب کاسامنا کرنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔سود کامال اتنالعنتی مال ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی وجہ سے بنی اسرائیل پر بہت سی جائز اور حلال چیزوں کو حرام کردیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر بہت ساری نعمتیں نازل فرمائیں لیکن اس قوم نے اللہ کی نعمتوں کی قدر نہ کی اور حلال راستوں کو چھوڑ کر حرام راستے اختیار کئے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تعقیباً وسزاء ً بہت سی حلال چیزیں بھی ان پرحرام فرمادی۔اس عقاب کی جو وجوہات اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے ان میں سود کامال کھانااور دوسروں کے اموال میں بلا استحقاق تصرف کرنے کوبھی شامل فرمایا ہے۔اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ ناجائز راستوں سے حرام مال کو اپنے تصرف میں لانا اتنا بڑ اجرم ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ حلال چیزوں سے بھی محروم کردیتے ہیں۔ ارشاد ہے:
فَبِطُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْھِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلُّتْ لَھُمْ وَ بِصَدِّھِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَثِیْرًا(١٦٠ ) وَّ اَخْذِھِمُ الرِّبٰواوَ قَدْ نُھُوْا عَنْہُ وَاَکْلِھِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ مِنْھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا(١٦١ ۔نساء)
ترجمہ: تو جو لوگ یہودی بن گئے، ان کے بڑے ظلم ہی کی وجہ سے ہم نے ان پر کئی پاکیزہ چیزیں حرام کر دیں، جو ان کے لیے حلال کی گئی تھیں اور ان کے اللہ کے راستے سے بہت زیادہ روکنے کی وجہ سے۔اور سود لینے کی وجہ سے جس سے منع کئے گئے تھے اور لوگوں کا مال ناحق کھانے کے باعث اور ان میں جو کفار ہیں ہم نے ان کے لئے المناک عذاب مہیا کر رکھا ہے۔
اس آیت کریمہ سے یہ معلوم ہوتاہے کہ بنی اسرائیل پر بھی سود ویسے ہی حرام تھاجیسے آج امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کے لئے حرام ہے اور ان لوگوں نے اس حرام کام کاارتکاب کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر سخت احکام نازل فرمائے اور بہت سی حلال چیزوں کوان پرحرام کردیا۔
سود سے متعلق نبی کریم ﷺ کے ارشادات بھی بہت سخت ہیں۔ایک حدیث میں آپ ؐ نے سود او رسودی کاروبار میں شریک ایک ایک فرد کے لئے لعنت فرمایا ہے۔
عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، قَالَ:” لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَشَاهِدَهُ، وَكَاتِبَهُ”.(سنن ابوداود،کتاب البیوع، باب فی آکل الربا وموکلہ۔ حدیث نمبر٣٣٣٣ )
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سود کے لیے گواہ بننے والے اور اس کے کاتب پر لعنت فرمائی ہے۔
سود کھانے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے یہاں دردناک عذاب ہے۔رسول اللہ ﷺ نے معراج کے سفر میں سود کھانے والوں کو گرفتار عذاب دیکھا اور اس کی دردناک کیفیت کو اس طر ح بیان فرمایا :
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” اتيت ليلة اسري بي على قوم بطونهم كالبيوت فيها الحيات ترى من خارج بطونهم، فقلت: من هؤلاء يا جبرائيل؟، قال:” هؤلاء اكلة الربا”.(سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،باب التغلیظ فی الربا۔حدیث نمبر٢٢٧٣ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معراج کی رات میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ مکانوں کے مانند تھے، ان میں باہر سے سانپ دکھائی دیتے تھے، میں نے کہا: جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ سود خور ہیں۔
سود خوری اتنا غلیظ کام ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو اپنی ماں کے ساتھ زناکے مشابہ قرار دیا ہے :
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” الرِّبَا سَبْعُونَ حُوبًا أَيْسَرُهَا أَنْ يَنْكِحَ الرَّجُلُ أُمَّهُ”.(سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،باب التغلیظ فی الربا۔حدیث نمبر٢٢٧٤ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سود ستر گناہوں کے برابر ہے جن میں سے سب سے چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ،قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا آكِلُ الرِّبَا فَمَنْ لَمْ يَأْكُلْ أَصَابَهُ مِنْ غُبَارِهِ”(سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،باب التغلیظ فی الربا۔٢٢٧٨ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کوئی ایسا نہ بچے گا جس نے سود نہ کھایا ہو، جو نہیں کھائے گا اسے بھی اس کا غبار لگ جائے گا۔
اس حدیث کوپڑھنے اور اپنے ماحول کاجائزہ لینے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے گویا نبی کریم ﷺ نے آج کے دور کو دیکھ کر یہ بات ارشاد فرمائی تھی۔ آج دنیا میں سود کی اتنی قسمیں رائج ہوگئی ہیں کہ ایک متقی پرہیز گار آدمی جانے اَن جانے میں بھی اس کاگرفتار ہوجاتاہے۔آج کے بینکوں کے عمومی کاروبار سود پرمبنی ہیں اور ہر آدمی اپنے مال کی حفاظت کی غرض سے بینک میں اپنے پیسے جمع کرتا ہے اور پھر کچھ فیصد مال سود کی صورت میں اسے بینک کی طرف سے دیا جاتاہے۔رقم ہاتھ میں آجانے کے بعد شیطان طرح طرح کے حیلے اس کے سامنے پیش کرتاہے جس کی وجہ سے انسان اس کے دام فریب میں گرفتار ہو کر سود کی لعنت میں پھنس جاتاہے۔ اس کے علاوہ اس سود کوطرح طرح کے نام دے دیئے گئے ہیں جن کی تہہ تک پہنچنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اللھم احفظنا۔
رشوت
مال حرام کی ایک دوسری بڑی صورت رشوت ہے جس میں انسان کبھی تو مجبوری میں پھنس جاتا ہے او رکبھی چالاکی سے رشوت کے ذریعہ غیر مستحق آدمی کسی مال کامستحق بن جاتاہے۔بہر حال دونوں صورتیں حرام ہیں۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ، قال لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ، وَالْمُرْتَشِيَ فِي الْحُكْمِ ” (ترمذی،کتاب الاحکام عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب مَا جَاء َ فِی الرَّاشِی وَالمْرتَشی فِی الحکمِ۔حدیث نمبر١٣٣٦ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلے میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔
حکام کوہدیہ دینا محض اس وجہ سے کہ وہ حاکم ہیں اور اس کی وجہ سے ہماری رعایت کریں گے۔ یہ بھی رشوت میں شامل ہے۔ہاں ایسے ہدایا جوانہیں ذاتی تعلق یامحبت کی بناپر حاکم بننے سے پہلے بھی ملاکرتے تھے وہ جائز ہے۔
عن ابی حمید ساعدی رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:”اسْتَعْمَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ الْأَزْدِ يُقَالُ لَهُ ابْنُ الْأُتْبِيَّةِ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ: هَذَا لَكُمْ، وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، قَالَ: فَهَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ أَوْ بَيْتِ أُمِّهِ، فَيَنْظُرَ يُهْدَى لَهُ أَمْ لَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْهُ شَيْئًا إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى رَقَبَتِهِ، إِنْ كَانَ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ أَوْ بَقَرَةً لَهَا خُوَارٌ أَوْ شَاةً تَيْعَرُ، ثُمَّ رَفَعَ بِيَدِهِ حَتَّى رَأَيْنَا عُفْرَةَ إِبْطَيْهِ، اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ، اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ ثَلَاثًا”(صحیح بخاری۔کتاب الہبۃ۔باب لم یقبل الھدیۃ لعلۃ۔حدیث نمبر٢٥٩٧ )
حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ ازد کے ایک صحابی کو جنہیں ابن اتبیہ کہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ وصول کرنے کے لیے عامل بنایا۔ پھر جب وہ واپس آئے تو کہا کہ یہ تم لوگوں کا ہے (یعنی بیت المال کا) اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اپنے والد یا اپنی والدہ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا۔ دیکھتا وہاں بھی انہیں ہدیہ ملتا ہے یا نہیں۔ اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس (مال زکوٰۃ) میں سے اگر کوئی شخص کچھ بھی (ناجائز) لے لے گا تو قیامت کے دن اسے وہ اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اگر اونٹ ہے تو وہ اپنی آواز نکالتا ہوا آئے گا، گائے ہے تو وہ اپنی اور اگر بکری ہے تو وہ اپنی آواز نکالتی ہو گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغل مبارک کی سفیدی بھی دیکھ لی (اور فرمایا) اے اللہ! کیا میں نے تیرا حکم پہنچا دیا۔ اے اللہ! کیا میں نے تیرا حکم پہنچا دیا۔ تین مرتبہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا)۔
اس حدیث کے پیش نظر وہ لوگ اپنامحاسبہ کریں جو حکومت کی طرف سے کسی فرض کی ادائیگی پرمامور ہیں۔کہ اچانک ان کے گھروں میں تحفے تحائف کیوں آنے لگے۔مدارس کے محصلین بھی ذرا اپنے حال پرغور فرمائیں۔کہ سفر کے تمام اخراجات تو مدرسے کاہو اورہدایا پورے کے پورے ان کی جیب میں چلے جائیں۔
چوری
حرام مال حاصل کرنے کا ایک بڑا ذریعہ چوری ہے۔چوری کے لئے عربی میں سرقہ کالفط استعمال کیاجاتا جس کا لغوی معنی ہے خفیہ طریقے سے کسی اور کی چیز اٹھا لینا۔ شرعی اصطلاح میں چوری یہ ہے کہ عاقل بالغ شخص کا کسی ایسی محفوظ جگہ سے دس درہم یا اتنی مالیت یا اس سے زیادہ کی کوئی ایسی چیز جو جلدی خراب ہونے والی نہ ہو چھپ کر کسی شبہ و تاویل کے بغیر اٹھا لینا(ہدایہ)۔چوری کی شناعت و قباحت کے لئے بس اتناہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیا ہے۔
وَ السَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَھُمَا جَزَآءً بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (مائدہ۔٣٨ )
ترجمہ: چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو۔ یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا۔ عذاب، اللہ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ قوت وحکمت والا ہے۔
ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ چورجس وقت چوری کررہاہوتا ہے ایمان اس وقت اس سے باہرنکل جاتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ چوری کتنی گھناؤنی چیز ہے ایمان اس کے ساتھ رک نہیں سکتا۔
ناپ تول میں کمی
چوری کی ہی ایک قسم تطفیف یعنی ناپ تول میں ڈنڈی مارنا ہے۔جب کوئی لین دین کامعاملہ ہو تو وزن چاہے وہ ناپ کے ذریعے ہو یا تول کے ذریعے ہمیشہ دونوں پلڑے برابر رکھنا چاہئے۔ایسا نہ ہوکہ لینے کے وقت پلڑے کو جھکا دے اور دینے کے وقت اٹھادے۔اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے سخت عذاب کی دھمکی دی ہے۔ارشاد ہے:
وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِینَ (۱)الَّذِیْنَ اِِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ (۲)وَاِِذَا کَالُوْھُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ (۳۔مطففین)
ترجمہ: بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔ کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں۔ اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔
“طفیف” سے مراد ناپ تول کی کمی ہے خواہ اوروں سے لیتے وقت زیادہ لے اور دیتے وقت کم دے ہردوصورت تطفیف میں داخل ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”یہ نقصان اٹھانے والے ہیں کہ جب اپنا حق لیں تو پورا لیں بلکہ زیادہ لے لیں اور دوسروں کو دینے بیٹھیں تو کم دیں۔
سورہ اسرا آیت 35 میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کوناپ تول میں برابری کرنے کا حکم دیاہے اور اسی کو مومنین کے لئے بہتر طریقہ کاربتایاہے۔اَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کَلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا یعنی ” جب ناپنے لگو تو بھر پور پیمانے سے ناپو اور سیدھی ترازو سے تولا کرو۔ یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے۔اسی طرح سورہ انعام میں ارشاد باری ہے: وَ اَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا(١٥٢ )یعنی “ناپ تول انصاف کے ساتھ برابر کر دیا کرو، ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔” نیز سورۂرحمن میں بھی اللہ تعالیٰ نے ناپ تول میں برابری کاحکم دیا ہے۔وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تُخْسِرُوا الْمِیزَانَ یعنی ”تول کو قائم رکھو اور میزان کو گھٹاؤ نہیں۔“
اسی ناپ تول کی کمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے شعیب علیہ السلام کی قوم کوگرفتار عذاب کیا۔ شعیب ؑ کی زبانی اللہ تعالیٰ نے اعلان کرایا کے تمہارے سامنے واضح دلیل آچکی ہے۔اس لئے ناپ تول میں کمی کرکے زمین کی صلاح کوفساد میں تبدیل مت کرو لیکن اس قوم نے آپ کی بات نہ مانی اور بالآخر عذاب الہی ان کی تقدیر بن گئی۔
ناپ تول میں کمی کی بہت ساری صورتیں ہیں ان میں موزونی اور مکیلی تمام چیزیں شامل ہیں۔ کپڑوں یا زمینوں کے ناپ تول میں کمی کرنا بھی تطفیف میں داخل ہے۔
قتل و غارت گری
قتل و غارت گری او رلوٹ مار کے ذریعے مال حاصل کرنااللہ تعالیٰ کے یہاں اتنا ناپسندیدہ عمل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے اس دنیامیں بھی دردناک سزا متعین کیاہے اور آخرت میں بھی ان کے لئے سخت عذاب تیار کررکھاہے۔
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَ اَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(٣٣ )اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھِمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(٣٤ مائدہ)
ترجمہ: جو لوگ اللہ سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں، یا انہیں جلاوطن کر دیا جائے، یہ تو ہوئی ان کی دنیوی ذلت و خواری اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے۔ ہاں جو لوگ اس سے پہلے توبہ کر لیں کہ تم ان پر قابو پالو تو یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ بہت بڑی بخشش اور رحم و کرنے والا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے ایسے لوگوں کو سخت سزا دی ہے۔ بخاری کی ایک روایت میں اسی طرح کاایک واقعہ بیان ہواہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ”کہ کچھ لوگ عکل یا عرینہ (قبیلوں) کے مدینہ میں آئے اور بیمار ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لقاح میں جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہاں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پئیں۔ چنانچہ وہ لقاح چلے گئے اور جب اچھے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر کے جانوروں کو ہانک کر لے گئے۔ علی الصبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (اس واقعہ کی) خبر آئی۔ تو آپ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے۔ دن چڑھے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پکڑ کر لائے گئے۔ آپ کے حکم کے مطابق ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیر دی گئیں اور (مدینہ کی) پتھریلی زمین میں ڈال دئیے گئے۔ (پیاس کی شدت سے) وہ پانی مانگتے تھے مگر انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابوقلابہ نے (ان کے جرم کی سنگینی ظاہر کرتے ہوئے) کہا کہ ان لوگوں نے چوری کی اور چرواہوں کو قتل کیا اور (آخر) ایمان سے پھر گئے اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی۔(صحیح بخاری۔ کتاب المغازی،باب قصۃ عکل وعرینہ حدیث نمبر٤١٩٢ )
یہ آنکھیں پھوڑنا اور پانی نہ دینا،ہاتھ پاؤں کاٹ دینا تشددکے لئے نہیں تھابلکہ اس لئے کہ ان لوگوں نے بہت سارے جرائم کابیک وقت ارتکاب کیا تھا۔قتل،ڈاکہ،ارتداد وغیرہ،نیز ان لوگوں نے نبی کریمﷺ کے چرواہے کے ساتھ ویساہی معاملہ کیاتھااس لئے قصاصاً ان کے ساتھ بھی وہی برتاؤ کیاگیا۔ بہرحال ایسے لوگوں کے لئے سخت سزا اس لئے متعین کی گئی ہے تاکہ دوسرے لوگ ان کا انجام دیکھ کر اس طرح کی حرکت کرنے کی ہمت نہ کرسکیں۔
حرام مال کے اثرات انسان کے اعمال پر بھی پڑتے ہیں۔ اس کی وجہ سے نیک اعمال کی توفیق چھین لی جاتی ہے اور دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ اس لئے مسلمانوں کوچاہئے کہ اکل حلال کاالتزام کریں اورحرام مال سے مکمل پرہیز کریں۔
