حرام کھانے اور پینے سے احتراز
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
اہل ایمان کے لئے جس طرح ظاہری وباطنی گناہوں اورناپاکیوں سے پرہیز لازمی ہے۔ اسی طرح اپنے کھانے پینے میں حرام وحلال کاخیال رکھنااورحلال اشیا کواختیارکرنااورحرام اشیاء سے اجتناب کرناضروری ہے۔یعنی جس طرح مومن کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ اپنے اعمال کاجائزہ لیتارہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دانستہ یانادانستہ کوئی عمل ایساصادر ہوجائے جواس کے لئے عقوبت کاباعث بن جائے۔ اسی طرح یہ خیال بھی ہمیشہ رکھنا ضروری ہے کہ جن چیزوں کووہ کھانے پینے میں استعمال کرتاہے، وہ چیزیں حلال ہیں یانہیں اگرحلال ہیں توشوق سے کھائے پیئے اوراللہ کاشکر اداکرتارہے اور اگر حرام ہیں تومکمل اجتناب برتے۔ حرام و حلال اشیاکی تفصیلی معلومات قرآن وحدیث میں موجود ہیں۔ان میں کچھ اشیاء ایسی ہیں جواپنی ذات اورجنس کے اعتبار سے ناپاک ہیں ان کاحرام ہوناتوظاہر ہے وہ کبھی بھی حلال نہیں ہوسکتی ہیں۔جیسے خنزیر،کتا اوردیگر درندے وغیرہ۔ ہاں اضطراری حالت میں بقدرضرورت استعمال کی اجازت ہے اورکچھ چیزیں ایسی ہیں جواپنی ذات کے اعتبار سے ناپاک تونہیں ہیں لیکن اگر ان کوحرام طریقوں سے استعمال میں لایاجائے تووہ بھی حرام ہوجاتی ہیں۔ جیسے مرغی جب کہ ذبح کرنے سے پہلے مرجائے۔وغیرہ وغیرہ۔ قرآن کریم میں دونوں قسموں کی حر مت کو بیان کردیاگیاہے۔ ارشادباری تعالی ہے:
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخَنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ذٰلِکُمْ فِسْقٌ اَلْیَوْمَ یَءِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(مائدہ۔ آیت ۳)
ترجمہ: تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو (تو حرام نہیں) اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرو یہ سب بدترین گناہ ہیں، آج کفار تمہارے دین سے ناامید ہوگئے، خبردار! تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا، آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام مکمل کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بہت بڑا مہربان ہے۔
خنزیر،خون اورمیتہ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کے حلال ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے ان کو پاک کرنے کاکوئی طریقہ شریعت نے نہیں بتایا۔دوسرے وہ جانور ہیں جواپنی ذات کے اعتبار سے حلال پیداکئے گئے لیکن ان کے استعمال میں لانے کاجوطریقہ شریعت وسنت میں متعین کردیا گیا ان کوبروئے کارنہ لاکر کوئی غیر شرعی طریقہ اختیار کیاگیا جیسی خصی بکری یادوسرے حلال جانورجن کاگلاگھونٹ کریااینٹ،پتھر،لاٹھی، ڈنڈے سے مار کر یا اونچائی سے گراکریاپٹخ کر ماردیاجائے تووہ بھی حرام ہوجائیں گے اوران کااستعمال جائز نہیں رہ جائے گا۔ہاں ان حلال جانوروں کواگرشرعی طریقے پر ذبح کردیاجائے تووہ حلال ہیں۔اسی طرح حلال جانوروں کوکسی بتخانے پر یاکسی آستانے پر چڑھاوا کے طورپر نذ رکردیاجائے یاکسی غیر اللہ کے لئے ان کو ذبح کردیا جائے اگرچہ ذبح کرتے وقت اللہ کانام ہی کیوں نہ لیاگیاہو وہ جائز نہیں ہوں گے۔
امام تفسیر ابن کثیر نے اس آیت کے ذیل میں فرمایا:
”پس اللہ تعالیٰ نے یہ کام (چڑھاوا)مومنوں پر حرام کیا اور ان جانوروں کا کھانا بھی حرام کر دیا۔ اگرچہ ان جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت ”بِسْمِ اللّہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم“بھی کہی گئی ہو کیونکہ یہ شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ وَحدَہٗ لَا شَرِیکَ لہٗ نے اور اس کے رسولﷺ نے حرام کیا ہے اور اسی لائق ہے، اس جملہ کا مطلب بھی یہی ہے کیونکہ اس سے پہلے ان کی حرمت بیان ہو چکی ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کے نام پر چڑھائے جائیں۔“ (تفسیر ابن کثیر)
اسی طرح شراب پینا اورجوئے، سٹہ،رشوت، سود وغیرہ سے حاصل شدہ اموال حرام ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی حرمت قرآن کریم میں بیان فرمادیا ہے اوران سے بچنے کی تاکید بھی فرمائی ہے۔ ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(مائدہ۔٩٠ )
ترجمہ: اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر، یہ سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو۔
شراب کی شناعت سے متعلق رسول اللہ ﷺنے یہاں تک ارشاد فرمایا کہ ”شراب پینے والاشراب کوپیتے وقت مومن نہیں رہتا۔“یہ حدیث تفصیل کے ساتھ پہلے گزر چکی ہے۔
نبی کریم ﷺ نے تو شراب کی حرمت کے ساتھ ساتھ ان برتنوں کے استعمال سے بھی منع فرمایاہے جن میں شراب بنائی جاتی ہے۔یاان میں رکھ کر شراب پی جاتی ہے۔ ارشاد ہے:
عن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، أَنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ، قَالُوا:” يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِيمَ نَشْرَبُ؟، قَالَ: لَا تَشْرَبُوا فِي الدُّبَّاءِ، وَلَا فِي الْمُزَفَّتِ، وَلَا فِي النَّقِيرِ، وَانْتَبِذُوا فِي الْأَسْقِيَةِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنِ اشْتَدَّ فِي الْأَسْقِيَةِ؟، قَالَ: فَصُبُّوا عَلَيْهِ الْمَاءَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ لَهُمْ فِي الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ: أَهْرِيقُوهُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيَّ أَوْ حُرِّمَ الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْكُوبَةُ، قَالَ: وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ”،(سنن ابو داؤد کتاب الاشربہ،باب فی الاوعیۃ۔حدیث نمبر۔٣٦٩٦ )
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں وفد عبدالقیس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کس برتن میں پئیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دباء، مزفت اور نقیر میں مت پیو، اور تم نبیذ مشکیزوں میں بنایا کرو“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول اگر مشکیزے میں تیزی آ جائے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں پانی ڈال دیا کرو“ وفد کے لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! (اگر پھر بھی تیزی نہ جائے تو) آپ نے ان سے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا: ”اسے بہا دو“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر شراب، جوا، اور ڈھولک کو حرام قرار دیا ہے“ یا یوں کہا: ”شراب، جوا، اور ڈھول حرام قرار دے دی گئی ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے”۔
حدیث میں وارد الفاظ: دباء، حنتم، مزفت اور نقیر مختلف برتنوں کے نام ہیں جس میں زمانہ جاہلیت میں شراب بنائی اور رکھی جاتی تھی جب شراب حرام ہوئی تو نبی اکرمﷺ نے ان برتنوں کے استعمال سے بھی منع فرما دیا تھا۔
حلال چیزیں کھانے پینے سے قلب میں نور اورروشنی پیداہوتی ہے اورانسان کی روحانی ترقی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس حرام اشیاء کھانے پینے سے دل میں ایک طرح کی کدورت پیداہوتی ہے اورروحانی طور پرتنزلی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ رسول ا للہ ﷺ نے ایسے لوگوں کے بارے میں جن کا کھانا پینا حرام ہے فرمایا ہے کہ ان کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ بذات خود پاک ہے اورپاکی کو ہی پسند کرتاہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کوبھی بطور خاص حلال اور پاک اشیاء کے کھانے پینے کاحکم دیا ہے۔جودراصل امت کویہ تعلیم ہے کے پاک اور طیب غذا کااستعمال کریں اور ناپاک اور گندی چیزوں سے احتراز برتیں۔
عن عبد الرحن بن حارث قال سمعت عثمان رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:” اجْتَنِبُوا الْخَمْرَ، فَإِنَّهَا أُمُّ الْخَبَائِثِ إِنَّهُ كَانَ رَجُلٌ مِمَّنْ خَلَا قَبْلَكُمْ تَعَبَّدَ فَعَلِقَتْهُ امْرَأَةٌ غَوِيَّةٌ، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ جَارِيَتَهَا، فَقَالَتْ لَهُ: إِنَّا نَدْعُوكَ لِلشَّهَادَةِ، فَانْطَلَقَ مَعَ جَارِيَتِهَا فَطَفِقَتْ كُلَّمَا دَخَلَ بَابًا أَغْلَقَتْهُ دُونَهُ، حَتَّى أَفْضَى إِلَى امْرَأَةٍ وَضِيئَةٍ عِنْدَهَا غُلَامٌ وَبَاطِيَةُ خَمْرٍ، فَقَالَتْ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا دَعَوْتُكَ لِلشَّهَادَةِ، وَلَكِنْ دَعَوْتُكَ لِتَقَعَ عَلَيَّ أَوْ تَشْرَبَ مِنْ هَذِهِ الْخَمْرَةِ كَأْسًا، أَوْ تَقْتُلَ هَذَا الْغُلَامَ، قَالَ: فَاسْقِينِي مِنْ هَذَا الْخَمْرِ كَأْسًا، فَسَقَتْهُ كَأْسًا، قَالَ: زِيدُونِي، فَلَمْ يَرِمْ حَتَّى وَقَعَ عَلَيْهَا، وَقَتَلَ النَّفْسَ، فَاجْتَنِبُوا الْخَمْرَ، فَإِنَّهَا وَاللَّهِ لَا يَجْتَمِعُ الْإِيمَانُ وَإِدْمَانُ الْخَمْرِ إِلَّا لَيُوشِكُ أَنْ يُخْرِجَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ”.۔(نسائی کتاب الاشربہ۔باب ذکر الاثام المتولدۃ عن شرب الخمرحدیث نمبر٥٦٦٩ )
حضرت عبدالرحمٰن بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: شراب سے بچو، کیونکہ یہ برائیوں کی جڑ ہے، تم سے پہلے زمانے کے لوگوں میں ایک شخص تھا جو بہت عبادت گزار تھا، اسے ایک بدکار عورت نے پھانس لیا، اس نے اس کے پاس ایک لونڈی بھیجی اور اس سے کہلا بھیجا کہ ہم تمہیں گواہی دینے کے لیے بلا رہے ہیں، چنانچہ وہ اس کی لونڈی کے ساتھ گیا، وہ جب ایک دروازے میں داخل ہو جاتا (لونڈی) اسے بند کرنا شروع کر دیتی یہاں تک کہ وہ ایک حسین و جمیل عورت کے پاس پہنچا، اس کے پاس ایک لڑکا تھا اور شراب کا ایک برتن، وہ بولی: اللہ کی قسم! میں نے تمہیں گواہی کے لیے نہیں بلایا ہے، بلکہ اس لیے بلایا ہے کہ تم مجھ سے صحبت کرو، یا پھر ایک گلاس یہ شراب پیو، یا اس لڑکے کو قتل کر دو، وہ بولا: مجھے ایک گلاس شراب پلا دو، چنانچہ اس نے ایک گلاس پلائی، وہ بولا: اور دو، اور وہ وہاں سے نہیں ہٹا یہاں تک کہ اس عورت سے صحبت کر لی اور اس بچے کا خون بھی کر دیا، لہٰذا تم لوگ شراب سے بچو، اللہ کی قسم! ایمان اور شراب کا ہمیشہ پینا، دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے، البتہ ان میں سے ایک دوسرے کو نکال دے گا۔
اس حدیث سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شراب کتنی خبیث شی ہے کہ اس کی وجہ سے انسان دوسرے بہت سارے گناہوں میں ملوث ہوتاچلاجاتاہے اسی لئے شراب کو ام الخبائث کہا گیا ہے۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ کھانے پینے کی اشیاء اپنا اثر دکھاتی ہیں اگر حلال کھانا ہے تو اچھے اثرات ظاہر ہوتے ہیں اور نیکیوں کی طرف طبیعت کومیلان ہوتا ہے۔اس کے برعکس اگر حرام چیزیں ہوں تو ان کے برے اثرات ظاہرہوتے ہیں اور انسان ایک کے بعد دوسری معصیت میں مبتلاہوتا چلاجاتاہے۔اسی لئے اللہ تبارک کوتعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کو حلال اورطیب کھانا کھانے کاحکم دیا اور اللہ تعالیٰ کی پسندبھی یہی ہے۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ،قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يَأَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ: يَأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ سورة المؤمنون آية ٥١ ، وَقَالَ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ سورة البقرة آية ١٧٢ ، قَالَ: وَذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَهُ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِّيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ “(سنن ترمذی۔کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہﷺ،باب ومن سورۃ البقرۃ۔حدیث نمبر٢٩٨٩ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: “لوگو! اللہ پاک ہے اور حلال و پاک چیز کو ہی پسند کرتا ہے اور اللہ نے مومنین کو انہی چیزوں کا حکم دیا ہے جن چیزوں کا حکم اس نے اپنے رسولوں کو دیا ہے۔ اللہ نے فرمایا:یٰاََیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنْ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِِنِّی بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ (المومنون۔٥١ ) (اے رسولو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔) اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَ اشْکُرُوْا لِلّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ(البقرہ۔)(اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ، پیو۔) (پھر) آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، پریشان حال اور غبار آلود ہے۔ آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا کر دعائیں مانگتا ہے (میرے رب! اے میرے رب!) اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس کا پینا حرام ہے، اس کا پہننا حرام کا ہے اور اس کی پرورش ہی حرام سے ہوئی ہے۔ پھر اس کی دعا کیوں کر قبول ہو گی۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتاہے کہ دعا کی قبولیت کے لئے جس طرح دیگر بہت سارے شرائط ہیں اسی طرح اکل حلال ایک لازمی چیز ہے اورجو شخص اس کاخیال نہیں رکھتا اس کی دعا ؤں میں اثر پیدانہیں ہوتا۔
حلال اموال کی برکت سے اللہ تعالیٰ عبادات کی توفیق عطا فرماتے ہیں اور حرام مال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ برکات اوراپنی توفیق کوروک لیتے ہیں اس لئے ایمان والوں کوہمیشہ طیب اور حلال مال ہی کھانا چاہئے اورنجس اموال سود، رشوت ، چوری ،ڈاکہ اور مال غیر وغیرہ سے مکمل پرہیز کرنا چاہئے۔