طلبِ علم
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
علم وہ دولت ہے جس کو انسانیت کی ترقی کامعراج کہاجاتاہے اسی کے ذریعہ انسان اپنے خالق ومالک کی معرفت حاصل کرتاہے اوراسی کے ذریعہ روحانی اورمادی ترقیات کے اسباب فراہم کرتاہے۔علم ہی وہ دولت ہے جس نے انسان کو اشرف المخلوقات کے منصب جلیلہ پر فائز کیا اورحضرت آدمؑ کو مسجود ملائکہ بنایا۔ انسانیت کی تعمیر و تشکیل اوراس کے عروج وبقا کارازعلم ہی میں مضمر ہے جن قوموں نے حصول علم اور تعلیم وتعلم کو اپناشعار بنایاانہوں نے بام عروج کو چھولیا اور وہ دنیا کے افق پر چمکنے لگیں۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے بارہا اپنی تعلیمات میں علم کے حصول کی طرف امت کومتوجہ کیا ہے۔
علم کی اہمیت و افادیت کااندازہ صر ف اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اللہ رب العزت نے ا نسانیت کے فلاح وفراز کاجب فیصلہ کیا اور اپنے آخری رسول محبوب رب العالمین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کواس دنیا میں مبعوث فرمانے کافیصلہ کیا توسب سے پہلی آیات جو آپؐ پرنازل کی وہ خالص علم سے متعلق ہے۔ ارشاد ہے:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ (۱) خَلَقَ الْاِِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (۲) اقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ (۳) الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (۴) عَلَّمَ الْاِِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ (۵۔علق)
ترجمہ: پڑھئے(اے نبی) اپنے رب کانام لے کر جس نے پیدا کیا، خون کے لوتھڑے سے انسان کوپید اکیا،پڑھئے اورآپ کا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا، انسان کو ان چیزوں کاعلم دیاجن کو وہ نہ جانتا تھا۔
قرآن کریم کی یہ پہلی آیات علم وحکمت جیسے عظیم الشان موضوع پرمبنی پیغام ہے جس سے علم کی اہمیت و افادیت کااندازہ ہوتاہے۔
قرآن کریم کے اس پہلے اعلان سے یہ پتہ چلتاہے کہ علم حاصل کرنے کی کتنی اہمیت ہے علم چونکہ معرفت الہی کاذریعہ ہے جب تک علم نہیں ہوگامعرفت حاصل نہیں ہوگی گویا علم اسلام اورایمان کاپہلا زینہ ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جابجا علم اوراہل علم کی تعریف فرمائی ہے اور ایمان کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَ (زمر ۹)(کیاجاننے والے اورنہ جاننے والے برابر ہوسکتے ہیں)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے محسوس طریقہ پریہ اعلان فرمایاہے کہ علم والے اور بے علم کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔اس لئے کہ علم ایک روشنی ہے اور بے علمی تاریکی اور تاریکی روشنی کا مقابلہ کیسے کرسکتی ہے۔ نیز باری تعالی کا ارشادہے: یَرْفَعْ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ(مجادلہ۔۱۱)(جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور جن لوگوں نے علم حاصل کیا اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے درجات بلند کرتے ہیں۔
علم دین کا سیکھنا فرض ہے
ایمان اور علم وحکمت رفعت و بلندی کے اسباب ہیں اس لئے کہ جس کے پاس سچا ایمان اور صحیح علم ہوگا وہ یقینا ادب و تہذیب کے اعلیٰ مراتب پرفائز ہوگااور یہی ادب و تہذیب انسان کو درجات کی بلندی تک پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ایک جگہ علم کی ترغیب دیتے ہوئے باری تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَ مَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ(توبہ،١٢٢ )
ترجمہ: اور یہ ممکن نہ تھاکہ سب کے سب مسلمان نکل کھڑے ہوں پس کیوں نہ ایسا کیا گیاکہ ان کے ہرگروہ میں سے ایک جماعت نکل آئی ہوتی کہ دین میں دانش وفہم پید ا کرتی او ر جب ان کے پاس واپس آتے تو اپنی قوم کوڈراتے تاکہ وہ بچیں۔
بنیادی طور پر اگر دیکھاجا ئے تو علم دو طرح کاہے ایک تو وہ علم ہے جو ضروریات دین کے درجہ میں ہے جس کاہر شخص مکلف ہے جیسے اپنے خالق حقیقی کوپہچاننا، رسول کوپہچاننا، طہارت، نماز، روزہ، زکوۃ اورحج وغیرہ تو ان اعمال کی جانکاری اور ان کاعلم حاصل کرنا فرض عین کے درجے میں ہے جیسے طہارت کے مسائل کاجاننا،نماز کے مسائل کاجاننا جس کے بغیرنماز مکمل نہیں ہو سکتی اسی طرح زکوۃ اگرفرض ہے تو اس کے مسائل بھی جاننا ضروری ہے یاحج فرض ہے تو اس کے مسائل کاجاننا بھی فرض ہے۔ دوسرے ایسے علوم کاجاننا جن کے ذریعہ قرآن وحدیث میں غور فکر کرکے مسائل کا استنباط اوراس میں تفقہ پیداہوسکے فرض کفایہ کے درجے میں ہے۔مسلمانوں میں ایسی ایک جماعت کاہوناضروری ہے جو قرآن و حدیث میں غور فکر کرکے مسائل کواخذ کرے اور ان لوگوں کے لئے عمل کو آسان بنائے جو قرآن وحدیث میں براہ راست تدبر وتفکرکی صلاحیت نہیں رکھتے اگر مسلمانوں میں ایسی کوئی جماعت موجود نہ ہوتو سارے کے سارے گنہ گار ہوں گے۔ جیسا آیت بالا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت فرمائی گئی کہ مسلمانوں کی پوری کی پوری جماعت جہاد میں بیک وقت نہ نکلے بلکہ ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہئے جو حضور نبی کریمﷺ کی خدمت میں رہ کر دین کی سمجھ بوجھ پید ا کرے اور جو لوگ حاضر نہیں تھے یاجونہیں جانتے ان تک اس علم کو پہونچانے کی کوشش کرے۔ نیز نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
عن انس رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِهِ كَمُقَلِّدِ الْخَنَازِيرِ الْجَوْهَرَ، وَاللُّؤْلُؤَ، وَالذَّهَبَ”. (سنن ابن ماجہ ابواب کتاب السنۃ باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم۔حدیث نمبر٢٢٤ )
حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایاکہ علم کاطلب کرناہر مسلمان پرفرض ہے اورکسی نااہل کوعلم دینے والا سوروں کی گردن میں جواہر، موتی اورسونے پہنانے والے کی طرح ہے۔
اتناعلم حاصل کرنا ہرمسلمان پرفرض عین ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے خالق ومالک کوپہچان سکے اور اس کے ذمہ جو فرائض ہیں ان کوبحسن وخوبی انجام دے سکے۔ذیل میں علم، طلب علم او رعلماء کے فضائل سے متعلق احادیث نقل کی جاتی ہیں جن سے علم کی اہمیت کااندازہ کیا جاسکتاہے۔
طلب علم کی فضیلت
اللہ تعالیٰ کو دین کاعلم سیکھنا اس قدر محبوب ہے کہ نماز جیسی عبادت جو ایک مومن کی معراج ہے اور جسے افضل العبادات کہاگیاہے اس سے بھی افضل بتایاگیا نبی کریمﷺ کاارشاد گرامی ہے۔
عن ابی ذر رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” يَا أَبَا ذَرٍّ لَأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ آيَةً مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ مِائَةَ رَكْعَةٍ، وَلَأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ بَابًا مِنَ الْعِلْمِ عُمِلَ بِهِ أَوْ لَمْ يُعْمَلْ، خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ أَلْفَ رَكْعَۃٍ۔(سنن ابن ماجہ ابواب کتاب السنۃ باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم حدیث نمبر٢١٩ )
حضرت ابوذر ؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول للہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تو صبح جاکر کتاب اللہ کی ایک آیت سیکھے یہ تیرے لئے سورکعت نماز سے بہتر ہے اورتو صبح جاکر علم کاایک باب سیکھے خواہ اس پر عمل کرے یا نہ کرے یہ تیرے لیے ہزار رکعت نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔
واضح رہے کہ فرض نمازوں کی اپنی الگ اہمیت ہے اور جب نماز کاوقت آجائے تو دوسر ا کوئی بھی عمل اللہ کے یہا ں پسندیدہ نہیں ہے یہاں افضلیت نوافل کے بارے میں ہے کہ نفل نمازوں میں مشغولیت سے بہتر دین کی تعلیم و تعلم میں مشغول ہوناہے۔طلب علم کے لئے سفر کرناجنت کے راستے کا سفر ہے اللہ تعا لی اس کے ذریعہ جنت کاراستہ آسان کردیتے ہیں۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ ” (سنن ترمذی۔ کتاب العلم عن رسول للہ ﷺ باب ماجاء فی فضل طلب العلم۔حدیث نمبر٢٦٤٦ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو علم حاصل کرنے کے ارادہ سے کہیں جائے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کے راستے کو آسان کر دیتے ہیں۔
علم دین اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطا ہے اس کے ذریعہ انسان اپنے خالق ومالک کو پہچانتاہے اور اس کی عبادت کاحق اداکرتاہے جو آخرت کی کامیابی کازینہ ہے جس شخص کو اللہ تعالیٰ آخرت کی بھلائیاں عطا کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی صحیح سمجھ عطاکردیتے ہیں تاکہ اپنے علم اورصحیح سمجھ کی روشنی میں وہ دین پر صحیح صحیح عمل کر سکے جو ا س کی آخرت کی کامیابی کاضامن بن سکے۔ ارشاد نبویؐ ہے:
عن حمید بن عبد الرحمن قال سَمِعتُ مُعَاوِیۃ بن ابی سفیان يَخْطُبُ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:” مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَيُعْطِي اللَّهُ وَلَنْ يَزَالَ أَمْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ مُسْتَقِيمًا حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، أَوْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ”.(صحیح بخاری۔کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔باب قول النبی ﷺ ”لاتزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق یقاتلون۔وھم اھل العلم حدیث نمبر٧٣١٢ )
حضرت حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا میں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ خطبہ دے رہے تھے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے اور میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور دیتا اللہ ہے اور اس امت کا معاملہ ہمیشہ درست رہے گا، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ) یہاں تک کہ اللہ کا حکم آپہنچے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کا مقصد حیات عبادت قرار دیا ہے اور دنیا و آخرت کی نجات کا ذریعہ عبادت الٰہی ہی ہے لیکن عبادتِ محض کے مقابلے علم دین کے حصول اور اس کی تبلیغ و اشاعت میں مشغول ہونااللہ کوپسند ہے علم کی روشنی میں جوعبادت کی جاتی ہے اس میں جلاء پیداہوتی ہے او ر علم کی وجہ سے شیطانی مکرو فریب سے بچنا بھی آسان ہو تا ہے بہ نسبت اس کے کہ علم سے پرے ہوکر محض عبادت میں مشغول رہا جائے۔ ا س لئے کہ شیطان کبھی کبھی عبادت کی آڑ میں انسان کو گناہوں میں ملوث کردیتاہے اور انسان اس معصیت کو بھی عبادت سمجھ کر کرتا رہتاہے۔
علم دین کا سیکھنا اور اسے دوسروں تک پہنچانا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں علم دین سیکھنے والوں کو اتنی محبوبیت ملتی ہے کہ اللہ کے فرشتے اور سمندر کی مچھلیاں تک اس کی خیر وبرکت اور مغفرت کے لئے دعائیں کرتی ہیں گویا پوری کائنات میں ا س کے لئے محبوبیت ڈال دی جاتی ہے نبی کریم ﷺ کاارشاد گرامی ہے:
عن ابی الدرداء رضی اللہ عنہ قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:” مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ، وَإِنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ يَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ حَتَّى الْحِيتَانِ فِي الْمَاءِ، وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ، إِنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ” (سنن ابن ماجہ ابواب کتاب السنہ۔باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم۔ حدیث نمبر٢٢٣ )
حضرت ابودرداء ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص علم دین کی تلاش میں کوئی راستہ چلے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے، اور فرشتے طالب علم سے خوش ہو کر اس کے لیے اپنے بازو بچھا دیتے ہیں، آسمان و زمین کی ساری مخلوق یہاں تک کہ مچھلیاں بھی پانی میں طالب علم کے لیے مغفرت کی دعا کرتی ہیں، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں، اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے، لہٰذا جس نے اس علم کو حاصل کیا، اس نے(علم نبوی اور وراثت نبوی سے)پورا پورا حصہ لیا“۔
علم دین کا طلب کرنا ایک ایساعظیم الشان اور اتنابڑ اعمل ہے کہ طالب علم کے اکرام میں فرشتے اپنے پروں کو بچھادیتے ہیں اور سمندر میں رہنے والی مچھلیاں بھی اس کے لئے دعاء مغفرت کرتی ہیں۔
جس طرح ایک مجاہد اعلائے کلمۃاللہ کے لئے اپنے نفس کے خلاف جہادکرتاہے اورنفسانی خواہشات کامقابلہ کرتے ہوئے اپنے دین کی حفاظت کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں کے دین کی حفاظت کاسبب بھی بنتاہے اوراسلامی سرحد کومحفوظ رکھنے میں ممد ومعاون ہوتاہے بعینہٖ ایک طالب علم اپنے نفس کے تقاضوں کے خلاف شیطان سے مقابلہ کرتے ہوئے علم دین کوحاصل کرتاہے اور پھراس علم کے ذریعہ شیطانی اورطاغوتی لشکروں کامقابلہ کرتے ہوئے اپنے دین کی حفاظت کرتاہے اورلوگوں کوبھی طاغوتی راستے سے ہٹاکررحمانی راہ پرگامزن کرنے کے لئے کوشاں رہتاہے اسی لئے نبی کریم ﷺ نے طالب علم کومجاہد کے مثل قرار دیا ہے ارشادہے:
عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى يَرْجِعَ “(سنن ترمذی۔ کتاب العلم عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی فضل طلب العلم۔ حدیث نمبر٢٦٤٧ )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے نکلے تو وہ لوٹنے تک اللہ کی راہ میں ہو گا۔“
طلب علم میں مشغولیت ایک مستقل عبادت ہے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ طلب علم کوسیئات کاکفارہ بنادیتے ہیں نیز علم حاصل کرنا جنت میں داخلہ کی ضمانت بھی ہے نبی کریم ﷺکاارشادہے مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ کَانَ کَفَّارۃًلِمَامَضِیَ (ترمذی) کہ جس نے علم حاصل کیا تووہ اس کے گذشتہ(گناہوں) کاکفارہ ہوجائے گا نیز آپ نے ارشاد فرمایا لَنْ یَّشْبَعَ الْمُوْٗمِنُ مِنْ خَیْرٍیَّسْمَعُہٗ حَتّٰی یَکُوْنُ مُنْتَھٰہُ الْجَنَّۃَ (ترمذی) کہ مومن کاپیٹ خیرکی باتیں سننے سے نہیں بھرتا یہاں تک کہ جنت ہی اس کی منتہا ہوتی ہے۔یعنی مومن کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ خیر کے کاموں میں حریص ہوتاہے اورعلم سے بڑاخیر کوئی نہیں ایک مومن ہروقت اس خیرکی تلاش میں رہتاہے اورجہاں بھی اس کوپاتاہے لے لیتا ہے۔ اور جنت میں اپناٹھکانہ بنالیتاہے۔ علم کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے آپ کو معلم شمارکیا ہے:
عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ مِنْ بَعْضِ حُجَرِهِ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا هُوَ بِحَلْقَتَيْنِ إِحْدَاهُمَا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ وَيَدْعُونَ اللَّهَ، وَالْأُخْرَى يَتَعَلَّمُونَ وَيُعَلِّمُونَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” كُلٌّ عَلَى خَيْرٍ هَؤُلَاءِ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ وَيَدْعُونَ اللَّهَ، فَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهُمْ، وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ، وَهَؤُلَاءِ يَتَعَلَّمُونَ، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا فَجَلَسَ مَعَهُمْ” (سنن ابن ماجہ ابواب کتاب السنہ۔باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم ۔ حدیث نمبر 229)
حضرت عبد اللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ اپنے کسی حجرہ سے مسجد میں آئے۔آپؐ نے دیکھا کہ دوحلقے ہیں ایک قرآن کی تلاوت کررہاہے ا وردعا مانگ ر ہا ہے اور دوسراحلقہ علم سیکھنے سکھانے میں مشغول ہے تونبی کریمﷺ نے فرمایا دونوں بھلائی پرہیں یہ قرآن پڑھ رہے ہیں اوراللہ سے مانگ رہے ہیں۔ا للہ چاہیں تو ان کوعطافرمائیں اوروہ چاہیں تو نہ دیں اوریہ علم سیکھ سکھارہے ہیں اورمجھے تومعلم بناکر بھیجاگیاہے چنانچہ آپ ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔
ان احادیث سے طلب علم کی فضیلت اور اہل علم کی اللہ کے یہاں قدرو منزلت کاپتہ چلتاہے اس لئے ہر صاحب ایمان کوچاہئے کہ علم دین کو سیکھے اوردوسروں کوسکھائے۔
صحابۂ کرام کا طلب علم کاشوق
علم جب مطلق بولاجاتاہے تواس سے علم دین ہی مراد ہوتاہے اور علم دین میں سب سے مقدم قرآن کریم کا علم ہے اس لئے کہ یہ علیم وخبیر کاکلام ہے اور تمام کا تمام علوم کابحرذخار ہے۔ نبی کریم ﷺ قرآن کریم کی تعلیم او را س کی ہدایت لے کر آئے او رآپ نے جو کچھ بھی کہا یاکیایہ سب قرآن کریم کی تفسیر ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی تشریف آوری کا مقصد ہی قرآن کریم کی تفسیر ہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے اپنے اعمال، اقوال اورافعال سے قرآن کریم کی تفسیر فرمائی اورصحابۂ کرام نے اس تفسیر کو نقل کرکے اپنے مابعدوالوں کے لئے آسانیاں بہم پہنچائی اس کے لئے ان کو بڑی سی بڑی مشقت کا بھی سامناکرناپڑ اتو انہوں نے نہایت خوش دلی سے برداشت کیالیکن قرآن کریم کی تعلیم اور حضور اکرم ﷺ کے افعال واقوال کو محفوظ کیا اور اس کی تبلیغ واشاعت میں اپنی زندگیاں صر ف کردیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ رواۃ حدیث میں سب سے زیادہ حدیثوں کے روایت کرنے والے ہیں انہوں نے یہ احادیث کس طرح حاصل کیں۔اپناسارا کاروبار چھوڑ چھاڑ کر نبی کریمﷺ کی چوکھٹ پرآپڑے تھے اور آپ ﷺ کے ارشادات اور آپؐ کے افعال کودیکھتے او ر محفوظ کرتے رہتے تھے۔ چونکہ آمدنی کاکوئی مستقل ذریعہ نہیں تھا اس لئے حضور ﷺ کی طرف سے کبھی کچھ آجاتایا مدینہ کے لو گ اصحاب صفہ کے لئے کچھ ہدایابھیج دیاکرتے تھے تو آپ ؓ اس میں سے کچھ کھاپی لیاکرتے تھے۔ بعض اوقات توکئی کئی وقتوں کافاقہ ہوجاتاتھاجس کی وجہ سے کمزوری ہوجاتی اورآپ غش کھاکر گرجایاکرتے تھے لو گ یہ سمجھتے تھے کہ آپؓ کو مرگی کادورہ پڑگیاہے اور علاج کے طور پرلوگ آپ کی گردن پر پاؤں رکھ دیاکرتے تھے لیکن حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ وَمَابِیْ اِلّاالْجُوْعُ کہ حقیقت میں نہ مجھے کوئی مرگی تھی اور نہ کو ئی بے ہوشی کادورہ پڑتاتھا بلکہ بھوک سے نڈھال ہوکر پڑ ا رہتاتھا۔
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موجود تھے، آپ کے پاس گیرو سے رنگے ہوئے دو کتان کے کپڑے تھے، انہوں نے ایک کپڑے میں ناک پونچھی اور کہا: واہ واہ، ابوہریرہ! کتان میں ناک پونچھتا ہے، حالانکہ ایک وہ زمانہ بھی تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اور حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان بھوک کی شدت کی وجہ سے بیہوش ہو کر گر پڑتا تو کوئی آنے والا آتا اور میری گردن پر اپنا پاؤں رکھ دیتا اور سمجھتا کہ میں پاگل ہوں، حالانکہ میں پاگل نہیں تھا ایسا صرف بھوک کی شدت کی وجہ سے ہوتا تھا۔(جامع ترمذی۔کتاب الزہد عن رسول اللہ ﷺ،باب ماجاء فی معیشۃ اصحاب النبی ﷺ۔حدیث نمبر ٢٣٦٧ )
حضرت عبد للہ بن عباسؓ جو مفسر قرآن کے نام سے مشہور ہیں وہ خود بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ کی وفات ہوگئی تو میں نے ایک انصاری سے کہاکہ اصحاب رسولﷺکوبلالاؤ تو ہم تم ان سے حدیث دریافت کریں کیونکہ اس وقت بہتیرے صحابی موجود ہیں۔ انصاری نے کہااے ابن عباس ؓ تم پرتعجب ہے کیاتم یہ خیال کرتے ہوکہ وہ لوگ تمہارے حاجت مند ہیں حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں جیسے لوگ ہیں وہ ہیں (یعنی کیسے کیسے جلیل القدر لوگ ہیں) ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے یہ خیا ل ترک کردیااورخود ہی جاکر اصحاب رسول اللہ ﷺ سے حدیث دریافت کرنے لگا اگر مجھے کسی شخص سے حدیث پہنچتی تھی تو میں اس کے دروازے پرجاتاتھا جب کہ وہ قیلولے میں ہوتے تھے اپنی چادر ان کے دروازے پر بچھا لیتااور آندھی مجھ پرمٹی ڈالتی تھی،پھروہ مجھے دیکھتے توکہتے کہ اے رسول اللہؐ کے چچا کے بیٹے آپ کوکیا ضرورت لائی آپ نے مجھے کیوں نہ بلابھیجا کہ میں آپ کے پاس آجاتا۔ میں کہتاتھا کہ نہیں مجھ پرآپ کے پاس آنے کاحق زیادہ ہے پھر میں ان سے حدیث پوچھتاتھا۔ (طبقات ابن سعد)
اس طرح علم حاصل کرنے کے لئے صحابۂ کرام نے بعض اکابر صحابۂ کرام سے ایک ایک حدیث حاصل کرنے کے لئے لمبے لمبے سفر کیے۔ اسی طرح تابعین اورتبع تابعین نے بھی علم کے لئے دور دراز علاقوں کا سفر کیا اور طلب علم میں سفر کی صعوبتوں کے ساتھ ساتھ بھوک اور پیاس کی شدت کو بھی برداشت کیا۔
علم کا طلب کرنا ایک ایسا عمل ہے کہ جوں جوں علم بڑھتاجاتاہے اپنی لاعلمی کا احساس بڑھتا جاتا ہے ا ور علم کاطالب کبھی بھی شکم سیر نہیں ہوتا بلکہ اس کاحرص اورطمع روز بروز افزوں ہوتاجاتاہے۔ نبی کریمؐ جن کواولین وآخرین کاعلم عطاکیاگیاتھا۔ اس کے باوجود آپ کویہ تعلیم دی گئی کہ آپ اپنے رب سے علم میں زیادتی کی دعاکیجئے رَبِّ زِدْنِیْ عِلْماً (طٰہٰ) جس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ علم کی کوئی انتہااور اس کی کوئی آخری حد نہیں ہے کیونکہ علم صفات باری میں سے ہے جولامحدود ہے۔
علم دین محض اللہ کے لئے حاصل کرنا چاہئے
اب تک علم، طلب علم اوراہل علم کے جوفضائل بیان کئے گئے ان تمام فضائل کاانحصار اس بات پرہے کہ وہ علم دین وشریعت کاعلم ہواوراس کے حصول کامقصد اپنی اصلاح ہو اور اس کو حاصل کرنے کے بعد اس کے مقتضیات پرعمل پیر اہو اگرحاصل کیاجانے والا علم دین کاعلم نہیں یا اس کے حصول کامقصد اپنے دین وشریعت کی حفاظت اورعاقبت کوسنوارنانہ ہو یا اس کے حصول کے بعد اس علم کے تقاضوں کوپورانہیں کیاجائے یعنی اس پرعمل نہیں کیاجائے تو اس کے فضائل حاصل نہیں ہوں گے اوریہ علم بجائے فلاح و کامرانی کے وبال جان اورخسران کاسبب بن جائے گا۔ اسی طرح علم دین کو دنیا کے لئے حاصل کرنا قباحت سے پُر ہے اوراس کی شناعت واضح ہے حدیثوں میں اس پرسخت وعیدآئی ہے ایک حدیث میں واردہوا ہے:
عن ابن کعب ابن مالک عن ابیہ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُجَارِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ، أَوْ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ، أَوْ يَصْرِفَ بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ أَدْخَلَهُ اللَّهُ النَّارَ۔(سنن الترمذی۔ کتاب العلم۔ باب ماجاء فی من یطلب بعلمہ الدنیا۔حدیث نمبر2654)
حضرت ابن کعب ابن مالک رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے علم اس لئے حاصل کیاتاکہ اس کے ذریعہ علماء سے مقابلہ کرے اور بیوقوفوں سے حجت بازی کرے اوراس علم کے ذریعہ لوگوں کی توجہات اپنی طرف پھیرے تواللہ تعالیٰ اس کودوزخ میں داخل کریں گے۔
ترمذی ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا لِغَیْرِ اللّٰہِ اَوْ اَرَادَ بِہٖ غَیْرَ اللّٰہِ فَلْیَتَبَوَّاْء مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ جس نے غیراللہ کے لئے علم حاصل کیااور اس کے ذریعہ غیر اللہ کاارادہ کیاتووہ اپناٹھکاناجہنم میں بنالے۔
اس لئے دین کا علم محض اللہ کی خوشنودی اور اس کے دین کی سربلندی کی نیت سے حاصل کرنا چاہئے۔ ورنہ ساری محنت اکارت جائے گی۔آج کے اس سائنٹفک دور میں مختلف علوم فنون کا رواج ہوچلا ہے اوردنیا کی تمام تر اقوام ان علوم کو حاصل کرکے ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی فکر میں ہیں اور اس کے لئے اپنی پوری توانائی صرف کررہی ہیں۔مسلمانوں کو بھی ان علوم وفنون کو حاصل کرنا چاہئے اور ان کے ذریعہ اپنی اور پوری انسانیت کی فلاح وبہبود کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی یہ خیال ضرور رکھنا چاہئے کہ ان علوم میں مشغول ہوکر حقیقی علم جس سے اپنے خالق و مالک کی پہچان ہوتی ہے اس سے غافل نہ ہو جائیں۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے بچوں کوپہلے ضروریات دین کی تعلیم دے کر دوسرے علوم کوحاصل کرنے کے لئے بھیجیں تاکہ وہ جس میدان میں بھی جائیں اپنے ایمانی تشخص کو قائم رکھ سکیں۔