فرشتوں پر ایمان

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
اللہ اور اس کے رسول پرایمان لانے کے بعد اللہ کے فرشتوں پرایمان لانابھی ضروری ہے بایں طورکہ فرشتے اللہ کی مخلوق ہیں وہ نہ تومذکر ہیں اورنہ مونث، ان کے اجسام نورانی ہیں۔کھانے پینے کی ضرورت اورشہواتِ نفسانی سے پاک ہیں۔اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سرِمو بھی نہیں کرتے اللہ تعالیٰ نے انہیں جوحکم دے دیاہے وہ اس پرقائم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انہیں رسولوں کے لئے پیغامبر اورسفیر بنایا ہے اللہ کاحکم انبیاء تک پہنچاتے ہیں اورنظام عالم اپنے عہدوں کے مطابق سنبھالتے ہیں انہیں میں سے ایک جماعت کراماً کاتبین کے نام سے موسوم ہے جوانسانوں کے اعمال کو لکھتے ہیں ان کاوجود برحق ہے۔
فرشتوں کی حقیقت
شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی تحقیق فرشتوں کے بارے میں یہ ہے:
”اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں ایک قسم کانام فرشتہ ہے قرآن واحادیث بلکہ کتب سابقہ بھی فرشتوں کے ذکر سے پُرہیں اوراہل نقل اورعقل میں سے کوئی ملائکہ کاانکاربھی نہیں کرتاہے لہذ ادلیل کی حاجت نہیں ہے فرشتوں کی حقیقت میں اختلاف ہے جمہو راہل اسلام کے نزدیک فرشتہ جسم لطیف ہے جوہر صورت میں آسکتاہے اورافعال قویہ اپنی شان کے موافق کرسکتاہے۔ حکماء کے نزدیک جوہر مجرد ہے کہ مادیات سے بتعلق ایجاد متعلق ہوتاہے نہ وہ مرد ہیں نہ عورت۔ کھانے پینے سے اورجو چیزیں کھانے پینے سے پیدا ہوتی ہیں سب سے بے نیاز ہیں پس سونا اور پیشاب وپائخانہ وشہوت وغیرہا چیزوں سے دور ہیں بلکہ صفات بشریہ سے جیسا کہ غضب،حسد، بغض،تکبر،حرص اورظلم سب سے پرے ہیں اورنہ وہ کسی کی اولادہیں نہ آگے ان کی کوئی اولاد ہے ہروقت اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں بلکہ ان کی زندگی یہی ہے۔پس کسی وقت غافل نہیں ہوتے ہیں کما قال اللّٰہ تعالیٰ: یُسَبِّحُوْنَ لَہٗ بِاللَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَھُمْ لاَیَسْأَمُوْنَ یعنی رات دن اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اورتھکتے نہیں۔ کسی کام میں اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جس چیز کا حکم ہوتاہے فوراً بجالاتے ہیں قال اللّٰہ تعالیٰ لَایَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَااَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَایُؤمَرُوْنَ یعنی اللہ تعالیٰ کی کسی امرمیں نافرمانی نہیں کرتے اورجس چیز کاان کو حکم ہوتاہے اس کوکرتے ہیں۔پس سب ملائکہ کبیرہ صغیرہ گناہ سے پاک ہیں۔…………
ملائکہ بہت سے ہیں جس جس کام پر اللہ تعالیٰ نے ان کومقرر کردیا ہے اس کوکرتے ہیں۔ملائکہ کی تعداد اللہ کومعلوم ہے لیکن اس کثرت سے ہیں کہ کوئی چیز آسمان و زمین کی ان سے خالی نہیں۔پس بعض کواللہ تعالیٰ نے ابر سے متعلق کررکھاہے اوربعض کو ہواسے اوربعض روزی پہچانے پرمقرر ہیں اوربعض جان قبض کرنے پرمقرر ہیں بعض آدمی کے اعمال لکھنے پرمقرر ہیں کماقال تعالی: وَاِنَّ عَلَیْکُمْ لَحَافِظِیْنَ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ یَعْلَمُوْنَ مَاتَفْعَلُوْنَ یعنی تم پربزرگ محافظ چھوڑ رکھے ہیں کہ وہ تمہارے اعمال لکھتے ہیں اور جوجو تم کرتے ہووہ اس کوجانتے ہیں اوربعض آدمی کوبلیات سے محافظت رکھنے پرمقرر ہیں کماقال تعالی: یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ یعنی انسان کی بامر الٰہی محافظت کرتے ہیں اور بعض عرش الہٰی کے گرد تسبیح و تہلیل کرنے پرمقرر ہیں اوربعض عرش کے اٹھانے والے ہیں قال تعالیٰ: اَلّذِیْنَ یَحْمَلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ یعنی جو فرشتے عرش کو اٹھاتے ہیں اور جواس کے گرد ہیں وہ سب اللہ کی حمد کے ساتھ پاکی بیان کرتے ہیں اور بعض صورپھونکنے پرمقر ر ہیں اور بعض قبر میں مردے سے سوال کرنے پرمقرر ہیں اوربعض دوزخ میں عذاب کرنے پر اوربعض جنت میں مومنین کے کاروبار پرمقرر ہیں۔الغرض ہر ہر جزءِ عالم دنیاو آخرت کے ساتھ فرشتے مقرر اورمؤکل ہیں اور اس آیت سے ان کے لئے بازو بھی معلوم ہوتے ہیں اُوْلِیْ اَجْنِحَۃٍ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبَاعَ یَزِیْدُ فِیْ الْخَلْقِ مَایَشَاءُ یعنی اللہ کے فرشتے ہیں بازؤوں والے کسی کے دودو اورکسی کے تین تین اورکسی کے چار چار بازوہیں اوراللہ اپنی مخلوق میں جس قدر چاہتاہے زیادتی کرتاہے چنانچہ حدیث میں آیاہے کہ شب معراج میں نبی ﷺنے جبرئیل ؑکوچھ سو بازوسے دیکھاہے۔ لیکن ان سب میں یہ چا ر فرشتے سب سے افضل ہیں جبرئیل، میکائیل،اسرافیل،عزرائیل علیھم السلام۔ ان کا فرشتوں میں سب سے افضل ہوناحدیث سے ثابت ہے اورجمہو رمسلمانوں کااس پراتفاق ہے اور ماسوائے ان کے اور بھی بہت سے ملائکہ اللہ کے نزدیک بڑے مقرب ہیں جبرئیل ؑانبیاء علیھم السلام پروحی لایاکرتے تھے اورمیکائیلؑ حکم الٰہی سے خلق کوروزی پہنچاتے ہیں اور مینہ کاسامان کرنے پرموکل ہیں اور اسرافیلؑ قیامت کوصور پھونکیں گے اورعزرائیل ؑعالم کی ارواح قبض کرنے پر مقرر ہیں واللہ اعلم۔“(عقائدالاسلام فصل ہفتم ص ١٢٩ تا١٢٣ )
شرح عقائد نسفی میں ہے :
وَالْمَلَاءِکَۃُ عِبَادُ اللّٰہِ تَعَالیٰ عَامِلُوْنَ بِاَمْرِہٖ عَلیٰ مَادَلَّ عَلَیْہِ قَوْلُہٗ تَعَالیٰ لَایَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَھُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ وَقَوْلُہٗ تَعَالیٰ لَایَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَلَایَسْتَحْسِرُوْنَ وَلَایُوْصَفُوْنَ بِذُکُوْرَۃٍوَلَااُنُوثَۃٍ اِذْلَمْ یُرَدْ بِذَالِکَ نَقْلٌ وَلَادَلَّ عَلَیْہِ عَقْلٌ وَمَازَعَمَ عَبَدَۃُالْاَصْنَامِ اِنَّھُمْ بَنَاتُ اللّٰہِ مُحَالٌ بَاطِلٌ اَوْاِفْرَاطٌ فِیْ شَأنِھِمْ کَمَااَنَّ قَوْلَ الْیَھُوْدِ اَنَّ الْوَاحِدَ قَالَ اَحَدٌمِّنْھُمْ قَدْ یَرْتَکِبُ الْکُفْرَ وَیُعَاقِبُہُ اللّٰہُ بِالْمَسْخِ تَفْرِیطٌ وَتَقْصِیْرٌ فِیْ حَالِھِمْ فَاِنْ قِیْلَ اَلَیْسَ قَدْ کَفَرَ اِبْلِیْسُ وَکَانَ مِنَ الْمَلَاءِکَۃِ بِدَلِیْلِ صِحَّۃِ اِسْتِثْنَاءِہٖ مِنْھُمْ قُلْنَا لَابَلْ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ لٰکِنَّہٗ لَمَا کَانَ فِیْ صِفَۃِ الْمَلَاءِکَۃِ فِیْ بَابِ الْعِبَادَۃِوَرَفْعَۃِالدَّرَجَۃِوَکَانَ جِنِّیًا وَاحِدًا مَغْمُوْرًافِیْمَا بَیْنَھُمْ صَحَّ اِسْتِثْنَاوُئ ہٗ مِنْھُمْ تَغْلِیْبًا وَاَمَّا ھَارُوْتُ وَمَارُوْتُ فَالْاَصَحُّ اَنَّھُمَامَلَکَانِ لَمْ یَصْدُ رْ عَنْھُمَا کُفْرٌ وَلَاکَبِیْرَۃٌ وَتَعْلِیْمُھُمَا اِنَّمَا ھُوَعَلیٰ وَجْہِ مُعَاتَبَۃٍ کَمَا یُعَاتَبُ الْاَنْبِیَاءُ عَلَی الزَّلَّۃِ وَالسَّھْوِ وَکَانَایَعِظَانِ النَّاسَ وَیَقُوْلَانِ اِنَّمَانَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَاتَکْفُرْ وَلَاکُفْرَ فِیْ تَعْلِیْمِ السِّحْرِ بَلْ فِیْ اِعْتِقَادِہٖ وَالْعَمَلِ بِہٖ۔
ترجمہ: اورملائکہ اللہ کے بندے ہیں،اس کے حکم پرعمل کرنے والے ہیں جیساکہ اس پراللہ تعالیٰ کایہ ارشاد دلالت کرتاہے کہ وہ بات کہنے میں اس پرسبقت نہیں کرتے اور اس کے حکم پرعمل کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کاارشادہے کہ فرشتے ا س کی عبادت سے اعراض نہیں کرتے اور نہ بھٹکتے ہیں اورنہ مرد یاعورت ہونے کے ساتھ متصف ہیں،اس لئے کہ اس کے متعلق نہ تو کوئی نقل واردہے اورنہ ا س پرکوئی عقلی دلیل دلالت کرتی ہے اوربت پرست جویہ کہتے ہیں کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں محال اورباطل ہے اوران کی شان میں غلواورحد سے تجاوز ہے جس طرح یہود کا یہ کہنا کہ ان میں سے اِکّادُکّابعض دفعہ کفرکربیٹھتے ہیں اوراللہ ان کومسخ کی سز ادیتاہے،ان کے بارے میں تفریط اورکوتاہی ہے۔پس اگر کہاجائے کہ ابلیس کافر نہیں ہوگیا حالانکہ وہ ملائکہ میں سے تھا ملائکہ سے اس کااستثناصحیح ہونے کی دلیل سے ہم جواب دیں گے کہ نہیں بلکہ وہ “جن” میں سے تھاپس اس نے اپنے رب کے حکم سے خروج کیالیکن وہ عبادت اوربلندی مرتبہ میں ملائکہ کی صفت پرتھا اورایک ہی “جن”تھاجوملائکہ کے درمیان چھپارہتاتھاتو تغلیباًان سے اس کااستثناصحیح ہوگا اوررہے ہاروت وماروت تو زیادہ صحیح یہ بات ہے کہ ان سے نہ کوئی کفر صادر ہواورنہ کوئی کبیرہ اور دونوں کوسزاصرف عتاب کے طورپرہے۔ جس طرح رائے میں غلطی اور سہوکی بنیاد پرانبیاء کوعتاب ہوتاہے اوروہ دونوں لوگوں کونصیحت کرتے تھے اورکہہ دیتے تھے کہ ہم آزمائش ہیں لہذ ا کفر نہ کرنااورسحرکی تعلیم میں کفرنہیں ہے بلکہ اس کااعتقاد کرنے اوراس پرعمل کرنے میں کفرہے۔
ملائکہ لطیف نورانی اجسام ہیں ملائکہ جن اورشیاطین سب لطیف اجسام ہونے کے باوجود عوارض میں ایک دوسرے سے امتیاز رکھتے ہیں، چنانچہ ملائکہ خیر اورطاعت پرپیداکئے گئے ہیں شر اور معصیت کی ان کے اندر صلاحیت ہی نہیں اورجن کے اند رخیر اور شر دونوں کی استعدادہے البتہ شر کی استعدادغالب ہے اورشیطان ہرخبیث او رسرکش جن کوکہتے ہیں،نیز جنات میں مرد عورت بھی ہوتے ہیں ان میں توالد وتناسل ہوتاہے اوربنی آدم کی طرح وہ بھی وعد ہ ووعیدکے مکلف ہیں، برخلاف ملائکہ کے،کہ ان میں یہ سب باتیں نہیں ہیں اورمادہ کے اعتبار سے فرق یہ ہے کہ ملائکہ کامادہ تخلیق نوری ہے اورجنات کامادہ تخلیق ناری ہے جیساکہ مسلم شریف میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ خُلِقَتِ الْمَلَاءِکَۃُ مِنْ نُّوْرٍ وَخُلِقَ الْجِنُّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَارٍ وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وَصَفَ لَکُمْ لیکن بعض حضرات کہتے ہیں کہ ابلیس ملائکہ میں سے تھااوردلیل یہ دیتے کہ اللہ تعالی کاارشا د وَاِذْ قُلْنَالِلْمَلَائِکَۃِ اسْجُدُوْا لِآدَمَ فَسَجَدُوْا اِلَّا اِبْلِیْسَ میں ابلیس کاملائکہ سے استثناء ہے اور استثنا ء جنس سے ہوتاہے۔اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کوسجدے کاحکم دیا تھا ان میں سے ابلیس نے سجد ہ نہیں کیا تومعتوب ہوا۔ اگر ابلیس ملائکہ میں سے نہیں تھا تو گویا وہ سجدے کا مکلف ہی نہیں تھا پھرانکارسجدہ کا کیامطلب؟ اور استثنا کی کیاضرورت؟ معلوم ہو ا کہ ابلیس ملائکہ کی جنس میں داخل ہے پھر بھی اس نے سجدہ سے انکار کرکے معصیت کاارتکاب کیا جیسا کہ ارشاد ربانی ہے اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ ا س سے تو یہی پتہ چلتاہے کہ ابلیس ملائکہ میں سے تھا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اول توخالق کائنات جو مخلوق کی ایک ایک حقیقت سے واقف ہے اس نے ہی کہہ دیا کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِرَبِّہٖ کہ ابلیس جنوں میں سے تھا جس نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو جب اللہ نے اس کو جن کہہ دیا توبات یہیں ختم ہوجاتی ہے۔ رہی یہ بات کہ اس کو ملائکہ میں کیوں شمار کیاگیا تو ا س کی وجہ یہ ہے کہ ابلیس ایک ایساجن تھا جواپنی عبادت وریاضت کی وجہ سے ملائکہ میں گھلاملارہتا تھا اللہ تعالیٰ نے جس جماعت ملائکہ کو سجدے کاحکم دیا ان میں ابلیس بھی شامل تھا لہٰذا سجدے کامکلف وہ بھی تھااو ر سجدہ نہ کرکے وہ عصیان رب کامرتکب ہو ا۔
یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ملائکہ میں اکّا دکّا ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے گناہ سرزد ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں او ر دلیل کے طور پر ہاروت ماروت کاواقعہ پیش کرتے ہیں۔ ملائکہ نے اللہ تعالی کے سامنے بنی آدم پراپنی عبادتوں کی وجہ سے فخرظاہر کیا تواللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے بنی آدم میں شہوات اورخواہشات پید اکررکھی ہیں فرشتوں نے کہا کہ اگر ہمارے اندر بھی شہوات پیداکردیں توبھی ہم معصیت نہیں کریں گے۔ اللہ تعالی ٰنے فرمایا کہ اچھاتوپھر تم اپنے میں سے دوکومنتخب کرو ہم ان کے اندر شہوات پیدا کریں گے۔فرشتوں نے ہاروت وماروت نامی دوفرشتوں کومنتخب کیا اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر شہوات پید اکرکے عراق کے شہربابل کاحاکم مقررکرکے انہیں زمین پراتار دیا۔وہ دونوں زہرہ نامی ایک عورت پرعاشق ہوگئے۔جس نے انہیں زنااور شراب نوشی میں مبتلاکردیا۔اللہ تعالیٰ نے دونوں کو عذاب دنیااورعذاب آخرت میں سے ایک کے انتخاب کااختیا ردیا توانہوں نے عذاب دنیاکا انتخاب کیا چنانچہ وہ جب تک اللہ تعالیٰ کومنظور ہوگاعذاب میں مبتلارہیں گے۔ نیز انہیں دونوں فرشتوں کے بارے میں ہے کہ وہ لوگوں کو سحر سکھاتے اور سحر کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کی برأت اپنے قول “وَمَاکَفَرَ سُلَیْمَانُ” سے فرمائی ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ سحر کفر ہے اورہاروت و ماروت لوگوں کو سحر کی تعلیم دیتے تھے معلوم ہواکہ ملائکہ معصوم نہیں ہیں۔
پہلے استدلا ل کا جواب تو یہ ہے کہ ہاروت و ماروت اور زہرہ نامی عورت کامعاشقہ محض افسانہ ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں اس لئے اس فرضی واقعہ کو بطور دلیل نہیں بیان کیاجاسکتا۔
دوسرے استدلال کاجواب یہ ہے کہ ہاروت وماروت کو اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی آزمائش کے لئے بھیجاتھاجو لوگوں کو سحر توسکھاتے تھے لیکن پہلے ان کو بتادیتے تھے کہ یہ گناہ ہے اورہم تمہاری آزمائش کے لئے بھیجے گئے ہیں پھر بھی جب لوگ نہیں مانتے تھے تو وہ ان کو سحر سکھادیاکرتے تھے تاکہ یہ پتہ چل جائے کہ کون مومن مخلص ہے اور کون کافر۔نیز کلمات سحر کفر اس وقت ہوتے ہیں جب کہ ان کواعتقادی طور پراداکیاجائے اورہاروت وماروت اعتقاداً ان الفاظ سحر کو اپنی زبان پرنہیں لاتے تھے بلکہ ابتلاءً اورآزمائش کے لئے تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ کون ا س گناہ سے بچتاہے اور کون اس میں ملوث ہوتاہے۔ اس لئے ملائکہ اس میں گناہ گار نہیں ہیں۔جیسا کہ کسی کوجان سے ماردینا گناہ عظیم ہے۔لیکن یہی کام حضرت میکائیلؑ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کرتے ہیں اس لئے ان کو مورد الزام نہیں بنایا جاسکتا۔یابستیوں کو الٹ دینا، ان پر آگ کی بارش وغیرہ یہ سب کام اللہ تعا لیٰ نے فرشتوں سے کرایا تو ان کو گناہ گا رنہیں کہا جاسکتا وہ تو اللہ کے احکام کو نافذ کرنے والے ہیں۔
فرشتوں پر ایمان لانے کا مطلب
ایمان بالملائکہ کے تحت شعب الایمان للبیہقی میں درج ہے۔ ایمان بالملائکہ کئی معنی پرمشتمل ہے۔ پہلی بات: فرشتوں کے وجود کی تصدیق کرنا۔
دوسری بات: ان کواپنے مرتبے اورمقام پررکھنا اورثابت کرناکہ وہ اللہ کے بندے ہیں۔ اللہ کی مخلوق ہیں،انسانوں کی طرح اورجنوں کی طرح اللہ کے حکم کے مامور ہیں،کسی شیئ پرقاد ر نہیں ہیں،ہاں جس شیئ پراللہ نے انہیں قدرت دی ہے۔ ان پرموت آسکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بڑی طویل مدت بنائی ہے انہیں اللہ تعالیٰ اس وقت وفات دے گاجب وہ اللہ کی طرف سے مقررہ مدت کوپہنچ جائیں گے۔وہ کسی ایسی صفت سے موصوف نہیں کئے جاتے جووصف ان کواللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بنانے تک پہنچاتی ہو اورنہ ہی انہیں الٰہ یامعبود کے نام سے پکاراجائے گاجیسے کہ پہلے لوگ انہیں پکارتے تھے یا اس کے دعویدار تھے۔
تیسری بات: اس بات کااقرارکرنا کہ فرشتوں میں سے بعض اللہ کے قاصد ہیں،اللہ تعالیٰ انہیں بندوں میں سے جس کے پاس چاہتے تھے بھیجتے تھے اوریہ بھی ممکن ہے کہ ان کے بعض کو بعض کی طرف بھیجتے ہوں اوراس مذکورہ اعتراف کے تابع یہ بات بھی ہے کہ فرشتوں میں سے بعض حاملین عرش ہیں۔بعض اعمال لکھنے والے ہیں،بعض ان میں سے بادلوں کو ہانکنے والے ہیں ان تمام تفصیلات کے بارے میں یااکثرکے بارے میں قرآن میں آچکاہے۔اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ساتھ ایمان کے بارے میں خصوصاً فرماتے ہیں:اٰمَنَ الرَّسُولُ بِمَآ اُنزِلَ اِلَیہِ مِن رَّبِّہٖ وَ المُؤمِنُونَ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہ وَ مَلٰئِکَتِہٖ(البقرہ٢٥٨ )ایمان لائے یہ رسول اس پرجو ان پر اتاری گئی ان کے رب کی طرف سے اورسارے مومنین ایمان لائے ہیں۔ہرایک ایمان لایااللہ کے ساتھ اوراس کے فرشتوں پر۔
(شعب الایمان ج ا ص١٤٩ ترجمہ ارد و مولانا قاضی ملک محمد اسماعیل،دار الاشاعت کراچی)
نظام کائنات اور فرشتے
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کائنات کے نظام کو اسباب کے دھاگے سے باندھ رکھا ہے۔ حالانکہ حق جل وعلیٰ قادر مطلق ہیں، کن فیکون کے مالک ہیں۔لیکن کائنات کے نظام کو چلانے کے لئے فرشتوں کو مقرر کرکھاہے۔ سب کی الگ الگ ڈیوٹیاں ہیں اوروہ اپنے کام کوپوری تندہی کے ساتھ انجام دیتے ہیں کبھی کوتاہی نہیں کرتے اورنہ کبھی سستی اورتکان محسوس کرتے ہیں تمام فرشتوں میں حضرت جبریل علیہ السلام کامقام سب سے بلند ہے رسولوں کے پاس اللہ کے پیغام کو پہونچانا آپؑ کاکام ہے۔حضرت میکائیل علیہ السلام خلقت کوروزی پہونچاتے ہیں اور بادلوں کے ذریعہ بارش برسانا بھی آ پؑ ہی کاکام ہے۔حضرت عزرائیل کے ذمے انسانوں کے ارواح کوقبض کرناہے جن کالقب ملک الموت ہے۔ اسرافیل علیہ السلام کے ذمہ صور پھونکناہے وہ قیامت کے دن صور پھونکیں گے جس سے یہ ساری کائنات درہم برہم ہوجائے گی اورپھردوسری بار صور پھونکیں گے تو سارے لوگ زندہ ہوکر میدان حشر کی طرف چل پڑیں گے۔ اس کے علاوہ فرشتوں کی ایک جماعت ہے جن کوحاملین عرش کہاجاتاہے انہوں نے عرش الہی کو اٹھارکھاہے۔ جنت کاداروغہ بھی ایک فرشتہ ہے جس کانام رضوان ہے، اسی طرح جہنم کے داروغہ کا نام مالک ہے۔کراماً کاتبین بھی فرشتوں کی ایک جماعت کانام ہے جن کاکام انسانوں کے اعمال کو لکھنا ہے۔منکر نکیر بھی فرشتوں کے نام ہیں جو قبر میں مردے کو اللہ کے حکم سے زندہ کرتے ہیں اور اس سے مختصراً چند سوالات کرتے ہیں۔ حفظہ فرشتوں کی ایک جماعت ہے جوبنی نوع انسان کی حفاظت پرمامور ہے۔ایک جماعت ملائکۂ رحمت کی ہے جواللہ کی رحمت کے ساتھ دنیامیں آتے ہیں اوراللہ کے بندوں تک اس کی رحمت پہنچاتے ہیں۔دنیا میں فرشتوں کی آمد ورفت سے متعلق نبی کریم ﷺ کے ارشادات کثیر ہیں ان میں سے چند احادیث یہاں نقل کی جاتی ہیں۔
عن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” الْمَلَائِكَةُ يَتَعَاقَبُونَ مَلَائِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلَائِكَةٌ بِالنَّهَارِ وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ، فَيَقُولُ: كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي؟، فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ يُصَلُّونَ وَأَتَيْنَاهُمْ يُصَلُّونَ”.۔(صحیح بخاری۔ کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملئکہ حدیث نمبر ٣٢٢٣ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے آگے پیچھے زمین پر آتے جاتے رہتے ہیں، کچھ فرشتے رات کے ہیں اور کچھ دن کے اور یہ سب فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جو تمہارے یہاں رات میں رہے۔ اللہ کے حضور میں جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرماتا ہے حالانکہ وہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا، وہ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ جب ہم نے انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے۔ اور اسی طرح جب ہم ان کے یہاں گئے تھے، جب بھی وہ (عصر) کی نماز پڑھ رہے تھے
عن عائشۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: حَشَوْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِسَادَةً فِيهَا تَمَاثِيلُ كَأَنَّهَا نُمْرُقَةٌ فَجَاءَ، فَقَامَ بَيْنَ الْبَابَيْنِ وَجَعَلَ يَتَغَيَّرُ وَجْهُهُ، فَقُلْتُ: مَا لَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:” مَا بَالُ هَذِهِ الْوِسَادَةِ، قَالَتْ: وِسَادَةٌ جَعَلْتُهَا لَكَ لِتَضْطَجِعَ عَلَيْهَا، قَالَ: أَمَا عَلِمْتِ أَنَّ الْمَلَائِكَةَ لَا تَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ وَأَنَّ مَنْ صَنَعَ الصُّورَةَ يُعَذَّبُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُولُ: أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ”(صحیح بخاری۔کتاب بدء الخلق۔ باب اذا قال احدکم آمین۔ والملائکۃ فی السماء، فوافقت احداھمالاخری، غفر لہ ماتقدم من ذنبہ حدیث نمبر٣٢٢٦ )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک تکیہ بھرا، جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ وہ ایسا ہو گیا جیسے نقشی تکیہ ہوتا ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور آپ کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم سے کیا غلطی ہوئی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تکیہ کیسا ہے؟ میں نے عرض کیا، یہ تو میں نے آپ کے لیے بنایا ہے تاکہ آپ اس پر ٹیک لگا سکیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر ہوتی ہے اور یہ کہ جو شخص بھی تصویر بنائے گا، قیامت کے دن اسے اس پر عذاب دیا جائے گا۔ اس سے کہا جائے گا کہ جس کی مورت تو نے بنائی، اب اسے زندہ بھی کر کے دکھا۔
عن ابی طلحۃ انہ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:” لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ، وَلَا صُورَةُ تَمَاثِيلَ” (صحیح بخاری۔کتاب بدء الخلق۔ باب اذا قال احدکم آمین۔ والملائکۃ فی السماء، فوافقت احداھماالاخری، غفر لہ ماتقدم من ذنبہ حدیث نمبر ٣٢٢٥ )
حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتے ہوں اور اس میں بھی نہیں جس میں جاندار کی تصویر ہو۔“
عن عائشۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَتْهُ أَنَّهَا قَالَتْ: لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَلْ أَتَى عَلَيْكَ يَوْمٌ كَانَ أَشَدَّ مِنْ يَوْمِ أُحُدٍ؟، قَالَ:” لَقَدْ لَقِيتُ مِنْ قَوْمِكِ مَا لَقِيتُ وَكَانَ أَشَدَّ مَا لَقِيتُ مِنْهُمْ يَوْمَ الْعَقَبَةِ إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِي عَلَى ابْنِ عَبْدِ يَالِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ فَلَمْ يُجِبْنِي إِلَى مَا أَرَدْتُ فَانْطَلَقْتُ، وَأَنَا مَهْمُومٌ عَلَى وَجْهِي فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلَّا وَأَنَا بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِي فَنَظَرْتُ، فَإِذَا فِيهَا جِبْرِيلُ فَنَادَانِي، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ وَمَا رَدُّوا عَلَيْكَ وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْكَ مَلَكَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِيهِمْ فَنَادَانِي مَلَكُ الْجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَيَّ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ: ذَلِكَ فِيمَا شِئْتَ إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَيْهِمُ الْأَخْشَبَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا”.(صحیح بخاری۔کتاب بدء الخلق۔ باب اذا قال احدکم آمین۔ والملائکۃ فی السماء، فوافقت احداھماالاخری، غفر لہ ماتقدم من ذنبہ حدیث نمبر٣٢٣١ )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تمہاری قوم (قریش) کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا یہ وہ موقع تھا جب میں نے کنانہ بن عبد یا لیل بن عبد کلال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔ لیکن اس نے میری دعوت کو رد کر دیا۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہو کر واپس ہوا۔ پھر جب میں قرن ا لثعالب پہنچا، تب مجھ کو کچھ ہوش آیا، میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کئے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ جبریل علیہ السلام اس میں موجود ہیں، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا اور جو انہوں نے رد کیا ہے وہ بھی سن چکا۔ آپ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے، آپ ان کے بارے میں جو چاہیں اس کا اسے حکم دے دیں۔ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی، انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! پھر انہوں نے بھی وہی بات کہی، آپ جو چاہیں (اس کا مجھے حکم فرمائیں) اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کرے گی، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔
عن ابی ھریرۃ او عن ابی سعید الخدری قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ فُضُلًا عَنْ كُتَّابِ النَّاسِ، فَإِذَا وَجَدُوا أَقْوَامًا يَذْكُرُونَ اللَّهَ تَنَادَوْا: هَلُمُّوا إِلَى بُغْيَتِكُمْ، فَيَجِيئُونَ فَيَحُفُّونَ بِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَقُولُ اللَّهُ: عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تَرَكْتُمْ عِبَادِي يَصْنَعُونَ؟ فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ يَحْمَدُونَكَ , وَيُمَجِّدُونَكَ , وَيَذْكُرُونَكَ، قَالَ: فَيَقُولُ: فَهَلْ رَأَوْنِي؟ فَيَقُولُونَ: لَا، قَالَ: فَيَقُولُ: فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْنِي؟ قَالَ: فَيَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْكَ لَكَانُوا أَشَدَّ تَحْمِيدًا , وَأَشَدَّ تَمْجِيدًا , وَأَشَدَّ لَكَ ذِكْرًا، قَالَ: فَيَقُولُ: وَأَيُّ شَيْءٍ يَطْلُبُونَ؟ قَالَ: فَيَقُولُونَ: يَطْلُبُونَ الْجَنَّةَ، قَالَ: فَيَقُولُ: وَهَلْ رَأَوْهَا؟ قَالَ: فَيَقُولُونَ: لَا، قَالَ: فَيَقُولُ: فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْهَا؟ قَالَ: فَيَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْهَا كَانُوا لَهَا أَشَدَّ طَلَبًا، وَأَشَدَّ عَلَيْهَا حِرْصًا، قَالَ: فَيَقُولُ: فَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ يَتَعَوَّذُونَ؟ قَالُوا: يَتَعَوَّذُونَ مِنَ النَّارِ، قَالَ: فَيَقُولُ: هَلْ رَأَوْهَا؟ فَيَقُولُونَ: لَا، فَيَقُولُ: فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْهَا؟ فَيَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْهَا كَانُوا مِنْهَا أَشَدَّ هَرَبًا , وَأَشَدَّ مِنْهَا خَوْفًا , وَأَشَدَّ مِنْهَا تَعَوُّذًا، قَالَ: فَيَقُولُ: فَإِنِّي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ، فَيَقُولُونَ: إِنَّ فِيهِمْ فُلَانًا الْخَطَّاءَ لَمْ يُرِدْهُمْ إِنَّمَا جَاءَهُمْ لِحَاجَةٍ، فَيَقُولُ: هُمُ الْقَوْمُ لَا يَشْقَى لَهُمْ جَلِيسٌ “. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ. (سنن ترمذی۔ کتاب الدعوات عن رسول اللہ ﷺ۔باب ماجاء ان للہ ملائکۃ سیاحین فی الارض ۔حدیث نمبر٣٦٠٠ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کے نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ بھی کچھ فرشتے ہیں جو زمین میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں، جب وہ کسی قوم کو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے پاتے ہیں تو ایک دوسرے کو پکارتے ہیں: آؤ آؤ یہاں ہے تمہارے مطلب و مقصد کی بات، تو وہ آ جاتے ہیں اور انہیں قریبی آسمان تک گھیر لیتے ہیں، اللہ ان سے پوچھتا ہے: ”میرے بندوں کو کیا کام کرتے ہوئے چھوڑ آئے ہو؟“ وہ کہتے ہیں: ہم انہیں تیری تعریف کرتے ہوئے تیری بزرگی بیان کرتے ہوئے اور تیرا ذکر کرتے ہوئے چھوڑ آئے ہیں، وہ کہتا ہے: ”کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟“ وہ جواب دیتے ہیں: نہیں، اللہ کہتا ہے: ”اگر وہ لوگ مجھے دیکھ لیں تو کیا صورت و کیفیت ہو گی؟“ وہ جواب دیتے ہیں، وہ لوگ اگر تجھے دیکھ لیں تو وہ لوگ اور بھی تیری تعریف کرنے لگیں، تیری بزرگی بیان کریں گے اور تیرا ذکر بڑھا دیں گے، وہ پوچھتا ہے: ”وہ لوگ کیا چاہتے اور مانگتے ہیں؟“ فرشتے کہتے ہیں: وہ لوگ جنت مانگتے ہیں، اللہ پوچھتا ہے ”کیا ان لوگوں نے جنت دیکھی ہے؟“ وہ جواب دیتے ہیں: نہیں، وہ پوچھتا ہے: ”اگر یہ دیکھ لیں تو ان کی کیا کیفیت ہو گی؟“ وہ کہتے ہیں: ان کی طلب اور ان کی حرص اور بھی زیادہ بڑھ جائے گی، وہ پھر پوچھتا ہے: ”وہ لوگ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں“، وہ کہتے ہیں: جہنم سے، وہ پوچھتا ہے: ”کیا ان لوگوں نے جہنم دیکھ رکھی ہے؟“ وہ کہتے ہیں: نہیں، وہ پوچھتا ہے: ”اگر یہ لوگ جہنم کو دیکھ لیں تو ان کی کیا کیفیت ہو گی؟“ وہ کہتے ہیں: اگر یہ جہنم دیکھ لیں تو اس سے بہت زیادہ دور بھاگیں گے، زیادہ خوف کھائیں گے اور بہت زیادہ اس سے پناہ مانگیں گے، پھر اللہ کہتاہے ”میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے ان سب کی مغفرت کر دی ہے“، وہ کہتے ہیں: ان میں فلاں خطاکار شخص بھی ہے، ان کے پاس مجلس میں بیٹھنے نہیں بلکہ کسی ضرورت سے آیا تھا۔ اللہ فرماتا ہے، ”یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کا ہم نشیں بھی محروم نہیں رہ سکتا”۔
مندرجہ بالا تمام حدیثیں کسی تشریح کی محتاج نہیں ہیں۔نیز اس کے علاوہ حدیث کی کتابوں میں فرشتوں کے تذکرے کثرت سے ملتے ہیں لیکن یہاں اختصار کے پیش نظر اتنا ہی پر اکتفا کیا جاتاہے۔
