لہو ولعب سے بچنا
تحریر :مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
انسان کی صحت کے لئے ورزش ایک لازمی چیز ہے جولوگ ورزشی یا محنت ومشقت والے کام کرتے ہیں وہ بہت ساری بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ابتدائے آفرینش سے ہی انسانوں نے اپنی صحت کی بحالی کے لئے طرح طرح کے کھیل کود وضع کئے جن کے ذریعہ ورزش کرکے اپنی جسمانی تندرسی کوقائم رکھ سکیں۔ان میں گھوڑسواری،کشتی، دوڑ اوراس کے علاوہ دیگر بہت سے ایسے کھیل کود ہیں جوانسان کی صحت کی سلامتی میں مددگارومعاون ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے کھیلوں کو شریعت میں منع نہیں کیا گیابلکہ اگر نیت میں درستگی ہوجائے اور اپنی صحت کی بحالی کے ساتھ ساتھ اعلائے کلمۃ اللہ کی نیت کرلی جائے توباعث ثواب بھی ہے۔ ہاں اگر ان کھیلوں میں مشغول ہوکرانسان اللہ سے یااپنے فرائض سے غافل ہو جائے تو وہی چیز اس کے لئے گناہ اورمعصیت کاباعث بن جاتی ہے جن کو شریعت نے لہو ولعب سے تعبیر کیا ہے۔اللہ تعالیٰ اس کوپسند نہیں کرتے کہ کوئی انسان اپنے فرائض سے منھ موڑ کر لہو ولعب میں مشغول ہو۔قرآن کریم میں ارشاد ہے:
وَاِِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَہْوًا نِ انْفَضُّوْٓا اِِلَیْہَا وَتَرَکُوْکَ قَآءِمًا قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنْ اللّھْوِ وَمِنْ التِّجَارَۃِ وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ (جمعہ۔۱۱ )
ترجمہ: اور جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشا نظر آجائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے۔
اس آیت کریمہ کی شان نزول میں امام بخاری نے یہ حدیث بیان کی ہے۔
عن جابر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:” أَقْبَلَتْ عِيرٌ، وَنَحْنُ نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجُمُعَةَ، فَانْفَضَّ النَّاسُ إِلَّا اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا سورة الجمعة آية 11″.۔(صحیح بخاری۔ کتاب البیوع۔باب فی قول اللہ تعالیٰ وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَہْوً نِ انْفَضُّوْٓا اِلَیْہَا حدیث نمبر ٢٠٦٤ )
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھ رہے تھے۔ (یعنی خطبہ سن رہے تھے) کہ ملک شام سے کچھ اونٹ کھانے کا سامان تجارت لے کر آئے۔ (سب نمازی) ان کی طرف متوجہ ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ آدمیوں کے سوا اور کوئی باقی نہ رہا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَہْوًا نِ انْفَضُّوْٓا اِلَیْہَا”جب وہ مال تجارت یا کوئی تماشا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تجارت یا کھیل تماشہ میں شریک ہونا جب کہ اس سے عبادات میں خلل پیداہو یافرائض سے کوتاہی ہوتی ہوتو یہ اللہ تعالیٰ کوپسند نہیں ہے۔بلکہ بعض روایات میں اس سے متعلق سخت تہدید آئی ہے۔ایسے کھیل جن میں عریانیت اورفحاشی نہ ہوان کو دیکھنا بھی جائز ہے۔ جیسا کہ ذیل کی حدیث سے پتہ چلتاہے۔
عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ،قَالَتْ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثٍ، فَاضْطَجَعَ عَلَى الْفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجْهَهُ، فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَانْتَهَرَنِي، وَقَالَ: مِزْمَارُ الشَّيْطَانِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ” دَعْهُمَا “، فَلَمَّا غَفَلَ غَمَزْتُهُمَا فَخَرَجَتَا، وَكَانَ يَوْمَ عِيدٍ يَلْعَبُ السُّودَانُ بِالدَّرَقِ وَالْحِرَابِ، فَإِمَّا سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِمَّا قَالَ: ” تَشْتَهِينَ تَنْظُرِينَ “، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَأَقَامَنِي وَرَاءَهُ خَدِّي عَلَى خَدِّهِ، وَهُوَ يَقُولُ: ” دُونَكُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ “، حَتَّى إِذَا مَلِلْتُ، قَالَ: ” حَسْبُكِ “، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ” فَاذْهَبِي “(صحیح مسلم۔کتاب صلوۃ العیدین۔باب الرخصۃ فی اللعب الذی لامعصیۃ فیہ فی ایام العید۔ حدیث نمبر٢٠٦٥ )
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر آئے اور میرے پاس دو لڑکیاں بعاث کی لڑائی (کے بارے میں کچھ)گا رہی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچھونے پر لیٹ گئے اور اپنا منہ ان کی طرف سے پھیر لیا اور پھرحضرت ا بوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور مجھے جھڑکا کہ یہ شیطان کی تان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”ان کو چھوڑ دو (یعنی گانے دو) پھر جب وہ غافل ہو گئے، میں نے ان دونوں کی چٹکی لی تو وہ نکل گئیں اور وہ عید کا دن تھا۔ اور سوڈانی ڈھالوں اور نیزوں سے کھیلتے تھے، سو مجھے یاد نہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش ظاہر کی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا: ”تم اسے دیکھنا چاہتی ہو“ میں نے کہا: جی ہاں۔ پھر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میرا رخسار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار پر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے”اے ارفعہ کی اولاد! تم اپنے کھیل میں مشغول رہو۔”یہاں تک کہ جب میں تھک گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بس“ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جاؤ۔”
چوسر ایک ایسا کھیل ہے جس سے نہ تو انسان کے صحت کاکوئی تعلق ہے اور نہ ہی وہ میدان جہاد میں کام آنے والی چیز ہے اورنہ اس سے قوم وملت کو کوئی فائدہ ہے بلکہ یہ جوا ہے۔اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کھیل کو سور کے گوشت اور اس کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگنے کے برابر قرار دیا ہے۔
عن بریدۃ رضی اللہ عنہ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدَشِيرِ فَكَأَنَّمَا صَبَغَ يَدَهُ فِي لَحْمِ خِنْزِيرٍ وَدَمِهِ “.(صحیح مسلم۔کتاب الشعر۔باب اللعب بالنردشیر۔٥٨٩٦ )
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص چوسر کھیلا اس نے گویا اپنے ہاتھ سور کے گوشت اور سور کے خون سے رنگے۔“
شعر و شاعری
شعر و شاعری اگر ایمانی مضامین،حمد باری،نعت رسول،دیگر شعبہ ہائے علوم ومعارف اور محاسن اخلاق سے معمور ہو تو مستحسن ہے۔لیکن محض الفاظ کاالٹ پھیر، عشق مجازی اور زبانی لطف کے لئے اشعار کہنا ضیائے وقت ہے اور لہو لعب میں داخل ہے۔جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا۔
وَالشُّعَرَاءُ یَتَّبِعُہُمُ الْغَاوُونَ (٢٢٤ )اَلَمْ تَرَی اَنَّہُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَہِیْمُوْنَ (٢٢٥ ) وَاَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لاَ یَفْعَلُوْنَ (٢٢٦ )اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّانتَصَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنقَلَبٍ یَّنقَلِبُوْنَ (٢٢٧ ۔الشعراء)
ترجمہ: شاعروں کی پیروی وہ کرتے ہیں جو بہکے ہوئے ہوں۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ شاعر ایک ایک بیابان میں سر ٹکراتے پھرتے ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔ سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور اپنی مظلومی کے بعد انتقام لیا، جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ بھی ابھی جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں۔
اس آیت میں شاعروں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ ہر وادی میں سیر کرتے ہیں اور ایسی باتیں کہتے ہیں جن کو وہ کرنہیں سکتے اگر کسی کی بڑائی بیان کرنا شروع کردیں تو آسمان وزمین کے قلابے ملادیں او راگر ہجو پر اتر جائیں تو اس کودنیا کاذلیل ترین انسان بنادیں اس لئے ان کی باتیں لغو اور بیہودہ ہوتی ہیں اوران کی پیرو ی وہی لوگ کرتے ہیں جو راہ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں۔آگے چل کراللہ تعالیٰ نے استثنا فرمادیا ان لوگوں کے لئے جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے پچھلے گناہوں سے سے توبہ کرلیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کومعاف کردینے والا ہے۔اسی لئے وہ شعرا جن کے کلام میں بیہودہ گوئی نہیں تھی رسول اللہ ﷺ نے ان کے کلام کی تعریف فرمائی ہے۔لیکن بیہودہ گو شاعروں سے متعلق آپ ؐ کا ارشادیہ ہے۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ الرَّجُلِ قَيْحًا يَرِيهِ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا ۔(صحیح مسلم۔کتاب الشعر۔باب فی انشاد الاشعار وبیان اشعرالکلمۃ وذم الشعرحدیث نمبر ٥٨٩٣ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اگر کسی مرد کا پیٹ پیپ سے بھرے یہاں تک کہ اس کے پھیپھڑے تک پہنچے یہ اس کے حق میں اپنے پیٹ میں شعر بھرنے سے بہتر ہے ۔”
لہوالحدیث
ایسی تمام چیزیں چاہے وہ کھیل کود کے قبیل سے ہوں یا گانے بجانے سے متعلق ہوں اگر وہ اللہ کے ذکر سے دور کرنے والی ہوں تو ان سے اجتناب برتنا چاہئے۔ایسی لغوچیزیں جن کا دنیا وآخرت میں کوئی فائدہ نہیں فقط مال ووقت کا ضیاع ہے وہ تمام کی تمام لہوالحدیث میں شامل ہیں اوران سے کامل پرہیز کرنا چاہئے۔
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّخِذَھَا ھُزُوًا اُولٰٓءِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ (لقمان۔)
ترجمہ: اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔
مستحب کھیل
ایسے کھیل کود جن سے فرائض میں کوئی کوتاہی نہیں ہوتی یا وہ کھیل جو جہاد میں کام آنے والے یا صحت کو بہتر بنانے والے ہیں جیسے تیر اندازی،گھوڑ سواری،تلوار بازی،دوڑ،کشتی وغیرہ تویہ جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن ہیں شرط یہ ہے کہ آدمی ہر چیز کوچھوڑ کر اسی کواوڑھنابچھونا نہ بنالے اورفرائض کی ادائیگی سے غافل نہ ہو۔
قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ” سَتُفْتَحُ عَلَيْكُمْ أَرَضُونَ وَيَكْفِيكُمُ اللَّهُ، فَلَا يَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَلْهُوَ بِأَسْهُمِهِ “.(صحیح مسلم۔کتاب الامارۃ۔باب فضل الرمی والحث علیہ وذم من علمہ ثم نسیہ ۔ حدیث نمبر٤٩٤٧ )
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:”چند روز میں کئی ملک تمہارے ہاتھ پر فتح ہوں گے اور اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کافی ہے پھر کوئی تم میں سے اپنا تیر کا کھیل نہ چھوڑے۔”
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ،قَالَ: ” بَيْنَمَا الْحَبَشَةُ يَلْعَبُونَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِرَابِهِمْ، إِذْ دَخَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَأَهْوَى إِلَى الْحَصْبَاءِ يَحْصِبُهُمْ بِهَا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” دَعْهُمْ يَا عُمَرُ “(صحیح مسلم۔کتاب صلوۃ العیدین۔باب الرخصۃ فی اللعب الذی لامعصیۃ فیہ فی ایام العید۔ حدیث نمبر٢٠٦٩ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حبشی اپنے تیروں سے کھیل رہے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور کنکریوں کی طرف جھکے کہ ان کو ماریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عمر! ان کو کھیلنے دو۔“
گھوڑسواری کرنا،گھوڑوں اورگدھوں کوپالنا اوران کی سواری میں مہارت حاصل کرنا شریعت میں پسندیدہ بھی ہے اورناپسند بھی۔اگر گھوڑوں کو اعلاء کلمۃاللہ کے لئے پالا جائے اوران پر سواری کرنے کی مہارت حاصل کی جائے تو یہ ایک نیک عمل ہے اوراس میں جوبھی مشقتیں اٹھائی جائیں وہ سب باعث اجرو ثواب ہیں۔ لیکن اگر صرف فخر ومباہا ت کے لئے ان کی پرورش وپرداخت کی جائے تویہ اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے۔ آج کے دور میں گھوڑوں، گدھوں اور اونٹوں کی جگہ مختلف سواریوں نے لے لی ہے۔اس لئے ان سواریوں کو چلانا سیکھنا اور یہ نیت کرنا کہ جب ضرورت پڑے گی تو اس ہنر کواعلاء کلمۃ اللہ کے لئے استعمال کروں گا، ایک مستحسن عمل ہے۔
عن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” الْخَيْلُ لِثَلَاثَةٍ لِرَجُلٍ أَجْرٌ وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَعَلَى رَجُلٍ وِزْرٌ فَأَمَّا الَّذِي لَهُ أَجْرٌ، فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأَطَالَ فِي مَرْجٍ أَوْ رَوْضَةٍ، فَمَا أَصَابَتْ فِي طِيَلِهَا ذَلِكَ مِنَ الْمَرْجِ أَوِ الرَّوْضَةِ كَانَتْ لَهُ حَسَنَاتٍ، وَلَوْ أَنَّهَا قَطَعَتْ طِيَلَهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كَانَتْ أَرْوَاثُهَا وَآثَارُهَا حَسَنَاتٍ لَهُ، وَلَوْ أَنَّهَا مَرَّتْ بِنَهَرٍ فَشَرِبَتْ مِنْهُ وَلَمْ يُرِدْ أَنْ يَسْقِيَهَا كَانَ ذَلِكَ حَسَنَاتٍ لَهُ، وَرَجُلٌ رَبَطَهَا فَخْرًا وَرِئَاءً وَنِوَاءً لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فَهِيَ وِزْرٌ عَلَى ذَلِكَ، وَسُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحُمُرِ، فَقَالَ: مَا أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهَا إِلَّا هَذِهِ الْآيَةُ الْجَامِعَةُ الْفَاذَّةُ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ {٧ } وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ {٨ } سورة الزلزلة آية 7-٨ “.(صحیح بخاری۔کتاب الجہاد والسیر۔باب الخیل لثلاثۃ۔حدیث نمبر٢٨٦٠ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھوڑے کے مالک تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کے لیے وہ باعث اجر و ثواب ہیں، بعضوں کے لیے وہ صرف پردہ ہیں اور بعضوں کے لیے وبال جان ہیں۔ جس کے لیے گھوڑا اجر و ثواب کا باعث ہے یہ وہ شخص ہے جو اللہ کے راستے میں جہاد کی نیت سے اسے پالتا ہے پھر جہاں خوب چری ہوتی ہے یا (یہ فرمایا کہ) کسی شاداب جگہ اس کی رسی کو خوب لمبی کر کے باندھتا ہے تو گھوڑا اس کی چری کی جگہ سے یا اس شاداب جگہ سے اپنی رسی میں بندھا ہوا جو کچھ بھی کھاتا پیتا ہے مالک کو اس کی وجہ سے نیکیاں ملتی ہیں اور اگر وہ گھوڑا اپنی رسی تڑا کر ایک زغن یا دو زغن لگائے تو اس کی لید اور اس کے قدموں کے نشانوں میں بھی مالک کے لیے نیکیاں ہیں اور اگر وہ گھوڑا نہر سے گزرے اور اس میں سے پانی پی لے تو اگرچہ مالک نے پانی پلانے کا ارادہ نہ کیا ہو پھر بھی اس سے اسے نیکیاں ملتی ہیں، دوسرا شخص وہ ہے جو گھوڑے کو فخر، دکھاوے اور اہل اسلام کی دشمنی میں باندھتا ہے تو یہ اس کے لیے وبال جان ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پر اس جامع اور منفرد آیت کے سوا ان کے متعلق اور کچھ نازل نہیں ہوا فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّایَّرَہٗ ”جو کوئی ایک ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا اس کا بدلہ پائے گا اور جو کوئی ذرہ برابر برائی کرے گا اس کا بدلہ پائے گا۔“
لہوو لعب میں مشغول ہوناانسان کے لئے دنیا میں بھی مضر ہے اورآخرت میں بھی مضر ہے اس لئے کہ اس میں صرف وقت ضائع ہوتا ہے اور وقت وہ شئی ہے جس کاکوئی بدل نہیں۔آج کل مختلف قسم کے کھیل رائج ہیں بلکہ حکومتیں کھیلوں کوفروغ دینے کی ترغیب دیتی ہیں اورکھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہیں۔ان کھیلوں سے اگر فرائض میں کوتاہی نہیں ہوتی اورنہ ہی وقت کازیاں ہوتا ہے توایسے کھیلوں میں حصہ لیناجائز ہے ہاں فرائض میں کوتاہی ہونے لگے یا جوئے کی صورت بن جائے تو یہ سب کھیل ناجائز ہوجائیں گے۔موجودہ دور میں کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جوعالمی شہرت کاحامل ہوگیاہے اور عالمی پیمانے پر اس کھیل کوکھیلاجاتاہے اورکھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی دل کھول کر کی جاتی ہے۔جس کااثر یہ ہے کہ ہرآدمی اس کھیل کاعاشق بناہو انظر آتا ہے اورجہاں کوئی کھیل ہوتاہے سارے لوگ اپنے کام دھندوں کوچھوڑ کر ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کراس کھیل کالطف اٹھاتے ہیں اوربسااوقات نماز وغیرہ فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ پیداہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے کھیل جوفرائض میں رکاوٹ بن جائیں اسلامی مزاج کے خلاف ہیں دوسری بات یہ ہے جولوگ کھیلتے ہیں ان کوتوانعامات اورخطابات سے نوازا جاتاہے لیکن جولوگ ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے بیٹھ کر اپنا قیمتی وقت ضائع کررہے ہیں وہ تمام لہو لعب میں مشغول ہیں اوراللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کوہر گز پسند نہیں کرتے۔