نیکی سے خوش ہونااوربرائی سے مغمو م ہونا
تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
مومن کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا او راس کی خوشنودی کاحصول اتنی بڑی دولت ہے کہ اس کے سامنے دنیاکی ساری دولت ہیچ ہے اور اس کے حصول کے اسباب وہ اعمال ہیں جن کو کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور جن سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری ثابت ہوتی ہے اسی کو شریعت کی اصطلاح میں نیکی اورحسنہ کہا جاتاہے۔ ظاہر ہے انسان کی جوانتہائے مقصود ہے اس کے حصول پر خوشی ہونی ہی چاہئے اسی لئے مومن کامل کی صفات میں یہ داخل ہے کہ جب اس سے کسی نیک عمل کاصدور ہوتاہے تو وہ خوش ہوتا ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتاہے او راس کے برعکس جب کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھتاہے تو وہ گھبر اجاتاہے او رمغموم ہوجاتاہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ کی ناراضگی کاسامنا کرنا پڑے اس لئے فورا ًتوبہ واستغفار کی طر ف متوجہ ہوتاہے یہی ایمان کے کمال کی علامت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لئے اعمال خیر پر جو وعدے اور بشارتیں دی ہیں اور معصیت و گناہ پر جو وعید اور تہدید فرمائی ہے اس کاتقاضا یہی ہے کہ بندہ مومن سے جب کسی خیرکا عمل ہو تو ان بشارتوں اور وعدوں کے استحضار پر مسرت و شادمانی کااحساس پیداہواور اس کے برعکس کبھی اتفاق سے بشرہونے کی حیثیت سے جب کبھی کسی گناہ او رمعصیت کاارتکاب ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کے وعید و تہدید کو مستحضر کرکے احساس ندامت کااظہا رکرے اور فورا توبہ و استغفار کی طرف متوجہ ہو۔ قرآن کریم میں جابجا اللہ تعالیٰ نے اطاعت الہی اور اطاعت رسول کی طرف توجہ دلایا ہے اور معصیت سے بچنے کی تلقین فرمایا ہے چند آیات وعدہ ووعید سے متعلق درج کی جاتی ہیں:
وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (١٣٢ )وَ سَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ (١٣٣ )الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (١٣٤ )وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذَنُوْبِھِمْ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَ ھُمْ یَعْلَمُوْنَ(١٣٥ )اُولٰٓءِکَ جَزَآؤُھُمْ مَّغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ(١٣٦ ۔آل عمران)
ترجمہ: اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے اور اپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف لپکو جس کا عرض آسمان اور زمین کے برابر ہے اور جو (اللہ سے) ڈرنے والوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں اور غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کو دوست رکھتا ہے اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور بُرائی کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا گناہ بخش بھی کون سکتا ہے؟ اور جان بوجھ کر اپنے افعال پر اَڑے نہیں رہتے۔ ایسے ہی لوگوں کا صلہ رب کی طرف سے بخشش اور باغ ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں (اور) وہ اُس میں ہمیشہ بستے رہیں گے اور (اچھے) کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے۔
ان آیات میں غور کیجئے اللہ تعالیٰ نے اطاعت کو اپنی رحمت کے نزول کاسبب بتایااور ایمان والوں کواللہ کی رضا اور اس کی بخشش او رجنت کے حصول کی طرف کوشاں رہنے کی ترغیب دی ہے نیز اس کی ترکیب بھی بتادی کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو معاف فرمادیتے ہیں جو تنگی اور خوشحالی ہر حال میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں۔غصہ کو روکتے اور معافی کو اپناشیوہ بناتے ہیں یقینا ایسے لوگ اللہ کی دوستی کے لائق ہیں اور جس کا دوست اللہ ہوجائے پھر اس کو اور کس چیز کی ضرورت رہ جاتی ہے۔نیز اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتادیا کہ مومنین کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنے عمل پر اَڑتے نہیں بلکہ اگر کوئی نازیبا حرکت سرزد ہوجاتی ہے تو فورا ً اللہ کی طرف متوجہ ہوکر اپنی ندامت و شرمندگی کااظہار کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے اللہ کی بخشش اور جنت کے حسین باغات ہیں جہاں وہ ہر طرح کی راحت محسوس کریں گے۔انہی سب چیزوں کا استحضار ایک مومن کو اس بات پرآمادہ کرتا ہے جب وہ کوئی نیک عمل کرکے فارغ ہو تو خوشی کا احساس اپنے دل میں محسوس کرے اور اللہ کاشکر اداکرے۔جو کمال ایمان کی نشانی ہے۔دوسری طرف برے اعمال پراللہ کی جو وعید ہے اس پر بھی ذرا غورکریں۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَن اَعرَضَ عَن ذِکرِی فَاِنَّ لَہٗ مَعِیشَۃً ضَنکًا وَّ نَحشُرُہٗ یَومَ القِیٰمَۃِ اَعمٰی(١٢٤ )قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرتَنِیٓ اَعمٰی وَ قَد کُنتُ بَصِیرًا(١٢٥ )قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیتَھَا وَ کَذٰلِکَ الیَومَ تُنسٰی (١٢٦ )وَ کَذٰلِکَ نَجزِی مَن اَسرَفَ وَ لَم یُؤمِن بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ وَ لَعَذَابُ الاٰخِرَۃِ اَشَدُّ وَ اَبقٰی (١٢٧ سورہ طہ)
ترجمہ: اور(ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا کہ الٰہی! مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا؟ حالانکہ میں تو دیکھتا بھالتا تھا۔(جواب ملے گا کہ) اسی طرح ہونا چاہئے تھا میری آیتیں تمہارے پاس آئیں تو تم نے انہیں بھلادیااسی طرح آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے۔ہم ایسا ہی بدلہ ہر اس شخص کو دیا کرتے ہیں جو حد سے گزر جائے اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لائے اور بیشک آخرت کا عذاب نہایت ہی سخت اور باقی رہنے والا ہے۔
غو ر کیجئے کہ ان آیا ت میں اللہ تعالیٰ نے نافرمانی کرنے والوں کے لئے کس طرح کے سخت عذاب کا اعلان فرمایا ہے کہ ان کے لئے دنیامیں بھی تنگی ہوگی اور آخرت میں بھی ان کو اندھا کر کے اٹھایا جائے گااور پھر یہ بھی بتادیا کہ آخرت کا عذاب کس قدر سخت ہے کہ اس سے سخت عذاب کوئی ہوہی نہیں سکتا۔یہ اور اس طرح کی تہدید آمیز آیات کو دیکھنے کے بعد ایک مومن کی یہ حالت ہونی چاہئے کہ جب اس سے کسی معصیت کا صدور ہوجائے تو وہ غم میں مبتلاہوجائے۔یہی اس کے ایمان کاتقاضا ہے۔ جن لوگوں کویہ دونوں کیفیات حاصل ہوجائیں کہ نیکی کرنے کے بعد خوشی ہو اور معصیت کے بعد غم ہو ایسے لوگوں کے بار ے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ انہوں نے ایمان کی حقیقت کو پالیا او ر وہی لوگ حقیقی ایمان والے ہیں۔ذیل کی حدیث میں ارشاد ہے:
عن بن عمر قَالَ: خَطَبَنَا عمر رضی اللہ عنھما بِالْجَابِيَةِ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي قُمْتُ فِيكُمْ كَمَقَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا، فَقَالَ: ” أُوصِيكُمْ بِأَصْحَابِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ، حَتَّى يَحْلِفَ الرَّجُلُ وَلَا يُسْتَحْلَفُ وَيَشْهَدَ الشَّاهِدُ وَلَا يُسْتَشْهَدُ، أَلَا لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ، عَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ وَإِيَّاكُمْ وَالْفُرْقَةَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَهُوَ مِنَ الِاثْنَيْنِ أَبْعَدُ، مَنْ أَرَادَ بُحْبُوحَةَ الْجَنَّةِ فَلْيَلْزَمْ الْجَمَاعَةَ، مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَذَلِكَ الْمُؤْمِنُ۔۔(سنن ترمذی کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی لزوم الجماعۃ ۔ حدیث نمبر٢١٦٥ )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مقام جابیہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، انہوں نے کہا: لوگو! میں تمہارے درمیان اسی طرح کھڑا ہوا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اپنے صحابہ کی پیروی کی وصیت کرتا ہوں، پھر ان کے بعد آنے والوں کی پھر ان کے بعد آنے والوں کی، پھر جھوٹ عام ہو جائے گا، یہاں تک کہ قسم کھلائے بغیر آدمی قسم کھائے گا اور گواہ گواہی طلب کیے جانے سے پہلے ہی گواہی دے گا، خبردار! جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے، تم لوگ جماعت کو لازم پکڑو اور پارٹی بندی سے بچو، کیونکہ شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ رہتا ہے، دو کے ساتھ اس کا رہنا نسبتاً زیادہ دور کی بات ہے، جو شخص جنت کے درمیانی حصہ میں جانا چاہتا ہو وہ جماعت سے لازمی طور پر جڑا رہے اور جسے اپنی نیکی سے خوشی ملے اور گناہ سے غم لاحق ہو حقیقت میں وہی مومن ہے
اس حدیث کے آخری جملے میں اللہ کے رسول ﷺ نے ایسے شخص کو جو نیکی سے خوش ہوتاہے اور گنا ہ سے غمزدہ ہو تاہے، حقیقی مومن قرار دیا ہے۔بات بالکل صحیح ہے ایک مومن سے اول گناہ کا صدور ہونا ہی نہیں چاہئے اورجب ہوجائے تو اس کے ایمان کا تقاضہ ہے کہ اس کے دل میں کڑھن محسوس ہو اور وہ اذیت کااحساس کرے نیز غم واندوہ کا شکار ہوجائے۔ اسی طرح نیکیوں کے صدور پر بھی چونکہ اللہ تعالی کی بشارتیں موجود ہیں اور نیک لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے یہاں بہترین بدلہ ملنے کاوعدہ کیا گیا ہے جس کااحساس کرکے بندہ مومن کے دل میں خوشی کااحساس ہونا چاہئے اسی کو نبی کریم ﷺ نے ایمان کے کمال او رحقیقت ایمان سے تعبیر فرمایا ہے۔
عن أبي أمامة : أن رجلا سأل النبي ﷺ ما الإيمان؟ قال : إذا ساءتك سيئاتك، وسرتك حسناتك، فأنت مؤمن، قال : فما الإثم؟ قال : إذا حك في صدرك شيء فدعه . (بیہقی فی شعب الایمان۔السادس والاربعون من شعب الایمان۔باب فی السرور بالحسنہ والاغتمام بالسیئۃ )
حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ سے سوال کیا کہ ایمان کیا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تیری برائیاں تجھے بری لگیں اورتیری نیکیاں تجھے اچھی لگیں تو تو مومن ہے اس نے پوچھا کہ گناہ کیا ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ کوئی چیز تیرے دل میں کھٹکے تو اس کو چھوڑ دے۔
اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے برائیوں کے برے لگنے اور نیکیوں کے اچھا لگنے کو ایمان قرار دیاہے۔ظاہر ہے اس سے کمال ایمان مراد ہے۔ ایک روایت میں منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں میں شامل کرنے کی درخواست کی ہے جو لوگ بھلائی سے خوش ہوتے ہیں اور برائی سے اللہ کی مغفرت مانگتے رہتے ہیں۔
عن عائشة قالت : كان رسول اللہ ﷺ یقول: «اللهم اجعلني من الذين إذا أحسنوا استبشروا، وإذا أساءوا استغفروا . (بیہقی فی شعب الایمان۔السادس والاربعون من شعب الایمان۔باب فی السرور بالحسنہ والاغتمام بالسیئۃ)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے ”اے اللہ مجھے ان لوگوں میں سے بنا جو جب نیکی کرتے ہیں تو خوش ہوجاتے ہیں اور جب برائی کرتے ہیں تو استغفار کرتے ہیں۔
اس حدیث پر غور کیجئے اور اس کی اہمیت کا اندازہ کیجئے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے لوگوں کے ساتھ شریک ہونے کی دعا فرمائی ہے جو نیکیوں سے خوش ہوتے اور برائیوں پر اَڑے رہنے کے بجائے استغفار کرتے ہیں۔ شیخ حلیمی نے فرمایا:
”اس کامعنی یہ ہے کہ جوشخص نیکی کاعمل کرے اور اس کوخوشی ہوکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس نیکی کی توفیق دی ہے اور اس کو اسی نے اس کے لئے آسان کیا ہے جس کے نتیجے میں اس کے ترازو میں (ثواب) حاصل ہو اہے لہذ ا وہ شخص ایسے بیٹھے جیسے کوئی مبارک باد لینے والا خوش بیٹھتاہے اس لئے کہ اس کو اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کی امید ہوتی ہے۔ یاوہ شخص برا عمل کرے تو اس کوخود کوبھی برالگے کہ اس نے اللہ کے ساتھ خلوت میں ہوتے ہوئے یہ عمل کیوں کرلیا جوشیطان نے اس کے لئے آراستہ کردیاتھااوروہ شخص ایسے بیٹھے جیسے کوئی مصیبت زدہ پریشاں مغموم او ر گھٹاگھٹا بیٹھتا ہے اللہ تعالیٰ سے شرم کرتے ہوئے اور اس کی طرف سے مواخذے کاڈر رکھتے ہوئے۔تویہ کیفیت پیداہوجانا ا س کے سچے ایمان پر اور خلوص اعتقاد پردلیل ہے اس لئے کہ وعدہ اور وعید کایقین محض یقین اور تصدیق باللہ اور تصدیق بالرسول کی قوت سے ہوتا ہے۔ امام احمد نے فرمایاکہ اسی لئے یہ تفسیر مرفوعاً آئی ہے مختصر الفاظ کے ساتھ۔ فرمایا کہ مؤمن جب کوئی نیکی کاعمل کرتاہے تو اس کے ثواب کی امید رکھتاہے اورجب کوئی برا عمل کرتاہے اس کے عذاب سے ڈرتاہے۔“
(بیہقی فی شعب الایمان۔السادس والاربعون من شعب الایمان۔باب فی السرور بالحسنہ والاغتمام بالسیئۃ)