آصف قاسمی

تقدیر

تحریر مفتی محمد آصف اقبال قاسمی 

 اللہ تعالیٰ نے دنیابنانے سے بہت پہلے اس کی تقدیر کولکھ دیا تھااورجوکچھ آ ج دنیا میں ہورہا ہے اسی تقدیر کے مطابق ہورہاہے۔اس تقدیر پر ایمان لانا بنیادی عقائد میں سے ہے۔جیساکہ ایمان مفصل سے واضح ہے۔سورہ ئ نساء میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ وَ اِنْ تُصِبْھُمْ حَسَنَۃٌ یَّقُوْلُوْا ھٰذِہٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَ اِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّءَۃٌ  یَّقُوْلُوْا ھٰذِہٖ مِنْ عِنْدِکَ قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ فَمَالِ ھٰٓؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَا یَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثًا (٧٨ )مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّءَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ وَ اَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا  وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا(٧٩ ۔نساء)

ترجمہ:        تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمھیں پا لے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو اور اگر انھیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر انھیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے۔ کہہ دیجئے سب اللہ کی طرف سے ہے، پھر ان لوگوں کو کیا ہے کہ قریب نہیں ہیں کہ کوئی بات سمجھیں۔ جو کوئی بھلائی تجھے پہنچے سو اللہ کی طرف سے ہے اور جو کوئی برائی تجھے پہنچے سو تیرے نفس کی طرف سے ہے اور ہم نے تجھے تمام لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ کافی گواہ ہے۔

رسول اللہؐ جب مدینہ تشریف لائے تویہودیوں اورمنافقوں نے یہ کہناشروع کردیا کہ یہ لوگ جب سے آئے ہیں ہم اپنے پھلوں اورکھیتوں میں کمی دیکھ رہے ہیں اس پریہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ اگرمنافقین اوریہودیوں کو شادابی،بھاؤ میں کمی،احوال واولاد میں زیادتی نصیب ہو تی ہے توکہتے ہیں۔یہ اللہ کی طرف سے ہے ہمارے لئے مقدر ہے یعنی ہم اسی کے اہل تھے اوراگر تکلیف پہنچے توکہتے ہیں یہ آپ کی نحوست کی وجہ سے ہے نعوذ باللہ من ھذاالقول تواللہ نے اپنے نبیؐ کے ذریعے کہلوایا اے محمدﷺآپ کہہ دیجئے کہ راحت اورتنگی سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے،خواہ فضل واحسان کے ارادہ سے ہو یاحکمت کے تقاضاکے مطابق بطور انتقام ہو۔ یہ جائز نہیں کہ اللہ تعالی کسی اورکی نحوست سے کسی سے انتقام لے وہ خود جب کفر و عصیان مین منہمک ہیں توان کاتکلیف کو حضور کی نحوست کی طرف منسوب کرنا واضح طور پر باطل ہے۔(ماخوذ از تفسیر مظہری  ج۲ ص ٤٢١  )

اگلی آیت ہے:

 مَااَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَمَااَصَابَکَ مِنْ سَیِّءَۃٍ فَمِنْ نَفْسِکَ وَاَرْسَلْنَاکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًاوَّکَفٰیٰ بِاللّٰہِ شَھِیْدًا(نساء۔79 )

ترجمہ:        تمہیں جو کچھ بھلائی پہنچتی ہے تووہ اللہ کی جانب سے ہے اور جوبرائی پہنچتی ہے وہ تمہارے نفس کی طرف سے ہے اور ہم نے آپ کو  لوگوں کے لئے رسول بناکر بھیجا ہے آپ کے لئے اللہ کاگواہ ہونا کافی ہے۔

درحقیقت انسان کے اوپر جو حالات آتے ہیں وہ سب کے سب اللہ ہی کی طرف سے آتے ہیں یہاں اللہ تعالیٰ نے خیر کی نسبت اپنی طرف فرمائی اور تکلیف کی نسبت بندو ں کے نفس کی طرف فرمائی اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان پراگر کوئی نعمت آتی ہے تووہ یہ نہ سمجھے کہ وہ اس کے نیک اعمال کی وجہ سے ہے اس لئے کہ جوکچھ بھی انسان خیر کاعمل کرتاہے اس میں اللہ کی توفیق اوراس کی نصرت شامل حال ہوتی ہے ورنہ بندہ کچھ بھی نہیں کرسکتااب اگر کسی نے کوئی خیر کاکام کیاتو ظاہر ہے کہ اس کو خیر کی راہ تو اللہ تعالی نے ہی دکھائی، اس کو سوچنے سمجھنے کی قوت بھی اللہ تعالی نے ہی دیا اور اس عمل پر قدرت بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ اس لئے اس عمل کی جزا کے طور پر انسان کسی نعمت کا مستحق نہیں ہے، بلکہ اگرکوئی نعمت اس کو ملتی ہے تو یہ محض اللہ کی بخشش اوراس کی مہربانی ہے۔ اسی طرح انسان جو براعمل کرتاہے تواللہ تعالی اسے تکلیف میں مبتلاکرتے ہیں۔ یہ تکلیف اور پریشانی مومنین کے رفع درجات اور محو خطیات کاسبب بنتی ہے اور کفار کے لئے عذاب اورسزا بن جاتی ہے  تو چونکہ یہ تکلیف انسان کے اس عمل کی وجہ سے آئی اس لئے اللہ نے اس کی نسبت بندوں کے نفس کی طرف کردیا۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جاسکتا۔آپؐ سے پوچھاگیا۔ کیاآپؐ بھی؟ آپؐ فرما یا ہا ں میں بھی۔ تقدیر پرایمان لانے سے متعلق نبی کریم ﷺ کاارشاد ہے:

عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ حَتَّى يَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَهُ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَهُ، وَأَنَّ مَا أَخْطَأَهُ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَهُ “(سنن ترمذی۔کتاب القدر عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی الایمان بالقدر خیرہ وشرہ۔حدیث نمبر ٢١٤٤  )

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کوئی بندہ مؤمن نہیں ہوتا،یہاں تک کہ تقدیر پرایمان لائے،اس کے بھلے پر بھی اور اس کے برے پربھی اوریہاں تک کہ وہ یقین کرے کہ جوکچھ ا س کوپہنچا ہے وہ اس کوچوک نہیں سکتاتھااورجو کچھ اس کوچوک گیاہے وہ اس کو پہنچ نہیں سکتاتھا۔

عن علی رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُؤْمِنَ بِأَرْبَعٍ: يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ بَعَثَنِي بِالْحَقِّ، وَيُؤْمِنُ بِالْمَوْتِ، وَبِالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَيُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ “.(سنن ترمذی۔کتاب القدر عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی الایمان بالقدر خیرہ وشرہ۔ حدیث نمبر ٢١٤٥ )

حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بندہ چار چیزوں پر ایمان لائے بغیر مومن نہیں ہو سکتا: (۱) گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، اس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے، (۲) موت پر ایمان لائے، (۳) مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لائے، (۴) تقدیر پر ایمان لائے“۔

تقدیر کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ کاعلم ازلی ہے اس کائنات میں جوکچھ بھی ہورہاہے یا ہونے والا ہے وہ سب اللہ کو ازل سے معلوم ہے اس کو اللہ تعالی نے پہلے سے لکھ دیاہے اسی کانام تقدیر ہے۔اس لئے دنیامیں کوئی ایک پتہ بھی اللہ کے علم کے بغیر نہیں ہلتا۔اللہ تعالی نے سب سے پہلے قلم کو بنایا اور اسے حکم دیا کہ لکھو قلم نے عرض کیا کیا لکھوں باری تعالیٰ نے فرمایا کائنات کی تقدیر لکھ دو پھرابتدا سے انتہا تک جوہونا تھا اس قلم نے لکھ دیا۔کون آدمی کیساعمل کرے گا؟ نیک یا بد اوراس کاٹھکانہ کیا ہوگا جنت یاجہنم سب کچھ اسی علم الٰہی ازلی کے مطابق صادر ہورہاہے۔

 اب یہ سوال پیدانہیں ہوسکتاکہ جب اللہ نے ہر انسان کے تمام افعا ل و کردار کوبلکہ اس کے ٹھکانے کوبھی لکھ دیاہے توپھر انسان اسی تقدیر پربھروسہ کرے، عمل کی کیا ضرورت ہے۔ اس لئے کہ انسان عمل بھی وہی کرتاہے جواس کی تقدیر میں لکھاہے وہ ا س تقدیر کی وجہ سے مجبور نہیں ہے بلکہ انسان جوکچھ بھی کرتاہے وہ اپنے اختیار سے کرتاہے۔ا س کی مثال یوں سمجھئے کہ جیسے کوئی طبیب حاذق یاحکیم کامل کسی شخص کی نبض دیکھ کر یہ کہہ دیتاہے کہ یہ شخص تین دن بعد خون کی الٹیاں کرتے ہوئے مرجائے گااورواقعی وہ تین دن کے بعد ویسے ہی مرجاتا ہے تویہ نہیں کہاجاسکتا ہے کہ اس حکیم کے کہنے کی وجہ سے اس کی موت آگئی بلکہ اس کی موت توہونی تھی لیکن اس حکیم نے اپنے علم اورمہارت کی وجہ سے حالات و کیفیات کااندازہ کرکے یہ بتادیاکہ تین دن کے بعد یہ مرجائے گا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کی وجہ سے یہ لکھ دیاہے کہ فلاں شخص فلاں فلاں کام کرے گااور اس کاٹھکانہ فلاں ہوگا۔اب یہ نہیں کہاجاسکتاکہ اللہ کے لکھنے کی وجہ سے اس شخص نے ایسامجبور ہوکر کیا۔ اللہ تعالی کا علم چونکہ ازلی اورکامل ہے اس لئے اللہ تعالی نے جو کچھ لکھ دیا اس سے سرِمو انحراف ممکن نہیں۔ جس طرح روز مرہ کے واقعات ہمارے سامنے ہیں جیسے ریل گاڑی کی رفتار دیکھ کر اور اگلے اسٹیشن کی دوری کا اندازہ کرکے ایک وقت متعین کردیا جاتاہے کہ یہ گاڑی فلاں اسٹیشن پر فلاں وقت میں پہنچ جائے گی اور واقعی وہ گاڑی اس اسٹیشن پراسی متعینہ وقت پر پہنچتی ہے اس میں اندازہ کرنے والوں کے اندازے کی وجہ سے وہ گاڑی نہیں پہنچی بلکہ گاڑی تو اپنے چلنے کی وجہ سے پہنچی لیکن ماہرین نے وقت اور رفتار کااندازہ لگاکر اگلے اسٹیشن پر گاڑی کے پہنچنے کاوقت متعین کردیا لیکن انسان کا علم چونکہ کلی اورازلی نہیں ہے اس لئے کبھی کبھی ا س کے خلاف بھی ہوتاہے۔ اسے نہیں معلوم ہے کہ فلاں تاریخ کو گاڑی کاانجن دس منٹ کے لئے بند ہوجائے گا یاکسی وجہ سے اس کی رفتار سست ہوجائے گی اس لئے اس دن گاڑی اپنے وقت پر نہیں پہنچ سکے گی۔ اس لئے انسانوں کے بتائے ہوئے اندازے غلط ثابت ہوسکتے ہیں اور گاڑی کبھی اپنے وقت پرنہیں بھی پہنچتی ہے لیکن اللہ کاعلم اتم،کامل اور ازلی ہے اس لئے اللہ کے لکھے ہوئے تقدیر میں  ذرا سی بھی کمی بیشی نہیں ہوتی اور سارے واقعات ویسے ہی رونما ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ کے علم میں متعین ہیں اور اس میں خطا کا امکان بالکل بھی نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:

 عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُعْرَفُ أَهْلُ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ؟ قَالَ:” نَعَمْ”، قَالَ: فَلِمَ يَعْمَلُ الْعَامِلُونَ، قَالَ:” كُلٌّ يَعْمَلُ لِمَا خُلِقَ لَهُ، أَوْ لِمَا يُسِّرَ لَهُ”(صحیح بخاری۔ کتاب القدر،باب جف القلم علی علم اللہ حدیث نمبر٦٥٩٦  )

حضرت عمران بن حصینؓ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے عرض کیایا رسول اللہ ﷺ کیا جنت کے لوگ جہنم کے لوگوں سے ممتاز ہوں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں انہوں نے عرض کیا پھرعمل کرنے والے کیوں عمل کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ہر شخص وہی عمل کرتاہے جس کے لئے پیداکیا گیا ہے یا فرمایا  اسی عمل کی توفیق دی جاتی ہے۔

سائل کے سوال کامقصد یہ ہے کہ کیا جنتی اورجہنمی اللہ کے علم میں الگ الگ ہوچکے ہیں آپ ؐ کاجواب ہے کہ ہاں وہ اللہ کے علم میں الگ الگ ہیں اب سائل کا سوال یہ ہے کہ جب جنتیوں اور جہنمیوں کی پہچان ہوچکی ہے اوریہ طے ہوچکا ہے کہ کون جنتی اور کون جہنمی ہے تو  لوگوں کوعمل کی کیاضرورت ہے اسی تقدیر پر کیوں نہ بھروسہ کیاجائے آگے ہوناتو وہی ہے جو طے ہوچکا لیکن آپؐ کا جواب یہ ہے کہ نہیں عمل کرتے رہو اس لئے کہ ہر شخص کو اسی عمل کی توفیق ہوتی ہے جو اس کے لئے مقدر ہوچکی۔یعنی جنتیوں کو جنتی اعمال کی توفیق ہوتی ہے اورجہنمیوں کوجہنمی اعمال کی۔

 درحقیقت اللہ تعالیٰ نے ہر عمل میں ایک تاثیر رکھی ہے جب انسان وہ عمل کرتاہے تو وہ تاثیر پیداہوکر رہتی ہے جیسے زہر کی تاثیر یہ ہے کہ جو اس کو کھائے گا وہ موت کی آغوش میں چلاجائے گا اب اگر کوئی شخص زہرکھاتاہے تو ظاہرہے اس پراس کا اثربھی مرتب ہوگا۔یاآگ کی تاثیر جلانا ہے جب آدمی آگ کو ہاتھ میں رکھے گاتو اس کاہاتھ لازمی طور پرجلے گااسی طرح نیک اعمال کی تاثیر یہ ہے کہ اس سے جنت کی نعمتیں ملتی ہیں اور اوربرے اعمال کی تاثیر یہ ہے کہ اس سے جہنم کے عذاب پیداہوتے ہیں جس طرح زہر کھانے والے کو وہ زہر موت کے آغوش میں لے کر جاتاہے اسی طرح بد اعمالی کرنے والے کووہ عمل جہنم میں کھینچ کر لے جائے گا۔ بخاری شریف کی ہی ایک دوسری روایت ہے:

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” لَا تَسْأَلِ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتَسْتَفْرِغَ صَحْفَتَهَا وَلْتَنْكِحْ، فَإِنَّ لَهَا مَا قُدِّرَ لَهَا”.(صحیح بخاری۔کتاب القدر۔ باب وکان امر اللہ قدر امقدورا ۔حدیث نمبر٦٦٠١ )

حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی عورت اپنی کسی بہن کی طلاق کامطالبہ شوہرسے نہ کرے تاکہ اس کے گھر کواپنے ہی لئے مخصوص کرلے بلکہ نکاح کرلیناچاہئے کیونکہ اسے وہی ملے گاجو اس کے حصہ میں مقدر ہے۔

 یعنی ا گر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کا خواہش مند ہو اوراس کے پاس پہلے سے کوئی بیوی موجود ہو تو یہ عورت اس کے سامنے یہ شرط نہ رکھے کہ تم اپنی پہلی بیوی کوطلاق دے دو تب میں تم سے نکاح کروں گی یاکسی شخص کی دو بیویاں ہوں تو ان میں سے کسی کے لئے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے شوہر سے اس کی دوسری بیوی کی طلاق کامطالبہ کرے تاکہ وہ شوہر اور اس کا مکان اکیلا اس کاہوجائے ا س لئے کہ کس کوکیاملناہے وہ سب اللہ کی طرف سے مقد ر ہوچکاہے۔ اس حدیث میں بھی رسول اللہ ﷺ نے  یہ اشارہ دیاہے کہ ہوناوہی ہے جو اللہ نے تقدیر میں لکھ دیاہے۔

 عن عبد اللہ رضی اللہ عنہ قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ: ” إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ فِي ذَلِكَ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ فِي ذَلِكَ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يُرْسَلُ الْمَلَكُ فَيَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ وَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ بِكَتْبِ رِزْقِهِ، وَأَجَلِهِ، وَعَمَلِهِ، وَشَقِيٌّ، أَوْ سَعِيدٌ، فَوَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا (صحیح مسلم۔ کتاب القدر، باب کیفیۃ الخلق الآدمی فی بطن امہ وکتابۃ رزقہ واجلہ وعملہ وشقاوتہ وسعادتہ۔حدیث نمبر٦٧٢٣ )

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں، سچے کئے ہو ئے، ”بے شک تم میں سے ہر ایک آدمی کا نطفہ اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع رہتا ہے، پھر چالیس دن میں لہو کی پھٹکی ہو جاتا ہے، پھر چالیس دن میں گوشت کی بوٹی بن جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کی طرف فرشتے کو بھیجتا ہے وہ اس میں روح پھونکتا ہے اور چار باتوں کا اس کو حکم ہوتا ہے کہ اس کی روزی لکھتا ہے اور اس کی عمر لکھتا ہے اور اس کے عمل لکھتا ہے اور یہ لکھتا ہے کہ نیک بخت ہو گا یا بدبخت ہو گا۔ سو میں قسم کھاتا ہوں اس کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ بیشک تم لوگوں میں سے کو ئی جنتیوں کے کام کیا کرتا ہے یہاں تک کہ اس میں اورجنت میں ہاتھ بھر کا فرق رہ جاتا ہے، پھر تقدیر کا لکھا اس پر غالب ہو جاتا ہے سو وہ دوزخیوں کے کام کرنے لگتا ہے، پھر دوزخ میں جاتا ہے اور کوئی آدمی عمر بھر دوزخیوں کے کام کیا کرتا ہے یہاں تک کہ دوزخ میں اور اس میں سوائے ایک ہاتھ بھر کے کچھ فرق نہیں رہتا ہے، پھر تقدیر کا لکھا اس پر غالب ہوتا ہے سو جنتیوں کے کام کرنے لگتا ہے، پھر جنت میں جاتا ہے۔

مسئلۂ قدیر سے متعلق شبہات اور ان کا ازالہ

مسئلہ تقدیر سے متعلق جوبعض شبہات پید اہوتے ہیں اس سے متعلق مولانا منظور نعمانی نور اللہ مرقدہ نے معارف الحدیث جو کچھ لکھا ہے وہ بہت کافی وشافی ہے۔ اس لئے اس تحریر کو یہاں من وعن نقل کیا جاتاہے:

”بہت سے لوگوں کوکم فہمی یانافہمی سے تقدیر کے متعلق جو شبہات ہوتے ہیں، مناسب معلوم ہوتاہے کہ مختصراً ان کے متعلق بھی کچھ عرض کردیاجائے اس مسئلہ میں مندرجہ ذیل تین اشکال مشہور ہیں۔

اول یہ کہ دنیامیں اچھابراجوکچھ ہوتاہے،اگر یہ سب اللہ ہی کی تقدیر سے ہے،اوراللہ ہی نے اس کو مقدر کیاہے تو پھر اچھائیوں کے ساتھ تمام برائیوں کی ذمہ داری بھی  (معاذاللہ)  اللہ تعالیٰ پرآئے گی۔

 دوسرا یہ، کہ جب سب کچھ پہلے سے من جانب اللہ مقدور ہوچکاہے،اور اس کی تقدیر اٹل ہے، تو بندے اسی کے مطابق کرنے پرمجبور ہیں۔ لہذا انہیں کوئی جزا وسزا نہ ملنی چاہئے۔

 تیسر اشبہ یہ کیاجاتاہے کہ جوکچھ ہوناہے جب وہ سب پہلے سے مقدر ہی ہوچکاہے اوراس کے خلاف کچھ ہوہی نہیں سکتاہے،تو پھرکسی مقصد کے لئے کچھ کرنے دھرنے کی ضرورت ہی نہیں لہذ ا دنیایاآخرت کے کسی کام کے لئے محنت اورکوشش فضول ہے۔ لیکن اگر غور کیاجائے تومعلوم ہوگا، کہ یہ تینوں شبہے تقدیر کے غلط اورناقص تصور سے پیدا ہوتے ہیں۔

 …… اللہ کی تقدیر اس کے علم ازلی کے مطابق، اور اس کارخانۂ عالم میں جو کچھ جس طرح اور جس صفت کے ساتھ اورجس سلسلہ سے ہورہا ہے وہ بالکل اسی طرح، اور اسی صفت اور اسی سلسلہ کے ساتھ اس کے علم ازلی میں تھا،اوراسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس کومقدر فرمادیاہے۔

 اورہم میں سے جوشخص بھی اپنے اعمال وافعال پرغور کرے گا۔ وہ بغیر کسی شک و شبہ کے اس حقیقت کو محسوس کرے گا کہ اس دنیا میں ہم جو بھی اچھے یابرے عمل کرتے ہیں،وہ اپنے ارادے اوراختیار سے کرتے ہیں۔ہر کام کے کرنے کے وقت اگر ہم غور کریں تو بدیہی اور یقینی طور پر محسوس ہوگاکہ ہم کو یہ قدرت حاصل ہے،کہ چاہیں تو اس کوکریں، اورچاہیں تونہ کریں، پھر اس قدرت کے باوجود ہم اپنے خداداد ارادے اوراختیار سے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، اور اسی فیصلے کے مطابق عمل ہوتاہے۔ پس اس عالم میں جس طرح ہم اپنے ارادہ اوراختیار سے اپنے تمام کام کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کو ازل میں اسی طرح ان کاعلم تھا، اور پھراسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کومقدر فرمایا، اور اس پورے سلسلے کے وجود کافیصلہ فرمادیا، بہرحال اللہ تعالیٰ نے صرف ہمارے اعمال ہی کومقدر نہیں فرمایا ہے، بلکہ جس ارادہ اوراختیار سے ہم عمل کرتے ہیں وہ بھی تقدیر میں آچکاہے، گویا تقدیر میں صرف یہی نہیں ہے، کہ فلاں شخص فلاں اچھایابراکام کرے گا، بلکہ تقدیر میں یہ پوری بات ہے، کہ فلاں شخص اپنے ارادہ واختیار سے ایساکرے گا، پھر اس سے یہ نتائج پیداہوں گے،پھراس کویہ جزا یا سزاملے گی۔

 الغرض ہم کواعمال میں جوایک گونہ خود اختیاری اورخود ارادیت حاصل ہے،جس کی بناء پرہم کسی کام کے کرنے یانہ کرنے کافیصلہ کرتے ہیں،وہ بھی تقدیر میں ہے اور ہمارے اعمال کی ذمہ داری اسی  پرہے،اوراسی کی بناء پرانسان مکلف ہے،اوراسی پرجز اوسزا کی بنیادہے۔

بہرحال تقدیر نے اس خود اختیاری اورخود ارادیت کوباطل اورختم نہیں کیا، بلکہ اس کواور زیادہ ثابت اورمستحکم کردیا ہے،لہذا تقدیر کی وجہ سے نہ تو ہم مجبور ہیں،اورنہ ہمارے اعمال کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پرہوتی ہے۔ ایسے ہی جن مقاصد کے لئے ہم جو کوششیں اورجوتدبیریں اس دنیامیں کرتے ہیں،تقدیر میں بھی ہمارے ان مقاصد کوان ہی تدبیروں اورکوششوں سے وابستہ کیاگیاہے۔

 الغرض تقدیرمیں صرف یہ نہیں ہے کہ فلاں شخص کو فلاں چیز حاصل ہوجائے گی، بلکہ جس کوشش اورجس تدبیر سے وہ چیز اس دنیامیں حاصل ہونے والی ہوتی ہے،تقدیر میں بھی وہ اسی تدبیر سے بندھی ہوئی ہے۔

  بہر حال جیساکہ عرض کیاگیا تقدیر میں اسباب و مسببات کاپورا سلسلہ بالکل ا سی طرح ہے جس طرح کہ اس دنیامیں ہے۔ پس یہ خیال کرناکہ تقدیر میں جوکچھ ہے وہ آپ سے آپ مل جائے گا،اوراس بناء پراس عالم اسباب کی کوششوں اورتدبیروں سے دست بردار ہونادراصل تقدیرکی حقیقت سے ناواقفی ہے۔

 الغرض تقدیر کی پوری حقیقت سامنے رکھ لی جائے تو انشاء اللہ اس قسم کاشبہ بھی پیدانہ ہوگا۔ وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَشَاءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔(معارف الحدیث ج  ۱  ص 148 تا 150 )

اسباب کا اختیار کرنا تقدیر کے منافی نہیں

عن ابی خزامۃ عن ابیہ رضی اللہ عنہما أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رُقًى نَسْتَرْقِيهَا، وَدَوَاءً نَتَدَاوَى بِهِ، وَتُقَاةً نَتَّقِيهَا، هَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ شَيْئًا؟ فَقَالَ: ” هِيَ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ “، (سنن ترمذی۔کتاب القدر عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء لاترد الرقی ولا دواء من قدر اللہ شیئا۔حدیث نمبر ٢١٤٨  )

حضرت ابوخزامہ رضی اللہ عنہ  اپنے والد سے روایت کرتے  ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ دَم جن سے ہم جھاڑ پھونک کرتے ہیں، دوائیں جن سے علاج کرتے ہیں اور بچاؤ کی چیزیں جن سے بچاؤ کرتے ہیں، آپ بتائیے کیا یہ اللہ کی تقدیر میں سے کچھ لوٹا سکتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”یہ سب بھی تو اللہ کی تقدیر سے ہیں“۔

اس حدیث سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ سب تقدیر کے مطابق ہورہا ہے تقدیر میں اسباب و مسببات سب کچھ تحریر شدہ ہے،جھاڑ پھونک، علاج ومعالجہ اور احتیاطی تدبیریں یہ سب صحت کے اسباب ہیں اور یہ بھی تقدیر میں شامل ہیں۔

 عن علی رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ عُودٌ يَنْكُتُ فِي الْأَرْضِ وَقَالَ:” مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا قَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ أَوْ مِنَ الْجَنَّةِ”، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَلَا نَتَّكِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:” لَا اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ، ثُمَّ قَرَأَ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى سورة الليل آية 5 الْآيَةَ”.(صحیح بخاری۔ کتاب القدر، وکان امر اللہ قدرا مقدورا حدیث نمبر٦٦٠١  )

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ زمین کرید رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اسی اثناء میں) فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص کا جہنم کا یا جنت کا ٹھکانا لکھا جا چکا ہے، ایک مسلمان نے اس پر عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر کیوں نہ ہم اس پر بھروسہ کر لیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں عمل کرو کیونکہ ہر شخص (اپنی تقدیر کے مطابق) عمل کی آسانی پاتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی ”فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی“ پس جس نے  اللہ کی راہ میں دیا اور تقویٰ اختیار کیا… الخ۔

اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کو عمل پر ابھارا ہے اور یہ ہدایت فرمائی ہے کہ تقدیر کے مسئلے میں زیادہ الجھنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی یہ سمجھنے کی چیز ہے بلکہ انسان کو عمل کرتے رہنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے رحم وکرم کی امید رکھنا چاہئے۔ تقدیر کامسئلہ نہایت ہی نازک مسئلہ ہے اسی لئے اس میں زیادہ غور فکر سے منع کیاگیاہے۔

مسئلہ تقدیر میں بحث کرنے کی ممانعت

قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَتَنَازَعُ فِي الْقَدَرِ، فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، حَتَّى كَأَنَّمَا فُقِئَ فِي وَجْنَتَيْهِ الرُّمَّانُ، فَقَالَ: ” أَبِهَذَا أُمِرْتُمْ، أَمْ بِهَذَا أُرْسِلْتُ إِلَيْكُمْ، إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حِينَ تَنَازَعُوا فِي هَذَا الْأَمْرِ عَزَمْتُ عَلَيْكُمْ أَلَّا تَتَنَازَعُوا فِيهِ “(سنن ترمذی۔ کتاب القدر عن رسول اللہﷺ،  باب ماجاء فی التشدید فی الخوض فی القدر۔حدیث نمبر ٢١٣٣ )

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ایک بار رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تشریف لائے اس حال میں کہ ہم تقدیرمیں جھگڑ رہے تھے۔ تو آپ ؐ اس حد تک غضبناک ہوئے کہ آپ کاچہر ہ سرخ  ہوگیا۔ گویا آپ کے دونوں رخساروں میں انار نچوڑ دیئے گئے ہوں، پس آپ نے فرمایا:”کیاتمہیں اسی کاحکم دیاگیاہے؟ او رکیا میں اسی کے ساتھ تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں؟ وہ لوگ جو تم سے پہلے تھے وہ اسی وقت ہلاک ہوئے جب انہوں نے اس معاملہ میں جھگڑ ا شروع کیا،میں تمہیں قسم دیتاہوں کہ تقدیر میں مت جھگڑو۔

اس حدیث میں نبی کریمﷺ نے تقدیر کے معاملے میں الجھنے او راس میں بحث و مباحثہ کرنے سے منع فرمایاہے۔اس لئے ایمان والوں کو تقدیر سے متعلق بحث و مباحثہ میں نہیں پڑنا چاہئے بلکہ یہ یقین رکھنا چاہئے کہ جو کچھ بھی کائنات میں ہورہاہے وہ سب اللہ کے بنائے ہوئے تقدیر کے مطابق ہورہاہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے وجود سے پہلے لکھ دیا تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کو پیداکرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اولاً انہیں مسجود ملائکہ بناکر عزت افزائی فرمائی اور پھر اس کے بعد انہیں جنت میں رہنے کی جگہ دی لیکن ایک شرط لگادی کہ فلاں درخت کے قریب نہ جانا لیکن حضرت آدمؑ اپنے آپ کو اس درخت کا پھل کھانے سے نہیں روک سکے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت سے نکال کر زمین پربھیج دیا۔

حضرت موسیٰ ؑ و آدمؑ کامناظرہ

تقدیرسے متعلق حضرت موسیٰ اور حضرت آدم علیھما السلام کے درمیان ایک مکالمہ احادیث میں مذکورہے:

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: أَنْتَ آدَمُ الَّذِي أَخْرَجَتْكَ خَطِيئَتُكَ مِنَ الْجَنَّةِ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ: أَنْتَ مُوسَى الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَاتِهِ وَبِكَلَامِهِ، ثُمَّ تَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قُدِّرَ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى مَرَّتَيْنِ”.(صحیح بخاری۔کتاب احادیث الانبیاء، باب وفاۃ موسیٰ وذکرہ بعد۔٣٤٠٩  )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”موسیٰ اور آدم علیہما السلام نے آپس میں بحث کی۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ آپ آدم علیہ السلام ہیں جنہیں ان کی لغزش نے جنت سے نکالا۔ آدم علیہ السلام بولے اور آپ موسیٰ علیہ السلام ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے نوازا۔ پھر بھی آپ مجھے ایک ایسے معاملے پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے بھی پہلے مقدر کر دیا۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”چنانچہ آدم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ دو مرتبہ فرمایا۔

اس حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے سارے واقعات جو آج رونما ہورہے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ نے پہلے سے لکھ دیا ہے اس لئے آج ان میں بحث مباحثہ کرکے اپنے اوقات اور صلاحیتوں کو ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *