تین انمول نصیحتیں

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ  کی طرف سے جس طرح تمام انسانیت کے لئے معلم بناکر بھیجا گیا اسی طرح آپ ﷺ کو اولین  و آخرین کا علم بھی دیاگیا نیز جوامع الکلم آپ ﷺ کی صفت خاصہ قرار دی گئی ۔ اسی لئے آپ ﷺ کی زبان اقدس سے چھوٹے چھوٹے جملوں میں ایسی ایسی باتیں کہلوائی گئیں کہ ایک ایک لفظ میں پورا جہان معنی پوشید ہ ہوتاہے   ۔ اور ایک جملہ پر بھی اگر انسان عمل کرنا شروع کردے تو اس کی کی دنیا وآخرت سنور سکتی ہے ۔ ان ہی میں سے ایک نصیحت ہے جو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو فرمائی جس میں پوری امت کے لئے ہدایت کاسامان موجو د ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

 اتَّقِ اللَّهِ حَيْثُمَا كُنْتَ، وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ “(سنن ترمذی۔كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم۔باب مَا جَاءَ فِي مُعَاشَرَةِ النَّاسِ۔ حدیث نمبر  ١٩٨٧)

جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو، برائی کے بعد بھلائی کرو جو برائی کو مٹا دےاور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ۔

ان تین جملوں میں رسول اللہ ﷺ نے ایسی باتیں بتادی ہیں جن پر عمل کرکے انسان اپنی دنیا وآخرت سنوار سکتاہے۔

پہلا جملہ ہے :”جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرتے رہو ۔” اللہ سے ڈرنے کا مطلب تقویٰ ہے ۔ یعنی انسان اپنی زندگی چاہے لوگوں کے درمیان گزار رہا ہو یاتنہائی میں بیٹھ کر گزار رہا ہو اسے ہروقت یہ احساس ہونا چاہئے کہ میں اکیلا نہیں ہوں اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں ہوں اورمیرے ایک ایک فعل اور ایک ایک حرکت سے اللہ تعالیٰ واقف ہیں ۔جب یہ احساس انسان کےدل میں پید اہوجائے گا تو وہ کبھی بھی ایسا کام نہیں کرے گا جس اس کی پکڑ ہوجانے کاخطرہ ہو۔ ایک مومن کی صفت یہی ہونی چاہئے کہ  چاہے وہ جنگل بیابان میں ہو یا بھری پُُری آبادی میں ہو اسے اپنے ساتھ اللہ کی موجودگی کا احساس رہناچاہئے ۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا:

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ( المجادلۃ آیت٧ )

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ جانتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ کوئی تین آدمیوں کی کوئی سرگوشی نہیں ہوتی مگر وہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ کوئی پانچ آدمیوں کی مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم ہوتے ہیں اور نہ زیادہ مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے، جہاں بھی ہوں، پھر وہ انھیں قیامت کے دن بتائے گا جو کچھ انھوں نے کیا۔ یقینا اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے ۔

کہیں بھی دو آدمی یا تین آدمی یا اس سے زیادہ یا کم جب خاموشی سے کو بات کرتےہیں تو یہ نہ سمجھیں کہ ان کی باتیں کوئی نہیں سن رہا ہے بلکہ یہ احساس رہناچاہئے کہ ایک ذات ایسی ہے جو ہماری ہر بات کو سن رہی ہے اور وہ خالق کائنات کی ذات ہے جس کے علم اور قدرت سے ہم کبھی بھی باہر نہیں جاسکتے ۔ اس لئے کسی بھی موقع سے ایسی کوئی بات نہیں کرنی چاہئے جو بعد میں ہمارے لئے اللہ کی پکڑکا باعث بن جائے ۔ اکبر الہٰ آبادی نے اسی کو اپنے انداز میں کہا ہے  ؎

تم شوق سے کالج میں پڑھو, پارک میں کھیلو
جائز  ھے  غباروں   میں    اڑو,    چرخ   پہ  جھولو
پر    ایک    سخن    بندۂ    عاجز    کی      رھے         یاد
اللہ     کو     اور     اپنی     کی     حقیقت     کو    نہ بھولو

لیکن ان سب کے باوجود انسان خطا ونسیان سے مرکب ہے اس سے نہ چاہتے ہوئے بھی غلطی ہو ہی جاتی ہے اور وہ ساری احتیاطوں کے باوجود کبھی کبھی گناہ کر بیٹھتا ہے تو اس  کےلئے رسول اللہ ﷺ نے دوسرا جملہ ارشاد فرمایا:

دوسرا جملہ ہے”برائی کے بعد بھلائی کرو جو برائی کو مٹا دے۔” یعنی دیدہ دانستہ یاغیر دانستہ کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو ایک مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ فورا اپنی غلطی پرمتنبہ ہو اور اللہ سے اپنی غلطی معاف کرانے کی ترکیب کرے ۔ اس کی صورت یہ ہےکہ استغفارکرے اور کوئی ایسا نیک کام کرے جو اس کی غلطی کاازالہ بن جائے ۔

رسول اللہ ﷺ نے ایسے بہت سارے اعمال کی طرف نشاندہی کی ہے جو گناہوں کو مٹاتے ہیں اورنامۂ اعمال میں نیکیوں کااضافہ کرتے ہیں ۔ وضو کے متعلق آپﷺ کا ارشاد ہے :

إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ، أَوِ الْمُؤْمِنُ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ، خَرَجَ مِنْ وَجْهِهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ نَظَرَ إِلَيْهَا بِعَيْنَيْهِ مَعَ الْمَاءِ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ، فَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ خَرَجَ مِنْ يَدَيْهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ، كَانَ بَطَشَتْهَا يَدَاهُ مَعَ الْمَاءِ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ، فَإِذَا غَسَلَ رِجْلَيْهِ، خَرَجَتْ كُلُّ خَطِيئَةٍ مَشَتْهَا رِجْلَاهُ مَعَ الْمَاءِ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاء، حَتَّى يَخْرُجَ نَقِيًّا مِنَ الذُّنُوبِ “.(صحیح مسلم ۔ كِتَاب الطَّهَارَةِ،باب خُرُوجِ الْخَطَايَا مَعَ مَاءِ الْوُضُوءِ حدیث نمبر٥٧٧)

 جب بندہ مسلمان یا مؤمن  وضو کرتا ہے اور منہ دھوتا ہے تو اس کے منہ سے وہ سب گناہ نکل جاتے ہیں جو اس نے آنکھوں سے کئے پانی کے ساتھ یا آخری قطرہ کے ساتھ ۔ پھر جب ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں میں سے ہر ایک گناہ جو ہاتھ سے کیا تھا، پانی کے ساتھ یا آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتا ہے پھر جب پاؤں دھوتا ہے تو ہر ایک گناہ جس کو اس نے پاؤں سے چل کر کیا تھا۔ پانی کے ساتھ یا آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتا ہے یہاں تک کہ سب گناہوں سے پاک صاف ہو کر نکلتا ہے۔“

وضو جس طرح ظاہری طہارت کاذریعہ ہے اسی طرح باطنی طہارت یعنی گناہوں کو مٹانے کا ذریعہ بھی ہے اس لئے اگر کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو فورا وضو کرکے اللہ سےمعافی مانگنے کی کوشش کرنی چاہئے  تاکہ نامۂ اعمال میں وہ گناہ باقی نہ رہے۔

تیسراجملہ جو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ ہے:“لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ۔”

حسن خلق کا مطلب

لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے اور حسن خلق کاکیا مطلب ہے؟

 خُلق حسن اچھی خصلتوں، پسندیدہ طریقوں، ملنساری، مروت اورخوش مزاجی کوکہتے ہیں۔اصطلاحی اعتبار سے خلق سے مراد انسان کے وہ پختہ اوصاف ہیں جو اس کی فطرت اور طبیعت کا اس طرح حصہ بن جائیں کہ ان کا ظہور روز مرہ کی زندگی میں غور وفکر کی سہولت اور آسانی سے ہوتا رہے۔اگر یہ اوصاف عقلی اور شرعی اعتبار سے پسندیدہ ہیں تو وہ خلق حسن ہیں اور وہ افعال قبیحہ ہیں تو خلق سیۂ ہیں۔اس طرح خلق یا اخلاق کی دوقسمیں ہیں۔ ایک خلق حسن یا اخلاق حسنہ اور دوسری خلق سیئہ یا اخلاق سیئہ۔خلق حسن میں وہ تمام اوصاف داخل ہیں جنہیں شریعت میں اچھا سمجھا گیا ہے یا شریعت نے انہیں کرنے کا حکم دیا ہے اگر وہ چیزیں انسان کے اندر اس طرح موجود ہیں کہ وہ اس کی فطرت میں شامل ہوگئیں ہیں، جنہیں عقلی اور شرعی دونوں طریقوں پر اچھا سمجھا گیا ہے،تو اسے اخلاق مند کہاجائے گا اور اگر اس صفت کو عقلی اور شرعی دونوں میں برا سمجھا گیا ہے تو اس شخص کو بداخلاق کہا جائے گا۔

نبی کریم ﷺ اخلاق کے سب سے اونچے مرتبہ پر فائز تھے۔اخلاقیات کے باب میں جتنی بھی چیزیں حسن کادرجہ رکھتی ہیں نبی کریم کے اندر وہ چیزیں کامل واکمل طریقہ پر موجود تھیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آ پ ﷺ کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہے:وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (قلم۔۴) (اور بے شک آپؐ بہت بڑے اخلاق پر ہیں۔)رسول اللہ ﷺ کے اخلاق حسنہ کا ہی کمال تھا کہ عرب جیسی اکھڑ مزاج قوم آ پؐ کے اردگرد صرف جمع ہی نہیں ہوئی بلکہ آپؐ پر فریفتہ ہوگئی اور آ پ ؐ کے ادنیٰ اشارے پر اپنی جانیں لُٹادینے کو تیار ہوگئی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ(١٥٩ ۔آل عمران)

 اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چَھٹ جاتے، سو آپ ان سے درگزر کریں اور ان کے لئے استغفار کریں اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں، پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں کو پسندکرتا ہے۔ 

عفو ودرگذراخلاق حسنہ کاحصہ ہے نبی کریم  ﷺ بذات خود عفو و درگذر سے کام لینے والے تھے اس کے باوجود آپ کو عفو و درگزر کرنے کا حکم ہے اوراگر کسی موقع پرجاہلوں کا سامنا ہوجائے او روہ بدتمیزی کرنے لگیں تو بھی آپؐ ان سے رحم وکرم اور عفور درگزر کا معاملہ فرمائیں۔:خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ(١٩٩ ۔اعراف)“آپ درگزر کو اختیار کریں نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہو جائیں۔”

اس کے علاوہ اللہ کے لئے تقویٰ اختیار کرنا، اللہ کے بندوں پرخرچ کرنا،غصہ پر قابو رکھنا، احسان وفضل کارویہ ہمیشہ قائم رکھنا یہ سب خلق حسن میں شامل ہیں۔

 جور و جفا اور ظلم وستم بداخلاقی میں شامل ہیں اگر کسی کے ساتھ ظلم و ستم ہو تو اس شخص کو بھی اتنا اختیار ہے کہ جب اس کو طاقت وقدرت حاصل ہو تو وہ اتنا ہی بدلہ لے سکتاہے جتنی اس کو تکلیف پہنچائی گئی،بدلہ میں زیادتی کرنا مظلوم کو ظالم بنادیتاہے۔ اس کے برعکس جو شخص معافی اور درگذ ر سے کام لے کر صلح جوئی کا راستہ اختیار کرتاہے وہ شخص اللہ تعالیٰ کے یہاں بہت پسندیدہ ہے اور وہ اخلاق کے نہایت اونچے عہدے پرفائز ہے۔

اللہ کے بندوں پرخرچ کرنا اور سخاوت کو اپنی عادت بنانا بھی خلق حسن میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس صفت کو جنتیوں کی صفات میں شمار کیا ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ:انَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” أَجْوَدَ النَّاسِ وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ جِبْرِيلُ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ”(صحیح بخاری۔کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملئکۃ ۔حدیث نمبر ٣٢٢٠ )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ کی سخاوت رمضان شریف کے مہینے میں اور بڑھ جاتی، جب جبرئیل علیہ السلام آپ سے ملاقات کے لیے ہر روز آنے لگتے۔ جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان کی ہر رات میں ملاقات کے لیے آتے اور آپ سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خصوصاً اس دور میں جب جبرئیل علیہ السلام روزانہ آپ سے ملاقات کے لیے آتے تو آپ خیرات و برکات میں تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔

طاقت رکھنے کے باوجود غصہ پر قابوپالینا خلق حسن میں شامل ہے اور جولوگ اس صفت سے متصف ہوتے ہیں انہیں معاشرے میں اونچا مقام ملتاہے اور لوگ ان کی عزت واکرام کرتے ہیں۔حالت غضب میں اپنے غصے پرقابو پانے والوں کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

عن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ”.(صحیح بخاری۔كِتَاب الْأَدَبِ ،بَابُ الْحَذَرِ مِنَ الْغَضَبِ ، حدیث نمبر٦١١٤ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پہلوان وہ نہیں ہے جو کشتی لڑنے میں غالب ہو جائے بلکہ اصل پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پائے بے قابو نہ ہو جائے۔

شجاعت و بہادری کوبھی حسن خلق میں شمار کیا جاتاہے اور ایک مومن کی صفات میں یہ داخل ہے کہ وہ بزدل نہیں ہوسکتاصحابۂ کرام کی زندگی میں بہادری کے ایسے ایسے نمونے اور جوہر موجود ہیں جن کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ آخر وہ سید المرسلین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے تربیت یافتہ تھے جن کی بہادری کی مثال پیش ہی نہیں کی جاسکتی۔  خطرناک حالات میں بھی آپﷺ سے نے کتنے صبر کے ساتھ مقابلہ کیا جس کو جاننے کے بعد انسان بے یقینی کاشکار ہوجاتا ہے کہ کیا ایسا بھی ہوسکتاہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ مکہ کی سنگلاخ وادیوں میں جب کہ ہرطرف مخالفت کی تند وتیز ہوائیں چل رہی تھیں آپ ؐ اللہ کے کلمے کی سربلندی کے لئے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر عرب کے سرداروں کے پاس جاتے اور انہیں دین کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔ جب کہ سارے لوگ آپ ؐ کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے۔مدنی دور میں بھی جب کوئی ناگہانی صورت حال پید اہوتی تو آپ ﷺ سب سے آگے رہا کرتے تھے۔

تحمل و بردباری بھی اخلاق حسنہ میں داخل ہے اور ہر مومن کو تحمل وبردباری سے کام لینا چاہئے۔ بردباری کی صفت انسان کو معاشرے میں عزت کے مقام پربِٹھاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی اس کی قدر کی جاتی ہے۔ نیز جس کی صفت بردباری کی ہے لوگ اس کے قریب رہنا پسند کرتے ہیں اس سے بدکتے نہیں۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت یہی ہے کہ آپ کی شخصیت بردباری اور تحمل میں کامل واکمل تھی۔ آپ ﷺ کے قریب رہنے والے لوگ روز بروز آپ ؐ سے قریب تر ہوتے جاتے تھے اور کبھی شکایت نہیں کرتے تھے۔

خوش دلی اور نرم گوئی،تواضع او رخاکساری،بڑوں کی عزت، چھوٹوں سے پیار، سب اخلاق کے اعلیٰ مراتب ہیں اسلامی تعلیمات میں جہاں اخلاق حسنہ کو اختیارکرنے کی تاکید کی گئی ہے وہیں اخلاق سیۂ سے بچنے کی بھی تلقین کی گئی ہے۔

یہ تین نصیحتیں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی پیاری امت کے لئے چھوڑی ہیں اگر ان پر عمل کرلیا جائے تو انسان کامیابی کی راہ پالے گا اور اپنی نجات کاسامان پیداکرلے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *