آصف قاسمی

جنت و جہنم اور اس کے مکین

 تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

یہ کائنات خیرو شر کی آماج گاہ ہے یہاں اللہ کے لئے مرمٹنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے اور شیطان کے پیچھے چل کر اپنی زندگیوں کو پامال کرنے والوں کی بھی کثرت ہے۔ عدل وانصاف قائم کرنے و الے لوگ بھی جابجا موجود ہیں او رظلم وستم کے ذریعہ خلق اللہ کو اذیت پہنچانے و الے بھی ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ نیکی او رخیر سے اپنے دامن کوبھرنے والوں کی تعداد بھی کثیر ہے اوربرائی کے دلدل میں پھنسنے والوں کی بھی کمی نہیں، نیز اس دنیاکے اسباب ووسائل سے ہر طرح کے لوگ برابر فائدہ حاصل کرتے ہیں او راپنی محنت کے بقدر دنیاوی اسباب سے مالامال بھی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی پر بھی دروازہ بند نہیں کرتے۔ اس لئے کہ یہ دنیا دارالعمل ہے دار الجزا نہیں یہاں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو عمل کے لئے بھیجا ہے اوراس کائنات کی ہرچیز کو اس کی خدمت پرلگادیا ہے۔ اب ان کو دیکھنا ہے کہ نیک عمل کرتے ہیں یا برے اعمال میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ان دونوں قسم کے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے آخرت میں دومکان بنائے ہیں جن میں ایک کانام جنت اوردوسرے کانام جہنم ہے۔ جن بندوں پر اللہ تعالیٰ رحمت فرمانا چاہیں گے انہیں اپنی جنت میں داخل کریں گے اور جن پراپناغضب اتارنا چاہیں گے انہیں جہنم میں ڈال دیں گے۔کفارو مشرکین چونکہ اللہ کے باغی ہیں اور باغیوں پرغضب ہی نازل ہوتا ہے۔ اس لئے جہنم کفارو مشرکین کاٹھکانا ہے۔ مومنین چونکہ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کادم بھرتے ہیں اور اطاعت گذار رحمت کے مستحق ہوتے ہیں اس لئے جنت مومنین کا ٹھکانا ہے۔ اب رہے وہ مسلمین ومومنین جنہوں نے اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کا اقرارکیا لیکن عملی اعتبار سے اس کاکامل ثبوت نہیں پیش کرسکے تو انہیں بھی جہنم میں ڈالا جاسکتاہے لیکن ان کے لئے یہ داخلہ ہمیشہ کے لئے نہیں ہوگا بلکہ اپنے گناہوں کی سزا کاٹ کر اس میں سے نکال لئے جائیں گے اور ان کا بھی آخری ٹھکانہ جنت ہوگا۔

جنت اور اہل جنت کا تعارف

جنت اس مقام کانام ہے جومتقین کی آخری قیام گاہ ہے۔جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انواع و اقسام کی نعمتیں جمع کررکھی ہیں۔ جس میں لہلہاتے باغ اور صاف شفاف پانی سے بھری ہوئی،دودھ اور شہد کی نہریں ہیں۔بلند و بالامحلات، خوش ذائقہ پھل اورحسین وجمیل حورو غلماں موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس میں ایسی ایسی نعمتیں پید اکررکھی ہیں جو انسان کے وہم و گمان میں نہیں آسکتیں۔ سورہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے جنت کاتعارف اس انداز سے کرایاہے:

وَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَ (١٠ )اُوْلٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ (١١ )فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ (١٢ )ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ (١٣ )وَقَلِیْلٌ مِّنَ الْآخِرِیْنَ (١٤ )عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ (١٥ )مُتَّکِئِینَ عَلَیْہَا مُتَقَابِلِیْنَ(١٦ ) یَطُوْفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ (١٧ )بِاَکْوَابٍ وَّاَبَارِیقَ وَکَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ(١٨ ) لاَ یُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلاَ یُنزِفُوْنَ (١٩ )وَفَاکِہَۃٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ (٢٠ ) وَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَہُوْنَ (٢١ )وَحُورٌ عِیْنٌ (٢٢ )کَاَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَکْنُوْنِ (٢٣ )جَزَآءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (٢٤ )لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلاَ تَاْثِیْمًا (٢٥ )اِِلَّا قِیْلًا سَلاَمًا سَلاَمًا (٢٦ ) وَاَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ مَا اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ (27)فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُودٍ (28)وَطَلْحٍ مَّنْضُودٍ (29) وَظِلٍّ مَمْدُوْدٍ (30)وَمَاءٍ مَّسْکُوبٍ (31)وَفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ (32)لاَ مَقْطُوعَۃٍ وَّلاَ مَمْنُوْعَۃٍ(33) وَفُرُشٍ مَرْفُوْعَۃٍ (34) اِِنَّا اَنشَاْنَاہُنَّ اِِنشَاءً (35)فَجَعَلْنَاہُنَّ اَبْکَارًا (36) عُرُبًا اَتْرَابًا (37)لِاَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ (38)ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ (39)وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْآخِرِیْنَ (40)  سورہ واقعہ

ترجمہ:    اور جو پہل کرنے والے ہیں، وہی آگے بڑھنے والے ہیں۔ یہی لوگ قریب کیے ہوئے ہیں۔ نعمت کے باغوں میں۔بہت بڑی جماعت پہلوں سے۔ اور تھوڑے سے پچھلوں سے ہوں گے۔ سونے اور جواہر سے بْنے ہوئے تختوں پر (آرام کر رہے ہوں گے)۔ ان پر تکیہ لگائے ہوئے آمنے سامنے بیٹھنے والے (ہوں گے)۔ ان پر چکر لگا رہے ہوں گے وہ لڑکے جو ہمیشہ (لڑکے ہی) رکھے جائیں گے۔ ایسے کوزے اور ٹونٹی والی صراحیاں اور لبالب بھرے ہوئے پیالے لے کر جو بہتی ہوئی شراب کے ہوں گے۔ وہ نہ اس سے درد سر میں مبتلا ہوں گے اور نہ بہکیں گے اور ایسے پھل لے کر جنھیں وہ پسند کرتے ہیں۔ اور پرندوں کا گوشت لے کر جس کی وہ خواہش رکھتے ہیں۔ اور فراخ آنکھوں والی حوریں ہیں۔ چھپا کر رکھے ہوئے موتیوں کی طرح۔ اس کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے۔ وہ اس میں نہ بے ہودہ گفتگو سنیں گے اور نہ گناہ میں ڈالنے والی بات۔ مگر یہ کہنا کہ سلام ہے، سلام ہے۔اور دائیں ہاتھ والے، کیا (ہی اچھے) ہیں دائیں ہاتھ والے۔ (وہ) ایسی بیریوں میں ہوں گے جن کے کانٹے دور کیے ہوئے ہیں۔ اور ایسے کیلوں میں جو تہ بہ تہ لگے ہوئے ہیں۔ اور ایسے سائے میں جو خوب پھیلا ہوا ہے۔ اور ایسے پانی میں جو گرایا جا رہا ہے۔ اور بہت زیادہ پھلوں میں۔ جو نہ کبھی ختم ہوں گے اور نہ ان سے کوئی روک ٹوک ہوگی۔ اور اونچے بستروں میں۔ بلاشبہ ہم نے ان(حوروں) کو پیدا کیا، نئے سرے سے پیدا کرنا۔ پس ہم نے انھیں کنواریاں بنا دیا۔ جو خاوندوں کی محبوب، ان کی ہم عمر ہیں۔ دائیں ہاتھ والوں کے لیے۔ ایک بڑی جماعت پہلے لوگوں سے ہیں۔ اور ایک بڑی جماعت پچھلوں سے۔

جنت وجہنم کی تخلیق

 نبی کریم ؐ نے جنت و جہنم کی تخلیق کے بارے میں صحابۂ کرام کو بار بار بتایااورجنت کے حصول کی ترغیب اورجہنم سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔

عَن اَبی ھُرَیرَۃَ رضی اللہ عنہ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الْجَنَّةَ، قَالَ لِجِبْرِيلَ: اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ، وَعِزَّتِكَ لَا يَسْمَعُ بِهَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَهَا، ثُمَّ حَفَّهَا بِالْمَكَارِهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا جِبْرِيلُ اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ، وَعِزَّتِكَ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ لَا يَدْخُلَهَا أَحَدٌ، قَالَ: فَلَمَّا خَلَقَ اللَّهُ النَّارَ، قَالَ: يَا جِبْرِيلُ، اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ، وَعِزَّتِكَ لَا يَسْمَعُ بِهَا أَحَدٌ فَيَدْخُلُهَا، فَحَفَّهَا بِالشَّهَوَاتِ، ثُمَّ قَالَ: يَا جِبْرِيلُ، اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ، وَعِزَّتِكَ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ لَا يَبْقَى أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَهَا”.(سنن ابوداؤد۔کتاب السنۃ، باب خلق الجنۃ والنار ۔حدیث ٤٧٤٤ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ نے جنت کو پیدا کیا تو جبریلؑ سے فرمایا: جاؤ اور اسے دیکھو، وہ گئے اور اسے دیکھا، پھر واپس آئے، اور کہنے لگے: اے میرے رب! تیری عزت کی قسم، اس کے متعلق جو کوئی بھی سنے گا وہ اس میں ضرور داخل ہو گا، پھر (اللہ نے) اسے مکروہات (ناپسندیدہ) (چیزوں) سے گھیر دیا، پھر فرمایا: اے جبریل! جاؤ اور اسے دیکھو، وہ گئے اور اسے دیکھا، پھر لوٹ کر آئے تو بولے: اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! مجھے ڈر ہے کہ اس میں کوئی داخل نہ ہو سکے گا، جب اللہ نے جہنم کو پیدا کیا تو فرمایا: اے جبریل! جاؤ اور اسے دیکھو، وہ گئے اور اسے دیکھا، پھر واپس آئے اور کہنے لگے: اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! جو اس کے متعلق سنے گا اس میں داخل نہ ہو گا، تو اللہ نے اسے مرغوب اور پسندیدہ چیزوں سے گھیر دیا، پھر فرمایا: جبریل! جاؤ اور اسے دیکھو، وہ گئے، جہنم کو دیکھا پھر واپس آئے اور عرض کیا: اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! مجھے ڈر ہے کہ کوئی بھی ایسا نہیں بچے گا جو اس میں داخل نہ ہو۔

عن سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ يَقُولُ: شَهِدْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَجْلِسًا وَصَفَ فِيهِ الْجَنَّةَ حَتَّى انْتَهَى، ثُمَّ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِ حَدِيثِهِ: ” فِيهَا مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ، ثُمَّ اقْتَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ {١٦ } فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ {١٧ } سورة السجدة آية ١٦ -١٧  “(صحیح مسلم۔کتاب الجنۃ صفۃ نعیمہا واہلھا۔باب صفۃ الجنۃ ۔ حدیث نمبر٧١٣٥  )

حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مجلس میں موجود تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کا حال بیان کیا، یہاں تک کہ بے انتہاء تعریف کی۔ پھر آخر میں فرمایا: ”جنت میں وہ نعمت ہے جس کو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی آدمی کے ذہن میں گزری۔“ پھر اس آیت کو پڑھا: تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ  مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ(١٦ )فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(١٧ ۔السجدہ) ”جن لوگوں کی کروٹیں بچھونے سے جدا رہتی ہیں (یعنی رات کو جاگتے ہیں) اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کے عذاب سے ڈر کر اور اس کے ثواب کی طمع سے اور جو ہم نے ان کو دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ تو کوئی نہیں جانتا جو چھپا کر رکھی گئی ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک یہ بدلہ ہے ان کے اعمال کا۔

 عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” احْتَجَّتِ النَّارُ وَالْجَنَّةُ، فَقَالَتْ: هَذِهِ يَدْخُلُنِي الْجَبَّارُونَ وَالْمُتَكَبِّرُونَ، وَقَالَتْ: هَذِهِ يَدْخُلُنِي الضُّعَفَاءُ وَالْمَسَاكِينُ، فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: لِهَذِهِ أَنْتِ عَذَابِي أُعَذِّبُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ، وَرُبَّمَا قَالَ: أُصِيبُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ، وَقَالَ لِهَذِهِ: أَنْتِ رَحْمَتِي أَرْحَمُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ، وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْكُمَا مِلْؤُهَا “(صحیح مسلم کتاب الجنۃ باب النار یدخلھا الجبارون والجنۃ یدخلھا الضعفاء ۔ حدیث نمبر٧١٧٢  )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جہنم اورجنت کا جھگڑا ہو ا۔جہنم نے کہا:میرے اندر بڑے بڑے ظالم اورمتکبر لوگ داخل ہوں گے اورجنت نے کہا: میرے اندر کمزور اورمسکین لوگ داخل ہوں گے تو اللہ عزوجل نے جہنم سے فرمایا تومیرا عذاب ہے۔ میں تیرے ذریعے جسے چاہوں گا عذاب دوں گا اوراللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایاتو میری رحمت ہے، میں تیرے ذریعے جس پرچاہوں گا رحمت کروں گا لیکن تم میں سے ہر ایک کابھرناضروری ہے۔

جنت کی وسعت او راس کی چوڑائی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جنت میں ایک ایسادرخت ہے جس کے سائے میں چلنے والاسوار سو سال تک چلتارہے گا۔

(صحیح مسلم کتاب الجنۃ صفۃ نعیمھا واھلھا، باب فی الجنۃ شجرۃ یسیر الراکب فی ظلھا ماءۃ عام لایقطعھا۔حدیث نمبر ٧١٣٦  )

اندازہ کیجئے کہ جب جنت کے ایک درخت کے سایے کا یہ حال ہے توجہاں لاکھوں کروڑوں درخت ہیں اس کی وسعت کا کیاحال ہوگا۔

جنت میں اللہ تعالیٰ جس کوداخل کردیں گے اس سے کبھی ناراض نہیں ہوں گے بلکہ اس کوہمیشہ کے لئے اپنی رضامندی کاپروانہ عطافرمادیں گے۔ یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ جنت کی کوئی بھی نعمت ا س کامقابلہ نہیں کرسکتی۔

عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ ،أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ لِأَهْلِ الْجَنَّةِ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، فَيَقُولُونَ: لَبَّيْكَ رَبَّنَا وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ، فَيَقُولُ: هَلْ رَضِيتُمْ؟، فَيَقُولُونَ: وَمَا لَنَا لَا نَرْضَى يَا رَبِّ وَقَدْ أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، فَيَقُولُ: أَلَا أُعْطِيكُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ؟، فَيَقُولُونَ: يَا رَبِّ وَأَيُّ شَيْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ، فَيَقُولُ: أُحِلُّ عَلَيْكُمْ رِضْوَانِي فَلَا أَسْخَطُ عَلَيْكُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا “.(صحیح مسلم۔کتاب الجنۃ صفۃ نعیمہا واہلھا۔باب احلال الرضوان علی اہل الجنۃ فلایسخط علیھم  ابدا۔ حدیث نمبر ٧١٤٠   )

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”البتہ اللہ تعالیٰ جنتیوں سے فرمائے گا اے جنتیو! سو وہ کہیں گے اے رب! ہم حاضر ہیں خدمت میں اور سب بھلائی تیرے ہاتھوں میں ہے۔ پروردگار فرمائے گا: تم راضی ہوئے؟ وہ کہیں گے: ہم کیسے راضی نہ ہوں گے، ہم کو تو نے وہ دیا کہ اتنا اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا۔ پروردگار فرمائے گا: کیا میں تم کو اس سے بھی عمدہ کوئی چیز دوں؟ وہ عرض کریں گے: اے رب! اس سے عمدہ کون سی چیز ہے؟ پروردگار فرمائے گا: میں نے تم پر اپنی رضا مندی اتاری اب میں اس کے بعد تم پر کبھی غصہ نہ ہوں گا۔“

جنتی ودوزخی

جنت اہل ایمان کاٹھکانہ ہے اور جہنم اہل کفر و شرک کاٹھکانا ہے، جن لوگوں نے اللہ کی وحدانیت کا اقرا ر کیا اور اس کے نبیوں کو برحق مان کر اس پرعمل کرتے رہے ان کا ٹھکانہ جنت ہے اورجن لوگوں نے اللہ کی وحدانیت کا انکار کیا اور اس کے نبیوں کو جھوٹا سمجھا،یا اس کی الوہیت میں کسی کو شریک ٹھہرایا،ان کاٹھکانہ جہنم ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیِّءَۃً وَّ اَحَاطَتْ بِہٖ خَطِیْءَتُہٗ فَاُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ(٨١ )وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْن(٨٢ ۔البقرۃ)

ترجمہ:    ہاں جس نے گناہ کاعمل کیا او راس کے گناہوں نے اسے گھیر لیا تووہی لوگ جہنم والے ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اورجولوگ ایمان لائے او رنیک عمل کئے وہی لوگ جنت والے ہوں گے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

آیت کریمہ میں جو گناہوں کے احاطہ کاذکر آیا ہے یہ کفار کے ساتھ مخصوص ہے اس لئے کہ کفر کے ساتھ کوئی بھی عمل صالح مقبول نہیں ہوتا اگر کفار کچھ نیک اعمال کرتے بھی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کابدلہ دنیا ہی میں دے کر معاملہ صاف کردیتے ہیں اور ان کا کوئی عمل آخرت میں مقبول نہیں ہوگا تو گویا کفار سرتاپا بدی ہی میں ڈوبے ہوئے ہیں اسی لئے ان کاٹھکانہ ہمیشہ ہمیش کے لئے جہنم ہوگا۔ اس کے برخلاف مومنین کاایمان چونکہ خود ہی بہت بڑ ا عمل صالح ہے ا س کے علاوہ دیگر اعمال بھی ان کے نامہ اعمال میں ہوں گے اس لئے اگر چہ ان سے گناہ بھی سرزد ہوتے ہیں لیکن وہ ان کومکمل طور پر محیط نہیں ہوتے اسی لئے اس ضابطہ کی رو سے مومنین کے لئے خلود فی النار نہیں ہوگا۔ نبی کریم ﷺ  چونکہ خاتم الانبیا ء ہیں اور آپ کے اوپرسب کو ایمان لانا ضروری ہے اس لئے اگرچہ یہود و نصاریٰ اپنے اپنے نبی کو مانتے ہیں او ران پر ایمان لانے کے دعوے دار بھی ہیں لیکن انہوں نے  خاتم النبیین ﷺ کاانکار کیا اس لئے ان کاایمان بھی معتبر نہیں ہے او ر اس ضابطہ کی روسے ان کاکوئی بھی عمل صالح عند اللہ مقبول نہیں ہے۔ اس لئے وہ بھی ہمیشہ کے لئے جہنم کاایندھن بن کر رہیں گے۔

مولانا عبد الماجد دریابادی نو ر اللہ مرقدہ نے ان دونوں آیات کے ذیل میں لکھاہے:

”نجات وعدم نجات کااصل قانون اب بیان ہورہا ہے کہ اسے نسل و قوم سے کوئی واسطہ ہی نہیں اَحَاطَتْ بِہٖ خَطِیْئَتُہٗ قصداً بدی کی راہ اختیا رکرنا اورمعصیت سے پوری طرح گِھر جاناکہ خود ایمان کے لئے گنجائش ہی باقی نہ رہ جائے،صرف انہیں کے لئے ممکن ہے جو سِرے سے اہل باطل ہوں اور ان کی موت کفر اور بے دینی ہی پرآئے۔مومن کیساہی بد عمل ہوبہرحال اس آیت کامصداق تو نہ ہوگا۔ کم از کم زبان سے اقرار اورقلب سے تصدیق کادرجہ تو اسے حاصل ہی ہوگا۔ تمام اکابر اہل سنت نے یہاں مراد کفر ہی سے لیا ہے۔ اَیْ اَشْرَکَ بِاللّٰہِ وَمَاتَ عَلَیْہِ(ابن عباسؓ)(یعنی اللہ کے ساتھ شرک کیااوراسی پر اس کی موت ہوگئی۔) اَلسَّیِّئَۃُ اَلْکُفْرُ وَالشِّرْکُ قال ابن عباس ومجاھد(بحر)سیۂ شرک اور کفر ہے۔  اَلمُوْئمِنُوْنَ لَایَدْخُلُوْنَ فِیْ حُکْمِ ھٰذِہِ الْآیَۃِ (معالم۔عن الواقدی)(ایمان والے اس آیت کے حکم میں داخل نہیں ہیں۔مؤلف) فَاَمَّا اِذَا مَاتَ مُؤْمِنًا فَاَعْظَمُ الطَّاعَاتِ وَھُوَالْاِیْمَانُ مَعَہٗ فَلَایَکُوْنُ الذَّنْبُ مُحِیْطًا بِہٖ فَلَایَتَنَاوَلَہُ النَّصُّ(بہر حال جب ایمان کی حالت میں مَرا تویہ عظیم طاعت ہے اوروہ ایمان ہے تو وہ گناہوں سے گِھر اہوا نہ ہوگاتو نص اس کو شامل نہیں ہوگا(مدارک) بعض اہل باطل (معتزلہ وخوارج وغیرہ) نے آیت سے جومومن عاصی کی عدم مغفوریت پراستدلال کرنا چاہا ہے وہ صریحا ًباطل ہے۔

 دونوں آیتوں میں نجات کاپور اقانون ایجاز و اختصار کے ساتھ آگیا کہ نجات کانسل و قوم سے کوئی تعلق نہیں۔جوکوئی اپنے قصد و اختیار سے بد عقیدگی و بد کرداری کی راہ چلے گا، اس کا ٹھکانہ جہنم ہے او رجوکوئی اپنے قصد واختیار سے ایمان وعمل صالح کی روش کا انتخاب کرے گا اس کی منزل جنت ہے۔…………اور اس سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ گوعمل صالح اپنی جگہ پرنہایت اہم اور ضروری ہے، لیکن ایمان اس سے بھی اہم تر ہے او ربغیر ایمان کے مجرد عمل صالح کے کوئی معنی ہی نہیں۔ ایمان کی حقیقت نیت عمل او ر فکر کی تصحیح ہے اور قرآن مجید نے بالکل فطری ترتیب کے مطابق تصحیح فکر کو تصحیح عمل پرمقدم رکھاہے ۔محض عمل،اگر نیت سے قطع کرلی جائے،تو صرف صورتِ عمل رہ جاتاہے۔حقیقت عمل نہیں۔ (تفسیر ماجدی۔ف ۶۷۲۔۸۷۲:)

جہنم اور اس کی ہولناکی

جہنم اللہ تعالیٰ کے غضب کاایک ایسا مظہر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے نافرمانوں  کو سز ا دیں گے۔جنت میں جس طرح ہر جگہ اللہ کی رحمتوں کاسایہ ہوگا۔ بالکل اس کے برعکس جہنم میں ہرجگہ اللہ تعالیٰ کا غضب جھلکتاہوادکھائی دے گا،وہاں اللہ تعالیٰ نے ایسے ایسے عذاب پیداکر رکھے ہیں کہ جن کو سن کر ہی انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دہکتی ہوئی آگ کے انگارے، کھولتاہوا پانی، سانپ ،بچھو، اژدھے اورنہ جانے کیسے کیسے عذاب اللہ تعالیٰ نے پید ا کر رکھے ہیں جو بد کردار لوگوں کے لئے متعین ہیں۔جس کی تکالیف کاانسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین جہنم کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يُؤْتَى بِجَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لَهَا سَبْعُونَ أَلْفَ زِمَامٍ مَعَ كُلِّ زِمَامٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ يَجُرُّونَهَا۔(صحیح مسلم کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلہا۔ باب جہنم اعاذنا اللہ منھا۔7164 )

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس دن جہنم لائی جائے گی اس کی ستر ہزار باگیں ہوں گی اور ہر ایک باگ کو ستر ہزار فرشتے کھینچتے ہوں گے۔

اس حساب سے اگر ستر ہزار کو ستر ہزار سے ضرب دے دیا جائے ان فرشتوں کی تعداد چار ارب نوے کروڑ ہوتی ہے جو جہنم کو کھینچ کر لائیں گے جس سے جہنم کی وسعت اور جسامت کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔جہنم کے آگ کی شدت اور اس کی گرمی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کاارشاد ہے:

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ” ناركم هذه التي يوقد ابن آدم جزء من سبعين جزءا من حر جهنم “، قالوا: والله إن كانت لكافية يا رسول الله، قال: ” فإنها فضلت عليها بتسعة وستين جزءا كلها مثل حرها ۔(صحیح مسلم کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلہا۔ باب جہنم اعاذنا اللہ منھا۔حدیث نمبر٧١٦٥ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تمہاری آگ جس کو آدمی روشن کرتا ہے اس میں گرمی کا ایک حصہ ہے، جہنم کی آگ میں ایسے ستر حصے گرمی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: قسم اللہ کی یہی آگ کافی تھی یارسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو اس سے انہترحصے زیادہ گرم ہے ہر حصہ میں اتنی گرمی ہے۔

جہنم کی گہرائی سے متعلق  نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ سَمِعَ وَجْبَةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” تَدْرُونَ مَا هَذَا؟، قَالَ: قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: ” هَذَا حَجَرٌ رُمِيَ بِهِ فِي النَّارِ مُنْذُ سَبْعِينَ خَرِيفًا، فَهُوَ يَهْوِي فِي النَّارِ الْآنَ حَتَّى انْتَهَى إِلَى قَعْرِهَا “(صحیح مسلم۔کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلہا۔ باب جہنم اعاذنا اللہ منھا۔حدیث نمبر٧١٦٧  )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اتنے میں ایک دھماکے کی آواز آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایک پتھر ہے جو جہنم میں پھینکا گیا تھا ستر برس پہلے وہ جا رہا تھا اب اس کی تہ میں پہنچا۔

جہنم کی ہولناکی اور اس کے عذاب کی شدت جو یہاں بیان کی گئی یہ تو صرف سمجھانے کے لئے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ نے جہنم کو کتنا دردناک بنایا ہے انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جہنم سے بچاکر جنت کے مکینوں میں شامل فرمائے۔ آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *