زکوٰۃ
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
زکوۃ کے معنی پاکیزگی،بڑھوتری اور برکت کے ہیں۔شریعت کی اصلاح میں زکوۃ اس مال کوکہاجاتاہے جس کو حولانِ حول کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق محتاجوں،مسکینوں اور فقیروں کودے کر ان کو مالک بنا دیا جائے۔زکوۃ ہرصاحب نصاب پرفرض ہے قرآن کریم کے آیات اورنبی کریم ﷺ کے ارشادات سے اس کی فرضیت ثابت ہے۔
زکوۃ کا نصاب شریعت میں ساڑھے سات تولہ سوناہے جس کا وزن گرام کے حساب سے ساڑھے ستاسی گرام یا ساڑھے باون تولہ چاندی برابر چھ سوگرام ہے (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند) جن کے پاس اس مقدار میں سونا، چاندی یا اس کی قیمت موجود ہے اور اس مال پرسال بھی گذر گیاہے تو اس مال میں سے ڈھائی فیصد اللہ کے لئے نکال دینا ہر صاحب نصاب پرفرض ہے اگرکسی کے پاس مال کی صورت میں صرف سونا ہے تو ساڑھے سات تولہ سونے کانصاب پوراہونے پرزکوۃ فرض ہوگی۔ اگرکسی پاس صرف چاندی ہے توچاندی کانصاب ساڑھے باون تولہ چاندی پوراہونے پرزکوۃ فرض ہوگی اور اگر کسی کے پاس سوناا ور چاندی دونوں ہیں لیکن الگ الگ کوئی بھی نصاب کو نہیں پہونچتا تو ان دونوں کی قیمت کااندازہ کرکے چاندی کے نصاب کا اعتبار ہوگااور اگردونوں کی قیمت ساڑے باون تولہ چاندی کے بقدر ہوجاتی ہے تو زکوۃ فرض ہوجائے گی ورنہ نہیں۔ اسی طرح دوسرے اموال کا حساب بھی ہوگا اگران کی قیمت چاندی کے نصاب کے بقدر پہنچ جائے تو زکوۃ فرض ہوجائے گی۔اصل بات اس میں یہ ہے کہ جس صورت میں غریبوں مسکینوں کا فائدہ زیادہ ہو اسی صورت کاشریعت میں اعتبارکیاگیا ہے اگر اصل معیار سونے کوبنادیا جائے تو بہت سارے لوگ زکوٰۃ کی فرضیت سے نکل جائیں گے اور غریبوں کا نقصان ہوگااس لئے چاندی کے حساب سے اپنی زکوۃنکالنی چاہئے اور خواہ مخواہ اس میں بہانے تلاش نہیں کرنا چاہئے۔ ہم جوبھی رقم زکوۃ میں خرچ کریں گے اللہ تعالیٰ اس میں کئی گنا اضافہ کرکے واپس کریں گے۔
زکوۃ کی فرضیت اور اس کی تاکید
گذشتہ باب میں نماز سے متعلق جوآیات قرآنیہ نقل کی گئی ہیں ان میں نماز کے ساتھ ساتھ زکوۃکابھی ذکر آگیاہے اس لئے ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں اتناواضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں جہاں نماز کاذکر فرمایا ہے وہاں اکثرزکوۃ کا ذکربھی فرمایا ہے اس لئے نماز کے ساتھ ساتھ زکوۃ کی اہمیت بھی ویسے ہی مسلّم ہے۔قرآن کریم میں جگہ جگہ نماز کی تاکید کی گئی ہے اور معاً زکوۃ کی تاکید بھی کی گئی ہے۔
یَمحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُربِی الصَّدَقٰتِ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیمٍ(٢٧٦ ) اِنَّ الَّذِینَ اٰمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ لَھُم اَجرُھُم عِندَ رَبِّھِم وَ لَا خَوفٌ عَلَیھِم وَ لَا ھُم یَحزَنُونَ (٢٧٧ ۔البقرۃ)
ترجمہ: اللہ سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا ہے۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہے اُن کو اُن کے کاموں کا صلہ اللہ کے ہاں ملے گا اوراُن کو نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
لٰکِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْھُمْ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَ الْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوۃَ وَ الْمُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ اُولٰٓءِکَ سَنُؤْتِیْھِمْ اَجْرًا عَظِیْمًا(١٦٢ ۔النساء)
ترجمہ: مگر جو لوگ ان میں سے علم میں پکے ہیں اور جو مومن ہیں وہ اس(کتاب)پر جوآپؐ پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں)آپ سے پہلے نازل ہوئیں ایمان رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ان کو عنقریب ہم بہت بڑا اجر دیں گے۔
وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ وَ بَعَثْنَا مِنْھُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا وَ قَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ لَءِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَ عَزَّرْتُمُوْھُمْ وَ اَقْرَضْتُمُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ لَاُدْخِلَنَّکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ فَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ (١٢ ۔ المائدہ)
ترجمہ: اور اللہ نے بنی اسرائیل سے اقرار لیا اور اُن میں ہم نے بارہ سردار مقرر کئے پھر اللہ نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے اور میرے پیغمبروں پر ایمان لاؤ گے اور ان کی مدد کرو گے اور اللہ کو قرضِ حسنہ دو گے تو میں تم سے تمہارے گناہ دُور کر دوں گا اور تمہیں باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں۔ پھر جس نے اس کے بعد تم میں سے کفر کیا وہ سیدھے رستے سے بھٹک گیا۔
وَ اکْتُبْ لَنَا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ اِنَّا ھُدْنَآ اِلَیْکَ قَالَ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآءُ وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ(١٥٦ ۔اعراف)
ترجمہ: اور ہمارے لئے اس دنیا میں بھی بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی ہم تیری طرف رجوع ہو چکے (اللہ نے) فرمایا کہ جو میرا عذاب ہے اُسے جس پر چاہتا ہوں نازل کرتا ہوں اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے، میں اس کو ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری کرتے اور زکوٰۃ دیتے اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔
فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْھُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَ جَدْتُّمُوْھُمْ وَخُذُوْھُمْ َو احْصُرُوْھُمْ وَ اقْعُدُوْا لَھُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ اِِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵۔التوبۃ)
ترجمہ: جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو اور پکڑ لو اور گھیر لو اور ہر گھات کی جگہ پر اُن کی تاک میں بیٹھے رہو پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے لگیں تو اُن کی راہ چھوڑ دوبے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰٓی اُولٰٓءِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ(١٨ ۔التوبۃ)
ترجمہ: اللہ کی مسجدوں کو تو وہ لوگ تعمیر کرتے ہیں جو اللہ پر اور روزِ قیامت پر ایمان لاتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے، یہی لوگ امید ہے کہ ہدایت یافتہ لوگوں میں ہوں۔
وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ اُولٰٓءِکَ سَیَرْحَمُھُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔(٧١ ۔التوبۃ)
ترجمہ: اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے اور بُری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔
وَّ جَعَلَنِی مُبٰرَکًا اَینَ مَا کُنتُ وَ اَوصٰنِی بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمتُ حَیًّا(٣١ ۔ مریم)
ترجمہ: اور میں جہاں رہوں مجھے صاحب ِ برکت کیا ہے اور جب تک زندہ ہوں مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے۔
وَ کَانَ یَامُرُ اَھلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ وَ کَانَ عِندَ رَبِّہٖ مَرضِیًّا(۵۵۔ مریم)
ترجمہ: اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم کرتے تھے اور اپنے رب کے ہاں پسندیدہ تھے۔
وَ جَعَلْنٰھُمْ اَءِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْھِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَ اِیْتَآءَ الزَّکٰوۃِ وَ کَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَ(٧٣ ۔انبیاء)
ترجمہ: اور ان کو پیشوا بنایا کہ ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ا ن کو نیک کام کرنے اور نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم بھیجا اور وہ ہماری بندگی کیا کرتے تھے۔
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ(٤١ ۔ حج)
ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور بُرے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِلزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْنَ (۴۔مومنون) اور وہ لوگ جوزکوۃ کواداکرنے والے ہیں۔
نبی کریم ﷺ کے اقوال وآثار میں زکوۃ کی فضیلت، اس کے احکام، اس کے ادا کرنے والوں کے لئے اجر کا مرتب ہونا نیز مانعین زکوۃ سے متعلق وعیدوں کے کے ذکر سے حدیث کی کتابیں بھری پڑیں ہیں۔ چند احادیث ذیل میں نقل کی جاتی ہیں۔
زکوۃ کانظام اسلام کا ایک ایسا معاشی نظام ہے جس میں امیر وغریب سب کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے وسائل مہیا کرتاہے۔ایسے لوگ جو معاشی اعتبار سے تنگی کے شکار ہیں، یتیم بچے جودنیا کی سمجھ نہیں رکھتے،بیوہ اور مساکین جن کا کوئی سہارا نہیں ایسے لوگوں کے لئے زکوۃ کانظام قائم کیا گیا کہ مالداروں سے ان کے مال میں سے کچھ حصہ لے کر ان محتاجوں کو دے دیا جائے تاکہ وہ بھی اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔نبی کریم ﷺ اپنے عُمّال کو جب کہیں بھیجاکرتے تھے تو انہیں زکوۃ و صدقات کی وصولی پر خاص توجہ دلایا کرتے تھے۔
عن ابن عباس رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،” أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى الْيَمَنِ , فَقَالَ: ادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ”. ۔(صحیح بخاری۔کتاب الزکوۃ،باب وجوب الزکوۃ. حدیث نمبر١٣٩٥ )
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن (کا حاکم بنا کر) بھیجا تو فرمایا کہ تم انہیں اس کلمہ کی گواہی کی دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ لوگ یہ بات مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ لوگ یہ بات بھی مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر کچھ صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالدار لوگوں سے لے کر انہیں کے محتاجوں میں لوٹا دیا جائے گازکوۃ کی ادائیگی اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز فرض ہے اور جولوگ اپنے مالوں کاحق اداکرتے ہیں ان کے لئے جنت کاراستہ آسان ہوجاتاہے۔
عن ابی ایوب رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،” أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ، قَالَ: مَا لَهُ، مَا لَهُ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَبٌ مَا لَهُ تَعْبُدُ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ”(صحیح بخاری۔کتاب الزکوۃ،باب وجوب الزکوۃ۔حدیث نمبر۔١٣٩٦ )
حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ آخر یہ کیا چاہتا ہے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو بہت اہم ضرورت ہے۔ (سنو) اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کوئی شریک نہ ٹھہراو۔ نماز قائم کرو۔ زکوٰۃ دو اور صلہ رحمی کرو۔
نبی کریم ﷺ اپنے اصحاب سے نماز اور زکوۃ کی ادائیگی پر بیعت لیاکرتے تھے۔
عن جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ ” بَايَعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ”.(صحیح بخاری۔کتاب الزکوۃ،باب البیعۃ علی ایتاء الزکوۃ۔حدیث نمبر١٤٠١ )
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے‘ زکوٰۃ دینے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی تھی۔
مالداروں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف ڈھائی فیصد مال زکوۃ میں اداکرنا فرض ہے جولوگ یہ زکوۃ اداکردیتے ہیں ان کامال ان کے لئے حلال ہوجاتاہے۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ،أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” إِذَا أَدَّيْتَ زَكَاةَ مَالِكَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ۔(سنن ترمذی۔کتاب الزکوۃ عن رسول اللہ ﷺ،باب ماجاء اذاادیت الزکوۃ فقد قضیت ماعلیک۔حدیث نمبر٦١٨ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تم نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی تو جو تمہارے ذمہ فریضہ تھا اسے تم نے ادا کر دیا۔
مانعین زکوۃ کے لئے وعید
زکوۃ کی فرضیت اور اس کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایاجا سکتاہے کہ جولوگ زکوۃ کی ادائیگی سے انکار کردیں ان سے جہاد کرنا جائز ہوجاتاہے۔
عن ابی ہریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:” لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ ابوبکر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنْ الْعَرَبِ، فَقَالَ عمر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ؟ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَهَا فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ , وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ , وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ.۔ ۔(صحیح بخاری۔کتاب الزکوۃ،باب وجوب الزکوۃ۔ حدیث نمبر١٣٩٩ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو عرب کے کچھ قبائل کافر ہو گئے (اور کچھ نے زکوٰۃ سے انکار کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑنا چاہا) تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی موجودگی میں کیونکر جنگ کر سکتے ہیں ”مجھے حکم ہے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ ”لاالہ الا اللہ“کی شہادت نہ دیدیں اور جو شخص اس کی شہادت دیدے تو میری طرف سے اس کا مال و جان محفوظ ہو جائے گا۔ سوا اسی کے حق کے (یعنی قصاص وغیرہ کی صورتوں کے) اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہو گا۔
فَقَالَ: وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ , وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ , وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا، قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ قَدْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , فَعَرَفْتُ، أَنَّهُ الْحَقُّ”.(صحیح بخاری۔کتاب الزکوۃ،باب وجوب الزکوۃ۔ حدیث نمبر١٤٠٠ )
اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ قسم اللہ کی میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو زکوٰۃاور نماز میں تفریق کرے گا۔ کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر انہوں نے زکوٰۃ میں چار مہینے کی (بکری کے) بچے کو دینے سے بھی انکار کیا جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے لڑوں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ واللہ یہ بات اس کا نتیجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا تھا اور بعد میں، میں بھی اس نتیجہ پر پہنچا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی حق پر تھے
جولوگ اپنے مالوں کا زکوۃ ادا نہیں کرتے ان کے وہ اموال قیامت کے دن مختلف شکلوں میں عذاب بن کر آئیں گے اور اللہ تعالیٰ انہی اموال کے ذریعہ انہیں عذاب میں مبتلا کریں گے۔
عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” مَا مِنْ أَحَدٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاةَ مَالِهِ، إِلَّا مُثِّلَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ حَتَّى يُطَوِّقَ عُنُقَهُ”، ثُمَّ قَرَأَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِصْدَاقَهُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى وَلا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ سورة آل عمران آية 180″ الْآيَةَ. (ابن ماجہ۔ کتاب الزکوۃ،باب منع الزکوۃ۔حدیث نمبر ١٧٨٤ )
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو کوئی اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیں کرتا اس کا مال قیامت کے دن ایک گنجا سانپ بن کر آئے گا، اور اس کے گلے کا طوق بن جائے گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ثبوت کے لیے قرآن کی یہ آیت پڑھی: وَلَایَحسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا آتَاھُمُ اللٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ (آل عمران۔180)یعنی اور جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مال دیا ہے، اور وہ اس میں بخیلی کرتے ہیں، (فرض زکوٰۃ ادا نہیں کرتے) تو اس بخیلی کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں بلکہ بری ہے، ان کے لیے جس (مال) میں انہوں نے بخیلی کی ہے، وہی قیامت کے دن ان (کے گلے) کا طوق ہوا چاہتا ہے اور آسمانوں اور زمین کا وارث (آخر) اللہ تعالیٰ ہی ہو گا، اور جو تم کرتے ہو (سخاوت یا بخیلی) اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے۔ (سورہ آل عمران:١٨٠ )۔
جولوگ جانوروں کو پالتے ہیں اور نصاب کی حد تک پہنچنے کے بعد ان کی زکوۃادانہیں کرتے قیامت کے دن وہ جانور زندہ ہوکر اور اس سے بھی موٹے تازے ہوکر آئیں گے اور اس مالک پر سوار ہوجائیں گے اور اپنے کھروں سے انہیں روندیں گے سینگوں سے ماریں گے اور ایسے لوگ نبی کریم ﷺ کی سفارش سے بھی محروم کردیئے جائیں گے۔
عن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” تَأْتِي الْإِبِلُ عَلَى صَاحِبِهَا عَلَى خَيْرِ مَا كَانَتْ، إِذَا هُوَ لَمْ يُعْطِ فِيهَا حَقَّهَا تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَأْتِي الْغَنَمُ عَلَى صَاحِبِهَا عَلَى خَيْرِ مَا كَانَتْ، إِذَا لَمْ يُعْطِ فِيهَا حَقَّهَا تَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا، وَقَالَ: وَمِنْ حَقِّهَا أَنْ تُحْلَبَ عَلَى الْمَاءِ، قَالَ: وَلَا يَأْتِي أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِشَاةٍ يَحْمِلُهَا عَلَى رَقَبَتِهِ لَهَا يُعَارٌ، فَيَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ بَلَّغْتُ وَلَا يَأْتِي بِبَعِيرٍ يَحْمِلُهُ عَلَى رَقَبَتِهِ لَهُ رُغَاءٌ، فَيَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا قَدْ بَلَّغْتُ”.(صحیح بخاری کتاب الزکوٰۃ۔باب اثم مانع الزکوٰۃ۔حدیث نمبر ١٤٠٢ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹ (قیامت کے دن) اپنے مالکوں کے پاس جنہوں نے ان کا حق (زکوٰۃ) نہ ادا کیا کہ اس سے زیادہ موٹے تازے ہو کر آئیں گے (جیسے دنیا میں تھے) اور انہیں اپنے کھروں سے روندیں گے۔ بکریاں بھی اپنے ان مالکوں کے پاس جنہوں نے ان کے حق نہیں دئیے تھے پہلے سے زیادہ موٹی تازی ہو کر آئیں گی اور انہیں اپنے کھروں سے روندیں گی اور اپنے سینگوں سے ماریں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا حق یہ بھی ہے کہ اسے پانی ہی پر (یعنی جہاں وہ چراگاہ میں چر رہی ہوں) دوہا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص قیامت کے دن اس طرح نہ آئے کہ وہ اپنی گردن پر ایک ایسی بکری اٹھائے ہوئے ہو جو چلّا رہی ہو اور وہ (شخص) مجھ سے کہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! مجھے عذاب سے بچائیے میں اسے یہ جواب دوں گا کہ تیرے لیے میں کچھ نہیں کر سکتا (میرا کام پہنچانا تھا) سو میں نے پہنچا دیا۔ اسی طرح کوئی شخص اپنی گردن پر اونٹ لیے ہوئے قیامت کے دن نہ آئے کہ اونٹ چلّا رہا ہو اور وہ خود مجھ سے فریاد کرے‘ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! مجھے بچائیے اور میں یہ جواب دے دوں کہ تیرے لیے میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میں نے تجھ کو (اللہ کا حکم) پہنچا دیا تھا۔
ان آیات و احادیث کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ زکوٰۃ اسلام کا بنیادی ستون ہے جس کے قیام کے بغیر اسلام کی عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔جو لوگ صاحب نصاب ہیں اور اپنے مالوں کازکوٰۃ بر وقت نکالتے رہتے ہیں ان کے لئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے یہاں اجر عظیم کاوعدہ ہے اور باقی مال ان کے لئے حلال اور باعث برکت ہے۔لیکن جو لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی میں سستی کرتے ہیں ان کے لئے بڑا ہی بر ا ٹھکانہ اور دردناک عذاب ہے۔ اس لئے ایمان والوں کو زکوۃ کی ادائیگی میں سستی نہیں کرنی چاہئے بلکہ نہایت مستعدی سے اپنے مالوں کا باضابطہ حساب کرکے زکوۃ دینے کی فکر کرنی چاہئے۔