طہارت
تحریر مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدہ ووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے۔
گندگی و نجاست سے پاکی حاصل کرنے کوشرعی اصطلاح میں طہارت کہتے ہیں۔ نجاست خواہ حقیقی ہو، جیسے پیشاب اور پاخانہ، یا معنوی ہو، جیسے دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا۔ہر دو قسم کی نجاست سے پاک رہنے کی تاکید اسلام نے کی ہے۔ طہارت اورپاکیزگی کو نبی کریم ﷺ نے ایمان کا نصف حصہ قرار دیا ہے اللہ تعالیٰ طہارت کو پسند کرتے ہیں اور جو لوگ طہارت کوپسند کرنے والے ہیں انہیں اللہ بھی محبوب رکھتا ہے قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا واللّٰہُ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَکہ اللہ غایت درجہ طہارت حاصل کرنے والوں سے محبت کرتاہے۔ چند مخصوص عبادات کے لئے طہارت شرط ہے،مالی عبادات جیسے صدقہ زکوۃ خیرات وغیرہ توبغیر طہارت کے اداہوسکتی ہیں، لیکن بدنی عبادات مثلا نماز،روزہ،حج، قرآن کی تلاوت وغیرہ یہ ایسی عبادات ہیں جو بغیر طہارت کے ادا ہونا تو کجا نجس حالت میں ان عبادات کے قریب بھی جانے سے منع کیا گیاہے اور اگر کسی نے ایسی جرأت کی کہ حا لتِ نجاست میں ان عبادات کو جانتے بوجھتے ادا کیا تو اسے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے۔قرآن مجید کے لئے تو اللہ تعالی ٰنے فرمایاہے لاَیَمَسُّہ اِلّاا لْمُطَّہَّرُوْنَ کہ اس قرآن پاک کو پاک لوگ ہی چھوسکتے ہیں اورنماز سے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ بغیر طہارت کے نماز قبول نہیں کرتے، نبی کریم ﷺ نے کہیں طہارت کونصف الایمان ا ور کہیں شطر الایمان بتلایاہے اس لئے ایک مؤمن کوہر وقت پاک صاف رہناچاہئے اورناپاکی سے مکمل اجتناب برتنا چاہئے اللہ کے فرشتے بھی پاکی کوپسند کرتے اورناپاکی سے سخت نفرت کرتے ہیں یہاں تک کہ ملائکہئ رحمت ناپاک لوگوں کے قریب نہیں جاتے ۔
طہارت کی اہمیت
طہارت اورپاکی کی اہمیت کاانداز ہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کو نبوت سے سرفراز کیاگیاتو آپ کو کوکارِرسالت پرکاربند ہونے اور فریضہئ تبلیغ کی انجام دہی پرمتوجہ کرنے کے لئے جو ابتدائی آیات نازل ہوئیں ان میں پاکی کاحکم بھی دیاگیا ہے یَااَیُّھَاالْمدَّثِّرْ قُمْ فَاَنْذِرْ ورَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ کہ اے کپڑے میں لپٹنے والے اٹھئے اور لوگوں کو ڈرائیے اوراپنے رب کی بڑائی بیان کیجئے اوراپنے کپڑوں کوپاک رکھئے۔ قرآن کریم میں جو فقہی آیات نازل کی گئی ہیں ان میں یہ پہلی آیت ہے گویا اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبی کودعوت وتبلیغ کے لئے مستعدو آمادہ کرنے کے بعد جوپہلا حکم دیاوہ پاکی اورصفائی کاہے اس پاکی سے ظاہری پاکی بھی مراد ہے اورباطنی بھی یعنی کپڑوں کونجاست ظاہری سے بچانے کے ساتھ ساتھ اپنے دامن کو ہرخطا ومعصیت سے بھی پاک وصاف رکھنا ہر مومن کے لئے ضروری ہے۔
باطنی پاکی کا مطلب یہ ہے کہ اپنے قلب وروح کو باطل عقیدہ کفرو شرک،کبر و ریا،بغض، حسد، کینہ اور اس طرح کے دوسرے اعمال وخیالات جوانسان کے ایمان کو تباہ وبرباد کردینے والے ہیں ان سے بچنا اور اگرکبھی گرفتار معصیت ہوگئے توفوراً توبہ و استغفار کرنایہ مومن کی خاصیت اوراس کے ایمان کی پہچان ہے۔
ظاہری ناپاکی سے مراد اپنے بدن کو،کپڑوں کو،اٹھنے بیٹھنے کی جگہوں کونجاست سے پاک رکھنا ہے اور اگر کبھی نجاست پڑجائے تو اسے فوراً صاف کرلیناچاہئے۔
واضح رہے کہ شریعت اسلام نے جس چیز کوپاک کہہ دیاہے وہ پاک ہے اورجس چیز کوناپاک کہہ دیاہے وہ ناپاک ہے ا س میں اپنی طرف سے کوئی کمی یابیشی روا نہیں ہوگی اسی طرح ناپاک چیز وں کو پاک کرنے کاجوطریقہ اسلام نے متعین کردیا ہے وہی ان کی پاکی کاطریقہ ہے اوراگرکسی چیز کو ہم نے شرعی ہدایات کے مطابق پاک کرلیا تووہ پاک ہے انسان کویہ نہیں سوچنا چاہئے کہ دل نہیں مانتا یاطبیعت نہیں چاہتی جیسے اگرکسی کو پانی میسر نہیں ہے تو اس کے لئے طہارت کاطریقہ اسلام نے تیمم بتایاہے۔ہم نے تیمم کرلیا تودل میں کسی طرح کاوسوسہ یاشبہہ نہیں ہوناچاہئے اوراگردل نہیں مانتا تو یہ دل کامرض ہے یہ اس کی کجی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے پرتشفی نہیں ہوتی آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جب ہم دیگر اقوام وملل کی صفائی ستھرائی اور ان کی گلیوں میں رونق اور چکاچوند دیکھتے ہیں تو رشک آتاہے لیکن حقیقت ہے کہ اسلام نے طہارت وپاکیزگی پرجتنا زور دیاہے اتنا کسی بھی مذہب میں نہیں دیاگیا ہے اسلام نے طہارت وپاکیزگی اور صفائی ستھرائی کے اصول واحکام تفصیل سے بیان کئے ہیں۔ اسلام نے جسم کے ساتھ ساتھ کپڑوں، مکانوں،دیواروں سڑکوں اورگلیوں کوصاف ستھرا رکھنے کابھی حکم دیاہے اوراللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے اپنی محبوبیت کااعلان کیاہے جوپاک صاف رہناپسند کرتے ہیں۔ نبی کریم ؐ نے ایسے لوگوں کے لئے لعنت فرمائی ہے جوعام مقامات پر، عام راستوں پر یادرختوں کے نیچے گندگی پھیلاتے ہیں۔
طہارت کے اقسام اور اس کا طریقہ
شریعت میں طہارت دو طرح کی ہے۔ ایک طہارت حدث سے ہوتی ہے جس میں ظاہری طور پر کوئی نجاست نظر نہیں آتی لیکن شریعت میں اس کو نجاست کہاگیا ہے۔جیسے ریاح خارج ہونا۔ ایسی نجاست کو نجاست حکمی کہتے ہیں اور اس سے طہارت حاصل کرنے کو طہارت حکمی کہتے ہیں۔
دوسری طہارت ظاہری نجاستوں سے ہوتی ہے جس میں نجاست ہمارے بدن یا کپڑوں پر نظر آتی ہے۔ جیسے پاخانہ پیشاب وغیرہ کا لگ جانا۔ اس طرح کی نجاست کو نجاست حقیقی کہتے ہیں اور اس سے طہارت حاصل کرنے کو طہارت حقیقی کہتے ہیں۔
شریعت اسلام میں پاکی حاصل کرنے کے تین طریقے بتائے گئے ہیں اور سب کے احکام الگ الگ بیان کئے گئے ہیں۔وضو ء، غسل اور تیمم۔
حدث اصغر سے پاکی وضو کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے، اورحدث اکبر سے پاکی غسل کے ذریعہ حاصل کی جاتی ہے، اور اگر پانی میسر نہ ہو یا پانی کے استعمال پر ضرر شدید کا احتمال ہوتو وضو اور غسل دونوں کے بدلے تیمم کیا جاتا ہے۔
پاکی حاصل کرنے کے تینوں ذرائع وضو، غسل اور تیمم کاطریقہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کردیاہے۔رشادباری ہے :
یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَ اَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُ ْسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ وَ اِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْاوَ اِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآءِطِ اَوْلٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن۔ (المائدہ۔ ۶)
ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تو منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں (دھو لیا کرو) اور اگرحالت جنابت میں ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء میں سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہمبستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اُس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح (یعنی تیمم) کر لو اللہ تعالیٰ تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر کرو۔
اس آیت کریمہ میں پاکی حاصل کرنے کے تینوں طریقو ں کوبیان کردیاگیاہے۔اس کے علاوہ نبی کریم ؐ کی سنت سے ان میں کچھ اضافے ہیں جو وضو میں نورانیت اور کمال پیداکرتے ہیں۔
وضو کی فضیلت
وضو طہارت ونظافت کاایک طریقہ اور نماز کے لئے شرط ہے۔ بغیر وضو کے نماز نہیں ہوسکتی۔ اس لئے جہاں پر نبی کریم ؐ نے وضوء کی اہمیت ضرورت اورافادیت کوبیان کیاہے اس کے ساتھ ہی وضو کی فضیلت بھی بیان فرمائی ہے ایک حدیث میں آپ کاارشاد ہے مِفْتَاحُ الصَّلٰوۃِ اَلطُّھُوْرُ یعنی نماز کی کنجی وضوہے(ترمذی) وضو طہارت ونظافت کا آلہ اورنماز، قرآن کی تلاوت، طواف و دیگر عبادات کے لئے ضروری ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مستقل عبادت بھی ہے۔ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مومن بندے کے گناہوں کو مٹادیتے ہیں اور اس کے درجات کو بلند فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بندہ مسلمان یا مؤمن وضو کرتا ہے اور منہ دھوتا ہے تو اس کے منہ سے وہ سب گناہ نکل جاتے ہیں جو اس نے آنکھوں سے کئے پانی کے ساتھ یا آخری قطرہ کے ساتھ پھر جب ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں میں سے ہر ایک گناہ جو ہاتھ سے کیا تھا، پانی کے ساتھ یا آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتا ہے پھر جب پاؤں دھوتا ہے تو ہر ایک گناہ جس کو اس نے پاؤں سے چل کر کیا تھا۔ پانی کے ساتھ یا آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتا ہے یہاں تک کہ سب گناہوں سے پاک صاف ہو کر نکلتا ہے۔“(صحیح مسلم۔ کتاب الطہارۃ۔ باب خروج الخطایا مع ماء الوضو)
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے غلام حمران بن ابان کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا تو پہلے اپنے دونوں ہاتھوں پر تین بار پانی ڈالا ان کو دھویا، پھر کلی کی، اور ناک جھاڑی، پھر اپنا چہرہ تین بار دھویا، اور اپنا دایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا، اور پھر اسی طرح بایاں ہاتھ، پھر سر پر مسح کیا، پھر اپنا داہنا پاؤں تین بار دھویا، پھر بایاں پاؤں اسی طرح، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے میرے اسی وضو کی طرح وضو کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص میرے اس وضو کی طرح وضو کرے پھر دو رکعت نماز پڑھے اس میں دنیا کا خیال و وسوسہ اسے نہ آئے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کے پچھلے گناہ کو معاف فرما دے گا“۔(سنن ابوداؤد۔ کتاب الطہارۃ، باب صفۃ وضو ء النبی ﷺ)
قربان جائیے اللہ کے فضل وکرم پرکہ آدمی ایک کام کرتاہے اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس کے کتنے کام نکال دیتے ہیں آدمی وضو توکیانماز پڑھنے کے لئے لیکن منافع میں اللہ تعالیٰ نے اس کوگناہوں سے پاک کردیا۔
قیامت کی بھیڑ میں جہاں تمام اولین و آخرین جمع ہوں گے۔ ہر شخص نفسی نفسی کے عالم میں ہوگا ایسے وقت میں نبی کریم ﷺ کی سفارش کی امید ہر امتی کو ہوگی اور یقینا آپ ؐ اپنی امتیوں کی سفارش کریں گے۔ اس وقت اعضاء وضو کی چمک امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کی پہچان ہوگی جسے دیکھ کر رسول اللہ ﷺ اپنی امتیوں کو پہچان لیں گے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور ان کے حق میں سفارش فرمائیں گے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ میری امت کے لوگ وضو کے نشانات کی وجہ سے قیامت کے دن سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والوں کی شکل میں بلائے جائیں گے۔ تو تم میں سے جو کوئی اپنی چمک بڑھانا چاہتا ہے تو وہ بڑھا لے۔
(صحیح بخاری۔ کتاب الوضو، باب فضل الوضو والغر المحجلون من آثار الوضو)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا حوض اتنا بڑا ہے کہ جیسے عدن سے ایلہ یا اس سے بھی زیادہ۔اس کا پانی برف سے زیادہ سفید، شہد اور دودھ سے زیادہ میٹھا ہے اور اس پر جو برتن رکھے ہوئے ہیں، وہ شمار میں تاروں سے زیادہ ہیں اور میں لوگوں کو روکوں گا اس حوض سے جیسے کوئی دوسرے کے اونٹوں کو اپنے حوض سے روکتا ہے۔“ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ ہم کو پہچان لیں گے اس دن؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔ تمہارا نشان ایسا ہو گا جو سوائے تمہارے کسی امت کے لئے نہ ہو گا۔ تم میرے پاس وضو کی وجہ سے سفید ہاتھ پاؤ ں لے کر آؤ گے۔
(صحیح مسلم۔ کتاب الطھارۃ،باب استحباب اطالۃ الغرۃ والتحجیل فی الوضو)
امت محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلوۃ والسلام کی امتیازی شان ہے کہ قیامت کی بھیڑ میں جہاں ساری خلقت جمع ہوگی آپؐ کے امتیوں کے ہاتھ پاؤں وضو کے انوار وبرکات سے چمکتے ہوئے روشن ہوں گے جنہیں دیکھ کر آپؐ اپنی امت کوپہچان لیں گے اوران کی سفارش فرمائیں گے۔
مسواک کی اہمیت وافادیت
جس طرح نبی کریم ﷺ نے ظاہری بدن کی صفائی ستھرائی کاحکم دیا اور اس کا طریقہ بتایا ہے اسی طرح جسم کے باطنی حصہ منھ اوردانتوں کی صفائی کابھی حکم دیا ہے ہر وضو سے پہلے مسواک کرنے کوسنت قراردیا تاکہ اس کے ذریعہ دانتوں کی صفائی ہوجائے جس سے منھ کی بدبو بھی زائل ہوجاتی ہے اور بہت ساری بیماریوں سے حفاظت بھی ہوتی ہے۔نبی کریمؐ جب بھی وضوفرماتے تو مسواک ضرور فرماتے تھے اور اگرکبھی مسواک دستیاب نہیں ہوتاتو آپؐ اپنی انگلیوں کومسواک کی جگہ استعمال فرمایاکرتے تھے۔ آپؐ ہمیشہ مسواک کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔ چند احادیث مسواک کے سلسلے کی درج کی جاتی ہیں جن سے مسواک کی اہمیت وافادیت کااندازہ ہوسکتاہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں مومنوں پر دشوار نہ سمجھتا تو ان کو نماز عشاء کو دیر سے پڑھنے اور ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا“۔(سنن ابو داؤد۔ کتاب الطہارۃ، باب السواک)
حضرت عبداللہ بن حنظلہ بن ابی عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر نماز کے لیے وضو کرنے کا حکم دیا گیا، خواہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو سے ہوں یا بے وضو، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ حکم دشوار ہوا، تو آپ کو ہر نماز کے لیے مسواک کا حکم دیا گیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا خیال تھا کہ ان کے پاس قوت ہے، اس لیے وہ کسی بھی نماز کے لیے اسے چھوڑتے نہیں تھے۔(سنن ابو داؤد۔ کتاب الطہارۃ، باب السواک)
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر آتے تو پہلے مسواک کرتے۔(صحیح مسلم۔ کتاب الطہارۃ۔ باب السواک)
حضرت خذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی رات کو قیام کرتے تو منہ مسواک کے ساتھ صاف کرتے۔(صحیح مسلم۔ کتاب الطہارۃ۔ باب السواک)
مسواک کومنھ صاف رکھنے اوررضاء الہی کاذریعہ بتایاگیاہے اس لئے ایک مومن کوچاہئے کہ وہ ہر وقت مسواک کرتارہے خاص کر سوکر اٹھنے کے بعد اورسونے سے پہلے نیز وضو کے پہلے تومسواک کرنا مستقل سنت ہے اوراس ایک سنت پرعمل کرنے کی وجہ سے نماز کا ثواب ستر گنابڑھ جاتاہے۔
دس چیزیں دین فطرت ہیں
صفائی ستھرائی پرتوجہ فرماتے ہوئے نبی کریم ؐ نے اپنی امت کو مناسب وقت پرناخن کاٹنے، مونچھوں کو کترنے، بغل اورزیرناف کے بالوں کوصاف کرنے کاحکم دیاہے تاکہ گندگی نہ پھیلے اورانسان صاف ستھراوصحتمند رہے۔ اسی صفائی و پاکیزگی کاایک طریقہ ختنہ بھی ہے جس کی وجہ سے پیشاب کے قطرات سے آدمی محفوظ رہتاہے اور گندگی سے بچتاہے۔انسانی فطرت کی دس مستحسن چیزیں نبی کریم ﷺ نے بتائی ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس چیزیں دین فطرت ہیں: (۱)مونچھیں کاٹنا(۲) داڑھی بڑھانا(۳) مسواک کرنا(۴) ناک میں پانی ڈالنا (۵) ناخن کاٹنا(۶) انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا(۷) بغل کے بال اکھیڑنا(۸) ناف کے نیچے کے بال مونڈنا(۹) پانی سے استنجاء کرنا“۔ زکریا کہتے ہیں: مصعب نے کہا: میں دسویں چیز بھول گیا، شاید کلی کرنا ہو۔(سنن ابو داؤد۔ کتاب الطہارۃ، باب السواک من الفطرۃ)
مندرجہ بالا تما م چیزیں طہارت ونظافت سے متعلق ہیں اور ایک پاک طینت شخص ان چیزوں میں کبھی بھی لاپرواہی سے کام نہیں لیتا۔ایمان والوں کو ان چیزوں کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔غسل بھی پاکی حاصل کرنے کا فطری طریقہ ہے اسلام نے اس کے بھی اصول وقواعد بیان فرمائے ہیں اورغسل کے ذریعہ پاکی حاصل کرنے کاطریقہ بیان کیاہے۔ جنابت کی حالت جیسے ہی پیداہواسی وقت غسل کرکے پاک وصاف ہوجانا چاہئے تاکہ رحمت کے فرشتے انسان سے دور نہ رہیں نیز بہت سارے ایسے کام ہیں جوحالت جنابت میں نہیں کئے جاسکتے۔ جیسے نماز، تلاوت قرآن، طواف وغیرہ۔ تو ایمان کا تقاضاہے کہ ایک مومن ہر وقت پاک رہے تاکہ ہروقت اس کی زبان پراللہ کاذکرجاری رہے اورملائکہئ رحمت اس کو گھیرے رہیں۔اس لئے کہ پاک صاف رہنے والے کے لئے فرشتے بھی دعاء مغفرت کرتے ہیں۔لہذا ایمان والوں کو چاہئے کہ اپنے آپ کو ہر طرح کی نجاست سے دوررکھ کر پاک صاف رہنے کی کوشش کریں۔