1. علم کی ترویج اشاعت

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

جس طرح علم دین کو سیکھنا اور اس کی طلب میں مجاہدے کرنا  محبوب عمل اور ایمان کا حصہ ہے اسی طرح اس کی نشر و اشاعت اور ترویج کے لئے کوشاں رہنا محبوب و مطلوب ہے اور شریعت حقہ کی حفاظت کا ایک ذریعہ بھی۔اس لئے اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ جتناعلم ان کے پاس ہے اس سے دوسروں کو روشناس کرائیں اورامت کی رہنمائی کا ذریعہ بنیں۔ سورۂ توبہ کی آیت (122)میں اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت کی ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت ہمیشہ نبی کریم ﷺ کے آس پاس رہ کر علم دین حاصل کرے اور جولوگ اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے باہر چلے گئے ہو ں جب وہ واپس آئیں تو انہیں وہ سب چیزیں سکھادیں جو ان کے زمانۂ غیبوبت میں انہوں نے سیکھاہے۔ نبی کریم ﷺ نے جہاں علم کی فضیلتیں اور اس کے طلب کرنے والوں کے لئے بڑی بڑی خوشخبریاں سنائی ہیں اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایاہے کہ اس علم کودوسروں تک پہونچاؤ  آپ ؐ نے فرمایا نَضَّرَاللّٰہُ اِمْرِاً سَمِعَ مَنَّا حَدِیْثًا فَحَفِظَہٗ، حَتّٰی  یُبَلِّغُہٗ غَیْرَہٗ،فَرُبَّ  حَامِلُ فِقْہٍ  اِلیٰ مَنْ ھُوَاَفْقَہُ مِنْہُ  وَرُبَّ حَامِلُ فِقْہٍ لَیْسَ بِفَقِیْہٍ اللہ تعالی ٰاس شخص کو تروتازہ رکھیں جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی اوراس کویادکیا،یہاں تک کہ ا س کو اپنے علاوہ کسی اورتک پہنچایا،کیونکہ بعض مسائل کی باتیں یادکرنے والے اس کو اس شخص تک پہنچادیتے ہیں جواس سے بڑ افقیہ ہوتاہے اوربعض مسائل کی بات یادکرنے والے فقیہ نہیں ہوتے۔

اس حدیث میں طالب علموں کے لئے زبان نبوی سے دعائیہ کلمات جاری ہوئے ہیں جو یقیناً قبول بھی ہوئی ہے اور اس حدیث میں ترغیب ہے ان لوگوں کے لئے جو حدیثیں یاد کرکے اپنے آگے دوسرے لوگوں تک پہونچاتے ہیں اس میں ملت کافائدہ ہے وہ اس طرح کہ بسااوقات ایساہوتاہے کہ حدیث کویاد کرنے والا اس درجہ کافقیہ نہیں ہوتاجس درجہ کا فقیہ وہ ہوتاہے جس کویہ حدیث پہنچاتاہے اور پہلے یاد کرنے والااس درجہ کی صلاحیت نہیں رکھتاہے کہ اس سے مسائل دینیہ کااستنباط کرسکے بہ نسبت اس کے کہ جس کواس نے حدیث پہونچائی ہے وہ اس صلاحیت کامالک ہوتاہے کہ وہ اس حدیث سے مسائل کااستنباط کرکے ملت کے لئے آسانیاں پیداکرسکے۔

اہل علم کی ذمہ داریاں

علم کوحاصل کرنے اور علماء کی فضیلتیں جس قدر احادیث میں واردہوئی ہیں اسی قدر ان کی ذمہ داریاں بھی ہیں۔جہاں علم سیکھنے کی ترغیب دی گئی ہے وہیں علم سکھانے اوراس پر عمل کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے اورجوشخص اس کے خلاف عمل کرتاہے اس کے لئے سخت وعیدیں بھی ہیں۔ایک روایت ہے :

عن ابی موسی رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ مِنَ الْهُدَى وَالْعِلْمِ، كَمَثَلِ الْغَيْثِ الْكَثِيرِ أَصَابَ أَرْضًا فَكَانَ مِنْهَا نَقِيَّةٌ قَبِلَتِ الْمَاءَ، فَأَنْبَتَتِ الْكَلَأَ وَالْعُشْبَ الْكَثِيرَ، وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَكَتِ الْمَاءَ، فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاسَ فَشَرِبُوا وَسَقَوْا وَزَرَعُوا، وَأَصَابَتْ مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لَا تُمْسِكُ مَاءً وَلَا تُنْبِتُ كَلَأً، فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللَّهِ وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ”،(صحیح بخاری۔ کتاب العلم،باب فضل من علم وعلّم۔حدیث نمبر٧٩ )

حضرت ابوموسیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے جو زمین پر برسے۔ بعض زمین جو صاف ہوتی ہے وہ پانی کو پی لیتی ہے اور بہت بہت سبزہ اور گھاس اگاتی ہے اور بعض زمین جو سخت ہوتی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں اور کچھ زمین کے بعض خطوں پر پانی پڑتا ہے جو بالکل چٹیل میدان ہوتے ہیں۔ نہ پانی روکتے ہیں اور نہ ہی سبزہ اگاتے ہیں۔ تو یہ اس شخص کی مثال ہے جو دین میں سمجھ پیدا کرے اور نفع دے اس کو وہ چیز جس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس نے علم دین سیکھا اور سکھایا اور اس شخص کی مثال جس نے سر نہیں اٹھایا اور جو ہدایت دے کر میں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا۔

جس طرح علم دین کوسیکھنے کے فضائل ہیں اسی طرح کتمان علم کے گناہ بھی ہیں اگرکوئی شخص اہل علم سے کسی ایسے امرمیں رہنمائی چاہتاہے جوانہیں معلوم ہے تو اس کی رہنمائی ضرور کرنی چاہئے یہاں پرکتمان علم حرام ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کاارشاد ہے:

وَاِذْاَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْ الْکِتَابَ  لَتُبَیِّنَنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلَاتَکْتُمُوْنَہٗ فَنَبَذُوْہُ وَرَاءَ ظُہُوْرِھِمْ(آل عمران١٨٧ )

 ترجمہ:                       اور جب اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ لیاجن کوکتاب دی گئی تھی کہ تم لوگوں کے لئے اسے ضرور بیان کرنا اوراس کوچھپانانہیں مگر انہوں نے اسے اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیا۔

 اس آیت کریمہ میں حاملین کتاب کے لئے واضح حکم ہے کہ اس کوچھپائیں نہیں بلکہ لوگوں کے سامنے وضاحت کے ساتھ بیان کردیں اورجن لوگوں نے اس کو بیان نہیں کیابلکہ اس کوچھپاکر رکھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عمل کو اچھاعمل قرار نہیں دیابلکہ تہدید فرمائی ہے کہ ان کایہ عمل نہایت ہی براعمل ہے۔ اس لئے کہ وہ لوگ جوکتاب کاعلم نہیں رکھتے ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیاہے  فَاسْئَلُوْ اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ  یعنی اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے پوچھ لیاکرو۔ ظاہرہے کہ اگر جاننے والے لوگ نہ جاننے والوں کوکچھ بتائیں گے نہیں تو اس آیت کا محمل کیاہوگا اس لئے علماء کرام کی یہ بڑی ذمہ داری ہے کہ نہ جاننے والے لوگوں تک علم کی روشنی پہنچانے کی ہرممکن کوشش کریں۔

ہر آدمی کے اندر اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ حق اور ناحق کی تمیز کرسکے اس لئے اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن وحدیث کی تعلیمات کو من و عن دوسرے لوگوں تک پہونچادیں اس میں اپنی طرف سے کوئی کمی زیادتی نہ کریں اور اگر تشریح کی ضرورت ہو تو سنت و سیرت اور صحا بۂ کرام و مجتہدین ملت کی مسلمہ تشریحات کے مطابق مسئلے کی وضاحت بقدر ضرورت کردیں۔نبی کریم ﷺ کی احادیث کو بلا کم وکاست اپنے اگلوں تک پہنچادینے والے اللہ کے یہاں جنت کے مستحق ہیں۔

عن انس قال نهينا في القرآن ان نسال النبي صلي الله عليه وسلم وکان يعجبنا ان يجئ الرجل من اهل البادية فساله ونحن نسمع فجائ رجل من اهل البادية فساله فقال اتانا رسولک فاخبر نا انک تزعم ان الله عزوجل ارسلک قال صدق فقال فمن خلق السماء قال الله عزوجل قال فمن خلق الارض والجبال قال الله عزوجل قال فمن جعل فيها المنافع قال الله عزوجل قال فقاالذي خلق السمائ وخلق الارض و نصب الجبال وجعل فيها المنافع الله ارسلک قال نعم قال زعم رسو لک ان علينا خمس صلوات وزکوة في اموالنا قال صدق قال بالذي ارسلک الله امرک بهذا قال نعم قال وزعم رسولک ان علينا حج البيت من استطاع اليه سبيلا قال صدق قال بالذي ارسلک الله امرک بهذا قال نعم قال فوالذي بعثک بالحق لا ازيد عليهن شيئا ولاانقص فقال النبي صلي الله عليه وسلم ان صدق ليد خلن الجنة (صحیح بخاری۔ کتاب العلم،باب ماجاء فی العلم۔ حدیث نمبر٦٤ )

حضرت انس ؓ نے فرمایا کہ ہم کو قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے سے منع کر دیا گیا تھا اور ہم کو اسی لیے یہ بات پسند تھی کہ کوئی ہوشیار دیہاتی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دینی امور پوچھے اور ہم سنیں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا کہ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!) ہمارے یہاں آپ کا مبلغ گیا تھا۔ جس نے ہم کو خبر دی کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، ایسا آپ کا خیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ آسمان کس نے پیدا کئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ زمین کس نے پیدا کی ہے اور پہاڑ کس نے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ ان میں نفع دینے والی چیزیں کس نے پیدا کی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے کہا کہ پس اس ذات کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں جس نے زمین و آسمان اور پہاڑوں کو پیدا کیا اور اس میں منافع پیدا کئے کہ کیا اللہ عزوجل نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہاں بالکل سچ ہے۔  پھر اس نے کہا کہ آپ کے مبلغ نے بتلایا ہے کہ ہم پر پانچ وقت کی نمازیں اور مال سے زکوٰۃ ادا کرنا اسلامی فرائض ہیں، کیا یہ درست ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے کہا آپ کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنایا ہے کیا اللہ پاک ہی نے آپ کو ان چیزوں کا حکم فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں بالکل درست ہے۔ پھر وہ بولا آپ کے قاصد کا خیال ہے کہ ہم میں سے جو طاقت رکھتا ہو اس پر بیت اللہ کا حج فرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ سچا ہے۔ پھر وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا کہ کیا اللہ ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم فرمایا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں۔ پھر وہ کہنے لگا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں ان باتوں پر کچھ زیادہ کروں گا نہ کم کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اس نے اپنی بات کو سچ کر دکھایا تو وہ ضروربالضرور جنت میں داخل ہو جائے گا۔

نبی کریم ﷺ کے پاس جو وفود آیا کرتے تھے آ پؐ انہیں دین کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہدایت کیا کرتے تھے کہ اپنے گھرو ں کو واپس جاکر اُن لوگوں تک اِن تعلیمات کوپہونچادیں جو یہاں حاضر نہیں ہوسکتے۔

عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قَالَ: إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنِ الْوَفْدُ أَوْ مَنِ الْقَوْمُ، قَالُوا: رَبِيعَةُ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ أَوْ بِالْوَفْدِ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا نَدَامَى، قَالُوا: إِنَّا نَأْتِيكَ مِنْ شُقَّةٍ بَعِيدَةٍ وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ، وَلَا نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيَكَ إِلَّا فِي شَهْرٍ حَرَامٍ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ نُخْبِرُ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا نَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ،” فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، أَمَرَهُمْ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَحْدَهُ، قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، وَتُعْطُوا الْخُمُسَ مِنَ الْمَغْنَمِ، وَنَهَاهُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ. قَالَ شُعْبَةُ: رُبَّمَا قَالَ النَّقِيرِ، وَرُبَّمَا قَالَ الْمُقَيَّرِ، قَالَ: احْفَظُوهُ وَأَخْبِرُوهُ مَنْ وَرَاءَكُمْ”(صحیح بخاری۔ کتاب العلم۔ باب  تحریض النبی ﷺ وفد عبد القیس ۔ حدیث نمبر٨٧ )

حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کون سا وفد ہے؟ یا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان (کے لوگ ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مبارک ہو قوم کو (آنا) یا مبارک ہو اس وفد کو (جو کبھی) نہ رسوا ہو نہ شرمندہ ہو (اس کے بعد) انہوں نے عرض کیا کہ ہم ایک دور دراز کونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ہیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ (پڑتا) ہے (اس کے خوف کی وجہ سے) ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ اور ایام میں نہیں آ سکتے۔ اس لیے ہمیں کوئی ایسی (قطعی) بات بتلا دیجئے کہ جس کی ہم اپنے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو خبر دے دیں۔ (اور) اس کی وجہ سے ہم جنت میں داخل ہو سکیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار سے روک دیا۔ اول انہیں حکم دیا کہ ایک اللہ پر ایمان لائیں۔ (پھر) فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ ایک اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا اورماہ رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرو اور چار چیزوں سے منع فرمایا، دباء، حنتم، اور مزفت کے استعمال سے۔ اور (چوتھی چیز کے بارے میں) شعبہ کہتے ہیں کہ ابوجمرہ بسا اوقات ’نقیر“ کہتے تھے اور بسا اوقات ”مقیر“۔ (اس کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان (باتوں کو) یاد رکھو اور اپنے پیچھے (رہ جانے) والوں کو بھی ان کی خبر کر دو۔

نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع سے بہت ساری اہم ہدایتیں امت کو دیں اور پھر ہر شخص کو ذمہ دار بنادیا کہ جو لوگ حاضر ہیں وہ یہ ساری باتیں ان لوگوں تک پہنچادیں جو یہاں حاضرنہیں ہوسکے۔

عن ابی بکرۃ رضی اللہ عنہ قال ذُكِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ، قَالَ مُحَمَّدٌ وَأَحْسِبُهُ قَالَ: وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، أَلَا لِيُبَلِّغ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الْغَائِبَ”، وَكَانَ مُحَمَّدٌ يَقُولُ: صَدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ ذَلِكَ أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ مَرَّتَيْنِ. (صحیح بخاری۔ کتاب العلم۔ باب لیبلغ الشاھد الغائب ۔ حدیث نمبر۔١٠٥ )

حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یوں) فرمایا، تمہارے خون اور تمہارے مال، محمد کہتے ہیں کہ میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے“واعراضکم” کا لفظ بھی فرمایا۔ (یعنی) اور تمہاری آبروئیں تم پر حرام ہیں۔ جس طرح تمہارے آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں۔ سن لو! یہ خبر حاضر غائب کو پہنچا دے۔ اور محمد (راوی حدیث) کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ (پھر) دوبارہ فرمایا کہ کیا میں نے (اللہ کا یہ حکم) تمہیں نہیں پہنچا دیا۔

مذکورہ بالاحدیثوں سے یہ ظاہر ہے کہ علم کاحاصل کرنا اور اس کو دوسرے لوگوں تک پہنچانا نبی کریم ﷺ کی خاص تعلیمات میں سے ہے اور اسی میں آپؐ کی لائی ہوئی شریعت کی حفاظت بھی ہے اور امت کی بھلائی بھی۔اس لئے اہل علم کو اس بات سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔جو لوگ علم کاحق اداکرتے ہیں خود بھی عمل کرتے اور دوسروں کو بھی عمل کی دعوت دیتے اور ان کی اصلاح کے لئے فکر مند رہتے ہیں یقینا وہ دنیا و آخرت کی فلاح پانے والے ہیں۔

علم ایک دودھاری تلوار ہے یعنی اس علم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ رفع درجات بھی فرماتے ہیں اور اسی علم کی وجہ سے بعض لو گ قعرمذلت میں بھی گرجاتے ہیں۔ جن لوگوں نے علم کو اخلاص کے ساتھ حاصل کیا اوراس کوپوری ایمانداری سے لوگوں تک پہنچایا اور اس کے ذریعہ دنیاکی رہنمائی فرماکر لوگوں کوحق کی راہ دکھائی وہ یقیناً کامیاب ہیں اور وارثین انبیاکہلانے کے لائق ہیں لیکن جن لوگوں نے اس علم کوحاصل کرکے اس کو دنیا کے حصول کاذریعہ بنایا ان کے لئے عبرتناک انجام ہے۔نادان لوگ جن کے پاس صحیح علم نہیں ہے اور وہ لاعلمی میں کوئی غلط عمل کررہے ہیں تو جاننے والوں کو چاہئے کہ انہیں بروقت خبردار کردیں کہ آپ کا یہ عمل صحیح نہیں ہے بلکہ صحیح عمل یہ ہے۔نبی کریم ﷺ کو چونکہ معلم بناکر بھیجا گیا تھا اس لئے آپؐ کوئی بھی موقع ضائع نہیں کرتے تھے اور امت کی رہنمائی و دستگیری ہمیشہ فرمایا کرتے تھے۔

عن عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ قَالَ: تَخَلَّفَ عَنَّا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرْنَاهَا، فَأَدْرَكَنَا وَقَدْ أَرْهَقَتْنَا الصَّلَاةُ وَنَحْنُ نَتَوَضَّأُ، فَجَعَلْنَا نَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا، فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ:” وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا”(صحیح بخاری۔ کتاب العلم۔ باب من رفع صوتہ بالعلم۔حدیث نمبر٦٠ )

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا ایک سفر میں جو ہم نے کیا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اس وقت ملے جب نماز کا وقت آن پہنچا تھا ہم وضو کر رہے تھے۔ پس پاؤں کو خوب دھونے کے بدل ہم یوں ہی سا دھو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے پکارا دیکھو ایڑیوں کی خرابی دوزخ سے ہونے والی ہے دو یا تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

صحابۂ کرام نے جس وقت قیام کیا تھا اس وقت نماز کے لئے بہت تھوڑا ساوقت بچ گیا تھا اس لئے وہ جلدی جلدی وضو کررہے تھے اس میں امکان تھا کہ ایڑیا ں سوکھی رہ جائیں اس لئے جب نبی کریم ﷺ نے ان کی یہ حالت دیکھی تو فوراً متنبہ فرمایا کہ ایڑیاں اچھی طرح سے دھوؤ کہیں ان کاکوئی حصہ سوکھا نہ رہ جائے۔ اس سنت نبوی پر اہل علم کو عمل کرنا چاہے۔ یعنی اگر ان کے سامنے لوگ کوئی غلط عمل کرہے ہوں تو انہیں بروقت آگاہ کردینا چاہئے کہ تمہار ایہ عمل شریعت وسنت کے مطابق نہیں ہے۔ 

جولوگ جانتے ہوئے ہوئے علم کو چھپاتے ہیں اور اپنے علم سے دوسروں کو کوئی فائدہ نہیں پہونچاتے وہ کتمان علم کے مجرم ہیں اور کتمان علم سے متعلق رسول اللہ ﷺ کے ارشادات بڑے سخت ہیں ایک جگہ ارشادہے:

  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ “(سنن ترمذی۔کتاب العلم باب،ماجاء فی کتمان العلم۔حدیث نمبر٢٦٤٩ )

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس سے کوئی ایسی بات پوچھی گئی جس کووہ جانتاتھاپھراس نے اس کوچھپایا تواس کو قیامت کے دن آگ کی لگام دی جائے گی۔

اہل علم سے سوال کرنے کے آداب

اگر کوئی عالم دین کسی مجمع سے باتیں کررہا ہو یا درس وتدریس میں مشغول ہو اس وقت دوسرے لوگوں کو سوال سے پرہیز کرنا چاہئے اور اگر کسی نے موضوع سے ہٹ کر کوئی سوال کیا اور اس عالم نے بروقت اس پرتوجہ نہیں دی تووہ کتمان علم کا مرتکب نہیں ہوگا۔اسے چاہئے کے درس و تدریس سے فارغ ہوکر سائل کوجواب دے۔ نبی کریم  ﷺ کی سنت ہمیں یہی تعلیم دیتی ہے۔

 عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قَالَ:” بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسٍ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ جَاءَهُ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: مَتَى السَّاعَةُ؟ فَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: سَمِعَ مَا قَالَ، فَكَرِهَ مَا قَالَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ لَمْ يَسْمَعْ، حَتَّى إِذَا قَضَى حَدِيثَهُ، قَالَ: أَيْنَ أُرَاهُ السَّائِلُ عَنِ السَّاعَةِ؟ قَالَ: هَا أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِذَا ضُيِّعَتِ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ، قَالَ: كَيْفَ إِضَاعَتُهَا؟ قَالَ: إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ”(صحیح بخاری۔ کتاب العلم،باب من سئل علما وھو مشتغل فی حدیثہ فاتم الحدیث ثم اجاب السائل۔حدیث نمبر٥٩ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو میں مصروف رہے۔ بعض لوگ کہنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی کی بات سنی لیکن پسند نہیں کی اور بعض کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی باتیں پوری کر چکے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا وہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں گیا اس (دیہاتی) نے کہا (یا رسول اللہ!) میں موجود ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امانت اٹھ جائے تو قیامت قائم ہونے کا انتظار کر۔ اس نے کہا امانت اٹھنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب (حکومت)نااہل لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر۔

علم دین کو دنیاکے لئے حاصل کرنایااس پرعمل نہ کرنایا اس کوچھپانابڑاہی خطرناک عمل  ہے اوراس کے متعلق رسول اللہ کے ارشادات بڑے سخت ہیں۔ ایک مومن کوکسی بھی حال میں یہ زیبا نہیں ہے کہ وہ علم کوغیر اللہ کے لئے حاصل کرے یا اس میں تحریف یاکتمان کامرتکب ہو اورجوشخص ان چیزوں کاارتکاب کرتاہے وہ اپنے انجام کے بارے میں کتنا بے خبرہے۔اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَامِنْہُ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *