وقت کی قدر کیجئے

 

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی 

یہ دنیا  اور اس میں  موجود ہر شئی فناہوجانے والی ہے ۔انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس فانی دنیا میں کچھ وقت دے کر بھیجا ہے تاکہ وہ  یہاں رہ کر  آخرت کی لامحدود زندگی کے لئے اعمال کرے ۔ انسانی زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے اسے یونہی ضائع کردینا عقل کے بھی خلاف ہے اور اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ جو وقت گزرگیا وہ کبھی دوبارہ واپس نہیں آئے گا۔ جن لوگوں نے وقت کی قدر کی وہ رہتی دنیا تک کے لئے زندہ جاوید ہوگئے  اور آنے والی نسلوں کے مثال چھوڑ گئے ۔ اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے آخرت کی کھیتی بنایا ہے اور اس کھیتی میں انسان جو کچھ بوئے گا وہی آخرت میں کاٹے گا  ۔ آخرت کی زندگی کامدار اسی دنیاوی زندگی پر ہے ۔اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا : كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ(٢٤ ۔الحاقہ)   کھاؤ اور پیو مزے سے، ان اعمال کی وجہ سے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں آگے بھیجے۔  یعنی اس دنیا میں رہ کر انسان نے جو اعمال خیر کئے اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا اور قیامت کے دن جب کہ  سارے سہارے ٹوٹ جائیں گے  اس وقت اللہ کی طرف سے یہ خوشخبری دی جائے گی کہ تم نے گزشتہ زندگی میں  جو اعمال کئے اس کے بدلے تمہارے لئے جنت کی نعمتیں ہیں اور اب اس سدا بہار جنت میں رہ کر مزے سے کھاؤ پیو  اور عیش کرو۔ لیکن جن لوگوں نے اس زندگی کویونہی گزار دیا ہو گا یا خیر کے بجائے شر کو اپنا یا ہوگا ان کے لئے سوائے حسرت و افسوس کے کچھ نہ ہو گا ان سے اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ ہم نے تمہیں زندگی عطاکی تھی اس وقت تمہارے لئے عمل کا موقع تھا  پھر تم نے اسے ضائع کیوں کیا۔ ارشاد ہوگا: وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا كَذَلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ(٣٦ )وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ نَصِيرٍ(٣٧ فاطر۔) اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان کے لیے جہنم کی آگ ہے، نہ ان کا کام تمام کیا جائے گا کہ وہ مر جائیں اور نہ ان سے اس کا کچھ عذاب ہی ہلکا کیا جائے گا۔ ہم ایسے ہی ہر ناشکرے کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔ اور وہ اس میں چلائیں گے، اے ہمارے رب! ہمیں نکال لے، ہم نیک عمل کریں گے، اس کے خلاف جو ہم کیا کرتے تھے۔ اور کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہیں دی کہ اس میں جو نصیحت حاصل کرنا چاہتا حاصل کر لیتا اور تمھارے پاس خاص ڈرانے والا بھی آیا۔ پس چکھو کہ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔

وقت کی قدر اور اس  کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے  قرآن کریم میں  مختلف اوقات کی قسمیں کھائی ہیں اور انسان کو یہ باور کرایا ہے کہ وقت   ایک قمیتی سرمایہ ہے جسے یونہی  ضائع نہیں کیا جاسکتا۔سورہ عصر میں  اللہ تعالیٰ نے زمانہ کی قسم کھائی ہے ۔ سورہ لیل میں دن اور رات کی قسم کھائی ہے  ، سورہ ضحی میں چاشت کے وقت  کی قسم کھائی ہے اور  سورہ فجر میں صبح اور دس راتوں کی قسم کھائی ہے ان اوقات کی قسم اس بات پر دال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں وقت ایک عظیم شئے جو اس قابل ہے کہ اس کی قسم کھائی  جائے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی چیز کی قسم کھانا اس کے عظمت شان کی دلالت ہے ۔

وقت کی قدر کرنے والے ہی کامیاب ہیں

عربی کاایک مقولہ ہے الوقت اثمن من الذھب یعنی وقت سونا سے زیادہ قیمتی ہے ۔دنیا میں موجود جتنے دھات ہیں ان میں سونے کی بڑی اہمیت ملکوں اور لوگوں کی قدرو قیمت ان کے پاس موجود سونے سے متعین ہوتی ہے جس ے پاس جتنا سونا ہوتاہے اس کو وزن دنیا میں اتنا ہی زیادہ ہوتاہے  ۔ لیکن یہ ایک ایسی چیز ہے جو اگر ضائع ہوجائے تو اسے دوبارہ حاصل کرنے کے مواقع زندگی میں بار بار آتے ہیں ۔ اور ایسے بہت سارے واقعات ہیں کہ جن کی ساری دولت ختم ہوگئی انہوں نے اپنی محنت اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس سے زیادہ دولت حاصل کرلی ۔ لیکن وقت ایک ایسی چیزہے جو اگر ہاتھ سے نکل جائے تو آدمی زندگی بھر ہاتھ ملتارہے وہ وقت دوبارہ اسے حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے انسان کو اپنے وقت کی قدر کرنی چاہئے ۔ اور جن لوگوں نے وقت کی قدر کی اس کی قیمت کو پہچانا دنیا میں بھی وہ کامیاب رہے اور آخرت کی زندگی بھی ان کی کامیاب ہوگی ۔

آج ہمیں وقت کی اہمیت معلوم نہیں ہوتی اور بہت آسانی سے ہم وقت کو یونہی گذار دیتے دیتے ہیں لیکن واقعی اس وقت کی قیمت کیا ہے آخرت میں اس کا انداز ہ ہو جائے گا جب اللہ تعالیٰ کے یہاں پیشی ہوگی اور پھر حساب ہوگا اور جنت و جہنم کا فیصلہ سنایا جائے گا تب ہمیں اندازہ ہوگا کہ جووقت ہم نے دنیا میں یوں ہی گذار دیا اس پر کوئی توجہ نہیں دی اگر ان اوقات کو اللہ کی یاد میں گذار ا ہوتا تو آج ہمیں ابد الآباد کی راحت نصیب ہوتی ۔سورہ مومنون میں قرآن کریم نے اس کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے ۔إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ(١٠٩) فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا حَتَّى أَنْسَوْكُمْ ذِكْرِي وَكُنْتُمْ مِنْهُمْ تَضْحَكُونَ(١١٠) إِنِّي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ الْفَائِزُونَ(١١١) قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ(١١٢) قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ(١١٣) قَالَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ(١١٤) أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ(١١٥) فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِـ(١١٦. سورۃ المؤمنون)

بے شک حقیقت یہ ہے کہ میرے بندوں میں سے کچھ لوگ تھے جو کہتے تھے اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے، سو تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر اور تو سب رحم کرنے والوں سے بہتر ہے۔  تو تم نے انھیں مذاق بنالیا، یہاں تک کہ انھوں نے تم کو میری یاد بھلا دی اور تم ان سے ہنسا کرتے تھے۔  بے شک میں نے انھیں آج اس کے بدلے جو انھوں نے صبر کیا، یہ جزا دی ہے کہ بے شک وہی کامیاب ہیں۔  فرمائے گا تم زمین میں سالوں کی گنتی میں کتنی مدت رہے؟  وہ کہیں گے ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے، سو شمار کرنے والوں سے پوچھ لے۔  فرمائے گا تم نہیں رہے مگر تھوڑا ہی، کاش کہ واقعی تم جانتے ہوتے۔  تو کیا تم نے گمان کر لیا کہ ہم نے تمھیں بے مقصد ہی پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے؟  پس بہت بلند ہے اللہ، جو سچا بادشاہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، عزت والے عرش کا رب ہے۔

یہ وہ دن ہوگا جب کہ جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے اور جہنمی جہنم میں پہنچ جائیں گے اس وقت اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے یہ سوال کریں گے کہ تم دنیا میں کتنے دن رہے تو وہ جواب دیں گے ایک دن یااس کا کچھ حصہ ہم دنیا میں رہے ۔ اس وقت اللہ تعالی فرمائیں گے کہ تم تو واقعی دنیا میں بہت ہی قلیل عرصہ رہے لیکن قلیل عرصہ میں دو قسم کے افراد ہوئے ایک تو وہ لوگ جو میری مرضی پر چلے اور آخرت کے دن سے ڈرتے رہے تو وہ تو بہت فائدہ میں رہے کہ تھوڑی دیر کی محنت اور انہیں میری کی رضا، مغفرت اور ابد الآباد کی جنت نصیب ہوگئی ۔اور دوسرے تم لوگ یعنی جہنم میں رہنے والے ہو جو نہایت گھاٹے میں رہے کہ تھوڑی دیر کی نافرمانی کی اور میرے  غضب کے شکار بھی ہوئے اور ابد الآباد تک جہنم کے مستحق ہوگئے۔اس وقت انسان کو وقت کا صحیح اندازہ ہوگا لیکن اس وقت سوائے افسوس کے کوئی چارہ نہ رہ جائے گا۔اس لئے جوکچھ کرنا ہے وہ اسی دنیا میں رہتے ہوئے کرلینا چاہئے ۔ دنیا کی زندگی جس قدر ہے اس کے لئے اتنی ہی محنت کریں اور آخرت کی زندگی جس قدر ہے اس کے لئے اتنی ہی محنت کریں۔اس دنیا کے مقابلے آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیش کی زندگی ہے جس کادنیا کی زندگی سے کوئی مقابلہ ہی نہیں اس لئے ہماری محنت کازیادہ تر حصہ آخرت کے لئے ہونا چاہئے۔اور کم حصہ دنیا کی زدگی کےلئے ہونا چاہئے۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *