مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

خلق حسن کی طاقت : نبوی کردار کاانقلابی نمونہ

خلق حسن

 

 

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

خلق حسنہ و خلق سیئہ

خُلقِ حسن اچھی خصلتوں ، پسندیدہ طریقوں، ملنساری ، مروت اورخوش مزاجی کوکہتے ہیں۔اصطلاحی اعتبار سے خلق سے مراد انسان کے وہ پختہ اوصاف ہیں جو اس کی فطرت اور طبیعت کا اس طرح حصہ بن جائیں کہ ان کا ظہور روز مرہ کی زندگی میں غور وفکر کی سہولت اور آسانی سے ہوتا رہے ۔اگر یہ اوصاف عقلی اور شرعی اعتبار سے پسندیدہ ہیں تو وہ خلق حسن ہیں اور وہ افعال قبیحہ ہیں تو خلق سیئہ ہیں۔ اس طرح خلق یا اخلاق کی دوقسمیں ہیں۔ ایک خلق حسن یا اخلاق حسنہ اور دوسری خلق سیئہ یا اخلاق سیئہ۔خلق حسن میں وہ تمام اوصاف داخل ہیں جنہیں شریعت میں اچھا سمجھا گیا ہے یا شریعت میں انہیں کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اگر وہ چیزیں انسان کے اندر اس طرح موجود ہیں کہ وہ اس کی فطرت میں شامل ہوگئیں ہیں ، جنہیں عقلی اور شرعی دونوں طریقوں پر اچھا سمجھا گیا ہے تو اسے اخلاق مند کہاجائے گا اور اگر اس صفت کو عقلی اور شرعی دونوں میں برا سمجھا گیا ہے تو اس شخص کو بداخلاق کہا جائے گا۔

خلق نبوی ﷺ پوری انسانیت کے لئے نمونہ

نبی کریم ﷺ اخلاق کے سب سے اونچے مرتبہ پر فائز تھے ۔اخلاقیات کے باب میں جتنی بھی چیزیں حَسَن کادرجہ رکھتی ہیں نبی کریم کے اندر وہ چیزیں کامل واکمل طریقہ پر موجود تھیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آ پ ﷺ کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہے :اور بے شک آپ بہت بڑے اخلاق پر ہیں۔ ( قلم۔4)رسول اللہ ﷺ کے اخلاق حسنہ کا ہی کمال تھا کہ عرب جیسی اکھڑ مزاج قوم آ پ کے اردگرد صرف جمع ہی نہیں ہوئی بلکہ آپ پر فریفتہ ہوگئی اور آ پ کے ادنیٰ اشارے پر اپنی جانیں لُٹادینے کو تیار ہوگئی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چَھٹ جاتے، سو آپ ان سے درگزر کریں اور ان کے لئے استغفار کریں اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں، پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں کو پسندکرتا ہے۔(١٥٩ ۔آل عمران)

خلق عظیم

 

عفو و درگذر اخلاق حسنہ کا روشن پہلو

عفو ودرگذراخلاق حسنہ کاحصہ ہے ۔نبی کریم ﷺ بذات خود عفو و درگذر سے کام لینے والے تھے اس کے باوجود آپ کو عفو و درگزر کرنے کا حکم ہے اوراگر کسی موقع پرجاہلوں کا سامنا ہوجائے او روہ بدتمیزی کرنے لگیں تو بھی آپ ان سے رحم وکرم اور عفور درگزر کا معاملہ فرمائیں۔ آپ درگزر کو اختیار کریں نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہو جائیں۔(١٩٩ ۔اعراف )اس کے علاوہ اللہ کے لئے تقویٰ اختیار کرنا، اللہ کے بندوں پرخرچ کرنا،غصہ پر قابو رکھنا، احسان وفضل کارویہ ہمیشہ قائم رکھنا یہ سب خلق حسن میں شامل ہیں ۔
جور و جفا اور ظلم وستم بداخلاقی میں شامل ہیں اگر کسی کے ساتھ ظلم و ستم ہو تو اس شخص کو بھی اتنا اختیار ہے کہ جب اس کو طاقت وقدرت حاصل ہو تو وہ اتنا ہی بدلہ لے سکتاہے جتنی اس کو تکلیف پہنچائی گئی ،بدلہ میں زیادتی کرنا مظلوم کو ظالم بنادیتاہے۔ اس کے برعکس جو شخص معافی اور درگذر سے کام لے کر صلح جوئی کا راستہ اختیار کرتاہے وہ شخص اللہ تعالیٰ کے یہاں بہت پسندیدہ ہے اور وہ اخلاق کے نہایت اونچے عہدے پرفائز ہے۔

سخاوت اور فیاضی 

اللہ کے بندوں پرخرچ کرنا اور سخاوت کو اپنی عادت بنانا بھی خلق حسن میں شامل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس صفت کو جنتیوں کی صفات میں شمار کیا ہے ۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ کی سخاوت رمضان شریف کے مہینے میں اور بڑھ جاتی، جب جبرئیل علیہ السلام آپ سے ملاقات کے لیے ہر روز آنے لگتے۔ جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان کی ہر رات میں ملاقات کے لیے آتے اور آپ سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خصوصاً اس دور میں جب جبرئیل علیہ السلام روزانہ آپ سے ملاقات کے لیے آتے تو آپ خیرات و برکات میں تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔(صحیح بخاری ۔کتاب بدءالخلق، باب ذکر الملئکة)

غصہ پر قابو اصل بہادری 

طاقت رکھنے کے باوجود غصہ پر قابوپالینا خلق حسن میں شامل ہے اور جولوگ اس صفت سے متصف ہوتے ہیں انہیں معاشرے میں اونچا مقام ملتاہے اور لوگ ان کی عزت واکرام کرتے ہیں۔حالت غضب میں اپنے غصے پرقابو پانے والوں کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :پہلوان وہ نہیں ہے جو کشتی لڑنے میں غالب ہو جائے بلکہ اصل پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پائے ۔(صحیح بخاری ۔ کتاب الادب، باب الحذر من الغضب)
شجاعت و بہادری کوبھی حُسنِ خلق میں شمار کیا جاتاہے اور مومن کی صفات میں یہ داخل ہے کہ وہ بزدل نہیں ہوسکتاصحابۂ کرام کی زندگی میں بہادری کے ایسے ایسے نمونے اور جوہر موجود ہیں جن کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے ۔ آخر وہ سید المرسلین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے تربیت یافتہ تھے جن کی بہادری کی مثال پیش ہی نہیں کی جاسکتی۔ خطرناک حالات میں بھی آپﷺ سے نے کتنے صبر کے ساتھ مقابلہ کیا جس کو جاننے کے بعد انسان بے یقینی کاشکار ہوجاتا ہے کہ کیا ایسا بھی ہوسکتاہے ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ مکہ کی سنگلاخ وادیوں میں جب کہ ہرطرف مخالفت کی تند وتیز ہوائیں چل رہی تھیں آپ اللہ کے کلمے کی سربلندی کے لئے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر عرب کے سرداروں کے پاس جاتے اور انہیں دین کی تبلیغ کیا کرتے تھے ۔ جب کہ سارے لوگ آپ کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے ۔مدنی دور میں بھی جب کوئی ناگہانی صورت حال پید اہوتی تو آپ ﷺ سب سے آگے رہا کرتے تھے۔

تحمل و بردباری : عزت کاذریعہ

تحمل  و بردباری بھی اخلاق حسنہ میں داخل ہے اور ہر مومن کو تحمل وبردباری سے کام لینا چاہئے۔ بردباری کی صفت انسان کو معاشرے میں عزت کے مقام پربِٹھاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی اس کی قدر کی جاتی ہے ۔ نیز جس کی صفت بردباری کی ہے لوگ اس کے قریب رہنا پسند کرتے ہیں اس سے بِدکتے نہیں ۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت یہی ہے، آپ کی شخصیت بردباری اور تحمل میں کامل واکمل تھی۔ آپ ﷺ کے قریب رہنے والے لوگ روز بروز آپ سے قریب تر ہوتے جاتے تھے اور کبھی شکایت نہیں کرتے تھے ۔

دیگر اعلی اخلاق

خوش دلی اور نرم گوئی،تواضع او رخاکساری،بڑوں کی عزت، چھوٹوں سے پیار ، سب اخلاق کے اعلیٰ مراتب ہیں اسلامی تعلیمات میں جہاں اخلاق حسنہ کو اختیارکرنے کی تاکید کی گئی ہے وہیں اخلاق سیئہ سے بچنے کی بھی تلقین کی گئی ہے۔اخلاقیات کی جو مثالی تعلیم اسلام نے دی ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں کامل واکمل طریقہ پر موجود ہے ۔ احادیث کے ذخائر میں خلق نبوی کونہایت تفصیل سے بیان کردیا گیاہے موجودور میں بھی اہل علم خُلقِ نبوی کی ترویج واشاعت کے لئے تصنیف وتالیف کی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index