آصف قاسمی

عفت وپاکدامنی

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی 

عفت و عصمت انسانی معاشرے کی ایک اہم چیز ہے۔ جس کی حفاظت ہر باشعور انسان کرتاہے اور جس کے اندر ذراسی بھی انسانیت باقی ہے وہ اپنی عصمت کی حفاظت سے لاپرواہی نہیں برت سکتاہے اسی عفت وعصمت کی حفاظت سے ایک صالح معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی مخلوقات کوپیدافرمایا ہے ان میں توالد وتناسل کاسلسلہ جاری فرمایا اور دونوں جنسوں میں ایک قوت کشش رکھی ہے جس کی وجہ سے ہر ایک جنس اپنے جنس مخالف کی طرف کھنچتی ہے اور اس کی قربت کی خواہش رکھتی ہے۔دیگر حیوانات چونکہ مکلف نہیں ہیں اس لئے ان کے لئے عصمت و عفت کے اصول نہیں بنائے گئے بلکہ فطرت ان کے لئے معلم ہے۔لیکن انسان اشرف المخلوقات بھی ہے اور مکلف بھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے عفت وعصمت کے نہایت کڑے اصول بنائے ہیں تاکہ معاشرے میں کسی طرح کی ایسی گندگی نہ پھیل جائے جو انسانی عصمت کے دامن کوتار تار کردے۔اس کے لئے شریعت مطہرہ نے مردو عورت ہر دو کو اس کی سخت تاکید کی ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور مکمل پردہ کا اہتمام کریں۔مرد بھی اپنے مقامات شرم کو چھپاکررکھیں اور عورتیں بھی اس کاخاص اہتمام کریں۔ عورتوں کے اندر چونکہ قوت کشش زیادہ ہے اس لئے ان کو زیادہ اہتمام کی ضرورت ہے۔ اسی لئے شریعت نے ایک طرف مردوں کواپنی نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا، تو دوسری طرف عورتوں کوبھی اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اور شرمگاہوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان تمام چیزوں سے منع کردیا جن کہ وجہ سے مردعورتوں کی طرف مائل ہوتے ہیں اورجن سے بے حیائی اور دیگر معاشرتی برائیوں کے پھیلنے کا خطرہ رہتا ہے۔ اسی لئے انہیں حکم دیا کہ جب وہ باہر نکلیں توبے پردہ ہوکر نہ نکلیں اور اپنی زیب وزینت کو غیر مردوں پر ظاہر نہ کریں ہاں جن لوگوں سے خطرات نہیں ہیں،ان کے ساتھ سخت پردہ کی ضرورت نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکَی لَہُمْ اِِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ (٣٠ ) وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوبِہِنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ اَوْ آبَاءِہِنَّ اَوْ آبَاءِ بُعُولَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَاءِہِنَّ اَوْ اَبْنَاءِ بُعُولَتِہِنَّ اَوْ اِِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْ اِِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْ اَخَوَاتِہِنَّ اَوْ نِسَآءِہِنَّ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ اَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْرِ اُوْلِی الْاِِرْبَۃِ مِنْ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلاَ یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِینَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ وَتُوْبُوْا اِِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (٣١ ) (نور)

ترجمہ:      مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کوظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جوظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں، اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں، سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدۃ زینت معلوم ہوجائے، اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔

جولوگ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کااہتمام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جنت  کاوعدہ کیاہے اور ایسے لوگ جو شرم وحیا کاپاس نہیں رکھتے اورعصمت و عفت کی حفاظت نہیں کرتے ایسے لوگوں کو سخت عذاب سے ڈرایا ہے۔

وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ (٢٩ )اِِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ (٣٠ )فَمَنِ ابْتَغَی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْعَادُوْنَ (٣١ ۔معارج)

ترجمہ:    اور جو لوگ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہاں ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں جن کے وہ مالک ہیں انہیں کوئی ملامت نہیں۔ اب جو کوئی اس کے علاوہ (راہ) ڈھونڈے گا توایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہوں گے۔

انسان کے جائز خواہشات پورا کرنے کا طریقہ شریعت نے نکاح کو بنایاہے۔ دنیا کی جتنی مہذب اقوام ہیں ان سب میں شادی بیاہ کا طریقہ رائج ہے یہی طریقہ انسانیت کوایک صالح ماحول فراہم کرتاہے۔ اسلام نے اس کے اصول اور اس کے منہیات تفصیلی طورپربیان کیے ہیں اور اس کے برخلاف شہوتوں کوپور اکرنے کے ناجائر طریقہ زنا کو حرام اورمعاشرہ کے لئے ایک ناسور قرار دیا ہے اور اس کے مرتکب کے لیے بڑی سخت سزا کا تعین کیا ہے۔تاکہ کوئی شخص ایسی حرکت کرنے کاتصور بھی نہ کرسکے۔اللہ تعالیٰ نے صرف زنا سے منع نہیں کیابلکہ زنا کے قریب جانے سے منع کیا ہے یعنی زنا کے دواعی،بدنظری،بے حجابی وغیرہ ایسی چیزیں جن کی وجہ سے انسان زنا میں ملوث ہوسکتاہے۔ ان تما م چیزوں سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَ سَآءَ سَبِیْلًا (٣٢ ۔اسراء)

 ترجمہ:   خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیوں کہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے۔

زنا تو آخری حد ہے جس کے صدور کے بعد دنیا میں بھی زانی کے لئے سخت سز امتعین کی گئی ہے اور آخرت میں بھی ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی تمام چیزوں سے دور رہنے کاحکم دیاہے جوزناکی طرف لے جانے والی ہیں۔ جیسے مردو ں اور عورتوں کا تنہائی میں بیٹھنا۔ اس لئے کہ جب دو اجنبی مردو عورت ایک ساتھ ملتے ہیں،تو تیسرا ان میں شیطان ہوتاہے جو انسان کاازلی دشمن ہے اور وہ انسان کو بہکانے کاکوئی بھی موقع ضائع نہیں کرتا۔ آج کل اخبارات میں زنا کی خبریں اتنی کثرت سے نظر آتی ہیں،جن کاتصور بھی پہلے زمانے میں نہیں کیا جاسکتاتھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہر شعبہ میں مردوں اور عورتوں کااختلاط ہے، جس کی وجہ سے شیطان کوبہکانے کابھرپور موقع ملتاہے۔ زناکے واقعات کی کثرت کاایک سبب بے پردگی بھی ہے۔ اس لئے کہ عورتوں کے پورے بدن میں ایک طرح کی قدرتی کشش پائی جاتی ہے۔ جب کوئی عورت بے پردہ نظر آتی ہے تو اس سے مردوں کے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں۔جس کی وجہ سے آدمی زنا میں ملوث ہوجاتاہے۔ فلموں اور ڈراموں میں عریانیت نیز اخبارات ورسائل میں عریاں تصاویر کی اشاعت بھی کثرت زنا کے اسباب میں سے ہیں۔اسی طرح لڑکے لڑکیوں کی شادیاں وقت پر نہ ہونا بھی ایک بڑ ا سبب ہے۔ ان تمام چیزوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ قوانین چاہے جتنے بھی سخت بنالیے جائیں جب تک ان چیزوں پر پوری طرح قابو نہیں پایا جاتا، بے حیائی اور اس کے اثرات سے معاشرے کو پاک نہیں کیا جاسکتا۔

اللہ تعالیٰ کے مخصوص بندے جو عباد الرحمن کہے جانے کے لائق ہیں ان کی صفات بیان کرتے ہوئے جہاں اوربہت ساری صفات کا شمار اللہ جل شانہ نے کرایاہے وہیں ان ایک کی صفت یہ بھی گنایا کہ وہ زنا نہیں کرتے اور پھر جولوگ اس کے مرتکب ہوتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب بلکہ اور گناہوں کے مقابلے دوگنے گناہ کی وعید بھی آئی ہے۔ارشاد ہے:

وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا آخَرَ وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِِلَّا بِالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا (٦٨ )یُضَاعَفْ لَہٗ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہِ مُہَانًا (٦٩ ۔فرقان)

 ترجمہ:   اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کردیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے، نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا۔ اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب کیا جائے گا اور وہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گا۔

عن عبداللہ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَأَلْتُ أَوْ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الذَّنْبِ عِنْدَ اللَّهِ أَكْبَرُ؟ قَالَ:”أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ”، قُلْتُ، ثُمَّ أَيٌّ، قَالَ:” ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ خَشْيَةَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ”، قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ، قَالَ:” أَنْ تُزَانِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ”، قَالَ: وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ تَصْدِيقًا لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ سورة الفرقان آية ٦٨ “.(صحیح بخاری۔کتاب تفسیر القرآن۔باب وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا آخَرَ وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِِلَّا بِالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا۔حدیث نمبر۔ ٤٧٦١ )

حضر ت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا،یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہ تم اللہ کا کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا؟ فرمایا کہ اس کے بعد سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہاری روزی میں شریک ہو گی۔ میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا؟ فرمایا کہ اس کے بعد یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تصدیق کے لیے نازل ہوئی وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا آخَرَ وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِِلَّا بِالْحَقِّ ”اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جس (انسان) کی جان کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے قتل نہیں کرتے مگر ہاں حق پر اور نہ وہ زنا کرتے ہیں۔”

نبی کریم ﷺ نے زنا کو ایک سنگین  جرم قرار دیا ہے اور ساتھ ہی یہ فرمایا ہے کہ ایک مومن سے یہ امید نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ زناکاارتکاب کرے۔

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ،قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَالتَّوْبَةُ مَعْرُوضَةٌ بَعْدُ”.(سنن ابوداؤ۔کتاب السنۃ۔باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ۔٤٦٨٩ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زانی زنا کے وقت مومن نہیں رہتا، چور چوری کرتے وقت مومن نہیں رہتا، شرابی شراب پیتے وقت مومن نہیں رہتا۔ توبہ کا دروازہ اس کے بعد بھی کھلا ہوا ہے۔“

زنا اتنا گھناؤناعمل ہے کہ ایمان اس کے ساتھ رک ہی نہیں سکتا اسی لئے نبی کریمﷺ  نے یہ فرمایا کہ زانی ایمان کی حالت میں زنا نہیں کرتا بلکہ جس وقت وہ زنا میں ملوث ہوتاہے تو اس کاایمان باہر نکل کر ایک سائبان کی طرح لٹکا رہتاہے۔

مومن اپنی خطا پر قائم نہیں رہتا

انسان تو خطا ونسیان کاپتلا ہے۔ اس سے غلطیاں صادر ہوتی ہیں۔لیکن بہترین خطاکار وہ ہیں،جواپنی خطا پر قائم نہیں رہتے۔ بلکہ جیسے ہی ان کوتنبہ ہوتاہے وہ اپنے مالک کی طرف رجوع کرتے ہیں اور توبہ واستغفار کے ساتھ اپنے گناہوں کومعاف کرانے کی فکر کرتے ہیں۔ صحابۂ کرام کی زندگی میں ایسے واقعات موجود ہیں کہ ان سے بڑی بڑی غلطیاں ہوئیں لیکن وہ اپنی اس غلطی پر قائم نہیں رہے۔بلکہ فوراً دربار رسالت میں پہنچے اور اپنے گناہوں کی سز انافذ کرنے کامطالبہ یا استغفار کی درخواست کی۔ایسا  ایک واقعہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کا پیش آیا کہ ان سے زناکا صدور ہوگیا تو انہوں خود ہی اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ  کے سامنے سزا کے  لئے پیش کردیا  یہ ادا رسول اللہ ﷺ کو ایسی پسند آئی کہ آپ نے فرمایا اگر ماعز کے توبہ کو ایک امت میں تقسیم کردیا جائے تو سب کے لئے کافی ہوگا۔ ذیل کی حدیث ملاحظہ کریں۔

 عن بریدۃ رضی اللہ عنہ ،قَالَ: ” جَاءَ مَاعِزُ بْنُ مَالِكٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، طَهِّرْنِي، فَقَالَ: وَيْحَكَ ارْجِعْ فَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ وَتُبْ إِلَيْهِ، قَالَ: فَرَجَعَ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، طَهِّرْنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَيْحَكَ ارْجِعْ فَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ وَتُبْ إِلَيْهِ، قَالَ: فَرَجَعَ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، طَهِّرْنِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى إِذَا كَانَتِ الرَّابِعَةُ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ: فِيمَ أُطَهِّرُكَ؟، فَقَالَ: مِنَ الزِّنَا، فَسَأَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبِهِ جُنُونٌ؟، فَأُخْبِرَ أَنَّهُ لَيْسَ بِمَجْنُونٍ، فَقَالَ: أَشَرِبَ خَمْرًا، فَقَامَ رَجُلٌ فَاسْتَنْكَهَهُ فَلَمْ يَجِدْ مِنْهُ رِيحَ خَمْرٍ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَزَنَيْتَ؟، فَقَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ، فَكَانَ النَّاسُ فِيهِ فِرْقَتَيْنِ قَائِلٌ، يَقُولُ: لَقَدْ هَلَكَ لَقَدْ أَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ، وَقَائِلٌ يَقُولُ: مَا تَوْبَةٌ أَفْضَلَ مِنْ تَوْبَةِ مَاعِزٍ أَنَّهُ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي يَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: اقْتُلْنِي بِالْحِجَارَةِ، قَالَ: فَلَبِثُوا بِذَلِكَ يَوْمَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ جُلُوسٌ فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرُوا لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: فَقَالُوا: غَفَرَ اللَّهُ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ أُمَّةٍ لَوَسِعَتْهُمْ، قَالَ: ثُمَّ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ غَامِدٍ مِنَ الْأَزْدِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ طَهِّرْنِي، فَقَالَ: وَيْحَكِ ارْجِعِي فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ، فَقَالَتْ: أَرَاكَ تُرِيدُ أَنْ تُرَدِّدَنِي كَمَا رَدَّدْتَ مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: وَمَا ذَاكِ؟، قَالَتْ: إِنَّهَا حُبْلَى مِنَ الزّنَا، فَقَالَ: آنْتِ، قَالَتْ: نَعَمْ، فَقَالَ لَهَا: حَتَّى تَضَعِي مَا فِي بَطْنِكِ، قَالَ: فَكَفَلَهَا رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ حَتَّى وَضَعَتْ، قَالَ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: قَدْ وَضَعَتِ الْغَامِدِيَّةُ، فَقَالَ: إِذًا لَا نَرْجُمُهَا وَنَدَعُ وَلَدَهَا صَغِيرًا لَيْسَ لَهُ مَنْ يُرْضِعُهُ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: إِلَيَّ رَضَاعُهُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ: فَرَجَمَهَا “.۔(صحیح مسلم۔ کتاب الحدود،باب من اعترف علی نفسہ الزنا۔حدیث نمبر ٤٤٣١ )

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ماعز بن مالکؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ! مجھے پاک کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ارے چل اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگ اور توبہ کر۔“ تھوڑی دور وہ لوٹ کر گئے۔ پھر آئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ! مجھے پاک کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا۔ جب چوتھی مرتبہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تجھے کاہے سے پاک کروں؟“ ماعز ؓنے کہا: زنا سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا اس کو جنون ہے؟“ معلوم ہوا جنون نہیں ہے، پھر فرمایا: ”کیا اس نے شراب پی ہے؟“ ایک شخص کھڑا ہوا اور اس کا منہ سونگھا تو شراب کی بو نہ پائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو نے زنا کیا؟“ وہ بولا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم کیا وہ پتھروں سے مارا گیا۔ اب اس کے باب میں لوگ دو فریق ہو گئے۔ ایک تو یہ کہتا: ماعزؓ تباہ ہوا گناہ نے اس کو گھیر لیا۔ دوسرا یہ کہتا کہ ماعزؓ کی توبہ سے بہتر کوئی توبہ نہیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں رکھ دیا اور کہنے لگے مجھ کو پتھروں سے مار ڈالیے، دو تین دن تک لوگ یہی کہتے رہے، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور صحابہ رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا۔ پھر بیٹھے فرمایا: ”ماعزؓ کے لیے دعا مانگو۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کواللہ بخشے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ماعزؓ نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ توبہ ایک امت کے لوگوں میں بانٹی جائے تو سب کو کافی ہو جائے۔“  اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس  ایک عورت غامد(جو) ازد (قبیلہ) کی (ایک شاخ ہے) آئی اور کہنے لگی: یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اری چل اور اللہ سے بخشش کی دعا مانگ اور اس کی درگاہ میں توبہ کر۔“ عورت نے کہا: کیا آپ مجھ کو لوٹانا چاہتے ہیں جیسے ماعز ؓکو لوٹایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے کیا ہوا؟“ وہ بولی: میں پیٹ سے ہوں زنا سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو خود؟“ اس نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا ٹھہر۔ جب تک تو جنے۔“  پھر ایک انصاری شخص نے اس کی خبر گیری اپنے ذمہ لی۔ جب وہ جنی تو انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: غامدیہ جن چکی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابھی تو ہم اس کو رجم نہیں کریں گے اور اس کے بچے کو بے دودھ کے نہ چھوڑیں گے۔“ ایک انصاری شخص بولے: یا رسول اللہ! میں بچے کو دودھ پلوا لوں گا تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو رجم کیا۔

ایمان کا تقاضا ہے کہ مومن سے جب کو ئی گناہ سرزد ہوجائے تو وہ بے چین ہوجائے اور جب تک اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی نہ کرالے، اس وقت تک آرام سے نہ بیٹھے۔اگر اس ضمن میں اسے جسمانی سزائیں بھی ملتی ہیں،تو وہ اپنی جان نہ چرائے۔ اس لئے کہ دنیا کی کوئی بھی سزا چاہے وہ جتنی بھی سخت ہو، آخرت کی سزا کاعشر عشیر بھی نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *