دین سے محبت
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
یہ دنیانو روظلمت کی آماجگاہ ہے یہاں روشنی بھی ہے ظلمت بھی ہے۔ کفر وعصیان کی گہری وادیاں بھی ہیں اورایمان واسلام کے سنہر ے باغات بھی۔اللہ تعالیٰ نے دونوں راستے کھول دیئے ہیں اوران کے نفع و نقصان سے انسان کوخبردار کردیا ہے۔نورو ظلمت کے فرق کوواضح کردیاہے اوریہ اعلان بھی کردیاہے کہ مَنْ شَاءَ فَالْیُوْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَالْیَکْفُرْ کہ جوچاہے ایمان لائے اورجو چاہے وہ کفرکرے۔اب یہ انسان کودیکھناہے کہ اللہ کوکیاپسند ہے کس کس چیزسے وہ راضی ہوتاہے اورکون سی چیز اس کی ناراضی کودعوت دیتی ہے۔ اس بات کوسمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انبیاء کرام کی ایک کثیر تعدا د کومبعوث فرمایاجنہوں نے لوگوں کواللہ کی مرضیات کھول کھول کر بتادیا جن لوگوں نے ان کی باتیں مانیں وہ مومن کہلائے اورجنہوں نے انکارکیاوہ کافر کہلائے۔ایمان والوں نے اپنے دین کی حفاظت کے لئے ہرجتن کئے۔ ضرورت پڑی تو گھربار چھوڑ ا، آل واولاد کوچھوڑا،اورجب ضرورت پڑی تو اپنی جان جان آفریں کے سپردکردی لیکن ایمان کی روشنی مل جانے کے بعد کفر کی طرف لوٹ جاناگوارا نہیں کیا۔یہی چیزایک مومن کاشعار اوراس کی پہچان ہونی چاہئے اوریہ چیز اللہ کوبہت زیادہ پسند ہے کہ آدمی اپنے دین سے اس قدرمحبت کرے بلکہ اس کاایساعاشق ہوجائے کہ آگ میں جل جانا اس کو زیادہ پسندہو بہ نسبت ا س کے کہ وہ کفر کواختیا رکرے۔
شیطان انسان کاازلی دشمن ہے اوروہ چاہتاہے کہ انسان رحمٰن کی اطاعت چھوڑ کر عصیان پرآمادہ ہوجائے۔ لیکن اللہ کے نیک بندوں کے سامنے اسے ہمیشہ منھ کی کھانی پڑی ہے۔
حضرت یوسفؑ کے ساتھ جب حالات ایسے پیش آئے کہ چاروں طرف اندھیراہی اندھیر اچھاگیااوراپنے دین کوبچانا مشکل ہوگیاتوبے اختیا ر پکاراٹھے رَبِّی السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّایَدْعُوْنَنِیْ اِلَیْہِ(یوسف ۳۳) اے میرے پروردگا ر قیدخانہ مجھے زیادہ پسند ہے بمقابلہ اس کے جس کی طرف یہ عورتیں مجھے بلارہی ہیں یعنی مجھے جیل کی سختیاں گوارا ہیں لیکن ان لوگوں کے نفسانی مشوروں پرعمل کرناگوارا نہیں۔ مصیبت کومعصیت پر ترجیح دیناصدیقین کاشیوہ ہے اوراپنے تقویٰ وتحمل پربھروسہ نہ رکھنا اورمعصیت کے دواعی واسباب سے بھاگتے رہناسعادت مندوں کا شعارہے۔
حضرت یوسفؑ چونکہ نبی تھے اور نبی سے بڑ امتقی اورمومن کون ہوسکتاہے۔انبیاء کاایمان مشاہدے کاایمان ہوتاہے اس لئے آپؑ نے مصیبتوں کوبرداشت کرنا منظور کیا، جیل کی سختیوں کو برداشت کیا لیکن معصیت کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کیا۔ کمال عبدیت یہ ہے کہ تقویٰ پر بھی ناز و اعتماد اپنی ذات پرنہیں ہے بس اللہ تعالیٰ ہی سے دعا ہے کہ آپ ہی مجھے سنبھالے رکھئے جیساکہ اب تک سنبھالے رکھاہے ورنہ مجھ بشر کے بس میں کہاں کہ ترغیبات کے سا منے ثابت قدم رہ سکوں۔
جب شعیب علیہ السلام کی قوم جبرو تشدد پراتر آئی اور آپؑ کو اورآپؑ کی قوم کو دھمکیاں دینے لگی تو آپ ؑ کا جواب کیا تھا ان آیا ت میں دیکھئے :
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لَنُخْرِجَنَّکَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَکَ مِنْ قَرْیَتِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا قَالَ اَوَ لَوْ کُنَّا کٰرِھِیْنَ(88)قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِکُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰنَا اللّٰہُ مِنْھَا وَ مَا یَکُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْھَآ اِلَّآ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّنَا وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَیْءٍ عَلْمًا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ(٨٩ ۔ سورہ اعراف)
ترجمہ: (تو) اُن کی قوم میں جو لوگ سردار اور بڑے آدمی تھے وہ کہنے لگے کہ شعیبؑ! (یا تو) ہم تمہیں اور جو لوگ تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں اُن کو اپنے شہر سے نکال دیں گے یا تم ہمارے مذہب میں آجاؤ۔ اُنہوں نے کہا خواہ ہم (تمہارے دین سے) بیزار ہی ہوں (تو بھی؟)۔ اگر ہم اس کے بعد کہ اللہ ہمیں اس سے نجات بخش چکا ہے تمہارے مذہب میں لوٹ جائیں تو بیشک ہم نے اللہ پر جھوٹ افتراء باندھا اور ہمیں شایاں نہیں ہے کہ ہم اس میں لوٹ جائیں، ہاں اللہ جو ہمارا رب ہے وہ چاہے تو (ہم مجبور ہیں) ہمارے رب کا علم ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے، ہمارا اللہ ہی پر بھروسا ہے اے اللہ! ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
حضرت شعیب علیہ السلا م کے قول کاحاصل یہ ہو ا کہ جب ہم دلیل کے ساتھ اور علی وجہ البصیرت مذہب جاہلیت کو لغو وباطل سمجھ رہے ہیں اور اس سے ہمارا ذوق اورہماری عقل بے زار ہے تو ہم اسے اختیار کیسے کرلیں، حضرت شعیبؑ فرماتے ہیں کہ اللہ نے ہم پر مذہبی جہالت کی حماقتیں واضح کردیں اورہم پھر اسی کواختیا رکرلیں تو ا س کے معنی تویہ ہوئے کہ ہم قصداً تنزیہ وتوحید باری سے متعلق افترا اوراختراع کرتے رہے۔ (تفسیر ماجدی)
سب سے بڑی دولت ایمان
حقیقت یہ کہ ایک مومن جب ایمان کی دولت سے سرفراز ہوجاتاہے تو اب وہ اپنے ایمان کودنیاکی سب سے بڑی دولت سمجھتاہے اوراس کوکسی بھی قیمت میں چھوڑدیناگوارہ نہیں کرتا۔ چاہے اس کے لئے اپنی جان بھی گنوانی پڑجائے۔ اسلامی تاریخ میں ایسے واقعات کثرت سے موجود ہیں جن سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ایمان والوں نے اپنے دین کی حفاظت کے لئے کس قدر سختیاں جھیلیں اورکن کن مصائب کو برداشت کیا۔
حضرت بلال ؓ نے جب اسلام قبول کرلیا توان کوطرح طرح سے ایذائیں دی جاتی رہیں اور وہ اللہ کی محبت میں ان ایذاؤں کو جھیلتے رہے جس وقت مشرکین ان کو تکلیفیں پہنچاتے اس وقت آپ کی زبان پر اَللّٰہُ اَحَدْ اَللّٰہُ اَحَدْ کے الفاظ جاری رہتے ۔حضرت خباب کو بھی سخت سے سخت ایذائیں دی گئیں لیکن ان کے پایۂ ثبات میں لغزش نہیں آئی۔ حضرت سمیہ ام عمارؓ کومغیرہ کے قبیلے نے سزا دی اور انہیں اسلام چھوڑ کر کفر کی طرف لوٹ جانے کی برابر دعوت دی جاتی رہی لیکن وہ برابر انکار کرتی رہیں حتی کہ انہیں نہایت بے دردی سے سے قتل کردیا گیا۔
فرعون کی بیٹی کی خادمہ کاواقعہ
حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول الہ ﷺ نے فرمایاجب مجھے سیر کرائی گئی تومیرے ساتھ ایک پاکیزہ خوشبو گزری میں نے پوچھا یہ کیسی خوشبو ہے؟ فرشتوں نے کہا یہ خوشبو ہے فرعون کی بیٹی کی کنگھی کرنے والی اوراس کی اولاد کی خوشبو ہے وہ اس کے ساتھ کنگھی کررہی تھی ایک دن کنگھی اس کے ہاتھ سے گرگئی تو اس نے کہاتھابسم اللہ۔
چنانچہ فرعون کی بیٹی نے سنا تو پوچھااللہ سے تیری مراد کون ہے؟ کیامیرا باپ مراد ہے، اس نے جواب دیا نہیں بلکہ وہ جو میرارب ہے ا ورتیرا بھی رب ہے اورتیرے باپ کابھی رب ہے۔ فرعون کی بیٹی نے پوچھا کہ کیامیں اس بات کی خبر اپنے باپ کودے دوں؟ اس نوکرانی نے جواب دیا کہ بالکل آپ اپنے والد کو بتادیں چنانچہ اس نے یہ بات فرعون کو بتادی، فرعون نے ا س خاتون کواس کے بچوں کے ساتھ بلایا اورکہاکہ کیامیرے سوا تیرااور بھی کوئی رب ہے؟ نوکرانی نے جواب دیاجی ہاں میرا اورآپ کابھی رب اللہ ہے۔ میر اخیال ہے کہ آپؐ نے فرمایا اس کے بعد فرعون نے حکم دیااور تانبے کا ایک کڑاہ گرم کیاگیاپھر اس کے بارے میں حکم دیاکہ اس کو گرم کڑاہ میں ڈال دو۔ اس خاتون نے کہا آپ سے مجھے ایک ضرورت ہے فرعون نے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ اس نے کہاکہ وہ یہ ہے کہ میری اورمیرے بچوں کی ہڈیاں اکٹھے دفن کرادینا۔
فرعون نے حامی بھرلی کہ ٹھیک ہے ہم یہ کریں گے اس لئے کہ تیر ا ہمارے اوپر حق ہے۔ چنانچہ ا س کی اولاد لائی گئی ایک ایک کرکے ماں کے سامنے سب کو کڑاہ میں گرادیا گیا۔جب آخری بچہ رہ گیاتووہ چونکہ شیرخوار تھاوہ بولا اے میری ماں تم صبرکرو بے شک تم حق پرہو۔ اس کے بعدوہ اپنے بچے سمیت ڈال دی گئی،رسول اللہ ﷺ نے فرمایاچار لوگوں نے صغر سنی میں کلام کیاتھا ایک یہ بچہ اوریوسف علیہ السلام کاگواہ اورصاحب جریج اورعیسٰی بن مریم علیہ السلام۔(بیہقی فی شعب الایمان)
غور فرمائیں کہ اس خادمہ کاایمان کتنامضبوط تھا کہ اس کے جگر کے ٹکرے ا س کے سامنے ہی جلتی ہوئی کڑاہ میں ڈال دیئے گئے لیکن اس نے اپنے ایمان کو چھوڑناگوارہ نہیں کیا اوریہ قربانی اللہ کو اتنی پسند آئی کہ اپنے محبوب ﷺ کو جب وہ اس کی قبر سے گذر رہے تھے تو اس کی خوشبو پہنچادی۔
ایک صحابئی رسولؐ کی دین سے محبت کا واقعہ
اسی طرح کاایک واقعہ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمیؓ کا بھی ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے روم کی طرف ایک لشکر روانہ فرمایا جن میں عبداللہ بن حذافہؓ بھی تھے۔ رومیوں نے انہیں قید کرلیا او ر اپنے بادشاہ کے پاس لے گئے اور اس سے کہاکہ یہ محمد ﷺ کے ساتھیوں میں سے ہے اس بادشاہ نے ان کے سامنے عیسائیت کی دعوت پیش کی او ر یہ لالچ بھی دیا کہ اگرتم عیسائی ہوگئے تومیں تمہیں اپنے ملک وسلطنت میں شریک کرلوں گا۔ حضرت عبداللہ بن حذافہؓ نے جواب دیا کہ اگر تمہارے پاس جتنی دولت ہے وہ سب اور عرب والوں کے پاس جوکچھ ہے وہ سب بھی مجھے دے دو توبھی میں ایک لمحہ کے لئے ایمان سے نہیں پھرسکتا۔ یہ سن کر بادشاہ نے کہا پھر میں تمہیں قتل کرادوں گا آپؓ نے جواب دیا تمہاری مرضی جوچاہے کرو لیکن میں اپنے دین سے نہیں پھرسکتا۔ چنانچہ اس نے حکم دیا اورآپ کوپھانسی پرلٹکایا گیا پھر اس نے تیر اندازوں کو حکم دیا کہ اس کے ہاتھوں اور پیروں کانشانہ لو۔ تیراندازوں نے نشانہ لیناشروع کیا اوراس درمیان بھی وہ برابر ان کو عیسائیت کی دعوت دیتارہا لیکن حضرت عبد اللہ ابن حذافہؓ برابر انکارکرتے رہے۔ پھربادشاہ نے ان کو پھانسی پرسے اتار نے کاحکم دیا اور ایک بڑے سے دیگ میں پانی گرم کرنے کاحکم دیا جب پانی کھولنے لگاتواس نے دومسلمان قیدیوں کوبلایااور انہیں اس میں ڈال کر ماردیا۔ پھربادشاہ نے آپ ؓ سے کہا کہ تمہا را بھی یہی حال ہوگااگر تم نے عیسائیت اختیارنہ کی۔ آپؓ نے پھر انکا رکیا لہذ ا بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے بھی کھولتے پانی میں ڈال دیاجائے۔ جب وہ لوگ آپ کو لے کر دیگ کی طرف بڑھے تواچانک عبد اللہؓ رونے لگے لوگوں نے بادشاہ کوخبر دی کہ یہ تورورہاہے بادشاہ سمجھاشاید اس کے دل میں اپنے دین سے پھرجانے کاکوئی خیال آیاہے اس نے پھر عیسائیت کی دعوت پیش کی آپؓ نے پھرانکارکیا،اس نے کہا پھر تم روئے کیوں؟ تو آپؓ نے فرمایاکہ میں موت کے ڈر سے نہیں رورہاہوں بلکہ میں تو اس لئے رورہاہوں کہ آج تم مجھے کھولتے ہوئے پانی میں ڈال کرماردوگے کاش میرے پاس اتنی جانیں ہوتیں جتنے میرے بال ہیں تومیں ہر جان کو اسی طرح اللہ کے لئے قربان کردیتا۔آپ کی یہ بات سن کر بادشاہ بہت متاثرہوااوراس نے کہاکہ میں تمہیں چھوڑ دوں گا مگر ایک شرط ہے، وہ یہ کہ تم میرے سرپربوسہ دو۔ حضرت عبد اللہ بن حذافہؓ نے کہا کہ میر ی بھی ایک شرط ہے اگر تم تمام مسلمان قیدیوں کو چھوڑ دینے کاوعدہ کروتومیں تمہارے سر کابوسہ دینے کوتیا رہوں۔ چنانچہ بادشاہ تیار ہوگیااور آپ نے اس کے سر کابوسہ دیا اور تمام قیدیوں کولے کر حضرت عمر فاروقؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔تمام ماجر اسنایا توحضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہرمسلمان پرحق بنتاہے کہ ہرشخص عبد اللہ کے سرکوبوسہ دے اورمیں خود سب سے پہل کرتاہوں اورحضرت عمر ؓ اٹھے ا ور عبداللہ بن حذافہ کے سرکابوسہ دیا۔((بیہقی فی شعب الایمان)
اس طرح کے بہت سارے واقعات کتب تاریخ وسیر میں موجود ہیں جن سے ایمان کی اہمیت اور کفر سے نفرت کے اظہا رکا پتہ چلتاہے۔
ایمان کی حلاوت
یہ کیفیت کب پیداہوتی جب دل میں ایمان کی حلاوت پیدا ہوجاتی ہے اورجس کے دل میں ایمان کی حلاوت اور چاشنی پید اہوجاتی ہے اس کے لئے دنیاوی تکالیف پریشانی کاسبب نہیں بنتے۔وہ دنیاکے تمام خطرات کابآسانی سامنا کرلیتاہے اور مصائب کے پہاڑبھی اس کے سامنے روئی کے گالوں کے مانند ہوجاتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کاارشاد گرامی ہے:
عن انس رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، مَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَهُ اللَّهُ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ”.(بخاری کتاب الایمان۔ باب من کرہ ان یعود فی الکفر کما یکرہ ا ن یلقی فی النار من الایمان۔حدیث نمبر 21)
حضرت انس ؓ سے مر وی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایاجس شخص میں تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کی حلاوت پالے گا، اللہ اور اللہ کے رسول اس کو تمام دنیا سے زیادہ محبوب ہوں۔ جس سے بھی محبت کرے اللہ کے واسطے کرے،کفرو شرک اختیارکرنے میں اس قدر متنفر اوربیزار ہو جس قدر آگ میں ڈالے جانے سے دورا ور متنفر ہوتاہے۔
اس حدیث میں تین چیزوں کا ذکر ہے ایک تو یہ کہ اللہ او ررسول کی محبت دنیاکی تمام چیزوں سے زیادہ ہو اوردوسری یہ کہ اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ جس سے بھی محبت ہو محض اللہ کے لئے ہواورتیسری چیز یہ کہ کفر وشرک سے اتناتنفر ہو جتناکہ آگ میں ڈالے جانے سے تنفر ہوتاہے۔
اللہ اور رسول سے محبت تو ایمان کا لازمی اور بنیادی حصہ ہے اس کے بغیر ایمان کا کوئی تصور ہی نہیں ہوسکتا۔ دوسری چیز بھی اللہ کی محبت میں ہی داخل ہے اس لئے کہ محبوب کی محبت کاتقاضا یہ ہے کہ وہ جس چیز کوپسند کرتاہے وہی محب بھی پسند کرے اور جس چیز سے وہ بغض رکھتاہے اس سے محب بھی بغض رکھے تبھی جاکر حقیقی محبت پائی جائے گی اوراگر اس کے خلا ف ہو اتو محبت ابھی کامل نہیں ہے ا س لئے ایک مومن کے لئے ضروری ہے وہ کسی سے بھی محبت کرے تو محض اللہ ہی کے لئے کرے اوراگرکسی سے بغض رکھے تو صر ف اللہ کے لئے۔ اس لئے الحب للہ اورالبغض للہ ایک مستقل ایمان کا شعبہ ہے۔
تیسری چیز جواس باب سے متعلق ہے وہ یہ کہ آدمی جس طرح آگ میں کود جانا اپنے لئے ناپسند کرتاہے اور جب تک اس کے ہوش و حواس کام کررہے ہیں وہ کبھی بھی آگ میں کود جانا تو دور کی بات ہے اس کے قریب جانا بھی گوار ا نہیں کرسکتاہے۔ بعینہٖ ایک مومن کے دل میں جب ایمان راسخ ہوجاتاہے تووہ کفرسے اس قدرمتنفر اور گریزاں ہوجاتاہے کہ اگر اس کوآگ میں ڈال دیاجائے تونہایت صبر وسکون سے جل جانامنظورکرلیتاہے لیکن کفر وشرک کے اندھے کنویں کے قریب جانابھی پسند نہیں کرتا۔یہ سب اس لئے کہ اس کے اندر ایمان کی حلاوت پیداہوجاتی ہے جس کی وجہ سے مصائب وتکالیف اس کے لئے لذت کاسامان بن جاتے ہیں۔ایمان کی حلاوت وہ چیز ہے جس نے حضرت بلال حبشی کوصبرکاپہاڑ بنادیااورجب ان کوایمان سے ہٹاکرکفر وشرک کی طرف موڑدینے کے لئے طرح طرح کی تکالیف پہنچائی گئیں تو بھی ان کے پایۂثبات میں ذرا بھی لغزش نہیں ہوئی اورآپ کی زبان مبارک پراحد احد کانعرہ ہی بلند ہوتارہا گویامصائب وتکالیف کی تلخیاں ایمان کی حلاوت کے ساتھ اس طرح رَل مل گئی تھیں کہ حلاوت تلخی پرغالب آگئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی موت قریب آئی تولوگ صدمے سے دوچارتھے لیکن آپ ؓ کی زبان مبارک پر خوشی ومسرت سے یہ الفاظ ابل رہے تھے ۔
غَدًا نَّلْقِی الْاَحِبَّہْ مُحَمَّدًا وَحِزْبَہْ
یعنی کل کو میں اپنے دوستوں سے ملوں گا محبوب دوعالم ؐ اور ان کی پوری جماعت سے ملوں گا۔
اسی حلاوت ایمانی کی وجہ سے حضرت عمار ابن یاسرؓ نے دہکتے انگاروں پرلوٹنا گوارہ کیالیکن کلمۂ حق سے پھرجانا گوارہ نہ کیا۔حضرت خبابؓ ابن ارت، حضرت صہیبؓ رومی، حضرت سمیہؓ، حضرت زنیرہؓ،حضرت لبینہؓ اوردیگر صحابۂ کرام وصحابیات جنہوں نے ایمان کی حلاوت کو پالینے کے بعد کفر کی تاریکی کی طرف لوٹ جانا گوارہ نہیں کیا۔اور تمام تر تکالیف کوخوشی ومسرت کے ساتھ برداشت کیا یہ سب ہمارے لئے نمونہ ہیں ۔ اس لئے ہمیں بھی یہ عزم کرنا چاہئے کہ اگر کبھی ایساموقع آجاے کہ کفر کی دلفریبیاں ایمان کو نگل لینے کی کوشش کریں توہم اپنی جان پر کھیل کر بھی اپنے ایمان کی حفاظت کریں گے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان کی حلاوت نصیب فرمائے۔ آمین۔
What i don’t realize is actually how you are now not really much more smartly-appreciated than you may be right now. You are very intelligent. You already know therefore considerably in the case of this subject, produced me personally consider it from so many varied angles. Its like men and women are not involved except it is something to accomplish with Lady gaga! Your own stuffs great. Always deal with it up!