ارتداد کے بڑھتے قدم
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
اج کل ملک میں ارتداد کی ایسی لہر دوڑ گئی ہے کہ امت کےمفکرین بے چین ہوگئے ہیں ۔ فتنۂ ارتداد تو ہر زمانے میں رہا ہے لیکن آج کے دور میں جس رفتار سے یہ فتنہ پھیل رہاہے یہ نہایت تشویشناک ہے۔ ہر زمانے میں دنیا کی تما م تر طاقتیں متحد ہوکر اسلام اور مسلمانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوششیں کرتی رہی ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا نظام ایسا ہے کہ ہر فرعون کے لئے ایک موسیٰ ضرور بھیج دیتےہیں اور اپنے دین کی حفاظت و صیانت کا کام لے لیتےہیں۔ اسلام دین فطرت ہے اور وقوع قیامت تک رہنے والا دین ہے ۔اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ دین کی حفاظت کے ذرائع پیدا کرتے رہیں گے ۔ لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اس وقت اس طوفانی آندھی کو روکنے میں ہمارا کیا رول ہے۔ اس لئے کہ جس دور میں فتنہ پیدا ہوتاہے اس دور کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس فتنہ کو دور کرنے کی اپنی طاقت بھر کوشش کریں ۔ تب جاکر اللہ کی مدد آتی ہے۔ کسی بھی فتنہ کی سرکوبی کے لئے امت کے ایک ایک فرد کو سینہ سپر ہوکر جد و جہد کرنی ہوگی تب جاکر وہ فتنہ ختم ہوسکتاہے یا دب سکتاہے۔ اس فتنہ ارتداد کے پھیلنے اور اس کے فروغ کی وجہ کیا ہے؟ غور کرنے سے چند باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔
ایمان کی کمزوری ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ پیدائشی مسلمان ہیں اور ہم نے ایمان و اسلام کے لئے کوئی کوشش نہیں کی بلکہ اسلامی گھرانے میں پیداہوگئے اور ہمارا نام اسلامی رکھ دیا گیا اس کے علاوہ ہم نے کوئی کوشش نہیں کی ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے جنہیں ایمان کی بنیادی چیزیں معلوم نہیں ہے ۔ نہ تو انہوں نے خود سے اسے سیکھنے کی کوشش کی اور نہ ہی انہیں کوئی بتانے والا ملا۔ جس کی وجہ سے وہ دین کو محض ایک کلچر یا تہذیب سمجھتے ہیں اور ان کی نظر میں دین کچھ مخصوص اعمال کانام ہے جن کو کرلینےکے بعد ان کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے ۔حالانکہ اسلام ایک ایسا نظام حیات ہے جو انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک بلکہ موت کے بعد بھی رہنمائی کرتا ہے ۔ ایک مسلمان جس طرح مسجد میں مسلمان ہوتاہے اسی طرح بازار میں بھی مسلمان ہوتاہے اور جس طرح مسجد میں جاکر وہ عبادت کرتا ہے اسی طرح وہ بازار میں بیٹھ کر بھی عبادت کرسکتاہے ۔ اور جس طرح نماز ،روزہ ، حج اور زکوۃ کی ادائیگی کے لئے کچھ اصول وضوابط ہیں اسی طرح بازار کے اندر کاروبار کرنے کے بھی کچھ اصول وضوابط ہیں جنہیں برت کر انسان اپنی دنیا بھی بناتاہے اورآخرت بھی سنوارتاہے۔ اس لئے ہر فرد مسلم کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ دین کو سیکھے۔ جس طرح وہ کارہائے دنیا کو انجام دینے کے لئے پڑھتالکھتاہے کسی استاد یا ماہر فن کے پاس جاکر اس کاعملی مشق کرتاہے اور جب اسے پورا یقین ہوجاتاہے کہ اب وہ آسانی سے وہ کام کرسکتا ہے اور اس کے لئے غلطی کاامکان کم ہے تب ہی جاکر وہ اس کام کو انجام دیتا ہے اسی طرح دین بھی سیکھنے کی چیز ہے اور اس کا عملی مشق کسی دین کے ماہر کے سامنے کرکے اطمینان حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ماں کی گود کو مکتب اول کہا گیا ہے جہاں بچہ بہت سی چیزیں سیکھتاہے ۔ ا س لئے ماؤوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت کریں ۔ اور اگر خود سے کچھ نہیں کرسکتیں تو کسی سے مدد لے کر اپنے بچوں کی تربیت کا انتظام کریں ۔
تعلیمی نظام : ہمارے یہاں تعلیم کا جونظام ہے وہ بھی اس لائق نہیں کہ وہ ہماری دینی رہنمائی کرسکے۔ خالص دینی ادارے جو مدارس کی شکل میں موجود ہیں وہ تو دین کی خدمت کررہے ہیں اور ان ہی کی وجہ سے دین کی کچھ جھلک ہمارے معاشرے میں نظر آتی ہے ۔ لیکن ان مدارس سے فارغین کی جو تعداد ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ اس کے علاوہ مدارس کے فضلا و فارغین کی جو معاشی حالت ہے اس کو دیکھ کر عام لوگ اپنے بچوں کو ان اداروں میں نہیں بھیجتے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم بچوں کی ایک کثیر تعداد دینی تعلیم سے محروم ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف جن تعلیم گاہوں میں خالص عصری تعلیم ہوتی ہے ان میں مسلمانوں کی تہذیب اور ان کے دینی شعور کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا اور نہ ہی ان اداروں کے نصاب تعلیم میں اسلامی مضامین کے لئے کوئی جگہ ہوتی ہے اس لئے ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے دین کی تعلیم سے محروم ہی نہیں ہوتے بلکہ ان کے ذہن ودماغ پریہ تاثر مضبوط ہو جاتاہے کہ دینی تعلیم کی حیثیت ثانوی درجہ کی ہے اور اس کے لئے اپنے قیمتی اوقات کو فارغ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ چلتے پھرتے دین کے بارے میں ہلکی پھلکی جانکاری حاصل کرلینا کافی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب ان کے سامنے ایک تربیت یافتہ آدمی دین کے خلاف کوئی بات کہتاہے تو نہایت آسانی سے وہ اس کے دام فریب میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور اپنے دین وایمان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔
اس کے لئے مسلمانوں کی پہلی ذمہ داری تو یہ ہے کہ ایسے ادارے کھولیں جن میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کابھی مکمل نظم ہو ۔ بلکہ عصری تعلیم بھی دینی مزاج کے ساتھ حاصل کی جائے۔ اس کے لئے کچھ ادارے تو موجود ہیں جن میں عصری تعلیم بھی اعلیٰ معیار کی ہے اور ان اداروں میں دینی مزاج بھی پایا جاتاہے جس کی وجہ سے بچے عصری علوم کے ساتھ ساتھ دین کی ضروری تعلیم بھی حاصل کرلیتے ہیں ۔ لیکن ایسے ادارے انگلیوں پر گنے جانے کی حد تک ہی ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ اعلیٰ تعلیم گاہیں قائم کرنے کی فکر کریں جن میں ایک طرف تو عصری تعلیم دے کر انہیں دنیا میں اعلیٰ مقام تک پہنچانے کی کوشش کی جائے اور دوسری طرف ان کی تربیت اسلامی ماحول میں ہو تاکہ وہ جہاں بھی جائیں اپنا ایمانی تشخص برقرار رکھ سکیں ۔ اس کے علاوہ جو ادارے دستیاب ہیں ان کو غنیمت جان کر ان اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں اور ان کی حوصلہ افزائی کی کوشش کریں۔
مخلوط تعلیم ۔ اس دور کی سب سے بڑی برائی مخلوط تعلیم ہے جہاں بچے اوربچیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔ ایک درجہ میں روزانہ ایک ساتھ بیٹھتے ہیں تو ظاہر ہے ان کے قلوب آپس میں گھل مل جاتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کی تہذیب وتمدن ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ ایسی حالت میں وہ لوگ جو اسلام اور مسلمانوں کے تشخص کو ختم کردینا چاہتے ہیں وہ نہایت شاطرانہ طریقے سے مسلم بچوں کے ذہن ودماغ پر حاوی ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں دین سے پھیر کر ارتداد کی طرف مائل کردیتے ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ مخلوط تعلیم سے اجتناب برتیں اور اگر کوئی چارہ نظر نہیں آتا تو نہایت چابکدستی سے بچوں کے حالات کاجائزہ لیتے رہیں اسکول کالج میں ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جاتاہے اور ان کے ذہن ودماغ پر کس طرح کی باتیں اثرانداز ہورہی ہیں ۔ ان کا تجزیہ کریں اور اگر کوئی چیز قابل اعتراض ہے تو پہلے دن ہی اس لے اصلاح کی فکر کریں۔
شادی بیاہ میں بے جا اخراجات: اسلام میں نکاح کو نہایت آسان بنایا گیا ہے لیکن ایک مدت سے غیر مسلموں میں رہتے ہوئے بہت سے غیر اسلامی رسم و رواج ہمارے شادی بیاہ میں داخل ہوگئے ہیں جن کی وجہ سے شادی اور خاص طور لڑکیوں کی شادی نہایت مشکل ہوگئی ہے ۔ تلک جہیز ، خواہ مخواہ کے رسم ورواج میں اتنے اخراجات ہوتےہیں کہ عام لوگ تو کیا خواص بھی اچھے خاصے پریشان ہوجاتے ہیں ۔ جس کے نتیجہ میں بہت سی لڑکیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر اسلام دشمن عناصر ان کے ساتھ بغیر کسی لین دین شادی کی پیشکش کردیتے ہیں اور بدلے میں صرف ان کے دین کی تبدیلی چاہتے ہیں ۔ نتیجہ کے طور پر مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادی کے کرنے کے لئے ارتداد کا شکار ہورہی ہیں۔ آج کل ارتداد کی یہی صورت زیادہ پائی جاتی ہے۔
ایسے وقت میں مسلمانوں کے کرنے کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ شادی بیاہ کو آسان بنانے کی کوشش کریں اور امت کو اس فتنہ سے بچانے میں اہم رول اداکریں۔ اپنے بچوں کی شادیاں وقت پر کریں اور معاشرے میں دبے کچلے بچوں اور بچیوں کی شادی کااجتماعی انتظام بھی کریں۔
جان لیں نہ تو یہ کام کسی ایک فرد یا ایک طبقہ کا ہے اور نہ کسی ایک فرد یا طبقہ سے ہونے والا ہے اس کے لئے ہر فرد مسلم کو آگے آنے کی ضرورت ہے ورنہ اللہ کی پکڑ سے کوئی بھی نہیں بچ سکے گا۔