ایمان مجمل

تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَاھُوَ بِاَسْمَائہ وَصِفَاتِہٖ وَ قَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَتَصْدِیْقٌ  بِالْقَلْبِ

میں ایمان لایا اللہ پر جیسا کہ وہ اپنے ناموں اور صفتوں کے ساتھ ہے اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کئے۔ زبان کے اقرار اور دل کی تصدیق کے ساتھ ۔

ایجمان مجمل میں تین باتوں کا اقرار ہے ۔ اول اللہ کے ناموں پر ایمان ، دوم اللہ کی صفات پر ایمان اور سوم اللہ کے تمام احکام کو قبول کرنا۔

ایمان کے لئے ضروری ہے کہ ایمان لانے والا اول تو اللہ تعالیٰ کے وجود کی تصدیق قلب سے کرے اور پھر اللہ کے جتنے نام ہیں ان سب کو سچ اور حق مانے اور ساتھ ہی اس کے تمام صفات پر بھی ایمان لائے  اور اللہ تعالیٰ نے جواحکام اپنے خاص بندوں انبیائے کرام کے حوالے سے انسانیت تک پہونچائے ان  کو قبول کرے۔

قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا جو بھی حکم ہو اس کے سامنے آمنا صدقنا کی صورت بن جائے  اس کے سامنے اپنا سر جھکا دے اور اس میں بے جاتاویل نہ کرے۔ اور اس تصدیق قلبی کے ساتھ زبان سے بھی اس  کااقرار کرے ۔

ایمان کا بنیادی رکن تو یہی ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کے وجود کی تصدیق دل و زبان سے کرے لیکن اس کے ساتھ ایمان کے اور بھی ارکان ہیں جن کا ذکرایمان مفصل میں ہے۔ اور قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے ۔ یعنی اللہ کے ساتھ فرشتوں ، رسولوں ،اللہ کی کتابوں ، اچھے بھلے تقدیر اور مرنے کے بعد اٹھانے جانے پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ اور ان کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ لیکن ایمان مجمل میں صرف اللہ پر ایمان لانے کا بیان ہے ۔ اللہ پر ایمان لانے والا اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں پر ضرور ایمان لائے گا اس لئے کہ یہ بھی اللہ کاحکم ہے اور ایمان مجمل میں اللہ کے تمام احکام قبول کرنے کی دل سے تصدیق کی گئی اور زبان سے اس کا اقرار بھی کیا گیا ہے۔ اس لئے ایمان مجمل میں بھی ساری چیزیں اجمال کے ساتھ آگئیں۔

ایمان مجمل میں چار چیزیں سمجھنے کی ہیں۔

(۱) ایمان کیا ہے۔ (۲) اللہ کون ہے (۳) اللہ کی صفات کیا ہیں (۴) اللہ کے احکام کیا ہیں۔

 ایمان کیا ہے؟

لغت میں ایمان کے معنی امن دینے ، بے خوف کردینے اور تصدیق کرنے کے ہیں۔ایمان کالفظ امن سے مشتق ہے جس کے معنی سکون و اطمینان کے ہیں۔ کسی کی بات پرایمان لانا بھی یہی ہو تا کہ ہم اس کواپنی تکذیب سے مطمئن کردیتے ہیں۔ گویا اس کی امانت و دیانت پرہمیں پوراوثوق واعتماد ہے۔ یہاں تک کہ اگروہ ہماری اَن دیکھی چیزوں کے بارے میں بھی کچھ بتلائے توہم اس کے اعتماد پراس کومان لیں۔

 شرعی اور اصطلاحی  اعتبار سے ایمان تعریف یہ ہے:التَّصْدِیْقُ بِمَا عُلِمَ مُجِیُئ النَّبِیِّ ﷺ بِہٖ ضَرُوْرَۃً، تَفْصِیْلاً فِیْمَا عُلِمَ تَفْصِیْلًا وَاِجْمَالاً فِیْمَا عُلِمَ اِجْمَالاً  یعنی ہر اس چیز کی تصدیق کرنا جس کے بارے میں قطعی طور پریہ معلوم ہوکہ آنحضر ت ﷺ اس کولے کر تشریف لائے ہیں اوریہ بات بدا ہۃً، ضرورۃً معلوم ہو۔ جس کے بارے میں آپ کالانا آپ سے اجمالی طور پرمعلوم ہواس پراجمالی ایمان لا نا اور جس کے بارے میں تفصیلی طور پرمعلوم ہواس پرتفصیلی ایمان لاناضروری ہے۔یعنی ہم اللہ کے وجوداوراس کی وحدانیت کی تصدیق کریں اوراللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی تصدیق کے ساتھ ان سب باتوں کے حق ہونے کا یقین کریں جوآپ کے ذریعہ ہم تک ضروری طور سے پہنچ گئیں۔ ضروری طور سے پہنچنے کامطلب یہ ہے کہ ان کا”دین محمدیؐ“  میں ہونا سب پرروشن اورواضح ہو،مثلا وجود انبیا، کتب سماوی، ملائکہ،جن، آنحضرت  ﷺ کاخاتم النبین (آخری نبی)ہونا،تقدیرالہٰی، عذاب قبر، قیامِ قیامت،فرضیت نماز، روزہ، حج وزکوۃ وغیرہ، غرض ایسی تمام چیزوں پرایمان لاناضروری ہے جن کاعلم ضروری ہم کو حاصل ہوچکا ہے اسی لئے ان کو”ضروریات دین“بھی کہاجاتاہے۔ اوران میں سے کسی ایک کابھی انکار یاتحریفی تاویل اسی طرح کفر ہوگی جس طرح توحید ورسالت کاانکار یاان میں تحریفی تاویل کفر ہے۔

مطلب یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ سے بعض چیزیں تفصیل سے منقول ہیں جیسے نماز، روزہ، زکوۃ اور حج وغیرہ۔یہ اسلام کے ایسے ارکان ہیں کہ ان کاثبوت حضور اقدس ﷺ سے حدِّ تواتر اورعلم ضروری کے مرتبہ تک پہنچ چکا ہے کہ ان میں سے کسی ایک کابھی انکار کرنے والا کافر ہے۔ بعض چیزیں اجما  لًا منقول ہیں جیسے قیامت آنے والی ہے لیکن اس کے وقتِ معیّن کی خبر نہیں دی گئی جیساکہ حدیث جبرئیل اوربہت سی آیات سے ظاہر ہے،اسی طرح عذاب قبر کہ اس کاثبوت بھی تواتر سے ثابت ہے مگر اجمالاً اتنا ثابت ہے کہ عذاب قبر ہوگا، کس کیفیت سے ہوگا؟ اس کی تفصیل حضوراکرم  ﷺ سے ثابت نہیں۔تواب اجمالاًاتنی بات پرایمان لانا ضروری ہے کہ عذاب قبر مستحقین کے لئے ہوگا۔کیفیات کی تفصیل کہ عذاب صرف جسم یاصرف روح یادونوں کو ہوگا،ایمان لانا ضروری نہیں۔بعض امور ایسے ہیں جہاں کچھ تفصیل بھی ہے اوراجمال بھی،وہاں تفصیل پرتفصیلاً، اجمال پراجمالاً ایمان لانا ضروری ہوگامثلا! جملہ انبیا کی نبوت کی حقانیت پرایمان لانا فرض ہے بعض انبیاء کی تفصیل نام بنام آئی ہے اورکچھ انبیاء ایسے بھی ہیں جن کاتفصیلی ذکر نہیں آیا فقط اتنابتلا دیاگیا کہ اوربھی انبیاء مبعوث ہوئے ہیں چنانچہ ارشاد ربانی ہے: مِنْھُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَمِنْھُمْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ (مومن)(بعض ان (پیغمبروں)میں سے وہ ہیں جن کے حالات ہم نے آپ سے بیان کیے ہیں اوربعضے وہ ہیں جن کا ہم نے آپ سے بیان نہیں کیا۔ توجن کے نام کی تٖفصیل آئی ہے مثلا آدم ؑ، نوحؑ،، ابراہیمؑ،موسیٰؑ، اورعیسیٰؑ علیھم الصلوۃو السلام وغیرہ ان پرنام بنام تفصیلًا ایمان لایا جائے گا اورجن کی تفصیل نہیں آئی ان پر اجمالاً کہ جتنے انبیاء علیھم الصلوۃو السلام  مبعوث ہوئے سب کے سب برحق ہیں۔ علی ھٰذا القیاس کتب سماویہ کی تفصیل معلوم نہیں لیکن قرآن مجید، توریت،انجیل اورزبور کاکتب سماویہ ہوناقرآن سے معلوم ہے پس ان کتابوں میں سے ہرایک پر تفصیلاًاورباقی کتب سماویہ پراجما لًا ایمان لاناضروری ہے۔

دین کی اصل بنیاد ایمان وعقیدہ ہی ہے اسی پر ہر چیز کامدار ہے اگرایمان و عقیدہ صحیح ہے اور اس میں کوئی کھوٹ نہیں ہے تو اعمال قابلِ اعتباراور قبولیت کے مستحق ہوں گے بلکہ وہ ایمان میں جلا پیداکرنے اور ایمان کی تکمیل کا سبب بنیں گے۔ اسی لئے علماء محققین نے اعمال کو ایمان کی شاخوں سے تعبیر کیا ہے بلکہ بعض محققین نے ایمان کو روح اور اسلام کو جسم سے تعبیر کیا ہے اور بعض نے ایمان کوحقیقت اور اسلام کو صورت سے تعبیر فرمایاہے۔

ایمان کابنیادی شعبہ لا الٰہ الااللہ کااقرار ہے۔ یہ ایمان کاپہلا زینہ ہے جس کے بغیر ایمان کاتصور نہیں کیاجاسکتا۔ جب تک انسان ایک وحدہٗ لاشریک لہٗ ذات”اللہ“ کی معبودیت اوراپنی عبدیت کااقرار نہ کرلے،ایمان کادعویٰ نہیں کرسکتا۔ اسی لئے لاالٰہ الااللہ کوایمان کاسب سے افضل درجہ قراردیاگیاہے۔ ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ اپنا خالق، مالک، رازق اور ہرہست ونیست کامالک صرف اللہ تعالیٰ ہی کوجانے اور اس میں کسی کوبھی شریک نہ کرے۔کلمہ طیبہ میں اسی بات کااظہا رہے کہ پہلے بندہ دنیاکے تمام معبودانِ باطلہ کی نفی کرتاہے اورپھر اللہ جل جلالہٗ کے معبود ہونے کااثبات کرتاہے۔ اسی کو عقیدۂ توحید سے تعبیر کیاجاتاہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنی صفات میں یکتا وتنہا ماننا اور کسی کوبھی اس میں ذرہ برابر شریک نہ ماننا۔ اسی عقیدۂ توحید پراسلام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے، اگر یہ نہ ہوتو اسلام کی بنیاد قائم نہیں ہوسکتی۔

اللہ کون ہے؟

جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں انہیں یہ معلوم ہے کہ اللہ کون ہے،لیکن جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے،یااللہ کے علاوہ کسی اور معبود کی پرستش کرتے ہیں ان کے سامنے جب اللہ کا ذکر آتاہے تو ان کے ذہن و خیال میں یہ سوال ابھرتاہے کہ اللہ کون ہے۔آئیے ہم قرآن کریم میں تلاش کرتے ہیں کہ اللہ کون ہے؟اس لئے کہ قرآن کریم اللہ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے اور اس سے بہتر اللہ کا تعارف اور اس کی پہچان کسی اور ذریعہ سے نہیں ہو سکتی۔ اسی کتاب کے ذریعہ عرب کے بدؤوں نے اللہ کو پہچانا، اس کی معرفت حاصل کی اور جن معبودوں کو وہ اپنا کارساز سمجھتے تھے ان کو چھوڑ کر معبود حقیقی کی طرف مائل بسجود ہوئے۔قرآن کریم ہمیں اللہ کی معرفت کراتاہے۔سورہ بقرہ آیت نمبر(٢٥٥) میں جسے ہم آیت الکرسی کے نام سے جانتے ہیں اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں:

اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ اَلحَیُّ القَیُّومُ لَا تَاخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَومٌ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الاَرضِ مَن ذَا الَّذِی یَشفَعُ عِندَہٗٓ اِلَّا بِاِذنِہٖ یَعلَمُ مَا بَینَ اَیدِیھِم وَ مَا خَلفَھُم وَ لَا یُحِیطُونَ بِشَیءٍ مِّن عِلمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآءَ وَسِعَ کُرسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ وَ لَا یَؤُدُہٗ حِفظُھُمَا وَ ھُوَ العَلِیُّ الَعَظِیمُ(255 )

ترجمہ:اللہ (وہ ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں، زندہ ہے، ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے، نہ اسے کچھ اونگھ پکڑتی ہے اور نہ کوئی نیند، جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے اسی کا ہے، کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے، جو کچھ ان کے سامنے اور جو ان کے پیچھے ہے و ہ جانتا ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرتے مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین کو سمائے ہوئے ہے اور اسے ان دونوں کی حفاظت نہیں تھکاتی اور وہی سب سے بلند، سب سے بڑا ہے۔

یعنی اللہ کی ذات ازل سے موجود ہے اور ابد تک قائم رہنے والی ہے۔ اس کائنات کی تدبیر وتنظیم میں اسے کسی طرح کی تھکان نہیں آتی جس کی وجہ سے اسے آرام کی ضرورت نہیں۔وہ ذات اس کائنات کے ذرے ذرے کامالک ہے،وہ ذات ہمارے پہلے کی چیزوں کو بھی جاننے والی ہے اور ہمارے بعد آنے والی چیزوں کو بھی جاننے والی ہے، اس کا علم ہر شئی کو محیط ہے اور کسی اور کے بس میں یہ نہیں ہے کہ اس کے علم کااحاطہ کرسکے۔

اللہ اس معبود حقیقی کا نام ہے جس نے اس کائنات کو بغیر کسی نمونے کے بنایا،سجایا او راس کے نظم ونسق کے لئے بہترین تدبیریں کیں۔وہ ذات اپنے آپ میں کامل ہے اسے کسی کے مدد کی ضرورت نہیں وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گااس کا کوئی ہمسر نہیں۔نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی کی اولاد ہے۔

بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ  اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَکُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ وَ ھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۱۰۱)

وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اس کی اولاد کیسے ہو گی، جب کہ اس کی کوئی بیوی نہیں اور اس نے ہر چیز پیدا کی اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔

ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْہُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ وَّکِیْلٌ(١٠٢ )

یہی اللہ تمھارا رب ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔ سو تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔

لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَ ھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَ ھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ(١٠٣ )

اسے نگاہیں نہیں پاتیں اور وہ سب نگاہوں کو پاتا ہے اور وہی نہایت باریک بیں، سب خبر رکھنے والا ہے۔ (سورہ انعام)

اللہ کی ذات ہر چیز کو ابتداءً پید اکرنے والی ہے۔ اسی نے زمین وآسمان کو ایک خاص نہج پر پید اکیا اور ان کو انسان کے لئے مسخر کردیا۔یہ عظیم مخلوقات اگرچہ ذوی العقول میں شامل نہیں ہیں لیکن انہیں بھی اللہ کی عظمت کاادراک حاصل ہے اور وہ اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرتی ہیں۔

اللہ کی صفات کیا ہیں؟

 اللہ کی صفات کا احاطہ تو انسان کے بس میں نہیں کہ ہرایک کو شمار کرسکے بس ہمیں یہ معلوم ہے کہ اللہ قادر مطلق ہے ، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔قرآن کریم میں جو اللہ کے صفاتی نام ہیں ہم ان تمام ناموں کی تصدیق کرتے ہیں اور ان پر ایمان لاتے ہیں اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اس کے بہت سے اچھے نام ہیں ہم ان سب پر بھی ایمان لاتے ہیں ۔

اللہ کے احکام کیا ہیں؟

اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی بھلائی کے لئے ابتدائے آفرینش سے ہی انبیاء کرام کا سلسلہ جاری فرمایا اور ان کےذریعہ اپنے احکامات انسانوں تک پہنچانے کا انتظام کیا ان رسولوں کے ذریعے جو بھی احکام آئے چاہے وہ مامورات میں سے ہوں یا منہیات میں سے ہوں  سب کے سب اللہ کے احکام ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ پچھلی شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں تو ان پر ہمیں عمل نہیں کرنا ہے لیکن ان کی صداقت پر ایمان لانا لازم ہے۔ ہمارے لئے قرآن کریم میں جو احکام بیان کیے گئے وہ سب اور نبی کریم ﷺ نے جو احکامات دیے وہ سب اللہ کے احکام ہیں اور ہمیں ان سب پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ اس لئے کہ نبی کاحکم بعینہٖ اللہ کا حکم ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ )وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (3) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى(٤) سورہ نجم۔  اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔ وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔ مسند احمد  کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا تھا، اسے حفظ کرنے کے لیے لکھ لیا کرتا تھا پس بعض قریشیوں نے مجھے اس سے روکا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں، کبھی کبھی غصے اور غضب میں بھی کچھ فرما دیا کرتے ہیں، چنانچہ میں لکھنے سے رک گیا پھر میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لکھ لیا کرو، اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری زبان سے سوائے حق بات کے اور کوئی کلمہ نہیں نکلتا۔

اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ :وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ(٧سورہ حشر)اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔

ان آیات وروایات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے وہ احکام جو قرآن کریم میں صراحۃ موجود نہیں ہیں وہ بھی اللہ ہی کے حکم ہیں ۔ اس لئے ان سب پر ایمان لانا بھی ضروری ہے ۔

One thought on “ایمان مجمل”
  1. What i don’t understood is if truth be told how you’re now not actually a lot more neatly-favored than you might be now. You are so intelligent. You recognize thus significantly relating to this matter, produced me in my view consider it from numerous various angles. Its like men and women aren’t involved except it is one thing to do with Woman gaga! Your individual stuffs excellent. Always care for it up!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *