روزہ کی حقیقت
مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
صوم کے معنی رک جانے اور روزہ رکھنے کے ہیں۔روزہ رکھنے والاچونکہ ایک متعین مدت تک کھانے پینے اور دیگر مفسدات صوم سے رک جاتاہے اس لئے روزہ کوبھی صوم کہاجاتاہے۔
اصطلاح شر ع میں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک اللہ کے لئے کھانے پینے اورجماع وغیرہ سے رک جانے کوروزہ کہتے ہیں۔ شریعت مطہرہ نے مسلمانوں پر پورے رمضان کاروزہ فرض کیا ہے اوریہ اسلام کے ان پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جن کے بغیر اسلام کاخیمہ کھڑ انہیں ہوسکتا۔ روزہ پچھلی امتوں میں بھی ایک خاص عبادت کی شکل میں موجود تھا اور شریعت محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلوۃ والسلام میں بھی اللہ تعالیٰ نے روزے کوفرض فرمایا ہے ارشاد ربانی ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(١٨٣ ) اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْن(١٨٤ ۔البقرۃ)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے۔تاکہ تم پرہیزگار بنو۔ (روزوں کے دن) گنتی کے چند روز ہیں تو جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کا شمار پورا کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھیں (لیکن رکھیں نہیں) وہ روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلا دیں اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اُس کے حق میں زیادہ اچھا ہے اور اگر سمجھو تو روزہ رکھنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔
اس آیت کریمہ میں اولًا تو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ روزے تمہارے اوپر فرض کئے گئے لیکن ایسانہیں ہے کہ یہ صرف تمہارے ہی اوپر فرض کئے جارہے ہیں بلکہ تم سے پہلے جوامتیں گذر چکی ہیں ان پر بھی روزے فرض کئے گئے تھے اور پھر اس کافائدہ یہ بیان فرمایاکہ ان روزوں کے ذریعے تمہارے اندر تقوی اورپرہیزگاری کی صفت پید اہوگی اور حقیقت ہے کہ روزہ تقویٰ وپرہیز گاری پیداکرنے میں ایک بہت بڑ اسبب اورمحرک ہے اس لئے کہ روزہ قوت شہوانیہ کو توڑ کرنفس کوکمزور کرتاہے اورجب نفس کمزورہوگاتو ظاہر ہے قوت رحمانیہ کوغلبہ حاصل ہوگا جس کے نتیجہ میں عبدیت میں کمال پیداہوگا۔نبی کریمﷺ نے ایسے نوجوانوں کوجونکاح کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ان کے لئے روزہ کو لازم پکڑنے کاحکم دیاہے تاکہ ان کوشہوت اورنفسانی قوتوں پرغلبہ حاصل ہو۔
وعلی الذین یطیقونہ الخ سے یہ پتہ چلتاہے کہ جولوگ روزوں کافدیہ اداکرنے کی طاقت رکھتے ہیں وہ روزوں کا فدیہ اداکردیں تو ان کے ذمہ سے روزہ ساقط ہوجائے گا اگر چہ وہ جسمانی اعتبار سے تندرست ہوں اور روزہ رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔یہ حکم ابتدا میں تھا جب روزے فرض کئے گئے تو جولوگ روزہ رکھنا چاہتے تھے وہ رکھتے اور جو نہیں چاہتے تھے وہ فدیہ دے دیا کرتے تھے لیکن بعد میں یہ حکم صرف مریضوں کے لئے رہ گیا جن کو روزے قضا کرنے کاموقع نہیں ملا۔یا ایسا شخص جو کبر سنی یامرض کی وجہ سے اتنا کمزور ہوگیا ہو کہ روزہ رکھ ہی نہ سکے ایساشخص چاہے مرد ہو یاعورت روزوں کا فدیہ ادا کردے تو ا س کے ذمہ سے روزے ساقط ہو جاتے ہیں۔ بعدمیں جو آیت نازل ہوئی وہ یہ ہے:
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَوَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(١٨٥ ۔البقرۃ)
ترجمہ: رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ہدایت کی اور (حق و باطل میں) فرق کرنے کی واضح دلیلیں ہیں، تو تم میں سے جو اس مہینے میں حاضر ہو وہ اس کا روزہ رکھے اور جو بیمار ہو یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے۔ اللہ تمھارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اورتمھارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا اور تاکہ تم گنتی پوری کرو اور تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو، اس پر جو اس نے تمھیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو۔
اس میں بالکل واضح طور پر یہ حکم دیا گیاہے فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ کہ اس مہینے کو جو پالے وہ روزہ ضرور رکھے لیکن مریضوں کویہاں بھی مستثنیٰ قراردیا گیا ہے اس لئے اس آیت کی وجہ سے پچھلی آیت کاحکم منسوخ ہوگیا۔ آج کل نئے زمانے کے تعلیم یافتہ حضرات قرآن کا ترجمہ پڑھ کر اپنے آ پ کو مجتہد سمجھ بیٹھے ہیں اس لئے یہ وضاحت ضروری سمجھی گئی تاکہ کسی کو اس آیت وَعَلَی الَّذِین یُطِیْقُوْنَہُ الخ سے دھوکہ نہ ہو۔
روزہ کے انوار وبرکات
روزہ ایک اہم عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کے لئے گناہوں سے بچانے کا ایک ذریعہ ہے۔اس سے انسان کو قوت شہوانیہ پر غلبہ حاصل ہوتاہے۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے ان لوگوں کو جو نکاح کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہوں یعنی نان و نفقہ ادا نہیں کرسکتے ہیں انہیں روزے رکھنے کی ہدایت دی ہے۔
حضر ت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی صاحب استطاعت ہو تو اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ نظر کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو بدفعلی سے محفوظ رکھنے کا یہ ذریعہ ہے اور کسی میں نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو تو اسے روزے رکھنے چاہئیں کیونکہ وہ اس کی شہوت کو ختم کر دیتا ہے۔(صحیح بخاری۔ کتاب الصوم۔باب الصوم لمن خاف علی نفسہ عروبۃ)
روزہ ایک ڈھال ہے جو مومن کو شیطان کے وار سے بچاتاہے نیز یہ اللہ تعالیٰ کواتناپسندہے کہ اس کااجر اللہ تعالیٰ بدست خود عطافرمائیں گے اور روزہ داروں سے اللہ تعالیٰ کواتنی محبت ہے کہ بھوک اورمعدہ کے خالی رہنے کی وجہ سے منھ میں جوایک طرح کی بو پیداہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ کے یہاں مشک سے زیادہ ا س کامقام ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ دوزخ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے اس لیے (روزہ دار) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہئے کہ میں روزہ دار ہوں، (یہ الفاظ) دو مرتبہ (کہہ دے) اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے، (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لیے چھوڑ دیتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری۔کتاب الصوم، باب فی فضل الصوم)
روزہ داروں کے لئے خصوصی اعزاز
آج کل مختلف مقامات پرجیسے ایر پورٹ، ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کچھ اعزازی دروازے ہوتے ہیں جن سے خاص لوگ ہی اندر جاتے ہیں عام لوگوں کے جانے کے لئے دوسرے دروازے ہوتے ہیں۔ یہ محض ان بڑے لوگوں کی عزت افزائی کے لئے ہوتاہے۔ اسی طرح اللہ تعالی نے ر وزہ داروں کے اعزاز میں جنت کاایک دروازہ خاص کردیاہے جس کانام باب الریّان ہے جس سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوسکیں گے۔
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریّان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے، ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہو گا، پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہے؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے ان کے سوا اس سے اور کوئی نہیں اندر جانے پائے گا اور جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر اس سے کوئی اندر نہ جا سکے گا۔(صحیح بخاری۔ کتاب الصوم،باب الریان للصائمین)
روزہ صرف بھوکا رہنے کانام نہیں
واضح رہے کہ روزہ صرف دن بھر بھوکے رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ روزہ کاحق یہ ہے کہ تمام منہیات شرعیہ سے کلیۃً اجتناب برتا جائے۔جھوٹ،غیبت،چغلی،گالی گلوج اور فحاشی وغیرہ سے مکمل اجتناب کے ساتھ ساتھ مامورات شرعیہ پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے تب ہی روزہ کے اصل فوائد حاصل ہوں گے۔ورنہ صرف بھوکا رہنے سے کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی وہ مذکورہ فضائل حاصل ہوں گے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔(صحیح بخاری۔ کتاب الصوم۔باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ)
رمضان المبارک کے روزے اوراس مہینہ کی عظمت
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر سال میں ایک مہینہ رمضان کا روزہ فرض فرمایاہے اور اس مہینہ کی خصوصیت قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے کہ یہ مہینہ ایسامبارک مہینہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس اور آخری کتاب قرآن کریم کو اسی مہینہ میں نازل فرمایا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(١٨٥ ۔البقرۃ)
ترجمہ: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے۔ تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو تو چاہئے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (روزے رکھ کر) ان کا شمار پورا کر لے اللہ تعالیٰ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا اور (یہ آسانی کا حکم) اس لئے (دیا گیا ہے) کہ تم روزوں کا شمار پورا کر لو اور اُس احسان کے بدلے کہ اللہ نے تمہیں ہدایت بخشی ہے تم اُس کو بزرگی سے یاد کرو اور اُس کا شکر ادا کیا کرو۔
یہ مہینہ بزرگی او ررحمت کا مہینہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کو شرف بخشا ہے۔اس میں عبادات کادرجہ اللہ تعالیٰ ستر گنا تک بڑھادیتے ہیں۔ شیاطین کو قید فرمادیتے ہیں اور اپنی خاص رحمت کا نزول فرماتے ہیں۔جنت کے دروازے امت محمدیہ علیٰ صاحبہاالصلوۃ والسلام کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رمضان ہوتا ہے تو رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں باندھے جاتے ہیں۔“(صحیح مسلم۔ کتاب الصیام، باب فضل شہر رمضان)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان اور سرکش جنّ زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور اس کا کوئی بھی دروازہ کھلا ہوا نہیں رہتا، جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، اور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں رہتا، منادی پکارتا ہے: اے بھلائی کے چاہنے والے! بھلائی کے کام پہ آگے بڑھ، اور اے برائی کے چاہنے والے! اپنی برائی سے رک جا، اللہ تعالیٰ لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتے ہیں اور یہ (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے۔(سنن ابن ماجہ۔کتاب الصیام،باب ماجاء فی فضل شہر رمضان)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رمضان آیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ مہینہ آ گیا اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس سے محروم رہا وہ ہر طرح کے خیر (بھلائی) سے محروم رہا، اور اس کی بھلائی سے محروم وہی رہے گا جو (واقعی) محروم ہو۔(سنن ابن ماجہ۔کتاب الصیام،باب ماجاء فی فضل شہر رمضان)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے روزہ رکھا، اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔
رمضان المبار ک کامہینہ خاص طور سے امت محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلوۃ والسلام کو عطاکیا گیا ۔اس لئے اس خصوصی نعمت کو ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے ۔۔ عام دنوں میں جو عبادات ہم کرتے ہیں ان میں کچھ اضافہ ہونا چاہئے ۔ اس لئے کہ نہ جانے زندگی کا سفر کہاں ختم ہوجائے اور عمل کرنے کا موقع ختم ہو جائے ۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین