قربانی تقرب الہٰی کا ایک ذریعہ 

تحریر مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
حیات انسانی کا مقصد اللہ کی اطاعت اوراس کاقرب حاصل کرنا ہے۔ یہ تقرب ہی اعلی مراتب کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے اور جس کو قربت کی دولت حاصل ہو جاتی ہے اس پر بخشش اور نوازش کا سلسلہ جاری ہوجاتاہے اسی تقرب کو حاصل کرنے کے لئے انسان اپنی جان ومال کو صرف کرتاہے اللہ کے جو بندے اللہ کے جتنے قریب ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اتنے ہی نوازتے ہیں اور ان کے درجات بلند کرتے ہیں انبیاء کرام اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ قریب رہتے ہیں اور انہیں تقرب کاسب سے اعلی مقام حاصل ہوتاہے، نبی کریم حضر ت محمد ﷺ چونکہ اللہ کے آخری نبی ہیں،امام الانبیا ہیں اور محبوب رب العالمین ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو قربت کا سب اونچامقام عطا فرمایا جہاں تک دیگر انبیاء کی پہنچ نہیں ہوسکتی۔اسی تقرب کاایک اعلی مقام کوثر ہے جو بطور خاص اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کوعطافرمایا ہے۔کوثر ایک نہر ہے جو جنت سے نکلتی ہے اس کے کنارے سونے اور چاندی کے ہیں اور اس کی زمین یاقوت کی ہے اور اس کا پانی سفید برف کی طرح چمکدار اور شہد سے زیادہ شیریں ہے یہ نبی کریم ﷺ کا اعزاز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو یہ نہر عطا فرمایا ہے جوکسی اور نبی کو عطانہیں ہوا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو نماز او رقربانی کاحکم دیا ہے۔فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ (سورہ کوثر۔۲)پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔اس اعزاز کے عطاکرنے کے بعدآ پ کوبطور خاص تلقین کرنا اس بات کی طرف مشارہے کہ نماز اور قربانی کا تقرب الٰہی میں خاص اثر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جہاں رسول اللہ ﷺ کو کوثر عطا کیا تو اس کے شکرانے کے طور پر رسول اللہ ﷺ کو نماز اور قربانی کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس سے ایک نکتہ یہ نکلتاہے کہ کوثر کوقربانی سے خاص تعلق ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی امت ہونے کی حیثیت سے ہر امتی کی خواہش ہوتی ہے کہ قیامت کے دن اسے حوض کوثر کا پانی پینے کو ملے ۔ جولوگ نمازوں کا اہتمام کرتے ہیں اور خلوص دل سے قربانی کرتےہیں امید ہے کہ انہیں قیامت کے دن جام کوثر نصیب ہو ۔ اس لئے ہمیں اپنی قربانی میں اخلاص پید اکرنا کی کوشش کرنی چاہئے ۔تاکہ اللہ کا قرب بھی حاصل ہو اور حوض کوثر کی سیرابی بھی میسر ہو۔
حج بھی تقرب الہی کاایک خاص ذریعہ ہے جس میں اللہ کے لئے بندہ دیوانگی و وارفتگی کے ساتھ اس کے گھرکی زیارت کے لئے جاتاہے اور جب زیارت سے فارغ ہوتاہے تو اس کوبھی قربانی کانذرانہ پیش کرنے کا حکم ہوتاہے۔ارشاد ہے:
لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ وَ یَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ فَکُلُوْا مِنْھَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآءِسَ الْفَقِیْرَ(حج۔٢٨ )
ترجمہ:اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کرلیں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں۔ پس تم آپ بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔
وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآءِرِ اللّٰہِ لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ فَاذْکُرُوااسْمَ اللّٰہِ عَلَیْھَا صَوَآفَّ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا فَکُلُوْا مِنْھَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّکَذٰلِکَ سَخَّرْنٰھَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (٣٦ )حج
ترجمہ:قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں مقرر کر دی ہیں ان میں تمہارے لئے نفع ہے۔ پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں اسے (خود بھی) کھاؤ اور مسکین سوال سے رکنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ، اسی طرح ہم نے چوپایوں کو تمہارے ماتحت کردیا ہے کہ تم شکر گزاری کرو۔
ارکان حج کی ادائیگی کے بعد قربانی کا عمل ایک شکرانہ ہے جواللہ کے لئے پیش کیا جاتا ہے اور اس کے بعد حاجی احرام کھول دیتاہے۔لیکن یہ ظاہر ہے کہ قربانی کے جانوروں میں سے کوئی مادی چیز جیسے گوشت ہڈی یاخون اور بال اللہ کے یہاں نہیں پہونچتے بلکہ دلوں کی نیتیں اور قلبی اخلاص اللہ کے یہاں پہنچتاہے اور اس کی قدر کی جاتی ہے جو اصل میں تمام عبادات کی جڑ اور بنیاد ہے اور اسی پر تقرب الہی کی بنیاد پڑتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَ لَا دِمَآؤُھَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰیکُمْ وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ (٣٧ ۔حج)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ اس کے خون بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ اسی طرح اللہ نے ان جانوروں کو تمہارے لئے مطیع کر دیا ہے کہ تم اس کی رہنمائی کے شکریئے میں اس کی بڑائیاں بیان کرو اور نیک لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔

قربانی کرنے کے بعد اس کاگوشت ، اس کی چربی یہاں تک کے اس بال و کھر بھی قربانی کرنے والا استعمال کرسکتاہے ان میں سے کوئی بھی چیز اللہ تعالیٰ کے یہاں نہیں جاتی بس دلوں کا تقویٰ اللہ کے حضور پہنچتاہے اس لئے جوچیز اللہ کے یہاں پہنچنے والی ہے اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اس لئے کہ اصل قربانی کی روح تو وہی ہے۔ورنہ گوشت تو انسان ہر وقت کھاتا رہتاہے ۔ قربانی میں اگر اخلاص ہوگا تو وہ قربانی اللہ کے حضور قبول ہوگی اور اس سے اللہ کا قرب نصیب ہوگا۔اسی تقرب کو حاصل کرنے کے لئے نبی کریم ﷺ جب حج کے لئے تشریف لے گئے تو آپ نے اپنی طرف سے سواونٹوں کی قربانی پیش کی۔اور دیگر شرکاء کو بھی اپنی طرف سے قربانی کرنے کاحکم فرمایااورجن کے پاس قربانی نہیں تھیں انہیں روزہ رکھنے کاحکم فرمایا۔

عن عبدا للہ بن عمر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: تَمَتَّعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، وَأَهْدَى فَسَاقَ مَعَهُ الْهَدْيَ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَبَدَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ، ثُمَّ أَهَلَّ بِالْحَجِّ وَتَمَتَّعَ النَّاسُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، فَكَانَ مِنَ النَّاسِ مَنْ أَهْدَى فَسَاقَ الْهَدْيَ، وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ يُهْدِ، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، قَالَ لِلنَّاسِ: ” مَنْ كَانَ مِنْكُمْ أَهْدَى، فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَجَّهُ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مِنْكُمْ أَهْدَى، فَلْيَطُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَلْيُقَصِّرْ وَلْيَحْلِلْ، ثُمَّ لِيُهِلَّ بِالْحَجِّ وَلْيُهْدِ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ هَدْيًا فَلْيَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ، وَسَبْعَةً إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ “، وَطَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ، فَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ أَوَّلَ شَيْءٍ، ثُمَّ خَبَّ ثَلَاثَةَ أَطْوَافٍ مِنَ السَّبْعِ وَمَشَى أَرْبَعَةَ أَطْوَافٍ، ثُمَّ رَكَعَ حِينَ قَضَى طَوَافَهُ بِالْبَيْتِ عِنْدَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ فَانْصَرَفَ فَأَتَى الصَّفَا فَطَافَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ سَبْعَةَ أَطْوَافٍ، ثُمَّ لَمْ يَحْلِلْ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ، حَتَّى قَضَى حَجَّهُ وَنَحَرَ هَدْيَهُ يَوْمَ النَّحْرِ وَأَفَاضَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ حَلَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ، وَفَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَهْدَى وَسَاقَ الْهَدْيَ مِنَ النَّاسِ.(صحیح مسلم۔ کتاب الحج،  باب وُجُوبِ الدَّمِ عَلَى الْمُتَمَتِّعِ وَأَنَّهُ إِذَا عَدِمَهُ لَزِمَهُ صَوْمُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ:حدیث نمبر٢٩٨٢ )

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں عمرہ کو حج سے ملا کر تمتع کیا اور قربانی کی، آپ ذوالحلیفہ سے قربانی ساتھ لائے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عمرہ کا تلبیہ کہا، پھر حج کا تلبیہ کہا، اور لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، حج تک عمرہ سے فائدہ اٹھایا (یعنی حج تمتع کیا) بعض لوگوں نے قربانی کی اور وہ قربانی ساتھ لائے تھے، اور بعض قربانی ساتھ نہیں لائے تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: تم میں سے جو قربانی لایا ہے، تو اس کے لیے جو چیز حرام ہو چکی ہے، وہ اس وقت تک حلال نہیں ہو گی، جب تک حج پورا نہ کر لے، اور تم میں سے جو حضرات قربانی نہیں لائے، وہ بیت اللہ، صفا اور مروہ کا طواف کریں، اور بال ترشوا کر احرام ختم کر دیں، پھر حج کا احرام باندھیں، اور قربانی کر لیں، اور جو ہدی کی طاقت نہ رکھتا ہو، وہ تین روزے حج کے دنوں میں رکھ لے، اور سات گھر لوٹ کر رکھ لے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کیا، سب سے پہلے رکن (حجر اسود) کو بوسہ دیا، پھر سات چکروں میں سے تین میں رمل کیا، اور چار چکروں میں عام چال چلے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف مکمل کر لیا، تو مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز ادا کی، پھر سلام پھیر کر چل دئیے، اور صفا پر آ گئے، اور صفا اور مروہ کے سات چکر لگائے، اور جب تک اپنا حج کرنے سے فارغ نہیں ہوئے، تب تک حج سے حرام ہونے والی چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال نہیں ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نحر کے دن (دس ذوالحجہ کو) قربانی کی اور طواف افاضہ کیا، اور طواف افاضہ کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حرام ہونے والی ہر چیز حلال ہو گئی، اور لوگوں میں سے جس نے قربانی کی، اور قربانی ساتھ لایا تھا، اس نے بھی اس طرح کیا، جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔

قربانی سنت خلیلؑ

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کواپناخلیل بنایا اور انہیں اپنی خاص قربت سے نوازنے کے لئے اپنی محبوب ترین شئی بطور قربانی پیش کرنے کاحکم دیا آپ ؑ کے پاس سب سے محبوب آپؑ کے فرزند ارجمند حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام تھے لہذا آپؑ نے بلا پس و پیش کئے اپنی آمادگی کااظہار کیا اور اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربا ن کردینے کے عزم کااظہا رکیا۔ قرآن کریم نے اس کا بہترین نقشہ کھینچا ہے:

وَقَالَ اِِنِّی ذَاھِبٌ اِِلٰی رَبِّی سَیَہْدِیْنِ (٩٩  )رَبِّ ھَبْ لِی مِنْ الصَّالِحِیْنَ (١٠٠ ) فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلاَمٍ حَلِیْمٍ (١٠١ )فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یَابُنَیَّ اِِنِّی اَرَی فِی الْمَنَامِ اَنِّی اَذْبَحُکَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَااَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِی اِِنْ شَآءَ اللّٰہُ مِنْ الصَّابِرِیْنَ (١٠٢ ) فَلَمَّا اَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ (١٠٣ ) وَنَادَیْنَاہُ اَنْ یَّااِِبْرٰھِیْمُ (١٠٤ )قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا اِِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ (١٠٥ )اِِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْبَلاَءُ الْمُبِیْنُ (١٠٦ ) وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ (١٠٧ )وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْآخِرِیْنَ (١٠٨ )سَلاَمٌ عَلٰی اِِبْرٰھِیْمَ (١٠٩ )کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ (١١٠ )اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ (١١١ ) (صافات پ ٢٣ )  

ترجمہ: اور اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میں تو ہجرت کر کے اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں۔ وہ ضرور میری رہنمائی کرے گا۔ اے میرے رب! مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما۔ تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی۔ پھر جب وہ (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے، تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ اباجان! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اور اس نے(باپ نے) اس کو(بیٹے کو) پیشانی کے بل گرا دیا۔ تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم!۔ یقیناً تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا۔ ابراہیم (علیہ السلام) پر سلام ہو۔ ہم نیکو کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ بیشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا۔ 

جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے محبوب بیٹے کو قربان کردینے کا حکم دیا حضرت ابراھیم نے بھی اسی طرح عاشقانہ انداز میں اپنے بیٹے کو قربان کردینے کے عزم کااظہار کیا اور ان کے بس میں جوبھی ذرائع واسباب تھے ان سب کو بروئے کار لاتےہوئے اپنی عزیز از جان کو اللہ کے حضور قربان کردیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قربانی لی نہیں بلکہ اس سے پہلے ان کی قربانی کی قبولیت کااعلان کردیا ۔ اسی طرح ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کردینے کے لئے تیار رہے ۔ اور جب بھی ایسی کوئی نوبت آئے کہ ہمیں کسی چیز کی قربانی دینے کی ضرورت پیش آجائے تو ذراسابھی لیت ولعل سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ بے دریغ اللہ کے لئے قربانی دینے کے لئے تیار ہوجانا چاہئے ۔اگر انسان کے اندر یہ جذبہ پیدا ہوجائے تو اس کو اللہ کی خلت بصورت تقرب نصیب ہوگی ۔

 ابراھیم علیہ السلام کی یہ عاشقانہ انداز سے قربانی پیش کرنااللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آیا کہ اگلی امتوں کے لئے اسے مستقل سنت قرار دے دیا اور اپنے محبوب نبی حضرت محمد ﷺ کو جب کوثر جیسے اعزاز سے نوازا تو آپ کو بطور شکرانہ قربانی کا حکم فرمایا اور نبی کریم ﷺ نے بھی اسے اپنی امت کے لئے سنت فرمایا اور اس کی فضیلتیں بیان فرمائی۔

عن البراء رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ، ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ، مَنْ فَعَلَهُ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا، وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلُ، فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ قَدَّمَهُ لِأَهْلِهِ، لَيْسَ مِنَ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ”، فَقَامَ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ وَقَدْ ذَبَحَ، فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِي جَذَعَةً، فَقَالَ:” اذْبَحْهَا وَلَنْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ” وفی روایۃ  قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاةِ تَمَّ نُسُكُهُ، وَأَصَابَ سُنَّةَ الْمُسْلِمِينَ”.(صحیح بخاری۔کتاب الاضاحی۔باب سنۃ الاضحیۃ:حدیث نمبر٥٥٤٥ )

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج (عید الاضحی کے دن) کی ابتداء ہم نماز (عید) سے کریں گے پھر واپس آ کر قربانی کریں گے جو اس طرح کرے گا وہ ہماری سنت کے مطابق کرے گا لیکن جو شخص (نماز عید سے) پہلے ذبح کرے گا تو اس کی حیثیت صرف گوشت کی ہو گی جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کر لیا ہے قربانی وہ قطعاً بھی نہیں۔ اس پر ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے انہوں نے (نماز عید سے پہلے ہی) ذبح کر لیا تھا اور عرض کیا کہ میرے پاس ایک سال سے کم عمر کا بکرا ہے (کیا اس کی دوبارہ قربانی اب نماز کے بعد کر لوں؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی قربانی کر لو لیکن تمہارے بعد یہ کسی اور کے لیے کافی نہیں ہو گا۔ ایک دوسری روایت میں ہے  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے نماز عید کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہو گی اور اس نے مسلمانوں کی سنت کے مطابق عمل کیا۔

 قربانی زمین پر خون گرنے سے پہلے قبول ہوجاتی ہے

جس طرح ابراھیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے لئے نے اپنے محبوب بیٹے کوقربان کرنے کے لئے تمام تر انتظامات کئے اور چھری چلاڈالی اللہ تعالیٰ نے چھری چلنے سے پہلے آپؑ کی قربانی کی قبولیت کااعلان کردیا با لکل اسی طرح امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کاکوئی فرد جب قربانی کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس قربانی کے خون کوزمین پر گرنے سے پہلے قبول فرمالیتے ہیں اور قربانی کرنے والوں کو اپنا تقرب عطافرماتے ہیں اور وہ گوشت جو اس نے قربانی کرکے حاصل کیا اللہ تعالیٰ اسی کے ذریعہ اس کی ضیافت کاانتظام فرمادیتے ہیں اور یہ حکم فرماتے ہیں کہ خود بھی کھاؤ اور میرے ان بندوں کوبھی اس میں شریک کرو جوصرف اپنی ناداری کی وجہ سے قربانی کرنے سے قاصر ہیں نیز اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں کوبھی اس میزبانی میں شریک کرو۔نبی کریم ﷺ کاارشاد گرامی ہے۔

 عن عائشۃ رضی اللہ عنھا أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ , أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ , إِنَّهَا لَتَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا , وَأَشْعَارِهَا , وَأَظْلَافِهَا , وَأَنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنَ الْأَرْضِ , فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا ” ۔(سنن ترمذی۔کتاب الاضاحی عن رسول اللہ ﷺ۔باب ماجاء فی فضل الاضحیہ: حدیث نمبر١٤٩٣ )

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہانا ہے، قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنی سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیں گے قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے، اس لیے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو“۔

قربانی کے گوشت میں غریبوں کا حق

قربانی تقرب الہی کاذریعہ ہے ۔ قربانی کرنے والا جب اللہ کے نام پر جانور کو ذبح کردیتاہے تو اسے بدلےمیں اللہ کا تقرب حاصل ہوتاہے  اب یہ گوشت اللہ کا ہوگیا اور اصولی اعتبار سے اس گوشت میں قربانی کرنے والے کاکوئی حق نہیں رہنا چاہئے ۔ لیکن یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ اللہ نے وہ گوشت بھی اسی کو دے دیا کہ خود بھی کھاؤ اور میرے بندوں کو بھی کھلاؤ۔ در حقیقت عید کے دن سارے مسلمان اللہ کے مہمان ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی میزبانی قربانی کے گوشت سے کرتے ہیں اور اس میزبانی کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے قربانی کرنے والے کو دے دی ہے اب قربانی کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ اس امانت کاحق ادا کریں اور اس گوشت کو اللہ کے بندوں تک پہنچائیں۔ بلکہ ایک موقع سے تو رسول اللہ ﷺ نے تین دن سے زیادہ قربانی کاگوشت رکھنے سے منع کردیا تھا لیکن پھر بعد میں اجازت دے دی ۔

عَنْ سلمۃ بن الاکوع رضی اللہ عنہ  قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَنْ ضَحَّى مِنْكُمْ فَلَا يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ، وَبَقِيَ فِي بَيْتِهِ مِنْهُ شَيْءٌ”، فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ نَفْعَلُ كَمَا فَعَلْنَا عَامَ الْمَاضِي، قَالَ:” كُلُوا، وَأَطْعِمُوا، وَادَّخِرُوا، فَإِنَّ ذَلِكَ الْعَامَ كَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهَا”.(صحيح البخاري۔كتاب الأضاحي۔ بَابُ مَا يُؤْكَلُ مِنْ لُحُومِ الأَضَاحِيِّ وَمَا يُتَزَوَّدُ مِنْهَا:حدیث نمبر٥٥٦٧)

سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے تم میں سے قربانی کی تو تیسرے دن وہ اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ بھی باقی نہ ہو۔ دوسرے سال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم اس سال بھی وہی کریں جو پچھلے سال کیا تھا۔ (کہ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت بھی نہ رکھیں)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب کھاؤ، کھلاؤ اور جمع کرو۔ پچھلے سال تو چونکہ لوگ تنگی میں مبتلا تھے، اس لیے میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں ان کی مدد کرو۔

بعد میں رسول اللہ ﷺ نے اگرچہ قربانی کاگوشت جمع کرکے رکھنے کی اجازت مرحمت فرمادی ۔ لیکن بہر حال جس مقصد سے آپ ﷺ نے ایک سال تین دن سے زیادہ گوشت رکھنے سے منع فرمایا تھا وہ حالت آج بھی موجود ہے ۔ اس لئے ایسا نہ کریں کہ سارا گوشت جمع کرکے ہی رکھ لیں بلکہ اس میں غریبوں کاحق ضرور نکالیں تاکہ وہ بھی قربانی کے دن گوشت کھالیں اور ان کے دل سے دعائیں نکلیں جوآپ کی قربانی کی قبولیت کاذریعہ بن جائیں۔

بہتر ہے  کہ قربانی کے تین حصے کردیئے جائیں ایک حصہ خود رکھ لے ، ایک حصہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں میں خرچ کردے اور ایک حصہ عام غرباء مساکین تک پہنچادے۔ خیال رہے کہ یہ تقسیم ہر ہر قربانی میں ہونی چاہئے ۔ ایسا نہ ہو کہ بکرے کا گوشت تو خود رکھ لے اور تقسیم کرنے کے لئے بڑے جانور کی قربانی کرے ۔ بلکہ جانور چاہے کوئی بھی ہو قربانی کا گوشت اسی نہج پر تقسیم کرنا چاہئے۔تب حقیقت میں قربانی کامزہ ہے ورنہ خود ہی سب کچھ کھالیا یا جمع کرلیا تو اس سے کیا فائدہ ۔اللہ تعالیٰٰ نے جہاں قربانی کرنے کا حکم دیا ہے وہیں ساتھ میں یہ بھی حکم دیا ہے کہ اس میں سے تم خود بھی کھاؤ اور دوسرےمحتاج لوگوں کو بھی کھلاؤ۔باری تعالی کاارشاد ہے:

وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (سورۃ الحج آیت ٣٦ )
 اور قربانی کے بڑے جانور، ہم نے انھیں تمھارے لیے اللہ کی نشانیوں سے بنایا ہے، تمھارے لیے ان میں بڑی خیر ہے۔ سو ان پر اللہ کا نام لو، اس حال میں کہ گھٹنا بندھے کھڑے ہوں، پھر جب ان کے پہلو گر پڑیں تو ان سے کچھ کھائو اور قناعت کرنے والے کو کھلاؤ اور مانگنے والے کو بھی۔ اسی طرح ہم نے انھیں تمھارے لیے مسخر کر دیا، تاکہ تم شکر کرو۔

اس لئے ہمیں قربانی میں غرباء ومساکین کاحصہ ضرور نکالنا چاہئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *