تاریخ آزادی ہند
آزادی ہند میں مسلمانوں کی نمائندگی
انگریزوں کی ہندوستان آمد
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
اٹھائے کچھ ورق لالے نے ، کچھ نرگس نے ، کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری پڑی ہے داستاں میری
اڑالی قمریوں نے ، طوطیوں نے ، عندلیبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز ِ فغاں میری
پندرہویں صدی عیسوی سے پہلے ہندوستان پوری دنیا میں سونے کی چڑیا مانا جانے والا ملک تھاجس کی شہرت چاروں طرف تھی اسی شہرت کی بنیاد پر واسکو ڈی گاما جو پرپرتگال کارہنے والا تھا چند ملاحوں کے ساتھ ہندوستان کے سفر پر روانہ ہوا اور حادثات سے بچتا بچاتا آخر کار 1498ء میں ہندوستان پہنچا اور ریاست کیرالا کے مشہور شہر مالابار کے ساحلی علاقہ جسے سمندری شہزادی کے نام سے جاناجاتا تھا کالی کٹ میں اپنی تجارت کاآغاز کیا یہ کسی یورپین قوم کی پہلی باضابط آمد تھی جنہوں نے نہایت منصوبہ بند طریقہ سے تجارت کا آغاز کیا اور اس کے ذیل میں اپنی مذہبی تبلیغ کو فروغ دینےکی کوشش کی اور اس راہ میں جو بھی حائل ہوا اس کونہایت بے رحمی سے قتل کردیا ۔
ان پرتگالی لٹیروں کی جزوی کامیابی کو دیکھ کر انگلینڈ کے 101 تاجروں نے آپس میں کچھ سرمایہ جمع کرکے ایک کمپنی بنائی جس کانام ” ایسٹ انڈیا کمپنی” رکھا گیاہندوستان کی طرف روانہ ہوا اور 1601 ء میں ہندوستان پہنچ کر بنگال کو اپنا مرکز بنایا اور دھیرے دھیرے تجارت کی آڑ میں انگریزوں کی آمد شروع ہوئی انگریزوں نے اس تجارت کی آڑ میں اپنی فوجی طاقت ہندوستان میں منتقل کرنا شروع کیا اور مغلیہ دربار میں چاپلوسی اور تجارت کے بہانے سرایت کرگئے اور بادشاہ وقت اورنگزیب عالمگیر سے تجارت کرنے اور اپنے مال کی حفاظت کا پروانہ حاصل کرلیا۔اورنگزیب عالمگیر کی مضبوط حکومت اور سیاسی پکڑکی وجہ سے یہ لوگ زیرزمیں اپنا کام کرتے رہے اور اپنی فوجی طاقت کو مضبوط بناتے رہے لیکن جب 1707ء میں اورنگزیب کی وفات ہوئی اور ملک میں طوائف الملوکی کا دور شروع ہوا تو ہندوستان کی حکومت آپسی چپقلش کی وجہ سے کمزور ہوگئی ۔ اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے اصل منصوبے پر کام کرنا شروع کیا اور ریاست بنگال پر اپنا قبضہ جمانے کی کوشش کرنے لگے جس کا احساس اس وقت بنگال کے نواب سراج الدولہ کو ہو ا اور انہوں نے انگریزوں کی ریشہ دوانیوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی لیکن انگریزوں نے نہایت چالاکی سے نواب سراج الدولہ کی فوجوں میں غدار پید اکرلیا تھا جس کی وجہ سے نہایت قلیل انگریزی فوج نے نواب سراج الدولہ کی فوج کو 23 جون 1757ء پلاسی کی جنگ میں شکست دے دی۔جس کا سہرا میر جعفر کو جاتا ہےجس نے نوابی کے لالچ میں نواب سراج الدولہ سے غداری کی اور انگریزوں سے مل کر اس جنگ میں شکست کاباعث بنا۔ورنہ انگریزی فوج کی تعداد صرف پانچ ہزار تھی اور نواب سراج الدولہ کی فوج پچاس ہزار تھی اس کے ساتھ ہی جدید ہتھیاروں سے لیس بھی تھی لیکن میر جعفر نے نوابی فوج کے توپوں میں پانی بھروادیا تھا اور ہردستہ کے سالار کو غدار بناکر انگریزوں کاحمایتی بنا چکا تھا۔ دوسری طرف اس نے دہلی کے کٹھ پتلی بادشاہ شاہ عالم سے اپنی نوابی کا سرٹیفیکٹ پہلے ہی لکھوا لیا تھا بالآخر نواب سراج الدولہ گرفتا رہوئے اور میر جعفر کے بیٹےمیرن نے انہیں قتل کیا ۔اس جنگ کے بعد انگریزوں کی ہمت بڑھی اور انہوں نے بنگال پرقبضہ کرلیا۔چھوٹے چھوٹے نواب اور جاگیرداروں نے آپسی چپقلش کی وجہ سے خود کو بہت کمزور کرلیا تھا اس لئے مجبوراً انہیں انگریزوں کی ابھرتی ہوئی طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ جنہوں نے مزاحمت کی کوشش کی انہیں ہٹا کر ایسے لوگوں کو جاگیردار اور نواب بنادیا گیا جو انگریزوں کے حمایتی تھے ۔دھیرے دھیرے پورے ہندوستان میں ایسے ہی قبضہ کیا گیا اور 1800ء میں بالآخر انگریزی فوج نے دہلی کا محاصرہ کرلیا ۔ دہلی کی حفاظت کے لئے مرہٹہ فوج تعینات تھی لیکن وہ انگریزی فوج کے مقابلے میں زیادہ دنوں تک نہیں ٹھہر سکی اور 1803ء میں انگریز فاتحانہ دہلی میں داخل ہوگئے ۔اور اس وقت کے بادشاہ شاہ عالم سے یہ معاہد لکھوایا” خلق خدا کی ، ملک بادشاہ سلامت کا، حکم کمپنی بہادر کا” اس کے بعد ہندوستان عملی طور پر انگریزوں کے زیر تسلط آگیا۔
سلطنت خداداد میسور
جس زمانے میں بنگال اور شمالی ہند میں انگریز اپنا تسلط بڑھا رہے تھے، جنوبی ہند میں دو ایسی شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے انگریزوں کے سامنے گھٹنے نہیں اور پوری زندگی انگریزوں کے خلاف ایسی جنگی لڑیں کے ان کے دانت کھٹے ہوگئے۔ جن کے نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ یہ سلطان حیدر علی اور ٹیپوسلطان تھے۔ بنگال اور شمالی ہند میں انگریزوں کو بنگال کی طرف سے کسی سخت مقابلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان کی منظم افواج اور برتر اسلحے کے آگے کوئی نہ ٹھہر سکا لیکن جنوبی ہند میں یہ صورت نہیں تھی۔ یہاں حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے قدم قدم انگریزوں کی جارحانہ کارروائیوں کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے بے مثل سیاسی قابلیت اور تدبر کا ثبوت دیا اور میدان جنگ میں کئی بار انگریزوں کو شکستیں دیں۔ انہوں نے جو مملکت قائم کی اس کو تاریخ میں سلطنت خداداد میسور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سلطان حیدر علی نے 1761ء میں میسور کی سلطنت حاصل کی اور اس کو وسعت دے کر ایک مضبوط سلطنت قائم کی۔ انگریزوں کے خلاف سلطان حیدر علی نے دو جنگیں لڑیں۔ پہلی جنگ میسور1767 تا 1769ء میں حیدر علی نےمدراس کی دیواروں کے نیچے پہنچ کرانگریزوں کو صلح پر مجبور کر دیا۔ دوسری جنگ میسور 1880ء تا 1884ء میں انگریزوں کو کئی بار شکست دی۔ دوسری جنگ میں حیدر علی نے نظام دکن اور مرہٹوںکو ساتھ ملا کر انگریزوں کے خلاف متحدہ محاذ بنایا تھا اور اگر مرہٹے اور نظام ان کے ساتھ غداری نہ کرتے اور عین وقت پر ساتھ نہ چھوڑتے تو کم از کم جنوبی ہند سے حیدر علی انگریزی اقتدار کا خاتمہ کردیتے۔ حیدر علی کی ان کامیابیوں کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس نے فرانسیسیوں کی مدد سے اپنی افواج کو جدید ترین طرز پر منظم کیا اور ان کو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کیا۔
ابھی میسور کی دوسری جنگ جاری تھی کہ حیدر علی کا اچانک انتقال ہو گیا۔ آپ کے بعد آپ کے بیٹے فتح علی ٹیپو جانشیں ہوئے۔ ٹیپو سلطان جب تخت نشین ہوئے تو آپ کی عمر 32 سال تھی۔ آپ ایک تجربہ کار سپہ سالار تھے اور والد کے زمانے میں میسور کی تمام لڑائیوں میں شریک رہ چکے تھے۔حیدر علی کے انتقال کے بعد آپ نے تنہا جنگ جاری رکھی کیونکہ مرہٹے اور نظام دکن انگریزوں کی سازش کا شکار ہو کر اتحاد سے علاحدہ ہو چکے تھے۔ ٹیپو سلطان نے انگریزوں کو کئی شکستیں دیں اور وہ 1784ء میں سلطان سے صلح کرنے پر مجبور ہو گئے۔
ٹیپوسلطان ایک اچھا سپہ سالار ہونے کے علاوہ ایک مصلح بھی تھے۔ سلطان حیدر علی ان پڑھ تھے لیکن ٹیپوسلطان ایک پڑھے لکھے اور دیندار انسان تھے۔نماز پابندی سے پڑھتے تھے اورقرآن پاک کی تلاوت آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔ ٹیپو سلطان نے اپنی ریاست کے عوام کی اخلاقی و معاشرتی خرابیاں دور کرنے کے لیے اصلاحات کیں۔ شراب اور نشہ آور چیزوں پر پابندی لگائی اور شادی بیاہ کے موقع پر ہونے والی فضول رسومات بند کرائیں اور پیری مریدی پر بھی پابندی لگائی۔
ٹیپوسلطان نے ریاست سے زمینداریاں بھی ختم کردی تھیں اور زمین کاشتکاروں کو دے دے تھی جس سے کسانوں کو بہت فائدہ پہنچا۔ ٹیپو سلطان نے کوشش کی کہ ہر چیز ریاست میں تیار ہو اور باہر سے منگوانا نہ پڑے۔ اس مقصد کے لیے آپ نے کئی کارخانے قائم کیے۔ جنگی ہتھیار بھی ریاست میں تیار ہونے لگے۔ آپ کے عہد میں ریاست میں پہلی مرتبہ بینک قائم کیے گئے۔
ان اصلاحات میں اگرچہ مفاد پرستوں کو نقصان پہنچا اور بہت سے لوگ سلطان کے خلاف ہو گئے لیکن عوام کی خوشحالی میں اضافہ ہوا اور ترقی کی رفتار تیز ہو گئی۔
ٹیپو سلطان کے تحت میسور کی یہ ترقی انگریزوں کو بہت ناگوار گزری۔ وہ ٹیپو سلطان کو جنوبی ہند پر اپنے اقتدار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ انگریزوں اور میسور کے درمیان صلح کو مشکل سے چھ سال ہوئے تھے کہ انگریزوں نے معاہدے کو بالائے طاق رکھ کرنظام حیدر آباد اورمرہٹوں کے ساتھ مل کر میسور پر حملہ کر دیا اور اس طرح میسور کی تیسری جنگ 1790ء تا 1792ء کا آغاز ہوا۔ اس متحدہ قوت کا مقابلہ ٹیپو سلطان کے بس میں نہیں تھا، اس لیے دو سال مقابلہ کرنے کے بعد اس کو صلح کرنے اور اپنی نصف ریاست سے دستبردار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔
جنگ میں یہ ناکامی ٹیپوسلطان کے لیے بڑی تکلیف دہ ثابت ہوئی آپ نے ہر قسم کا عیش و آرام ترک کر دیا اور اپنی پوری توجہ انگریزوں کے خطرے سے ملک کو نجات دینے کے طریقے اختیار کرنے پر صرف کردی۔ نظام دکن اورمرہٹوں کی طرف سے وہ مایوس ہو چکےتھے اس لیے آپ نے افغانستان ،ایران اور ترکی تک اپنے سفیر بھیجے اور انگریزوں کے خلاف متحدہ اسلامی محاذ بنانا چاہا لیکن افغانستان کے حکمران زمان شاہ کے علاوہ اور کوئی ٹیپوسلطان سے تعاون کرنے پر تیار نہ ہوا۔ شاہ افغانستان بھی پشاور سے آگے نہ بڑھ سکا۔ انگریزوں نے ایران کو بھڑکا کر افغانستان پر حملہ کرادیا تھا اس لیے زمان شاہ کو واپس کابل جانا پڑا۔ جبکہ عثمانی سلطان سلیم ثالث مصر سے فرانسیسی فاتح نپولین کا قبضہ ختم کرانے میں برطانیہ کی مدد کے باعث انگریزوں کے خلاف ٹیپو سلطان کی مدد نہ کر سکا۔
انگریزوں نے ٹیپو سلطان کے سامنے امن قائم کرنے کے لیے ایسی شرائط پیش کیں جن کو کوئی باعزت حکمران قبول نہیں کر سکتا تھا۔نواب اودھ اور نظام دکن ان شرائط کو تسلیم کرکے انگریزوں کی بالادستی قبول کر چکے تھے لیکن ٹیپوسلطان نے ان شرائط کو رد کر دیا۔ 1799ء میں انگریزوں نے میسور کی چوتھی جنگ چھیڑ دی۔ اس مرتبہ انگریزی فوج کی کمان لارڈو یلیزلی کر رہا تھا جو بعد میں 1815ء میں واٹر لوکی مشہور جنگ میں نپولین کو شکست دینے کے بعدجنرل ولنگٹن کے نام سے مشہور ہوا۔ اس جنگ میں وزیر اعظم میر صادق اور غلام علی اور دوسرے عہدیداروں کی غداری کی وجہ سے سلطان کو شکست ہوئی اور وہ دار الحکومت سرنگا پٹم کے قلعے کے دروازے کے باہر بہادری سے لڑتے ہوئے 4 مئی 1799ء کو یہ کہتے ہوئے شہید ہو گئے ” شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔” انگریزجنرل ہیرس کو سلطان کی موت کی اطلاع ہوئی تو وہ چیخ اٹھا کہ “اب ہندوستان ہمارا ہے”۔ انگریزوں نے گرجوں کے گھنٹے بجا کر اور مذہبی رسوم ادا کرکے سلطان کی شہادت پر مسرت کا اظہار کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے ملازمین کو انعام و اکرام سے نوازا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب ہندوستان میں برطانوی اقتدار مستحکم ہو گیا اور اس کو اب کوئی خطرہ نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال کے بعد اسلامی ہند میں نظام الملک آصف جاہ ، سلطان حیدر علی اورٹیپو سلطان جیسی حیرت انگیز صلاحیت رکھنے والا تیسرا کوئی حکمران نظر نہیں آتا۔ خاص طور پر حیدر علی اور ٹیپو سلطان کو اسلامی تاریخ میں اس لیے بلند مقام حاصل ہے کہ انہوں نے دور زوال میں انگریزوں کا بے مثل شجاعت اور سمجھداری سے مقابلہ کیا۔ یہ دونوں باپ بیٹے دور زوال کے ان حکمرانوں میں سے ہیں جنہوں نے نئی ایجادوں سے فائدہ اٹھایا۔ وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کی اور اپنی مملکت میں فوجی، انتظامی اور سماجی اصلاحات کی ضرورت محسوس کی۔ انہوں نے فرانسیسیوں کی مدد سے اپنی افواج کی جدید انداز پر تنظیم کی جس کی وجہ سے وہ انگریزوں کا 35 سال تک مسلسل مقابلہ کرسکے اور ان کو کئی بار شکستیں دیں۔ یہ کارنامہ اٹھارہویں صدی کے نصف آخر میں کوئی دوسرا حکمران انجام نہیں دے سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر میں انگریزوں کا جتنا کامیاب مقابلہ حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے کیا کسی اور مسلم اور غیر مسلم حکمران نے نہیں کیا۔
انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کی پہلی آواز
نواب سراج الدولہ اور سلطان ٹیپور کی شہادت ،دار الحکومت دہلی پر انگریزوں کے قبضہ اور شاہ وقت شاہ عالم کے گھٹنہ ٹیکنے کے بعد انگریزوں نے اپنی حکومت کو وسعت دینا شروع کیا اور اس راہ میں جو بھی حائل ہونے کی کوشش کرتا اسے راستے سے ہٹانے کے لئے کبھی تو مال دولت اور جاگیر کے حرص میں مبتلا کیا گیا اور کبھی قتل اور قید وبند کی راہ اختیا رکی گئی ۔انگریزوں کے مظالم روز بروز بڑھتے رہے اور سارے امراء ، نواب اور جاگیردار اپنی جھوٹی ریاست کو بچانے کے لئے انگریزوں کے باج گزار بن کررہ گئے اور عوام بے چاری اپنی جان بچانے کے لئے انگریزوں کے خلاف کچھ بولنے کو تیار نہیں تھی ہر طرف ایک مہیب سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ سکھوں اور مرہٹوں نے انگریزی سامراج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ ایسے وقت میں ایک درویش جس نے زمانے کے اونچ نیچ کو اچھی طرح دیکھا اور پرکھا تھا انگریزی حکومت کے خلاف جہاد اور ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا وہ جرأت وہمت کا پتلا اور شجاعت ومردانگی کا بے مثال نمونہ جسے ہم شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے نام سے جانتےہیں انہوں نے نہایت جرأت کے ساتھ انگریزی فوج کے خلاف فتویٰ جاری کیا ۔یہی فتویٰ ہندوستان کی جد وجہد آزادی کا نقطۂ آغاز ہے جس نے پورے ہندوستان میں آگ لگادی اور ہندوستان کا ہر فرد جذبۂ حریت اورآزادی کا شوق لے کر کھڑا ہوگیا۔
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے دو شاگر ایک سید احمد شہید رائے بریلی اور دوسرے شاہ اسماعیل شہید نے پورے ملک میں آزادی کی لہر پید اکی اور انگریزی حکومت کے خلاف جہاد پر بیعت کیا اور نوجوانوں کی ایک جماعت تیار کرکے انگریزوں سے جنگ شروع کردی۔آزادی کے متوالوں کے لئے ایک ایسے مرکز کی ضرورت تھی جہاں سب کی تربیت کا انتظام ہوسکے اور جدو جہد آزادی کی تحریک کو فروغ دیا جاسکے اس کے لئے مجاہدین آزادی نے پشاور کے علاقہ کو منتخب کیا اس وقت لاہور میں سکھوں کی انگریز نواز حکومت تھی اور پشاور اسی کی عملداری میں تھا لہذا پشاور کوحاصل کرنے کے لئے سکھ حکومت سے جنگ لڑنی پڑی اور بالآخر طویل جنگوں کے بعد 1830ء میں پشاور پر قبضہ کرلیا گیا لیکن انگریزی حکومت کو احساس ہوگیا کہ یہ لوگ پورے ہندوستان میں آزادی کی جنگ چھیڑنا چاہتے ہیں اس لئے انہیں پشاور سے نکالنے کی کوشش کی گئی ۔ انگریزوں نے مختلف ہتھکنڈوں کا استعمال کرکے علاقائی سرداروں کو مجاہدین آزادی کے خلاف بھڑکا دیا جس کی وجہ سے اس جماعت کاپشاور میں رہنا مشکل ہوگیا لہذا باہمی مشورے سے پشاور کے بجائے مظفر آبادکو مرکز بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے لئے بالاکوٹ کے پہاڑی راستے سے جانے کا فیصلہ ہو ا لیکن سکھ فوجوں نے ان کاپیچھا نہیں چھوڑا اور راستے میں انہیں گھیرلیا 6 مئی 1831 ء کو بالاکوٹ میں ایک خون ریز جنگ ہوئی جس میں سید احمد شہید ، شاہ اسماعیل شہید اور ان کے رفقاء نے جام شہادت نوش کیا ۔ شاہ عبد العزیز کے فتویٰ کے بعد یہ پہلی باضابطہ جنگ آزادی تھی ۔ اگرچہ اس سے پہلے نواب سراج الدولہ اور شیر میسور سلطان ٹیپو نے انگریزوں کے خلاف زبردست جنگیں لڑکر جام شہادت نوش کیا تھا۔
علماء صادق پور تحریک آزادی کی روح
بالاکوٹ کی جنگ میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی شہادت کے بعد علماء کرام نے جنگ آزادی کو آگے بڑھایا اور ملک کے کونے کونے سے جس کی تحریک شاہ عبد العزیز کے فتوے کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی مجاہدین آزادی سر پرکفن باندھ کر میدان میں اتر آئے اس وقت علماء کرام نے جگہ جگہ آزادی کی شمعیں جلائیں ۔ اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ قوم کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔بالاکوٹ کے سانحہ اور سید احمد شہید کے ساتھ بڑی تعداد میں مجاہدین آزادی کی شہادت سے لوگ افسردہ ضرور ہوئے لیکن جنگ آزادی کو جاری رکھنے کے لئے شیخ محمد پھلتی کو امیر بنایا گیا جو سید صاحب کے رفیق خاص تھے ان کےبعد مولانا نصیر الدین منگلوری اور ان کے بعد مولانا نصیرالدین دہلوی کو امیر بنایا گیا ۔( جب ایمان کی باد بہاری چلی ۔ ص 276)
اس سلسلہ میں علمائے صادق پور کا جذبۂ حریت آزادی ہند کی تاریخ کاایک تابناک باب ہے جسے کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ مولانا ولایت علی جو سید احمد شہید کے متوسلین خاص میں سے تھے صادق پور پٹنہ کے رہنے والے تھے انہوں نے ابتداء ہی سے صادق پور پٹنہ کو مجاہدین آزادی کا مرکز بنا لیا تھا۔وہ سید احمد شہید کے ساتھ بالاکوٹ کے محاذ پر بھی گئے تھے لیکن سید صاحب نے انہیں حیدر آباد روانہ کردیاتھا جس کی وجہ سے وہ بالاکوٹ کی جنگ آزادی میں شریک نہیں ہوسکے اور سید صاحب کی شہادت کے بعد اس تحریک کو آگے بڑھانے میں نمایا ں کردار اداکیا ۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی مولانا ولایت علی اور مولانا عنایت علی کی کی تحریک آزادی کے بارے میں اس طرح لکھتے ہیں:
” یہ پوری تاریخ مہم جوئیوں اور قربانیوں اور ایسے حوادث و مصائب اور ایذا رسانی و بربریت کی داستان ہے، جس کو سن کر رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں، یہ مسلسل جنگوں اور معرکہ آرائیوں کا سلسلہ تھا۔ جو قتل و غارت گری ، املاک و جائیداد کی ضبطی ، طویل مقدمات ، جلا وطنی اور اخراج اور ایسی تحقیق و تفتیش پر مشتمل تھا جو قرون وسطی میں یورپ کی عدالتوں کے ساتھ مخصوص تھا اگر جاں نثاری ، ایثار و قربانی اور ہمت و جوانمردی کے وہ سارے کارنامے جو اس ملک کے جہاد حریت اور قومی آزادی کی تاریخ سے متعلق ہیں ۔ ایک پلرہ پر رکھے جائیں اوراہل صادق پور ( خاندان مولانا ولایت علی عظیم آبادی ) کے کارنامے اور قر بانیاں ایک پلرہ میں تو آخر الذکر کا پلرہ نمایاں طو ر پر بھاری ہوگا۔” (جب ایمان کی بہار آئی۔ ص۔278)
مولانا ولایت علی کے بعد ان کےبھائی مولانا عنایت علی عظیم آبادی نے اس تحریک کی باگ ڈور سنبھالی اور ملک کو آزاد کرانے کے لئے تن من دھن کی بازی لگادی ۔سید احمد شہید نے مولانا عنایت علی کو بنگال میں تحریک کو زندہ کرنے کے بھیجا تھا اور انہوں نے اس تحریک کے ذریعہ بنگال میں جذبۂ حریت کی روح پھونک دی ۔ اس تحریک میں علماء صادق پور کی قربانیاں بھلائی نہیں جاسکتیں جن میں مولانا عنایت علی صادق پوری، مولانا ولایت علی صادق پوری، مولانا عبداللہ صادق پوری، مولانا عبدالکریم عظیم آبادی، مولانا نعمت اللہ ، مولانا احمد اللہ صادق پوری، مولانا عبدالرحیم صادق پوری، مولانا جعفر تھانیسری کے نام آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی نے اس تحریک کے بارے میں لکھا ہے:
” اس تحریک نے بنگال میں شجاعت و بہادری ، اسلامی جوش ، دینی حمیت، زندگی کی بے وقتی ، روح سپہ گری ، راہ خدا میں شہادت کا شوق ، اسلامی اتحاد کاجذبہ ، اور اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت پراپنی مصلحت کو قربان کردینے کاحوصلہ ، اور اصولوں پرثابت قدم رہنے کی طاقت پید اکردی تھی اور اس پرسکون اور امن پسند قوم کوجوشہسواری وسپہ گری اورجہاد وقتال کےمیدان سے بہت دور تھی ، ایک جنگو اور بہادر قوم بنادیا ۔ اور بعض انگریز جنرلوں کونہ صرف یہ اعتراف کرنا پڑ اکہ بنگالی مجاہد شجاعت وبہادری میں افغان سے کسی طرح کم نہ تھا ۔ بلکہ قوت برداشت اور ضرب کاری میں بعض وقت ان سے آگے تھا ، خفیہ پولیس ، سی ، آئی ، ڈی اپنی مسلسل دھمکیوں اور دہشت انگیزی کے باوجود ان بنگالیوں اور ان کی نازک اور دشووار مہم میں حائل نہ ہو سکی۔” ( جب ایمان کی باد بہاری چلی ص279)
مولانا ولایت علی کے خاندان میں جتنے افراد پید اہوئے سب نے جنگ آزادی میں نمایا کردا ادا کیا اور اس کے لئے قید وبند کی صعوبتیں جھیلیں مولانا حکیم عبد الخبیر ہندوستان کے مشہورِ عالم دین تھے۔ مولانا عبد الخبیر کے دادا مولانا احمد اللہ اور نانا مولاناعبد الرحیم کو انگریزوں نے کالا پانی کی سزا دی تھی۔ مولانا احمد للہ نے کالا پانی ہی میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے ۔ مولانا عبد الرحیم اپنی سزا بھگت کر 18 سال بعد رہا ہوئے اور پٹنہ واپس آئے۔ واپس آکر انہوں نے اپنی وہی رَوش دوبارہ اختیار کی اور بالاتفاق تحریک جہاد اندرون ہند کی ذمہ داریاں سنبھالنے لگے۔ 1924ء میں مولانا عبد الرحیم کی وفات ہوئی انہوں نے اپنے نواسے مولانا عبد الخبیر کو اپنا جانشین بنایا۔مولانا عبد الخبیر مشہور مجاہد آزادی تھے۔ اخلاص و للّٰہیت میں اپنے آباء کے وارث تھے۔ تقسیم ہند کے بعد پنڈت جواہر لال نہرو اور مولانا ابو الکلام آزاد پٹنہ میں ان کے مطب میں ان سے ملنے آئے۔ گاندھی جی نے مولانا سے کہا کہ آپ کے آباء و اجداد نے جو قربانیاں دی ہیں وہ نا قابلِ فراموش ہیں ان کا صلہ تو نہیں دیا جا سکتا مگر یہ ایک لاکھ روپے کی رقم ، آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں اسے قبول کیجیے۔ مولانا کا کمالِ استغنا ملاحظہ کیجیے کہ انہوں نے یہ رقم واپس کر دی اور کہا کہ ہمارے آباء و اجداد نے یہ قربانیاں اللہ کی رضا کی خاطر دی تھیں اس لیے میں ان قربانیوں کا کوئی بھی معاوضہ نہیں لے سکتا۔ ایسی بے غرضی و للّٰہیت یقیناً ہمارے لیے ایک روشن مثال ہے۔ ( میگزین الواقعۃ۔ شمارہ 46 ربیع الاول 1437ھ۔از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی)
تحریک آزادی کے بنیادی مرکز صادق پور کے بارے میں مولانا سلمان منصور پوری نے “تحریک آزادی میں مسلم عوام اور علما ء کے کردار ” میں لکھا ہے:
” پٹنہ میں مولانا ولایت علی صاحب کی ہجرت فرمانے کے بعد مولانا فرحت حسین صاحب نگرانی کررہے تھے ۔ لیکن 1858ء میں ان کی وفات ہوگئی تومولانا یحیٰ علی صاحب نے نگرانی کاکام اپنے ذمہ میں لے لیا ۔ مگر 1864ء میں مولانا یحیٰ علی صاحب کو ایک بڑی جماعت کےساتھ گرفتار کرکے جزیرہ انڈمان بھیج دیا پھر جو بھی اس مرکز کانگراں بنا اسے انگریز نے ا نڈمان بھیج دیا تاآنکہ 1868 ء میں مولانا مبارک علی صاحب کی گرفتاری اور پھر وفات پر یہ مرکزی نظام مختل ہوگیا اور سرحد کے مجاہدین سے بھی اس کارابطہ برقرار نہ رہ سکا ۔ اس طرح سرحدی تحریک صرف اپنے علاقہ میں سمٹ کررہ گئی تاہم اس تحریک سےجوجذبات حریت آزاد قبائل میں پید ا ہوگئے تھے وہ بعد کی تحریکات میں معاون ثابت ہوئے چنانچہ تحریک شیخ الہند کامرکز بھی اسی علاقہ کو بنایا گیا ۔اور 1947 ء تک کسی نہ کسی انداز میں وہاں انگریزوں سے چھاپہ مار جنگ جاری رہی ا ور اندرون ملک سےانہیں مالیہ وغیرہ کی فراہمی کی جاتی رہی۔” (ص 45)
١٨٥٧ کی جنگ آزادی
ا١٨٥٧ سے پہلے انگریزی سامراج سے صرف مسلمان ہی بر سرپیکار رہے ١٨٥٧ میں انگریزوں کے خلاف پہلی مسلح جنگ ہوئی جس میں تمام اقوام ہند نے حصہ لیا جسے انگریزوں نے غدر کانام دیا تھا اس کی وجہ ایک تویہ ہوئی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے تمام صوبوں اور کئی ریاستوں کو اپنی عملداری میں شامل کرلیا تھا جس کی وجہ سے ہندوستانی باشندوں کے دلوں میں خدشات پیدا ہونے لگے کہ اب انگریزوں نے پورے ملک کونگل لینے کا فیصلہ کرلیا ہے اور غلامی حقیقی معنوں میں ہماری دہلیز تک آگئی ہے ۔دوسرے یہ بات بھی عام طور پرپھیلنے لگی کہ انگریزی فوج جوکارتوس استعمال کرتی ہے اس میں گائے اور خنزیرکی چربی استعمال کی جاتی ہے ۔ انگریزی فوج میں کچھ دیسی سپاہی بھی تھی ان میں ہندو اور مسلمان دونوں تھے ۔ گائے کی چربی کے استعمال نے ہندوؤں کے جذبات کو مجروح کیا اور خنزیر کی چربی نے مسلمان سپاہیوں کے جذبات کو برانگیختہ کیا۔ اس لئے کہ کارتوس کے استعمال کے لئے انہیں سیفٹی کیچ دانتوں سے ہٹانا پڑتاتھا۔ نتیجہ یہ ہو اکہ یہ دیسی سپاہی انگریز فوج سے بغاوت پر آمادہ ہوگئے اور ان فوجیوں نے ان کارتوسوں کے استعمال سے انکار کردیا نتیجہ کے طور پر انگریزوں نے ان سپاہیوں کی فوجی وردی اتار کر انہیں بیڑیا ں پہنادی اور انہیں قید کردیا ان میں ایسے سپاہی بھی تھے جنہوں نے انگریزوں کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔جن سپاہیوں کو برخاست کیا گیا تھا وہ پورے ملک میں پھیل گئے اور انگریزی حکومت کے خلاف ماحول بنانے لگے ۔ اس سلسلے میں دمدم ، بارک پور ، میرٹھ اور لکھنؤ میں سپاہیوں نے علم بغاوت بلند کیا سپاہیوں کے ایک رجمنٹ کو دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی لیکن دیسی سپاہیوں نے انگریز افسروں کو قتل کرکے ان قیدیوں کو آزاد کرالیا اور دہلی پہنچ کے وہاں کے سپاہیوں کو بھی اپنی صف میں شامل کرلیا اور بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی کا اعلان کردیا۔بہادر شاہ ظفر اس کے لئے ذہنی طور پور تیار نہیں تھے اس لئے کہ باشاہت برائے نام قائم تھی نہ ان کے پاس اتنا خزانہ تھا کہ ان سپاہیوں تنخواہیں اور ان کی ضروریات پوری کرسکیں اور نہ ان کی عمر اس بات کی اجازت دیتی تھی کہ وہ اس طرح کی تحریک کی قیادت کرسکیں۔ ان کی حالت انہی کے ایک شعر سے جھلکتی ہے ۔ ؎
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں، نہ کسی کے دل کاقرار ہوں
جوکسی کے کام نہ آسکے ، میں وہ ایک مشت غبار ہوں
لیکن ان سپاہیوں نے ایسی ضد کی کہ لامحالہ انہیں تیار ہونا پڑا ۔ ظاہر ہے بہادر شاہ ظفر ان سپاہیوں کے قائد نہیں تھے اور نہ ہی وہ ان کی فوج کا حصہ تھے بلکہ ان سپاہیوں نے بہادر شاہ ظفر کو اپنے قابو میں کرلیا تھا اور پھر بہادر شاہ ظفر کے منع کرنےکے باوجود ان سپاہیوں نے عام انگریزوں کو قتل کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ کچھ انگریز عورتیں محل کے اندر پناہ لی ہوئی تھیں انہیں بھی ماردیا گیا ۔ سنہ 1857 کے واقعات پر انتہائی اہم تحقیق کرنے والی معروف تاریخ دان رعنا صفوی بتاتی ہیں:
“11 اور 12 کو جب انھوں نے حملہ کیا اور انگریزوں پر وار کیا تو اس وقت کافی انگریز تو شہر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور کافیوں کو انھوں نے مارا بھی۔ کچھ عورتوں نے قلعے میں آ کر پناہ لی۔ وہیں پر انھوں نے دشمنی میں 56 لوگوں کو مار ڈالا۔ ان میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے جبکہ ان میں ایک دو مرد بھی تھے۔ٗ”
“ان کے مطابق ’بہادر شاہ ظفر کے خلاف جب مقدمہ چلا تو ان کے خلاف سب سے بڑا الزام یہی تھا کہ انھیں آپ نے مروایا۔ حالانکہ ظہیر دہلوی کی کتاب اگر پڑھیے تو پتہ چلتا ہے کہ اس وقت 1857 کے غدر کے وقت قلعے میں موجود عینی شاہدین تھے وہ بتاتے ہیں کہ بادشاہ نے بہت کہا تھا کہ یہ کسی بھی مذہب میں نہیں لکھا ہے کہ تم معصوموں کو مارو۔”( بی بی سی تبصرہ از ریحان فضل 11 مئی 2020ء)
اس جنگ میں کئی ریاستوں نے حصہ لیا ان میں جھانسی کی رانی لکشمی بائی کا نام سر فہرست ہے جنہوں نے انگریزوں کا زبردست مقابلہ کیا لیکن وہ بھی 1857 ء کی جنگ آزادی میں وطن پرقربان ہوگئیں۔
جنرل بخت خان 1857 ء کی جنگ آزادی کا ایک اہم کردار ہے انگریزی فوج میں صوبہ دار تھے۔ بہادر شاہ ظفر کی مدد کےلئے اپنے فوجی دستے سمیت دہلی آئے اور نہایت بےجگری سے انگریزوں کا مقابلہ کیا لیکن بہادر شاہ ظفر کےقلعہ چھوڑدینے کا بعد وہ بھی دہلی سے باہر چلے گئے اور روپوشی کی زندگی گزارنے پرمجبور ہوگئے ۔
کانپور میں نانا صاحب نے علم بغاوت بلند کیا اور ایک فوجی چھاؤنی پر قبضہ کرلیا لیکن یہ قبضہ زیادہ دیر تک باقی نہیں رہا اور انگریزوں نے حملہ کرکے دوبارہ اس چھاؤنی کو حاصل کرلیا۔ نانا صاحب اس کے بعد گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے 1859ء میں نیپال پہنچے جہاں ان کا انتقال ہوگیا۔
حافظ ضامن شہید ،مولانا قاسم نانوتوی ، مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولانا منیر الدین،مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور ان کے رفقا نے شاملی کے میدان میں انگریزوں کا مقابلہ کیا اور 14 ستمبر 1857 کو اسی جنگ میں حافظ ضامن شہید ہوئے ۔ان کی قیادت میں ہزاروں علماء کرام نے شاملی کی جنگ میں شرکت کی اور وطن کی آزادی کے لئے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔
علامہ فضل حق خیر آبادی اور ان کے ساتھی مفتی صدر الدین خان آزردہ، سید کفایت علی کافی اور دیگر بہت سے مسلمان علما نے دہلی کی جامع مسجد سے بیک وقت انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی جاری کیا ۔ جہاد کے اس فتوے پرمفتی صدر الدین خان، مولوی عبد القادر، قاضی فیض اللہ، مولانا فیض احمد بدایونی، وزیر خان اکبر آبادی، سید مبارک حسین رامپوری نے دستخط کیے۔جس کے نتیجے میں مسلمان اس جنگ کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے لڑے۔اس جنگ میں اگرچہ پوری ہندوستانی قوم شامل تھی لیکن مسلمانو ں کا پلرہ بھاری تھا۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے:
“باوجود اس کے کہ یہ جنگ آزادی صحیح معنوں میں عوامی اور قومی تھی اور ہندومسلمان سب ان میں شریک تھے ،اور ہندوستان نے وطن دوستی ، اتحاد اور گرمجوشی اور ولولہ کا ایسا منظر کبھی نہ دیکھا تھا جیسا کہ اس وقت دیکھنے میں آیا پھر بھی قیادت ورہنمائی کے میدان میں مسلمانوں کا پلرہ بھاری تھا ،چنانچہ اکثر قائد مسلمان ہی تھے۔”(ہندوستانی مسلمان۔ ص 158)
1857 کی جنگ آزادی کی تنظیم اس وقت کے انقلابی لیڈروں نے کی تھی اور یہ طے تھا کہ 31 مئی 1857 ء کو بیک وقت پورے ملک میں بغاوت شروع ہوگی لیکن اس سے پہلے ہی سپاہیوں نے بغاوت شروع کردی جس کا سبب ان کارتوسوں کا استعمال تھا جس میں گائے اور خنزیر کی چربی کی ملاوٹ کا شک تھا اس میں منگل پانڈے کا نام سر فہرست ہے جس نے ایک انگریز افسر کو اس وقت گولی مار دی جب اسے کارتوس استعمال کرنے کا حکم دیا گیا اور اس نے نہیں مانا۔نتیجہ کے طور پر اسے پھانسی دے دی گئی ۔اس لئے یہ جنگ وقت سے پہلے پورے ملک میں پھیل گئی اور غیر منظم طور پر اس میں ہندوستانی عوام کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی ، پورا ملک بلا تفریق مذہب جوش وجذبہ سے لبریز تھا وطن کی آزادی کے لئے ہر شخص قربان ہونے کو تیار تھا اور یک بہت بڑی تعداد نے اپنے خون کا نذرانہ بھی پیش کیا لیکن تقریبا دوسال کی مسلسل جنگ کے بعد بھی ناکامی ہی ہاتھ لگی اس کی سب سے بڑی وجہ بہتر قیادت کا فقدان تھا ، دہلی ، لکھنو، شاملی ،کانپور ، میرٹھ اور ملک کے دوسرے شہروں میں انگریزوں کے ساتھ مجاہدین آزادی نےلوہا لینے کی کوشش تو کی لیکن انگریزوں کی فوجی قیادت کی مضبوطی اور ان کی تنظیم کے مقابلے میں کہیں بھی زیادہ دیر تک ٹھہر نہ سکے اور بالآخر شکست کاسامنا کرنا پڑا اور 20 ستمبر 1857 کو لال قلعہ سے مغلیہ سلطنت کی برائے نام حکومت بھی ختم ہوگئی اور لال قلعہ پریونین جیک لہرادیا گیا۔ اس جنگ میں صرف یکطرفہ نقصان ہی نہیں ہو انگریزوں کے بڑے برے افسر اور جنرل اس جنگ میں مارے گئے لیکن ان کے مقابلے ہندوستانیوں کا نقصان کئی گنا زیادہ تھا اور جنگ کے بعد انگریزوں نے بدلے کی آگ بجھانے کے لئے نہایت ہی دردناک سزائیں تجویز کیں لاکھوں ہندوستانیوں کو قتل کیا ، جیلوں میں بند کیا اور جلاوطن کیا۔ ان میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی ۔علماء کی ایک کثیر تعداد کوپھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا اور بہت سے علماء کو زندہ جلادیا گیا ۔اس قتل عام کے متعلق مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:
” یہ ایک قتل عام تھا ، لیکن مسلمان خاص طور سے اس کا نشانہ تھے، اس لئےکہ بہت سے ذمہ دار انگریز یہ سمجھتے تھےکہ یہ اسلامی جہاد تھا اور مسلمان اس بغاوت کےبانی ، قائد اور رہنما ہیں۔ ایک انگریز مصنف (Henry Med) کہتاہے:
” اس سرکشی کوموجودہ مرحلہ میں سپاہیوں کی بغاوت کانام نہیں دیا جاسکتا ،یقینا اس کاآغاز سپاہیوں سےہو الیکن بہت جلد اس کی حقیقت آشکار ہوگئی ، یعنی یہ اسلامی بغاوت تھی ۔”(ہندستانی مسلمان ص 162)
علماء دیوبند کی قربانیاں
1857 ء کی جنگ آزادی کے بعدجو آزادی کے قائدین بچ گئے انہیں یاتو کالے پانی کی طرف بھیج دیا گیا یا انہیں پھانسی کی سزا ہوگئی اور جو لوگ بچ گئے انہوں نے روپوشی کی زندگی اختیار کرلی اس لئے آزادی کی آواز تھوڑ ی مدھم پڑگئی ۔ لیکن اس مدت میں خاموشی کے ساتھ بہت ساری تحریکیں چلیں اور بہت سی انجمنیں اور ادارے قائم ہوئے جنہوں نے آزادی کے شعلہ کو بجھنے نہیں دیا۔1866ء میں داار العلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا تاکہ ہندوستان میں انگریزی سامراج کے ذریعہ پھیلائی جانے والی ذہنی ارتداد کے خلاف رجال کار تیار کئے جائیں ۔ مولانا قاسم نانوتوی کی قیادت میں علمائے دیوبند نے جنگ آزادی میں بھرپور حصہ لیا اور ملک کے آزاد ہونے تک ہر دور میں آزادی کے لئے دار العلوم دیوبند سے افراد تیار کیے جاتے رہے۔مولانا محمود حسن دیوبندی جو شیخ الہند کے نام سے مشہو رہیں اسی دارالعلوم کے روحانی فرز ند ہیں جنہوں نے اپنے شاگردوں کے ذریعہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ افغانستان ، ترکی اور عرب ممالک میں بھی ہندوستان کی آزادی کے لئےراہ ہموار کی ۔ ان کی ایک تحریک جسے انگریزوں نے ریشمی رومال کانام دیا تھا جنگ آزادی کی مشہو ر تحریک ہے یہ ایک خفیہ تحریک تھی جس کا راز اگست 1916 میں فاش ہوگیا اور نتیجہ کے طور پر شیخ الہند کو مکہ مکرمہ سے گرفتار کرلیا گیا اور مالٹا میں تین سال تک بامشقت قید رکھا گیا ۔قید سے رہائی کے بعد ممبئی میں تحریک خلافت کےاجلاس میں جس میں مولانا محمد علی جوہر اور موہن داس کرم چند گاندھی بھی شریک تھے آپ نے خطاب فرمایا۔ خطاب کے اہم نکات یہ تھے :
“(1) حکومتی اعزازات اور القاب واپس کردیئے جائیں (2) حکومت کی کسی نئی کونسل یا کمیٹی میں شرکت نہ کی جائے۔(3) وہی اشیاء استعمال کی جائیں جو ملک میں تیار کی گئی ہوں (4) انگریز کے اسکول اور کالجوں میں بچوں کا داخلہ نہ کرایا جائے ۔ انہی چار نکات کی بنیاد پر جولائی 1920 میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ترک موالات کافتویٰ جاری کردیا۔”(تحریک ریشمی رومال اور شیخ الہند۔ناشر جمعۃ علماء آندھرا پردیش)
شیخ الہندمولانا محمود حسن دیوبندی کو جب گرفتار کر کے انگریز کے حوالہ کیا گیا تو ان کے ہمراہ چار شاگرد ان کے قابل رشک تحریک کے سرگرم اراکین مولانا حسین احمد مدنی ؒ ، مولانا وحید احمد مدنیؒ ، مولانا عزیزگل پیشاوری ؒ اور سید حکیم نصرت حسین مالٹا بھی تھے۔ شیخ الہندمحمود حسن دیوبندی نے کہا انگریزی گورنمنٹ نے مجھ کو تو مجرم سمجھا ہے، تم تو بے قصور ہو اپنی رہائی کی کوششیں کرو تو چاروں نے جواب دیا جان تو چلی جائے گی مگر آپ کی خدمت سے جدا نہیں ہوں گے۔
حسین احمد مدنی جب مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے تو پورا خاندان اور بسا بسایا گھر چھوڑ کر گئے نکلے تھے۔ سفر صرف دو چار دنوں کا تھا مگر تقدیر میں طویل لکھا تھا۔ گرفتار ہوئے مصر کی جانب روانگی ہوئی، سزا ہوئی۔ پھانسی کی خبریں گرم ہوئیں۔ مالٹا کی قید پیش آئی۔ استاد کی قربت اور ان کی پدرانہ شفقت نے ہر مشکل آسان اور قابل برداشت بنادی تھی۔ قیدو بند کی سختیاں صبر و شکر کی ساتھ جھیل رہے تھے۔
ایک دن کئی ہفتوں کی رکی ہوئی ڈاک پہنچی تو ہر خط میں کسی نہ کسی فرد خاندان کی موت کی خبر ملتی۔ اس طرح ایک ہی وقت میں باپ، جواں سال بچی، ہونہار بیٹے، جانثار بیوی، بیمار والدہ اور دو بھائیوں سمیت سات افراد خاندان کی جانکاہ خبر ملی۔ موت بر حق ہے مگر جن حالات میں حسین احمد مدنی کو یہ اطلاعات موصول ہوئیں انہیں برداشت کرنا پہاڑ کے برابر کلیجا چاہیے تھا۔
جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد کل ساڑھے تین سال جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد شیخ الہند اور ان کے تمام ساتھیوں کو جن میں حسین احمد مدنی بھی شامل تھے آخر کار رہائی مل گئی۔ جب گھر سے چلے تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک چھوڑ کر گئے تھے مگر رہائی کے بعد جب اپنے علاقہ پہنچے تو سب کچھ بدلا ہوا تھا۔ خاندان کے افراد کی اموات اور 40 یا 42 برس کی عمر تھی۔ صدمے پہ صدمہ خاندان تھا نہ گھر(آزاد دائرۃ المعارف ویکیپیڈیا)
ترک موالات
1920 ء میں گاندھی جی اور مولاناابوالکلام آزاد نے غیرملکی مال کے بائیکاٹ اورنان کوآپریشن (ترک موالات) کی تجویزپیش کی،یہ بہت کارگرہتھیار تھا، جواس جنگ آزادی اور قومی جدوجہدمیں استعمال کیاگیا، انگریزی حکومت اس کا پورا پورا نوٹس لینے پر مجبورہوئی اوراس کا خطرہ پیدا ہوا کہ پورا ملکی نظام مفلوج ہوجائے اورعام بغاوت پھیل جائے، آثار انگریزی حکومت کے خاتمہ کی کی پیشینگوئی کررہے تھے۔(ہندوستانی مسلمان،ص۱۵۷) اس تحریک کوتحریک عدم تعاون بھی کہا جاتا ہے،
ہندوستان میں ترک موالات کے اعلان کے بعد جس قوم نے سب سے پہلے اس میں حصہ لیا اور سب سے شدید اثر اس تحریک کا قبول کیا وہ مسلمان تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مولانا محمد علی جوہر نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ سے اس تحریک میں شمولیت کی اپیل کی تو باوجود یونیورسٹی سے جذباتی لگاؤ اور جوش و خروش کے مسلمان طلبہ نے انگریزی پروفیسروں کا بائیکاٹ کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یونیورسٹی غیر معینہ عرصے کے لیے بند ہو گئی۔ اس کے مقابلے میں گاندھی جی نے سر توڑ کوشش کی کہ کسی طرح بنارس کی ہندو یونیورسٹی بند ہو جائے مگر مدن موہن مالوہ نے ان کی ایک نہ چلنے دی اور بالآخر انہیں بے نیل ومرام واپس آنا پڑا۔( آزاد دائرۃ المعارف ویکیپیڈیا)
انڈین نیشنل کانگریس میں مسلمانوں کی نمائندگی
انڈین نیشنل کانگریس کا قیام دسمبر1885 میں عمل میں آیا جب ایلن اوکٹیوین ہیوم، دادا بھائی نوروجی، ڈنشا واچا، ومیش چند بونرجی، سریندر ناتھ بینرجی، مونمہن گھوش اور ولیم ویڈربرن
نے اس کی بنیاد رکھی۔ اپنے قیام کے بعد یہ ہندوستان میں برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد کرنے والی ایک اہم جماعت بن گئی اور ہندوستان کی تحریک آزادی کے دوران اس کے ڈیڑھ کروڑ سے زائد اراکین تھے۔ابتداء سے ہی کانگریس میں مسلمانوں کی حصہ داری رہی ہے اور اس کے ذریعہ جتنی بھی تحریکٰیں چلائی گئیں ان میں مسلم علماء و عوام کی ایک خاطر خواہ تعداد موجود رہی ہے ۔مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:
“1884 ء میں انڈین نیشنل کانگرس کا پہلااجلاس منعقد ہو اجس میں ممتاز اہل علم واہل فکر مسلمان بھی شریک تھے ، کانگرس کاچوتھا اجلاس 1887ء میں ہو اجس کی صدارت بدر الدین طیب جی نے کی ، میرہمایوں جاہ اس میں شریک ہوئےا ور کانگرس کےلئے 5 ہزار روپیہ کے عطیہ کا اعلان کیا، اس اجلاس میں مسلمان ذمہ داروں، اہل ثروت ، وکلاء اورتاجروں کی خاصی تعداد نے شرکت کی۔……….آزاد مسلم مفکرین کی ایک بڑی تعدادجن میں سرفہرست علماء دین تھے، کانگرس کی تائید اور سیاسی و قومی تحریکات میں حصہ لینےکی قائل تھی ،ا ور سیاست کومسلمانوں کے لئے ، شجرہ ممنوعہ نہیں سمجھتی تھی ، مولانا محمد صاحب لدھیانوی نے 1888ء میں “نصرۃ الابرار” کے نام سے فتاویٰ کاایک مجموعہ شائع کیا جس میں کانگریس کی حمایت کی دعوت دی گئی تھی ، اس پر نہ صرف ہندوستان کے بڑے بڑے علماء بلکہ مدینہ منورہ اور بغداد کےعلماء کے بھی دستخط تھے، ان علماء میں مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اورمولانالطف اللہ علی گڑھی ؒ بھی شامل تھے ۔ پانچواںسالانہ اجلاس جو 1888ء میں الہ آباد میں ہو ا۔ اس میں بھی بعض ممتاز علماء شریک ہوئے ، اس طرح مسلمان کانگرس کی جدو جہد میں حصہ لیتے رہے، اور اپنےہم وطنوں کے ساتھ مل کر اس بڑےقومی ادارے کی تعمیر وترقی میں مصروف رہے ۔( ہندوستانی مسلمان ص170۔172)
بدر الدین طیب جی ، سید حسن امام، مولانا محمد علی جوہر،مولانا ابوالکلام آزاداور مختار احمد انصاری مختلف ادوار میں انڈین کانگریس کے صدر رہے اور جنگ آزادی میں نہایت سرگرمی سے شامل رہے ۔ 1921 ء میں جب گاندھی جی نے کانگریس کی قیادت سنبھالی اور پورے ملک میں تحریک عدم تعاون ترک موالات شروع کیا تو اس وقت کے تمام مسلم قائدین نے گاندھی جی کے ساتھ حمایت کااعلان کردیا اور ایک طرح سے ساری تحریکات نے مل کر ایک تحریک اختیار کرلی جو کبھی تحریک عدم تعاون کبھی ستیہ گرہ آندولن ،کبھی چنگی نمک مخالف اور آخر میں ہندوستان چھوڑو تحریک کی صورت میں نمودار ہوئی ان تمام ادوار میں مسلمان شانہ بشانہ شریک رہے اور اپنے محبوب وطن کی آزادی میں کسی دوسری قوم سے کبھی بھی پیچھے نہیں رہے بلکہ ہمیشہ نمایا کردار اداکرتے رہے ۔
خان عبدالغفار خان جو سرحدی گاندھی کے نام سے مشہور ہوئے ۔1930ء میں گاندھی جی نے ستیہ گرہ کی تحریک شروع کی تو عبدالغفار خان نے ہزاروں افراد کے ساتھ صوبائی کانگریس کمیٹی کےتحت شاہی باغ پشاور میں کانگریس کے پروگرام “نمک کا قانون توڑنے” میں حصہ لیا۔
مولانا محمد علی جوہرجدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینے کے جرم میں مولانا کی زندگی کا کافی حصہ قید و بند میں بسر ہوا۔تحریک عدم تعاون کی پاداش میں کئی سال جیل میں رہے۔١٩١٩ء کی تحریک خلافت کے بانی آپ ہی تھے۔تحریک ترک موالات میں گاندھی جی کے برابر شریک تھے۔ آپ جنوری1931 میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے انگلستان گئے۔ یہاں آپ نے آزادی وطن کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم انگریز میرے ملک کو آزاد نہ کرو گے تو میں واپس نہیں جاؤں گا اور تمہیں میری قبر بھی یہیں بنانا ہوگی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے لندن یں انتقال فرمایا۔ تدفین کی غرض سے نعش بیت المقدس لے جائی گئی۔
مولانا شوکت علی ابتدائی طور پر انہوں نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی خاطر ہندو-مسلم اتحاد کو مضبوط بنانے کے لیے گاندھی جی کے ہر قدم میں ان کا ساتھ دیا۔ مہاتما گاندھی اور انڈین نیشنل کانگریس کی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے سبب١٩٢١ء سے١٩٢٣ء کے درمیان انہیں جیل رسید کر دیا گیا تھا بعد میں انہوں نے مسلم لیگ کی حمایت شروع کردی۔
مولانا ابوالکلام آزاد گاندھیائی طرز زندگی اور ان کے امن پسندی، بقائے باہمی ہم آہنگی، رواداری اور عدم تشدد کے اصولوں کے حامی تھے،اور انہوں نے ہر موقع پر گاندھی جی کا ساتھ دیا اور جنگ آزادی کی تحریک میں شریک رہے۔
گاندھی جی کی ستیہ گرہ تحریک جو عدم تشدد کے اصولوں پر قائم کی گئی تھی اس میں ہندومسلمان سب ہی شریک تھے اور دھیرے دھیرے اس تحریک نے اتنا زور پکڑا کہ انگریزوں کو ہندوستان پر حکومت کرنا مشکل ہوگیا ۔بالاآخر انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا اور 15 اگست 1947 کو لال قلعہ کے لاہوری گیٹ پر پنڈت جواہر لال نہرو نے ترنگا لہراکر ہندوستان کی آزادی کا اعلان کیا۔
بہت خوب