فتنوں کا دور اور دین سے بے زاری
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
قیامت سے پہلے فتنوں سے متعلق ایک طویل حدیث امام طبرانی نے معجم الکبیر میں نقل کی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے مختلف قسم کے فتنوں سے متعلق نشاندہی فرمائی ہے اور یہ فتنے آج کے دور میں جابجا نظر آرہے ہیں۔ موجودہ دور کا بہ نظر غائر مطالعہ اور رسول اللہ کی پیشین گوئی کو مد نظر رکھ کر دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ آپ ﷺ نے جن جن چیزوں کی پیشین گوئی فرمائی وہ بالکل من وعن پوری ہوتی نظر آرہی ہے۔ذیل میں وہ حدیث نقل کی جارہی ہے:
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ َ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللہِ، ھَلْ لِلسَّاعَۃِ مِنْ عِلْمٍ تُعْرَفُ بِہِ السَّاعَۃُ؟ فَقَالَ لِی: یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ لِلسَّاعَۃِ اَعْلَامًا وَإِنَّ لِلسَّاعَۃِ اَشْرَاطًا۔ اَلَا، وَإِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ یَکُوْنَ الْوَلَدُ غَیْضًا وَاَنْ یَکُوْنَ الْمَطْرُ قَیْظًا وَاَنْ تَفِیْضَ الاَشْرَارُ فَیْضًا،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ یُصَدَّقَ الْکَاذِبُ وَاَنْ یُکَذَّبَ الصَّادِقُ، یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ یُؤْتَمَنَ الْخَاءِنُ وَاَنْ یُخَوَّنَ الاَمِیْنُ، یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ تُوَاصَلَ الاَطْبَاقُ وَاَنْ تَقَاطَعَ الاَرْحَامُ، یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ یَسُوْدَ کُلَّ قَبِیْلَۃٍ مُنَافِقُوْھَا وَکُلَّ سُوْقٍ فُجَّارُھَا،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ تُزَخْرَفَ الْمَسَاجِدُ وَاَنْ تُخَرَّبَ الْقُلُوْبُ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ یَکُوْنَ الْمُوْمِنُ فِی الْقَبِیْلَۃِ اَذَلَّ مِنَ النَّقْدِ، یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ یَکْتَفِیَ الرِّجَالُ بِالرِّجَالِ وَالنِّسَاءُ بِالنِّسَاءِ، یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ تَکْثُفَ الْمَسَاجِدُ وَاَنْ تَعْلُوَ الْمَنَابِرُ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ یُعْمَرَ خَرَابُ الدُّنْیَا وَیُخْرَبُ عِمْرَانُھَا،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ تَظْہَرَ الْمَعَازِفُ وَتُشْرَبَ الْخُمُوْرِ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا شُرْبَ الْخُمُوْرِ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَلشُّرَطُ وَالْغَمَّازُوْنَ وَاللَّمَّازُوْنَ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ یَکْثُرَ اَوْلَادُ الزِّنَی۔(المعجم الکبیر للطبرانی جلد۰۱ ص۳۸۔۲۸۲ حدیث نمبر۶۵۵۰۱ مکتبہ ابن تیمیہ قاہرہ)
”حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا کوئی علم ایسا بھی ہے جس سے قربِ قیامت کے بارے میں جانا جا سکے؟ آپﷺ نے فرمایا: اے ابنِ مسعود! بے شک قیامت کے کچھ آثار و علامات ہیں وہ یہ کہ اولادغم و غصہ کا باعث ہو گی، بارش کے باوجود گرمی ہو گی اور بدکاروں کا طوفان برپا ہوگا۔’اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ خیانت کرنے والے کو امین اور امین کو خیانت کرنے والا بتلایا جائے گا۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ بیگانوں سے تعلق جوڑا جائے گا اور خونی رشتوں سے توڑا جائے گا۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ ہر قبیلے کی قیادت اس کے منافقوں کے ہاتھوں میں ہوگی اور ہر بازار کی قیادت اس کے بدمعاشوں کے ہاتھ میں ہو گی۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مساجد سجائی جائیں گی اور دل ویران ہوں گے۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مومن اپنے قبیلہ میں بھیڑ بکری سے زیادہ حقیر سمجھا جائے گا۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مرد، مردوں سے اور عورتیں، عورتوں سے جنسی تعلق استوار کریں گی۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مسجدیں بہت زیادہ ہوں گی اور اْن کے منبر عالی شان ہوں گے۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ دنیا کے ویرانوں کو آباد اور آبادیوں کو ویران کیا جائے گا۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ گانے بجانے کا سامان عام ہوگا اور شراب نوشی کا دور دورہ ہوگا۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مختلف اَقسام کی شرابیں پی جائیں گی۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ پولیس والوں، چغلی کرنے والوں اور طعنہ بازوں کی بہتات ہوگی۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ ناجائز بچوں کی ولادت کثرت سے ہوگی۔“
مذکورہ بالا حدیث میں جتنی چیزوں کا تذکرہ ہے وہ سب کی سب موجودہ دور میں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔اولاد اس قدر نافرمان ہوتی جارہی ہے کہ ماں باپ ان کو دیکھتے ہیں غم وغصہ سے بھر جاتے ہیں۔بارش ہوتی ہے لیکن گرمی بھی ویسی ہی شدید ہوتی ہے،بدکاری کا طوفان تو ایسا برپا ہے کہ نیک لوگ نیکی کرنے سے جھجکتے ہیں۔آج کل عدالتوں کا منظر دیکھیں تو طاقت اور دولت کے زور پر جھوٹے اور مکار قسم کے لوگ ہرمقدمہ جیت جاتے ہیں اور سچے لوگ چیختے چلاتے رہ جاتے ہیں لیکن کوئی ان کی بات سننے والا نہیں۔جولوگ امانت داری کا حق اداکرنے والے ہیں ان پر طرح طرح کے الزامات لگاکر انہیں برطرف کردیا جاتاہے اور خائنوں کو اعلیٰ عہدے اور مناصب عطا کئے جاتے ہیں۔گھریلو اور خاندانی معاملات کودیکھا جائے تو باہر کے دوست واحباب کی جتنی توقیر اور عزت افزائی کی جاتی ہے اتنی اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں اور دیگر رشتہ داروں کی نہیں کی جاتی۔ بھائی بھائی کا دشمن ہے لیکن غیروں کے ساتھ اس کے دوستانہ مراسم ہیں۔گاوؤں، قصبوں، شہروں، محلوں، بازاروں کے حالات اور ان پر کنٹرول رکھنے والے لوگوں کو دیکھیں یہ سب ایسے لوگ ہیں جن کا دین و ایمان سے کوئی واسطہ نہیں۔مسجدوں سے متعلق احادیث گذر چکی ہیں کہ جتنی دولت مسجدوں کی تزئین و آرائش پر خرچ کی جاتی ہے اتنی مسجدوں کی آبادکاری پر توجہ نہیں دی جاتی۔نیک لوگ اپنے محلے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھے جاتے، ان کو حقارت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ہم جنس پرستی کا ایک سیلاب اٹھ رہا ہے بلکہ بعض جگہوں پر تو اسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہے۔بستیوں کو چھوڑ کر لوگ جنگلوں، سمندری جزیروں میں گھربنانے کے لئے کوشاں ہیں بلکہ بعض لوگ تو دنیا چھوڑ کر چاند پر گھر بنانے کے فراق میں ہیں۔گانے بجانے کا سامان تو اتنا عام ہوگیاکہ ہر شخص کے جیب میں دنیا بھرکی موسیقی اور گانوں کو سننے کا آلہ موبائل کی صورت میں موجود ہے۔شراب کے مختلف اقسام موجود ہیں۔ غیبت اور چغلی تو ایسی عام چیز ہوگئی ہے کہ لوگ اس کو برائی میں شمار ہی نہیں کرتے۔ناجائز تعلقات پیداکرنا آسان ہوگیا ہے اور شادی کرنا مشکل ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ناجائز بچوں کی پیدائش کثر ت سے ہونے لگی ہے۔یہ سب علامات قیامت کی ہیں جنہیں وقت سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے امت کو بتادیا تھا اور آج وہ ساری چیزیں ہوتی نظر آرہی ہیں۔ ضرورت ہے کہ امت اس سے عبرت حاصل کرے۔
دین سے بیزاری
الحاد و لادینیت اور دین سے بے زاری عام ہوتی جارہی ہے۔جدید تعلیم یافتہ حضرات جنہیں دینی تعلیم سے کوئی واسطہ نہیں قرآن و حدیث اور شرعی اصطلاحا ت سے بالکل واقفیت نہیں وہ لوگ دین کو اپنے دماغ سے سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں او ر دین کی غلط تشریح کررہے ہیں۔ ابتدا سے ہی اسلام میں رخنہ اندازی پیداکرنے کے لئے مختلف لوگوں نے اسلامی تعلیمات میں شکوک وشبہات پیداکرنے کی کوششیں کیں۔ جس کے نتیجے میں مختلف فرقے پیدا ہوئے۔ علم کلام اور فلسفہ کا ایک دور تھا جس کے لئے علماء کرام نے فلسفہ کو پڑھ کر اس فتنہ کا جواب انہی کی زبان میں دیا۔وقت کے ساتھ ساتھ ان فرقوں کے نقوش مٹ گئے لیکن دور حاضر میں لادینیت اور الحاد کی آندھی تیزی سے چل رہی ہے اور متجددین اسلام کی غلط تشریح کرکے اسلام کی روح کو مسخ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ تو دانستہ طور پر اسلام کو نقصان پہنچانے کی غرض سے الٹے سیدھے تشریحات کرتے ہیں اور کچھ لوگ اپنی سادگی میں مارے جاتے ہیں اور دین وایمان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی علمی صلاحیت کا لوہوا منوانے اور علم دانی کو اجاگر کرنے کی غرض سے قرآنی آیات اوراحادیث و سنت کی نئی تشریحات کرتے ہیں۔ظاہر ہے ہر نظریہ کے کچھ نہ کچھ ماننے والے مل ہی جاتے ہیں اور اسی سے ان کی دکان چلتی رہتی ہے۔کبھی اس میں اضافہ ہوتا ہے اور کبھی کمی ہوتی ہے۔
الحاد مذہب کے خلاف ایک دوسرا مذہب ہے جس میں خدا کاکوئی تصور نہیں ان کے مطابق یہ سارانظام عالم بس یوں سائنسی بنیادوں پر قائم ہے ہر شخص اپنی مرضی سے زندگی گذارنے کا مختار ہے مذہبی قیود و شرائط انسان کو مجبور کردیتی ہیں اس لئے کچھ لوگ بالکل آزا د رہناچاہتے ہیں اور کسی بھی مذہب کا طوق اپنے گلے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ یہ سوچ تو انسانی تاریخ میں ابتدا سے موجود ہے۔ لیکن موجودہ دور میں ملحدین کی ایک نئی جماعت پیدا ہوئی ہے جو مذہبی قلادہ اپنے گلے سے بالکل اتارنا نہیں چاہتی بلکہ مذہبی چہار دیواری میں رہ کر مذہبی پابندیوں سے آزاد رہنا چاہتی ہے۔یعنی مردم شماری میں تو اس کا نام مذہبی فہرست سے خارج نہ ہو لیکن اس کے قدموں میں مذہبی زنجیر نہ لگی ہو اور وہ جہاں چاہے اپنی من مانی کرسکیں۔یہ لوگ مذہبی اقدار کی تصویر کو مسخ کرکے ایک نئی تصویر بنانا چاہتے ہیں۔ سیرت وسنت کو اپنے انداز سے ڈھالنا چاہتے ہیں، قرآنی آیا ت کی من مانی تفسیر کرنا چاہتے ہیں اور بے لگام ہوکر زندگی گذار نا چاہتے ہیں۔خود بھی جہنم کے راستے پر چل رہے ہیں اور دوسروں کی بھی اسی راستے پر چلنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسے حالات کے بارے میں امت کو پہلے ہی خبردار کردیا تھا۔ ارشا د ہے:
عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ, یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” یَکُونُ دُعَاۃٌ عَلَی أَبْوَابِ جَہَنَّمَ, مَنْ أَجَابَہُمْ إِلَیْہَا قَذَفُوہُ فِیہَا”, قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ, صِفْہُمْ لَنَا, قَالَ:” ہُمْ قَوْمٌ مِنْ جِلْدَتِنَا, یَتَکَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا”, قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِی إِنْ أَدْرَکَنِی ذَلِکَ؟ قَالَ:” فَالْزَمْ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِینَ وَإِمَامَہُمْ, فَإِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُمْ جَمَاعَۃٌ وَلَا إِمَامٌ, فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّہَا, وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَۃٍ حَتَّی یُدْرِکَکَ الْمَوْتُ, وَأَنْتَ کَذَلِکَ”.(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الفتن، باب العزلہ۔ حدیث نمبر٣٩٧٩ )
”حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے، جو ان کے بلاوے پر ادھر جائے گا وہ انہیں جہنم میں ڈال دیں گے“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سے ان کے کچھ اوصاف بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ ہم ہی میں سے ہوں گے، ہماری زبان بولیں گے“، میں نے عرض کیا: اگر یہ وقت آئے تو آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مسلمانوں کی جماعت اور امام کو لازم پکڑو، اور اگر اس وقت کوئی جماعت اور امام نہ ہو تو ان تمام فرقوں سے علیحدگی اختیار کرو، اگرچہ تمہیں کسی درخت کی جڑ چبانی پڑے حتیٰ کہ تمہیں اسی حالت میں موت آ جائے“۔
اس کی ایک وجہ تو موجودہ تعلیمی نظام ہے جس میں عصری علوم کی دوڑ میں مسلمان بچے اپنے دین سے بالکل نابلد ہوتے جارہے ہیں۔ بچپن سے انہیں دیگر مذاہب کی تاریخ، دیگر تہذیبوں کا تعارف اور سائنسی انکشافات سے تو باخبر کیاجاتاہے لیکن اسلامی تہذیب سے یکسر دور رکھا جاتاہے جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ خاندانی اعتبار سے مسلمان تو ہوتے ہیں لیکن اسلام ان کی رگوں میں نہیں ہوتا اور جب کوئی شاطر قسم کا آدمی ان کے دین وایمان کے خلاف زہر اگلتاہے یا اسلامی اقدار کی غلط تشریح کرتاہے تو اس کے پاس اس کی باتوں کوماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا اور بالآخر وہ بھی اپنے رویہ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اسلامی مسلمات کی غلط تعبیر کرنے لگتاہے۔موجودہ تعلیمی نظام کا مقصد بھی یہی ہے کہ ایسے افراد پیدا کئے جائے جن کا اپنی تہذیب و ثقافت سے کوئی واسطہ نہ ہو۔لارڈ میکالے نے جب یہ نظام تعلیم برصغیر میں قائم کرنے کی سفارش کی تو اس کی دلیل اس نے یہ پیش کی۔ ملاحظہ کریں:
”فی الوقت ہماری بہترین کوششیں ایک ایسا طبقہ معرضِ وجود میں لانے کے لیے وقف ہونی چاہئیں جو ہم میں اور ان کروڑوں انسانوں کے مابین جن پرہم حکومت کررہے ہیں ترجمانی کا فریضہ سرانجام دے۔ یہ طبقہ ایسے افراد پر مشتمل ہو جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو، لیکن ذوق، ذہن، اخلاق اور فہم وفراست کے اعتبار سے انگریز ہو“۔(میکالے اور برصغیر کا نظام تعلیم“ آئینہ ادب چوک مینار انارکلی لاہور۱۹۸۶/ ص:۵۴)
انگریزوں نے ہندوستان میں اسلامی اقدار اور اخلاقیات کو ختم کرنے کے لئے ایک ایسا نظام تعلیم قائم کیا جس میں ایسے تعلیم یافتہ حضرات پیدا ہوں جودنیا کے تمام علوم پر تو واقفیت رکھتے ہوں لیکن اسلامی تعلیم سے بالکل بے بہر ہ ہوں۔آج عصری تعلیمی اداروں کا جائزہ لیں تو صاف ظاہر ہوگا کہ ان تعلیم گاہوں سے اسلام اور اسلامی تہذیب وثقافت کو بالکل دیس نکالا کردیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں مذہب بیزاری بلکہ لامذہبیت پیدا ہورہی ہے۔ایسے تعلیم یافتہ گروہ پید اہورہے ہیں جوعلماء کو محض جاہل تصور کرتے ہیں۔ ان کی طرف سے پیش کی جانے والے علمی کاوش کو گھسی پٹی معلومات قرار دیتے ہیں۔ چونکہ ہر جگہ تعلیم یافتہ اسی کو شمار کیا جاتاہے جو عصری علوم سے لیس ہو۔ اس لئے علماء دین کی عزت اور ان کا وقار جدید تعلیم یافتہ ذہن میں نہیں ہوتا۔ اس لئے وہ وعلماء کی باتو ں کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے۔اس نظام تعلیم سے ترقی کی راہ تو نہیں ملی لیکن ہم اپنا راستہ بھول گئے۔ اقبال نے کہاتھا ؎
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
یہ متجددین اسلام کو چند رسمی عبادات تک محدود کردینا چاہتے ہیں اور باقی زندگی میں اسلام کی رہنمائی نہیں چاہتے بلکہ مادر پدر آزاد رہ کر زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔ان کی اصلاح کے لئے وہی طریقہ اپنا نا ہوگا جو نبی کریم ﷺ نے بتایا ہے۔کہ انہیں جماعت المسلمین سے مضبوطی کے ساتھ جوڑنا ہوگا اس کے لئے ہمیں بھی ایسے ادارے کھولنے کی ضرورت ہے جہاں دنیاداری کے اصول بھی بتائے جائیں اور دین داری کی اہمیت بھی اجاگر کیا جائے۔ اسلامی تہذیب اور اسلامی ثقافت کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے۔ جس طرح انگریزوں نے عیسائیت کی تبلیغ کے لئے مشن اسکولوں کا نظام قائم کیا ہم بھی ایسے مشن اسکول قائم کریں جو جدید تکنالوجی سے لیس ہوں لیکن اسلامی اقدار کے ساتھ بچوں کو اسلامی فضا میں تعلیمی ماحول فراہم کریں۔
ایک طرف جدید تعلیم کے ذریعہ مسلم نوجوانوں کو اسلام سے دور کرنے کی کوششیں جاری ہیں تو دوسری طرف مسلم دوشیزاؤں کو ان کے دین سے بے دخل کرکے دیگر مذاہب میں شادیاں کرکے زندگی گذارنے کی طرف دعوت دی جارہی ہے اور مسلم دوشیزائیں اس کو آزادی کانام دے کر کھلے عام غیر مسلموں سے شادیاں کررہی ہیں۔ آج کل ہندوستان میں تو یہ فتنہ بالکل سر چڑھ کر بول رہا ہے اخبارات کاکوئی شمارہ اس طرح کی خبر سے خالی نہیں ہوتا کہ ایک مسلم لڑکی نے ایک ہندو لڑکے سے ہندو رسم ورواج کے مطابق شادی کرلی یہ بھی اس جدید طرز تعلیم کا اثر ہے جہاں مخلوط تعلیم دی جاتی ہے اور ہندو مسلم لڑکے لڑکیوں میں کوئی حجاب نہیں ہوتا بلکہ ان کے سارے کام ایک ساتھ ہوتے ہیں اس لئے آپس میں ان کی قربت بڑھتی جاتی ہے۔ دیگر مذاہب کے لڑکے چونکہ ایک مشن پرکام کررہے ہوتے ہیں اس لئے وہ اپنا اخلاق و کردار بہتر انداز میں مسلم لڑکیوں کے سامنے پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے مسلم لڑکیاں ان میں دلچسپی لینے لگتی ہیں اور بالآخر اپنے دین و ایمان کو بالا ئے طاق رکھ کر ان سے شادیاں کرنے پر تیار ہوجاتی ہیں۔ابھی موجودہ وقت میں جب میں یہ مقالہ لکھ رہا ہوں ایک خاتون پورے ہندوستانی میڈیا میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ہر شخص کی زبان پر اسی کا نام ہے۔ سیماحیدر نام کی ایک خاتون جو پاکستان سے آئی ہے اور ایک ہندو لڑکے سے اس نے شادی کرلی ہے۔اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن ایک پیغام پوری دنیا کو پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عشق کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی کوئی عمرہوتی ہے جب کسی سے عشق ہوجائے تومذہبی اور ملکی سرحدیں کسی کو روک نہیں سکتیں۔
اس کے تدارک کے لئے اول تو اپنی بچیوں کی دینی تعلیم و تربیت پر بطور خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ بہتر تعلیمی ماحول جس میں اختلاط نہ، اسلامی تہذیب و ثقافت کا فقدان نہ ہو، فراہم کرنا ہوگا اور اپنی بچیوں میں شروع سے ہی دینی حمیت پیداکرنے کی کوشش کرنی ہو گی تاکہ وقت کی تندو تیز آندھیا ں ان کے پایۂ ثبات میں لغزش نہ پید اکرسکیں۔