مسلمانوں سے محبت
تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
امام و خطیب جامع زکریا
زکریا کالونی، سعد پورہ مظفرپور
اسلام دین فطرت ہے اس لئے اس کے احکام بھی ایسے ہیں جو بالکل فطرت کے مطابق ہیں اور ان پر عمل کرنا نہایت آسان بھی ہے اور مفید تر بھی۔ اسلام کے ماننے والے آپس میں دینی بھائی ہیں اس لئے ان کے درمیان فطری طور پر محبت کاجذبہ پایاجاتاہے اور وہ ایک دوسرے کی بھلائی کے لئے فکر مند بھی ہوتے ہیں او ر اپنے کسی دینی بھائی کی کامیابی پر وہ دلی طور پرخوشی بھی محسوس کرتے ہیں۔ جس طرح ایک رنگ ونسل کے لوگ ایک دوسرے کی طرف الفت ومحبت کے جذبے کے تحت مائل ومتوجہ ہوتے ہیں اور ان کے لئے اپنے دل میں خیر کاجذبہ محسوس کرتے ہیں اسی طرح ایک دین کے ماننے والے بھی ایک دوسرے سے محبت و الفت رکھتے ہیں یہ چیز ان کے لئے باعث خیر بھی ہے اور ان کے ایمان کا مطالبہ اور حصہ بھی ہے۔ اس جذبہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک نعمت قرار دیاہے اور اس جذبہ کو باقی رکھنے بلکہ اس میں تقویت پیداکرنے کی ترغیب بھی دیا ہے۔ ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بھائی سے محبت رکھے اور اگر کسی موقع پر کوئی ناچاقی پیدا ہوجائے تو فوراًمعافی تلافی کرکے الفت ومحبت کی فضا کو قائم کرنے کی کوشش کرے اور اپنے دینی بھائیوں سے ہمیشہ جڑ کر رہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْاوَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًاوَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ (آل عمران١٠٣ )
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
اسلام نے الفت کاپیغام دیا
عرب کی تاریخ کامطالعہ کریں تو پتہ چلے گاکہ نبی کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے اہل عرب ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے ،بات بات پر لڑائیاں ہوتی تھیں، کوئی کسی سے دب کر رہناپسند نہیں کرتا تھا، ادنیٰ ادنیٰ سی بات پر قبیلے آپس میں اس طرح لڑ پڑتے تھے کہ کئی نسلوں تک جنگیں جاری رہتی تھیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسلام کی برکت سے ان کے اندر کی دشمنی کو ختم کرکے دوستی اور الفت ومحبت کی فضا کو اس طرح عام کردیا کہ وہی لوگ اپنی جان کی پرواہ چھوڑ کر دوسرے لوگوں کی جان ومال کی حفاظت میں لگ گئے۔اس چیز کو اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑی نعمت سے تعبیر کیاہے۔اسی محبت والفت کی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اگر آپ زمین کی ساری دولت اور سارے اسباب وذرائع استعمال کر لیتے تو بھی ان لوگوں میں الفت قائم نہیں کرسکتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور قدرت سے اس ناممکن چیز کو بالکل عام کردیا۔ ارشاد ہے:
وَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیْنَھُمْ اِنَّہٗ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ( انفال ٦٣ )
ترجمہ: ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اسی نے ڈالی ہے۔ زمین میں جو کچھ ہے آپ اگر سارا کا سارا بھی خرچ کر ڈالتے تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتے۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے وہ غالب حکمتوں والاہے۔
محبت والفت کا یہ جذبہ ایمان و اعمال صالحہ کی برکات و ثمرات میں سے ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: اِنَّ الَّذِینَ اٰمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجعَلُ لَھُمُ الرَّحمٰنُ وُدًّا(96۔مریم):بیشک جو ایمان لائے ہیں اورنیک اعمال کیے ہیں ان کے لیے اللہ رحمٰن محبت پیدا کردے گا۔
اللہ کے لئے محبت کرنے والوں کو عرش کاسایہ نصیب ہوگا
مومنین ومسلمین کا آپس میں لوجہ اللہ محبت کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے اور یہ محبت اللہ تعالیٰ کے یہاں خصوصی مقام دلانے کی ضمانت ہے۔ قیامت کی وہ گھڑی جب کہ کوئی کسی کا پرسان حال نہیں ہوگا سورج کی گرمی اتنی شدید ہوگی کہ انسان اپنے پسینوں میں ڈوبا ہواہوگا اس وقت اللہ کے عرش کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اپنے عرش کاسایہ نصیب فرمائیں گے جو آپس میں صرف اللہ کے لئے محبت کرتے تھے۔
عَنْ اَبِی ھُرَیرۃ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: أَيْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلَالِي الْيَوْمَ، أُظِلُّهُمْ فِي ظِلِّي يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّ۔(صحیح مسلم۔ کتاب البر والصلۃ والآداب۔باب فی فضل الحب فی اللہ ۔حدیث نمبر۔٦٥٤٨ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: کہاں ہیں وہ لوگ جو میری بزرگی اور اطاعت کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے آج کے دن کہ میں ان کو اپنے سایہ میں رکھوں گا اور آج کے دن کوئی سایہ نہیں ہے سوائے میرے سایہ کے۔“
عن ابی ھریرۃ او عن ابی سعید أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ، إِمَامٌ عَادِلٌ، وَشَابٌّ نَشَأَ بِعِبَادَةِ اللَّهِ، وَرَجُلٌ كَانَ قَلْبُهُ مُعَلَّقًا بِالْمَسْجِدِ إِذَا خَرَجَ مِنْهُ حَتَّى يَعُودَ إِلَيْهِ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ فَاجْتَمَعَا عَلَى ذَلِكَ وَتَفَرَّقَا، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ حَسَبٍ وَجَمَالٍ , فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ ” ۔(سنن ترمذی۔ کتاب الزہد عن رسول اللہ ﷺ،باب ماجا فی الحب فی اللہ۔حدیث نمبر۔٢٣٩١ )
حضرت ابوہریرہ یا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات قسم کے لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن کہ جب اس کے (عرش کے) سایے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا اپنے عرش کے سایے میں جگہ دے گا: ان میں سے ایک انصاف کرنے والا حکمراں ہے، دوسرا وہ نوجوان ہے جو اللہ کی عبادت میں پلا بڑھا، تیسرا وہ شخص ہے جس کا دل مسجد میں لگا ہوا ہو چوتھا وہ دو آدمی جنہوں نے صرف اللہ کی رضا کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی، اسی کے واسطے جمع ہوتے ہیں اور اسی کے واسطے الگ ہوتے ہیں، پانچواں وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ کا ذکر کرے اور عذاب الٰہی کے خوف میں آنسو بہائے، چھٹا وہ آدمی جسے خوبصورت عورت گناہ کی دعوت دے، لیکن وہ کہے کہ مجھے اللہ کا خوف ہے، ساتواں وہ آدمی جس نے کوئی صدقہ کیا تو اسے چھپایا یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی نہ پتہ چلے کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔
اللہ کے لئے محبت کرنا دخول جنت کا سبب
ایک مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی سے محبت کرنا، اس سے ملاقات کرنا، محض اللہ کے لئے ہو اور اس میں دنیاوی کوئی غرض نہ ہو تو یہ محبت گویا اللہ کی محبت ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت یقینا انسان کے لئے جنت میں دخول کا سبب ہے۔
عن ابی ھریرۃ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَنَّ رَجُلًا زَارَ أَخًا لَهُ فِي قَرْيَةٍ أُخْرَى، فَأَرْصَدَ اللَّهُ لَهُ عَلَى مَدْرَجَتِهِ مَلَكًا، فَلَمَّا أَتَى عَلَيْهِ، قَالَ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قَالَ: أُرِيدُ أَخًا لِي فِي هَذِهِ الْقَرْيَةِ، قَالَ: هَلْ لَكَ عَلَيْهِ مِنْ نِعْمَةٍ تَرُبُّهَا؟ قَالَ: لَا، غَيْرَ أَنِّي أَحْبَبْتُهُ فِي اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: فَإِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكَ بِأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَبَّكَ كَمَا أَحْبَبْتَهُ فِيهِ “.(صحیح مسلم۔ کتاب البر والصلہ والآداب۔باب فی فضل الحب فی اللہ۔حدیث نمبر۔٦٥٤٩ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص اپنے بھائی کی ملاقات کو ایک دوسرے گاؤں کی طرف گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی راہ میں ایک فرشتہ کو کھڑا کر دیا جب وہ وہاں پہنچا تو اس فرشتے نے پوچھا: کہاں جاتا ہے؟ وہ بولا: اس گاؤں میں میرا ایک بھائی ہے میں اس کو دیکھنے جاتا ہوں۔ فرشتے نے کہا: اس کا تیرے اوپر کوئی احسان ہے جس کو سنبھالنے کے لیے تو اس کے پاس جاتا ہے؟ وہ بولا: نہیں کوئی احسان اس کا مجھ پر نہیں ہے صرف اللہ کے لیے میں اس کو چاہتا ہوں۔ فرشتہ بولا: تو میں اللہ تعالیٰ کا ایلچی ہوں اور اللہ تجھ کو چاہتا ہے جیسے تو اس کی راہ میں اپنے بھائی کو چاہتا ہے۔“
اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے جو محض اللہ کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ایسے درجات متعین فرمائے ہیں کہ انبیا ء و شہدا بھی ان کے اس مقام کو دیکھ کر رشک کریں گے۔
عن معاذ بن جبل قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: الْمُتَحَابُّونَ فِي جَلَالِي لَهُمْ مَنَابِرُ مِنْ نُورٍ يَغْبِطُهُمُ النَّبِيُّونَ وَالشُّهَدَاءُ ۔(سنن ترمذی۔ کتاب الزہد عن رسول اللہ ﷺ،باب ماجا فی الحب فی اللہ۔حدیث نمبر۔٢٣٩٠ )
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میری عظمت و بزرگی کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن نور کے ایسے منبر ہوں گے جن پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں گے۔
توضیح: اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ آپس میں محبت کرنے والوں کا مقام انبیاء و شہدا سے بھی بلند و بالا ہے جسے دیکھ کر وہ رشک کریں گے۔ جبکہ یہ حقیقت کے ہے کہ انبیاء کرام کا مقام سب سے بلندہوگا جہاں تک عام آدمی کی پہنچ بھی نہیں ہوسکتی۔ اس لئے اس جملے کامطلب یہ ہوگا کہ اگر انبیاء و شہد ا کسی مقام بلند کو دیکھ کر رشک کرتے تویہ مقام اس قابل ہے کہ اس کو رشک کی نظر سے دیکھا جائے اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ انبیائے کرام جس چیز کی تعلیم دیتے ہیں وہ خود اس پر عمل بھی کرتے ہیں بلکہ کہ انبیائے کرام کا عمل کامل ہوتاہے لہذا یہ عمل بھی انبیائے کرام کی تعلیم سے ہی ہم تک پہونچا اس لئے انبیائے کرام اس عمل میں بھی امتیوں سے آگے ہیں۔ لہذ ایہ د رجات تو انہیں سب سے پہلے حاصل ہوں گے۔عمل پر ابھارنے اور ترغیب دلانے کے لئے نبی کریم ﷺ نے اس انداز سے لوگوں کو فضیلتیں سنائی ہیں۔
جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے محبت کرتا ہو تو اسے چاہئے کہ اسے بھی بتادے کہ مجھے تم سے اللہ کے لئی محبت ہے تاکہ وہ بھی اس سے محبت کرکے وہ مقام حاصل کرلے جوپہلے کو حاصل ہے۔
قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا أَحَبَّ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُعْلِمْهُ إِيَّاهُ ۔۔(سنن ترمذی۔ کتاب الزہد عن رسول اللہ ﷺ،باب مَا جَاءَ فِي إِعْلاَمِ الْحُبِّ۔حدیث نمبر۔٢٣٩٢ )
حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنے کسی مسلمان بھائی سے محبت کرے تو وہ اپنی اس محبت سے آگاہ کر دے۔
آج کے اس پرفتن دور میں جب کہ ساری قومیں ملت اسلامیہ پر نگاہیں ڈالے ہوئی ہیں اور انہیں جڑ بنیاد سے مٹادینا چاہتی ہیں ایسے وقت میں ایک مسلمان کااپنے مسلمان بھائی سے محبت کرنا ، اس سے مل جل کررہنا اور اس کے دکھ درد میں شریک ہونا ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے اور وقت کا تقاضا بھی ۔
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے