سلام کی اہمیت اور فضیلت

تحریر مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

رسول اللہ ﷺ کی تعلیم کی روسے ہر مسلمان ایک دوسرے کا بھائی ہے ۔ اس لئے بھائی ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کو آپس میں بھائیوں جیسے محبت ہونی چاہئے۔ہر مسلمان کے دل میں اپنے مسلمان بھائی کے لئے محبانہ جذبہ ہونا چاہئے۔محبت کے اس جذبے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے اسے ایمان کاایک لازمی جز قراردیا اور اس جذبے میں اضافہ کے لئے ایک ایسا ذریعہ اور سبب بھی بتایا ہے جس کے ذریعہ انسان اپنے دینی بھائیوں سے محبت کرنے لگے گا۔ارشاد ہے:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ تم مومن ہو جاؤ، اور تم مو من نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔ کیا تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے لگو، آپس میں سلام عام کرو۔“

عن ابی ھریرۃ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا أَوَلَا، أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ، أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ “.(صحیح مسلم کتاب باب بَيَانِ أَنَّهُ لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلاَّ الْمُؤْمِنُونَ وَأَنَّ مَحَبَّةَ الْمُؤْمِنِينَ مِنَ الإِيمَانِ……..حدیث نمبر194)

اسی حدیث کو امام مسلم نے ایک دوسری سند سے بیان کیا ہے جس میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، ( اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم جب تک ایمان نہیں لاؤ گے، جنت میں داخل نہیں ہو سکو گے)

کسی بھی چیزکی اہمیت بتانے کے لئے نبی کریم ﷺ کوقسم کھانے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ ایک امتی ہونے کی حیثیت سے نبیﷺ کے ہر قول کوسچا جانناا اور اس پریقین کرنا اس کے ایمان میں شامل ہے اگرکہیں بھی ذراسا شک وشبہہ کوجگہ دی گئی تو ایمان خطرے میں پڑجائے گا اس لئے نبی کریم ﷺ کاصرف یہ کہہ دیناکہ یہ چیز اچھی یابری ہے امت کے لئے کافی ہے۔ لیکن بہت سے ایسے مواقع ہیں جن میں نبی کریمﷺ نے حق جلّ مجدہ کی قسم کھائی ہے وہا ں صرف اس چیز کی اہمیت کوتاکید کے ساتھ بیان کرنا مقصود ہوتاہے اور اس چیز کی فضیلت میں اور زیادہ اضافہ ہوجاتاہے مذکورہ بالا حدیث میں آقائے نامدار ﷺ نے جوقسم کھائی ہے کہ جنت میں داخلہ کے لئے ایمان کاہونا ضروری ہے اور ایمان کے لئے ایک اورچیز ضروری ہے اوروہ ہے آپس میں محبت قائم کرنا یہ درحقیقت اہل ایمان کو آپس میں الفت ومحبت کی فضاقائم کرنے کی تلقین ہے اور اس کے لئے جو انداز اختیار کیا گیا ہے وہ اس کی اہمیت، افادیت اور ضرورت کو اور زیادہ موکد کردیتاہے اور اس کے ساتھ ہی رسول اللہ ﷺ نے باہمی محبت پیداکرنے کاایک موثر ذریعہ بھی بتادیا ہے کہ یہ صفت کیسے پید ا ہوگی۔وہ یہ کہ آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرتے رہیں جس کے ذریعہ اللہ تعالی قلوب میں محبت پیدافرمادیں گے۔

سلام کی اہمیت اور فضیلت

ہر قوم ومذہب کے ماننے والوں کے یہاں سلام کا رواج ہے اور وہ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق ایک دوسرے کو سلام کیاکرتے ہیں۔زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ سلام کیا کرتے تھے اور ایک دوسرے کے لئے اپنے عقیدے کے مطابق خیر کی دعاکیا کرتے تھے۔جیسے صباح الخیر۔ مساء الخیر اور غداء الخیر وغیرہ۔ آج کے دور میں مغربی تہذیب نے جہاں مسلمانوں کے کے عائلی اورمعاشرتی معاملات میں دخل اندازی کرکے ان کے اخلاقی بگاڑ میں ایک اہم رول اداکیا ہے وہیں سلام کے اندر بھی اثر انداز ہو اہے اور وہی طریقہ جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھا اس کو رواج دیا ہے اور مسلمان بڑے فخر سے اسے اپناتے چلے جارہے ہیں اور اس کو بر ابھی نہیں سمجھتے۔گڈ مارننگ، گڈ آفٹرنون اور گڈ ایوھننگ کا ترجمہ بالکل وہی ہے جو زمانہ جاہلیت میں استعمال ہونے والے الفاظ صباح الخیر، مساء الخیر اور غداء الخیر کے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے ارشادات میں اپنی امت کو سلام کرنے کا ایک خاص طریقہ سکھایا ہے جو نیا نہیں بلکہ ابتدائے آفرینش سے جاری ہے اور اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کوسکھایا تھا۔ اسی سے سلام کی اہمیت کااندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ الصلوۃ والسلام کوپیدافرمایا تو بذات خود سلام کا طریقہ سکھانے کے لئے آپ ؑ کو فرشتوں کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ جاکر فرشتوں کو سلام کرو اور دیکھو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں وہ جوجواب دیں گے وہی تمہاری اولا د کاسلام ہوگا۔

أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا خَلَقَهُ قَالَ اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ النَّفَرِ مِنَ الْمَلاَئِكَةِ جُلُوسٌ، فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَكَ، فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ. فَقَالَ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ. فَقَالُوا السَّلاَمُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ. فَزَادُوهُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ، فَلَمْ يَزَلِ الْخَلْقُ يَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّى الآنَ(صحیح بخاری۔ کتاب الاستئذان۔ باب بدء السلام۔حدیث نمبر ٦٢٢٧ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو اپنی صورت پر بنایا، ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ جب انہیں پیدا کر چکا تو فرمایا کہ جاؤ اور ان فرشتوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں، سلام کرو اور سنو کہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں، کیونکہ یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہو گا۔ آدم علیہ السلام نے کہا: السلام علیکم! فرشتوں نے جواب دیا، السلام علیک ورحمۃ اللہ، انہوں نے آدم کے سلام پر ”ورحمۃ اللہ“ بڑھا دیا۔ پس جو شخص بھی جنت میں جائے گا آدم علیہ السلام کی صورت کے مطابق ہو کر جائے گا۔“ اس کے بعد سے پھر خلقت کا قد و قامت کم ہوتا گیا، اب تک ایسا ہی ہوتا رہا۔

نبی کریم ﷺ کے ارشادات میں سلام کرنے سے متعلق بہت تاکید کی گئی ہے نیز اس سے پیدا ہونے والے اثرات، یعنی آپس میں الفت و محبت کا قائم ہونا، دل کی کدورتوں کا ختم ہونا نیز اختلافات کے دور ہونے کو موقع بہ موقع بیان کیا گیاہے۔

سلام ایک دعاہے جو ایک مومن اپنے دوسرے مومن بھائی کے لئے کرتاہے جس کے جواب میں دوسرابھائی بھی اس کے لئے سلامتی کی دعا کرتا ہے۔دنیا میں جتنے بھی مسلمان ہیں وہ تمام کے تمام آپس میں بھائی ہیں اس لئے ہرمومن کو اپنے دوسرے مومن بھائی کی سلامتی کے لئے دعاکرتے رہناچاہئے۔اسی لئے جب ہم کسی کے یہاں جائیں تو اس کے گھر میں جاتے ہی سلام کرکے اس گھرکے مکینوں کے لئے سلامتی کی دعاکریں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰی اھْلِہَا ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ (٢٧ ۔ نور)

ترجمہ:    اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو، یہی تمہارے لئے سراسر بہتر ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

 فَاِِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰی اَنفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ (٦١ نور) 

ترجمہ:    جب تم گھروں میں جانے لگو تو سلامتی کی دعا دو اپنو ں کو دعائے خیر ہے جو بابرکت اور پاکیزہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ، یوں ہی اللہ تعالیٰ کھول کھول کر تم سے اپنے احکام بیان فرما تا ہے تاکہ تم سمجھ لو۔

 مسلمانوں کے آپس میں ایک دوسرے پر کچھ حقوق ہیں جن کی ادائیگی آپسی محبت اور باہمی تعلقات کی مضبوطی کاسبب ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی سے جب ملاقات ہوتو اسے سلام کریں۔

عن علی قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لِلْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ بِالْمَعْرُوفِ: يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ، وَيَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيَتْبَعُ جَنَازَتَهُ إِذَا مَاتَ، وَيُحِبُّ لَهُ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ “(سنن ترمذی۔ کتاب الادب عن رسول اللہ ﷺ،باب  ما جاء فی تشمیت العاطس حدیث نمبر٢٧٣٦ )

حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حسن سلوک کے چھ عمومی حقوق ہیں، (۱) جب اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کرے، (۲) جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے، (۳) جب اسے چھینک آئے تواس کی چھینک کا جواب دے، (۴) جب وہ بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت کرے، (۵)جب وہ مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ (قبرستان) جائے، (۶) اور اس کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو“۔

راستے میں چلتے ہوئے جس مسلمان سے ملاقات ہوجائے اسے سلام کرنا چاہئے چاہے ہم اسے پہچانتے ہوں یا نہ پہچانتے ہوں۔

عن عبد اللہ بن عمرو أَنَّ رَجُلًا سَأَل رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ:” تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ”.(صحیح بخاری،کتاب الایمان باب افشاء السلام من الاسلام۔حدیث نمبر٨٢ )

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو کھانا کھلائے اور ہر شخص کو سلام کرے خواہ اس کو تو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔

عن ابی امامۃ  قَالَ: أَمَرَنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” أَنْ نُفْشِيَ السَّلَامَ”.۔(سنن ابن ماجہ۔کتاب الادب، باب افشاء السلام۔حدیث نمبر۔٣٦٩٣ )

حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم سلام کو عام کریں اور پھیلائیں۔

نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے معلم بناکر بھیجاتھا اس لئے آپ ﷺ ہر وقت تعلیم دیاکرتے اور کوئی بھی موقع ضائع نہیں کرتے تھے آپ ﷺ ہر ملنے والے سے سلام کیاکرتے تھے یہاں تک کہ راستے میں اگر بچوں سے ملاقات ہوتی تو ان بچوں کوبھی سلام کیاکرتے تھے۔ اس میں ہمارے لئے تعلیم ہے کہ اپنے چھوٹے بچوں کو بھی سلام کیا کریں تاکہ ان کے اندر بھی سلام کرنے کاجذبہ پیداہو۔ 

عن انس قَالَ:” أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ صِبْيَانٌ , فَسَلَّمَ عَلَيْنَا”.(سنن ابن ماجہ۔کتاب الادب،با ب السلام علی الصبیان والنساء۔حدیث نمبر۔٣٧٠٠ )

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، (اس وقت) ہم بچے تھے تو آپ نے ہمیں سلام کیا۔

کسی مجلس میں جائیں تو پہلے سلام کریں اس کے بعد اس مجلس میں بیٹھیں اور جب اٹھ کرجائیں تو سلام کرکے جائیں۔

عن ابی ھریرۃ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا انْتَهَى أَحَدُكُمْ إِلَى مَجْلِسٍ فَلْيُسَلِّمْ، فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يَجْلِسَ فَلْيَجْلِسْ، ثُمَّ إِذَا قَامَ فَلْيُسَلِّمْ فَلَيْسَتِ الْأُولَى بِأَحَقَّ مِنَ الْآخِرَةِ ” (سنن الترمذی۔کتاب الاستئذان والآداب عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء فی التسلیم عند القیام وعند القعود۔حدیث نمبر۔٢٧٠٦ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص کسی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے، پھر اگر اس کا دل بیٹھنے کو چاہے تو بیٹھ جائے۔ پھر جب اٹھ کر جانے لگے تو سلام کرے۔ پہلا (سلام) دوسرے (سلام) سے زیادہ ضروری نہیں ہے۔

سلام کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ سوار سلام میں پہل کرے۔

عن ابی ھریرۃ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَى الْمَاشِي، وَالْمَاشِي عَلَى الْقَاعِدِ، وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ وَزَادَ ابْنُ الْمُثَنَّى فِي حَدِيثِهِ وَيُسَلِّمُ الصَّغِيرُ عَلَى الْكَبِيرِ(سنن الترمذی۔کتاب الاستئذان والآداب عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء فی تسلیم الراکب علی الماشی۔حدیث نمبر۔٢٧٠٣ )

حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوار پیدل چلنے والے کو اور چلنے والا کھڑے ہوئے شخص کو اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔“

سلام کے آداب میں یہ بھی ہے کہ کھانے اور پینے کی حالت میں،  بیت الخلا یا حمام میں، نماز کی حالت میں اور اذان دینے والے کو سلام نہیں کرنا چاہئے۔اسی طرح خطبہ جمعہ کے درمیان بھی سلام نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ جمعہ کاخطبہ خاموشی سے سننا واجب ہے۔اگر کوئی سلام کہے تو اس کا جواب دینا واجب نہیں۔اسی طرح تلاوت قرآن مجید میں مشغول آدمی کو بھی سلام نہیں کرنا چاہئے۔جوان اجنبی عورتوں کو مردوں کو اور اجنبی مردوں کواجنبی عورتوں کو سلام نہیں کرناچاہئے، اگر اجنبی نہایت بوڑھا یا بوڑھی ہوتو سلام کرنا جائز ہے۔اصل بات اس میں یہ ہے کہ آدمی فتنہ میں مبتلا نہ ہو، اگرکسی اجنبیہ کو سلام کرنے میں فتنہ کااندیشہ ہو تو سلام نہیں کرنا چاہئے اور اگر فتنہ سے امن کایقین ہوتو سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

حضرت یحی ابن ابی کثیر کہتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ یہ بات مکروہ ہے کہ مرد عورتوں پر سلام کرے اور عورتیں مرد پر۔(بیہقی فی شعب الایمان۔باب مقاربۃ اھل الدین وموادتھم وافشاء السلام بینھم)

حضرت قتادہ کہتے تھے کہ بہر حال وہ عورت جو قواعد میں سے ہو (یعنی جو زیادہ ضعیف ہوچکی ہو حرج نہیں ہے کہ اس پر کوئی سلام کرے۔رہی جوان عورت تو اس پر سلام کرنا جائز نہیں۔

(بیہقی فی شعب الایمان۔باب مقاربۃ اھل الدین وموادتھم وافشاء السلام بینھم)

شیخ حلیمی ؒ فرماتے ہیں کہ جس شخص کو اپنے نفس پر یقین ہواس کو چاہئے کہ وہ عورتوں پرسلام کرے اورجس کو اپنے نفس پرامن ویقین نہ ہو وہ سلام نہ کرے۔بے شک بات کرنا بسااوقات ایک دوسرے میں کشش پیداکرتاہے اورخاموشی زیادہ سلامتی والی ہے۔

(بیہقی فی شعب الایمان۔باب مقاربۃ اھل الدین وموادتھم وافشاء السلام بینھم)

عن سہل قَالَ:” كُنَّا نَفْرَحُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، قُلْتُ: وَلِمَ، قَالَ: كَانَتْ لَنَا عَجُوزٌ تُرْسِلُ إِلَى بُضَاعَةَ، قَالَ ابْنُ مَسْلَمَةَ: نَخْلٍ بِالْمَدِينَةِ، فَتَأْخُذُ مِنْ أُصُولِ السِّلْقِ، فَتَطْرَحُهُ فِي قِدْرٍ وَتُكَرْكِرُ حَبَّاتٍ مِنْ شَعِيرٍ، فَإِذَا صَلَّيْنَا الْجُمُعَةَ انْصَرَفْنَا وَنُسَلِّمُ عَلَيْهَا، فَتُقَدِّمُهُ إِلَيْنَا، فَنَفْرَحُ مِنْ أَجْلِهِ، وَمَا كُنَّا نَقِيلُ وَلَا نَتَغَدَّى إِلَّا بَعْدَ الْجُمُعَةِ”.(صحیح بخاری۔کتاب الاستئذان، باب تسلیم الرجال علی النساء والنساء علی الرجال۔حدیث نمبر۔٦٢٤٨ )

حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم جمعہ کے دن خوش ہوا کرتے تھے۔ میں نے (ابوحازم راوی) عرض کیا کس لیے؟ فرمایا کہ ہماری ایک بڑھیا تھیں جو مقام بضاعہ جایا کرتی تھیں۔ ابن سلمہ نے کہا کہ بضاعہ مدینہ منورہ کا کھجور کا ایک باغ تھا۔ پھر وہ وہاں سے چقندر لایا کرتی تھیں اور اسے ہانڈی میں ڈالتی تھیں اور جَو کے کچھ دانے پیس کر (اس میں ملاتی تھیں) جب ہم جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس ہوتے تو انہیں سلام کرنے آتے اور وہ چقندر کی جڑ میں آٹا ملی ہوئی دعوت ہمارے سامنے رکھتی تھیں ہم اس وجہ سے جمعہ کے دن خوش ہوا کرتے تھے اور قیلولہ یا دوپہر کا کھانا ہم جمعہ کے بعد کرتے تھے۔

مسلمانوں کو چاہئے کہ آپسی محبت کو پھیلانے کے لئے سلام کو عام کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *