آفاقی نبی
تحریر :مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
اللہ رب العزت نے اس کائنات کو خلق کرنے کے بعد اس نظام کو بحسن خوبی چلانے کے لئے مختلف قسم کے انتظامات کئے ۔ زمین کو سیراب کرنے کے لئے بادلوں کو تعینات کیا ۔ زمین کو روشن کرنے کے لئے سورج کی تخلیق کی۔زمین پرآباد مخلوقات کے رزق کا سامان زمین کے اندر ذخیرہ کردیا ۔ جومختلف پھلوں،پھولوں، سبزیوں ، دھاتوں اور معدنی اشیا کی صورت میں زمین کے سینے میں موجو د ہیں ۔ اور دنیا کی مخلوقات اپنے اپنے علم اور توانائی کے بقدر اسے زمین سے نکال کر اپنی ضرورریات پوری کرتی ہیں۔
اسی طرح اس کائنات میں موجود اشیاء کو استعمال کرنے اور انہیں برتنے کا طریقہ سکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کا سلسلہ جاری فرمایا جس کی پہلی کڑی حضرت آدم علیہ السلام اور آخری کڑی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں ۔ آپ ﷺ ایک آفاقی نبی ہیں ۔ صرف انسانوں ہی نہیں بلکہ جناتوں کے بھی نبی ہیں اور جناتوں کی کئی جماعتوں نے حاضر ہوکر براہ راست رسول اللہ ﷺ کےدست مبارک پر ایمان قبول کیا ۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نےپورے عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا اور پوری انسانیت کے لئے رہنما اور ھادی بناکر بھیجاہے اسی لئے اپ ﷺ کی تعلیمات نہ تو کسی خاص علاقہ کےلئے ہیں اور نہ ہی کسی خاص قوم کےلئے ۔ بلکہ یہ دنیا کے گوشے گوشے میں آباد انسانوں کے لئے راہ ہدایت ہیں ۔ اسی طرح آپ ﷺ کی تعلیمات کسی محدود وقت کےلئے نہیں بلکہ قیامت تک کےلئے ہیں ۔ آپ ﷺ کی تعلمات پر غور کرنے سے یہ پتہ چلتاہے کہ آپ نے جوکچھ بھی کہایا کیا اس میں پوری انسانیت کے ھدایت کا سامان موجود ہے ۔ ایک معلم کی حیثیت سے آپ نے علم کے ایسے ایسے نکتے بیان جن کی گہرائی وگیرائی میں آج تک تشنگان علم غوطہ خوری کررہے ہیں اور علم و ادب کے موتی جمع کررہےہیں۔
ایک تاجر ہونے کے حیثیت سے آپ ﷺ کی تعلیمات شعبۂ تجارت کے لئے رہنما اصول ہیں۔ تجارت کے اصول میں سب سے بنیادی چیز آپ ﷺ نے امانت داری کوقرار دیا جو تجارت کی بنیاد اور اصل الاصول ہے ۔ تجارت میں امانت داری خود تاجر کے لئے جتنا مفید ہے اتناہی اس شخص کے لئے بھی مفید ہے جو اس تاجر سے کوئی معاملہ کرتاہے۔ آپ ﷺ نے تاجروں کے بارے میں فرمایاکہ امانت دار تاجر کا حشر انبیاء وصدیقین کے ساتھ ہوگا۔ تجارت میں امانت داری کامطلب ہےکہ بیچنے والا اپنے سامان کی پوری حقیقت بتاکر بیچے ۔ اگر اس سامان میں کوئی خرابی ہے تو گاہک کو اس کے بارے میں مطلع کردے تاکہ کسی طرح کی دھوکہ بازی نہ ہو ۔ آپ ؔﷺ کی تجارت میں ایمانداری ہی تھی کہ حضرت خدیجہ ؓ آپ ﷺ پر فریفتہ ہوگئیں اور معزز امرائے مکہ کے پیغام نکاح کو ٹھکراکر نبی کریم ﷺ سے نکاح کرلیا ۔
امانت داری کی صفت رسول اللہ ﷺ میں اتنی معروف تھی کہ جولوگ آپ پر ایمان نہیں لائے تھے وہ بھی آپ کو صادق وامین کے نام سے پکارتے تھے۔ تجارت کےمعاملہ میں آپ ﷺ نے نرم گوئی اور راست بازی کو خاص اہمیت دی ہے اور ایسے تاجر جو لوگوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرتے ہیں ان کےلئے آپ ﷺ نے خصوصی دعا فرمائی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ” اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو بیچنے خریدنے اور تقاضا کرنے میں نرمی اختیار کرے۔” مسلم اور غیر مسلم کی تفریق سے قطع نظر آپ اس حدیث پر غور کیجئے تو یہ تجار ت کاایسا گُر ہے جو کسی بھی تاجر کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ آپ بازاروں اور دکانوں کا سروے کریں جن دکانداروں کے دل نرم ہیں اور وہ اپنے یہاں آنے والے لوگوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرتے ہیں ان کی دکانوں پر ہمیشہ بھیڑ لگی رہتی ہے اور اگرچہ وہاں سے سامان لینے میں کچھ وقت لگتاہے اور بعض اوقات لائن لگ کر بھی سامان لینا پڑتا ہے لیکن محض ان کی نرم روی کی وجہ سے لوگ ان کی دکانوں کا رخ کرتے ہیں۔ اسی طرح جو خریدار نرمی کا رویہ اختیار کرتاہے دکان دار اس کی عزت بھی کرتےہیں اور انہیں اچھا سامان بھی فراہم کرتےہیں۔ اسی طرح اگرمعاملہ ادھار کا ہو اور اس کا تقاضا نرمی سے کیا جائے تو ایک تو یہ کہ بازار میں اپنا وقار بنارہتاہے اور دوسرے خریداروں کا اضافہ بھی ہوتاہے ۔ گویا اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے پوری انسانی آبادی کے لئے تجارت کے معاملہ میں ایک اہم اصول بتا دیا ہے جو ہر قوم کے یہاں اور ہر جگہ مسلم ہے۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے تجارت میں دھوکہ دہی سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے ۔ آپ ﷺ ایک دفعہ بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک غلہ فروش پر نظر پڑی آپ ﷺ قریب گئے اور غلہ اٹھاکر دیکھا تو اندر میں غلہ کے اندر کچھ نمی موجود تھی ۔ آپ ﷺ نے استفسار فرمایا کہ یہ غلہ بھیگا ہو ا کیوں ہے؟ تو اس غلہ فروش نے بتایا کہ رات بارش ہوئی تھی جس کی وجہ سے غلہ بھیگ گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے بھیگا ہو ا غلہ اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ خریدنے والے دھوکہ نہ کھائیں۔ قربان جائیے رسول اللہ ﷺ پر آپ کو خلق خدا کی کتنی فکر تھی کہ کہیں انجانے میں کوئی شخص دھوکہ نہ کھاجائے۔ آپ نے امت کو سامان کاعیب دکھاکر بیچنے کا حکم فرمایا۔
اسلام میں وعدہ کی پابندی پر بہت زور دیا گیا اور جولوگ وعدہ کے پابند نہیں ہیں ان کےمتعلق سخت تنبیہ بھی کی گئی ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “عہد کو پورا کرو، کیوں کہ قیامت کے دن عہد کے بارے میں انسان جواب دہ ہو گا۔” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات کے ذریعے بھی ایفائے عہد کی اہمیت اور وعدہ خلافی کی برائی کو بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جس میں تین باتیں پائی جاتی ہوں وہ منافق ہے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اگر امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ۔‘‘ رسول اللہ ﷺوعدہ کی پابندی پر تو عمومی طور پر زور دیا کرتے ہی تھے لیکن معاملات کے اندر وعدہ کی پابندی پر آپ ﷺ نے خاصا زور دیا ہے ۔ اس لئے کہ وعدہ ایک ایسا معاملہ ہے جس سے دوفریقوں کے نفع نقصان وابستہ ہوتے ہیں ۔ ان میں سے ایک فریق اگر وعدہ کا پابند نہیں رہا تو دوسرے فریق کو زبردست نقصان کا اندیشہ رہتاہے ۔ اس معاملے میں ایک واقعہ مشہور ہے حضرت عبداللہ بن ابی الحمسا رضی اللہ تعالی عنہ کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ نزول وحی اور اعلان نبوّت سے پہلے میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خرید و فروخت کا ایک معاملہ کیا۔ کچھ رقم میں نے ادا کر دی، کچھ باقی رہ گئی۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں ابھی ابھی آکر باقی رقم بھی ادا کردوں گا۔ اتفاق سے تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہیں آیا۔ تیسرے دن جب میں اس جگہ پہنچا جہاں میں نے آنے کا وعدہ کیا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی جگہ منتظر پایا۔ مگر اس سے بھی زیادہ عجیب یہ کہ میری اس وعدہ خلافی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتھے پر اک ذرا بل نہیں آیا۔بس صرف اتنا ہی فرمایا : تم کہاں تھے؟ میں اس مقام پر تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔آج کی ترقی یافتہ دنیا میں سرمایہ داروں کی اجارہ داری ہے وہ جس چیز کی قیمت چاہتے ہیں آسمان میں پہنچادیتے اور جس چیز کو چاہتے ہیں بالکل سستا کردیتےہیں ۔ اس کا واحد سبب ذخیرہ اندوزی ہے جب بازار میں کسی چیز کی ضرورت زیادہ ہو تی ہے تو ان چیزوں کو گودام میں جمع کردیا جاتاہےا ور بازار میں جب بالکل افراتفری پھیل جاتی ہے تو اسے منہ مانگے داموں بیچا جاتاہے ۔آج کی ترقی یافتہ دنیا اس کو اپناتجارتی کمال اور ہنر سمجھتی ہے لیکن محسن انسانیت ﷺ نے ذخیرہ اندوزی سے منع فرمایا ہے اور جو لوگ ذخیر ہ اندوزی کرتے ہیں ان سے متعلق سخت ہدایات فرمائے ہیں۔ اس سے متعلق آپ ﷺ کے ارشادات اتنے سخت ہیں کہ جوشخص اپنی عاقبت کا خیر چاہتاہو وہ کبھی بھی ذخیرہ اندوزی کرکے خلق خدا کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرسکتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا :”جو شخص مسلمانوں میں ذخیرہ اندوزی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے برص کی بیماری اور غربت میں مبتلا کردے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:” بہت براہے وہ شخص جو خود ذخیرہ اندوزی کرتا ہے جب قیمتیں گرنے لگتی ہیں تو بہت برا محسوس کرتاہے اور جب قیمت بڑھتی ہے تو بہت خوش ہوتاہے ۔اس حدیث پر صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ تمام اقوام اور ممالک کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو حکومتیں چاہتیں ہیں کہ عوام کے مال ودولت کو سر عام نہ لوٹا جائے اور معاشرے میں توازن برقرار رہے ، جو قومیں انسانی ہمدردی کا جذبہ رکھتی ہیں انہیں چاہئے رسول اللہ ﷺ کے ان ہدایت پر عمل کریں اور اپنے ملک ، معاشرے اور خلق خدا کے درمیان بد امنی کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کریں۔