کفارہ اداکرنا
تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
بسا اوقات انسان سے ایسی غلطیاں صادر ہوجاتی ہیں جواس کے لئے دنیاوی زندگی میں بھی پریشانی کاسبب بن جاتی ہیں اورآخرت کے سوال وجواب کاخوف بھی اس پرسوار رہتاہے۔جرائم اورگناہوں سے متعلق اللہ تعالیٰ نے اعلان کردیا ہے کہ توبہ کرو میں تمہاری توبہ قبول کروں گا۔توبہ تقرب الہی کاایک ذریعہ ہے اس کے ذریعہ انسان گناہوں سے پاک وصاف ہوجاتاہے۔لیکن کچھ گناہ ایسے سنگین قسم کے ہوتے ہیں جوصرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے بلکہ ان کے لئے کفارہ لازم ہوتاہے اور آدمی جب کفارہ اداکرکے اللہ کی طرف متوجہ ہوتاہے تواللہ تعالیٰ بھی اپنی معافی کااعلان کردیتے ہیں۔ان میں سے پہلی قسم کفارہ قتل ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد ہے:
وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَءًاوَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَءًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَّ دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓی اَھْلِہٖٓ اِلَّآ اَنْ یَّصَّدَّقُوْافَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّلَّکُمْ وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍوَ اِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَھُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیْۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓی اَھْلِہٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍفَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعِیْنِ تَوْبَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا(92۔نساء)
ترجمہ: اور کسی مومن کو شایاں نہیں کہ مومن کو مار ڈالے مگر بھول کر اور جو بھول کر بھی مومن کو مار ڈالے تو (پہلے) ایک مسلمان غلام آزاد کر دے اور (دوسرے) مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے ہاں اگر وہ معاف کر دیں (تو اُن کو اختیار ہے) اگر مقتول تمہارے دشمنوں کی جماعت میں سے ہو اور وہ خود مومن ہو تو صرف ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہئے اور اگر مقتول ایسے لوگوں میں سے ہو جن میں اور تم میں صلح کا عہد ہو تو وارثانِ مقتول کو خون بہا دینا اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہئے اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ متواتر دو مہینے کے روزے رکھے یہ (کفارہ) اللہ کی طرف سے (قبول) توبہ (کیلئے) ہے اور اللہ (سب کچھ) جانتا (اور) بڑی حکمت والا ہے۔
قتل عمد میں تو قصاص واجب ہوتاہے اور اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمادیاہے فَجَزَاءُہٗ جَھَنَّمُ ہاں اگر کسی سے خطاء ًیعنی بھول یا غلطی سے قتل صاد ر ہوگیاتو اس میں کفارہ اور دیت لازم ہے۔ چنانچہ اگر کسی نے مسلمان کو خطاءًً قتل کردیا تو اس پرکفارہ اور دیت دونوں لازم ہے اور اگر کسی ایسے مسلمان کوقتل کردیا جو دشمنوں کے ساتھ ہے تو صرف کفارہ لازم ہوگا اوراگر کسی معاہد جماعت کے آدمی کو قتل کردیا تو کفارہ اور دیت دونوں لازم ہیں۔کفارہ یہ ہے ایک مومن غلام یاباندی آزاد کرے اور اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تودومہینے لگاتار روزے رکھے اوردیت سو اونٹ ہیں۔
عَن عبد اللہ بن عمرأَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ يَوْمَ الْفَتْحِ بِمَكَّةَ فَكَبَّرَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ صَدَقَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ، إِلَى هَاهُنَا حَفِظْتُهُ، عَنْ مُسَدَّدٍ، ثُمَّ اتَّفَقَا، أَلَا إِنَّ كُلَّ مَأْثُرَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تُذْكَرُ وَتُدْعَى مِنْ دَمٍ أَوْ مَالٍ تَحْتَ قَدَمَيَّ، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ سِقَايَةِ الْحَاجِّ وَسِدَانَةِ الْبَيْتِ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا إِنَّ دِيَةَ الْخَطَإِ شِبْهِ الْعَمْدِ مَا كَانَ بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ مِنْهَا أَرْبَعُونَ فِي بُطُونِ أَوْلَادِهَا۔۔“ (سنن ابو داؤد:کتاب الدیات،باب دیۃ الخطا شبہ العمد ۔حدیث نمبر4547)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مسدد کی روایت کے مطابق) فتح مکہ کے دن مکہ میں خطبہ دیا، آپ نے تین بار اللہ اکبر کہا، پھر فرمایا: ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ صَدَقَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ ”اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ تنہا ہے، اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا لشکروں کو شکست دی“ (ابوداؤد نے کہا:”یہاں تک کہ حدیث مجھ سے صرف مسدد نے بیان کی ہے صرف انہیں کے واسطہ سے میں نے اسے یاد کیا ہے اور اس کے بعد سے اخیر حدیث تک سلیمان اور مسدد دونوں نے مجھ سے بیان کیا ہے آگے یوں ہے“) سنو! وہ تمام فضیلتیں جو جاہلیت میں بیان کی جاتی تھیں اور خون یا مال کے جتنے دعوے کئے جاتے تھے وہ سب میرے پاؤں تلے ہیں (یعنی لغو اور باطل ہیں) سوائے حاجیوں کو پانی پلانے اور بیت اللہ کی خدمت کے۔ (یہ اب بھی ان کے ہی سپرد رہے گی جن کے سپر د پہلے تھی“) پھر فرمایا: ”سنو! قتل خطا یعنی قتل شبہ عمد کوڑے یا لاٹھی سے ہونے کی دیت سو اونٹ ہے جن میں چالیس اونٹنیاں ایسی ہوں گی جن کے پیٹ میں بچے ہوں ۔
عَن عمرو بن شعیب عَن ابیہ عَن جدہ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَنَّ مَنْ قُتِلَ خَطَأً فَدِيَتُهُ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ: ثَلَاثُونَ بِنْتَ مَخَاضٍ، وَثَلَاثُونَ بِنْتَ لَبُونٍ، وَثَلَاثُونَ حِقَّةً، وَعَشَرَةُ بَنِي لَبُونٍ ذَكَرٍ”.( سنن ابو داؤد: کتاب الدیات، باب الدیۃ کم ھی۔حدیث نمبر٤٥٤١ )
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا: جو غلطی سے مارا گیا تو اس کی دیت سو اونٹ ہے تیس بنت مخاض (ایسی اونٹنی جو ایک برس کی ہو چکی ہو۔) تیس بنت لبون (ایسی اونٹنی جو دو برس کی ہو چکی ہو۔) تیس حقے(ایسی اونٹنی جو تین برس کی ہو چکی ہو۔) اور دس نر اونٹ جو دو برس کے ہو چکے ہوں۔
قتل خطا کی قسمیں
قتل خطا کی کئی قسمیں ہیں ان میں سے ایک شبہ عمد ہے۔یعنی مارنے والے نے عمداً ہی مارالیکن کسی ایسی چیز سے ماراجوعادۃً قتل کے لئے استعمال نہیں ہوتا جیسے کسی کوایک دوڈنڈے مارے اوروہ اس ضرب کی وجہ سے مرگیا یا کسی کوتھپڑماری اور وہ مرگیا ظاہرہے اس میں مارنے والے کا ارادہ قتل کانہیں تھا اس لئے اس کوشبہ عمد کہا جاتاہے ایسی صورت میں مارنے والے پر کفارہ اور دیت لازم ہوگا قصاص نہیں ہوگا۔
قتل خطا کی دوسری قسم یہ ہے کہ ارادہ میں غلطی کرجائے جیسے کوئی انسان بیٹھا ہوا ہواو ر اس کوشکار سمجھ کرنشانہ لگادے اوروہ آدمی مرجائے۔یاکسی مسلمان کوحربی سمجھ کرمارڈالے ۔
قتل خطا کی تیسری صورت یہ ہے کہ نشانہ خطا کرجائے کہ مارنے والے نے کسی جانور کانشانہ لیاتھا لیکن بیچ میں کوئی آدمی اچانک آجائے یاوہ شکار بھاگ جائے اورگولی کسی آدمی کولگ جائے اس کے علاوہ اوربھی صورتیں ممکن ہیں۔
قتل خطاکی چوتھی صورت یہ ہے کہ کوئی آدمی نیند کی حالت میں کروٹ بدلے اوراس کے بدن کے بوجھ سے دب کر کوئی آدمی مرجائے۔
پانچویں صورت قتل بالسبب ہے جیسی کوئی آدمی غیر کی ملکیت میں گڑھاکھودے یاپتھر رکھ دے اوراس میں کوئی آدمی گرکریاٹھوکرکھاکرمرجائے۔ ان تمام قسموں میں کفارہ کے ساتھ دیت بھی واجب ہوگی۔ان تمام معاملات میں فیصلہ کا حق قاضی یا امیر کو حاصل ہے انفرادی طور پر کسی بھی شخص کو فیصلے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
کفارۂ ظہار
اصطلاح شریعت میں ظہار کے معنی یہ ہیں کہ: کوئی شخص اپنی بیوی کواپنے کسی محرمات کے مثل قرار دے دے۔جیسے یہ کہہ دے: ”تو مجھ پر میری ماں جیسی ہے یا بہن جیسی ہے“ اس کا حکم یہ ہے کہ اس لفظ سے طلاق تو نہیں ہوتی، لیکن کفارہ ادا کئے بغیر بیوی کے پاس جانا حرام ہے اور کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے یا دو مہینے کے لگاتار روزے رکھے اور اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔جب وہ کفارہ اداکردے گا تو اس کی بیوی اس کے لئے حلال ہوجائے گی۔اسلام سے پہلے ظہار کو طلاق کے مترادف سمجھا جاتا تھا لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے نرم کرکے کفارہ ادا کرنے کی وقتی پابندی میں تبدیل کر دیا۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا اِِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ (۱)الَّذِیْنَ یُظَاہِرُوْنَ مِنْکُمْ مِّنْ نِّسَاءِہِمْ مَا ھُنَّ اُمَّہَاتِہِمْ اِِنْ اُمَّہَاتُہُمْ اِِلَّا اللَّاءِی وَلَدْنَہُمْ وَاِِنَّہُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْکَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُورًا وَّاِِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ (۲)وَالَّذِیْنَ یُظَاھِرُوْنَ مِنْ نِّسَآءِھِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْریْرُ رَقَبَۃٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَاسَّاذٰلِکُمْ تُوْعَظُوْنَ بِہٖ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ (۳) فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَاسَّا فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِِطْعَامُ سِتِّینَ مِسْکِیْنًا ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (۴۔المجادلہ)
ترجمہ: اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار اوراللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی اوراللہ آپ دونوں کی گفتگو سن رہا تھا اللہ یقینا بڑا سننے والا دیکھنے والاہے۔ تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں۔وہ ان کی مائیں نہیں ان کی مائیں تو صرف وہی ہے جنہوں نے انہیں جناہے اور بلا شبہ یہ لوگ نا پسندیدہ باتیں کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں اورا للہ یقینا بڑا در گزر کرنے والا مغفرت کرنے والاہے اور جولوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں پھر اپنے قول سے ہٹ جائیں تو انہیں باہمی مقاربت سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا چاہیے اس طرح تمہیں نصیحت کی جاتی ہے جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب باخبرہے۔پس جسے غلام نہ ملے وہ باہمی مقاربت سے پہلے متواتر دو ماہ کے روزے رکھے اور جو ایسا بھی نہ کر سکے وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے یہ اس لیے ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھویہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں اور کفار کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
عن سلمہ بن سخرقَالَ ابْنُ الْعَلَاءِ الْبَيَاضِيُّ، قَالَ: كُنْتُ امْرَأً أُصِيبُ مِنَ النِّسَاءِ مَا لَا يُصِيبُ غَيْرِي، فَلَمَّا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ خِفْتُ أَنْ أُصِيبَ مِنَ امْرَأَتِي شَيْئًا يُتَابَعُ بِي حَتَّى أُصْبِحَ، فَظَاهَرْتُ مِنْهَا حَتَّى يَنْسَلِخَ شَهْرُ رَمَضَانَ، فَبَيْنَمَا هِيَ تَخْدُمُنِي ذَاتَ لَيْلَةٍ إِذْ تَكَشَّفَ لِي مِنْهَا شَيْءٌ، فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ نَزَوْتُ عَلَيْهَا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ خَرَجْتُ إِلَى قَوْمِي فَأَخْبَرْتُهُمُ الْخَبَرَ، وَقُلْتُ: امْشُوا مَعِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: لَا وَاللَّهِ، فَانْطَلَقْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ:” أَنْتَ بِذَاكَ يَا سَلَمَةُ”، قُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَرَّتَيْنِ، وَأَنَا صَابِرٌ لِأَمْرِ اللَّهِ، فَاحْكُمْ فِيَّ مَا أَرَاكَ اللَّهُ، قَالَ:” حَرِّرْ رَقَبَةً”، قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَمْلِكُ رَقَبَةً غَيْرَهَا وَضَرَبْتُ صَفْحَةَ رَقَبَتِي، قَالَ:” فَصُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ”، قَالَ: وَهَلْ أَصَبْتُ الَّذِي أَصَبْتُ إِلَّا مِنَ الصِّيَامِ، قَالَ:” فَأَطْعِمْ وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ بَيْنَ سِتِّينَ مِسْكِينًا”، قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَقَدْ بِتْنَا وَحْشَيْنِ مَا لَنَا طَعَامٌ، قَالَ:” فَانْطَلِقْ إِلَى صَاحِبِ صَدَقَةِ بَنِي زُرَيْقٍ فَلْيَدْفَعْهَا إِلَيْكَ، فَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ، وَكُلْ أَنْتَ وَعِيَالُكَ بَقِيَّتَهَا”، فَرَجَعْتُ إِلَى قَوْمِي، فَقُلْتُ: وَجَدْتُ عِنْدَكُمُ الضِّيقَ وَسُوءَ الرَّأْيِ وَوَجَدْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّعَةَ وَحُسْنَ الرَّأْيِ، وَقَدْ أَمَرَنِي، أَوْ أَمَرَ لِي، بِصَدَقَتِكُمْ، زَادَ ابْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ: بَيَاضَةُ بَطْنٌ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ. (سنن ابوداؤد۔ کتاب تفریع ابواب الطلاق، باب فی الظہار۔حدیث نمبر 2213 )
حضرت سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابن العلا ء بیاضی نے فرکہا کہ لوگوں کے مقابلے میں میں کچھ زیادہ ہی عورتوں کا شوقین تھا، جب ماہ رمضان آیا تو مجھے ڈر ہوا کہ اپنی بیوی کے ساتھ کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھوں جس کی برائی صبح تک پیچھا نہ چھوڑے چنانچہ میں نے ماہ رمضان کے ختم ہونے تک کے لیے اس سے ظہار کر لیا۔ ایک رات کی بات ہے وہ میری خدمت کر رہی تھی کہ اچانک اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آ گیا تو میں اس سے صحبت کئے بغیر نہیں رہ سکا، پھر جب میں نے صبح کی تو میں اپنی قوم کے پاس آیا اور انہیں سارا ماجرا سنایا، نیز ان سے درخواست کی کہ وہ میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں، وہ کہنے لگے: اللہ کی قسم یہ نہیں ہو سکتا تو میں خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری بات بتائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلمہ! تم نے ایسا کیا؟“ میں نے جواب دیا: ہاں اللہ کے رسول، مجھ سے یہ حرکت ہو گئی، دو بار اس طرح کہا، میں اللہ کا حکم بجا لانے کے لیے تیار ہوں، تو آپ میرے بارے میں حکم کیجئے جو اللہ آپ کو سُجھائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک گردن آزاد کرو“، میں نے اپنی گردن پر ہاتھ مار کر کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے علاوہ میرے پاس کوئی گردن نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو دو مہینے کے مسلسل روزے رکھو“، میں نے کہا: میں تو روزے ہی کے سبب اس صورت حال سے دوچار ہوا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر ساٹھ صاع کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ”، میں نے جواب دیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہم دونوں تو رات بھی بھوکے سوئے، ہمارے پاس کھانا ہی نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی زریق کے صدقے والے کے پاس جاؤ، وہ تمہیں اسے دے دیں گے اور ساٹھ صاع کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلا دینا اور جو بچے اسے تم خود کھا لینا، اور اپنے اہل و عیال کو کھلا دینا“، اس کے بعد میں نے اپنی قوم کے پاس آ کر کہا: مجھے تمہارے پاس تنگی اور غلط رائے ملی جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گنجائش اور اچھی رائے ملی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یا میرے لیے تمہارے صدقے کا حکم فرمایا ہے۔
واضح رہے کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کے ساتھ ظہار کرلیاتو اس کی بیوی اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کہ کفارہ ادانہیں کرتا۔
أَنَّ رَجُلًا ظَاهَرَ مِنَ امْرَأَتِهِ ثُمَّ وَاقَعَهَا قَبْلَ أَنَّ يُكَفِّرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ:” مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ”، قَالَ: رَأَيْتُ بَيَاضَ سَاقِهَا فِي الْقَمَرِ، قَالَ:” فَاعْتَزِلْهَا حَتَّى تُكَفِّرَ عَنْكَ”(سنن ابوداؤد۔ کتاب تفریع ابواب الطلاق، باب فی الظہار۔حدیث نمبر2221)
حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کر لیا، پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی وہ اس سے صحبت کر بیٹھا چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو اس کی خبر دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں اس فعل پر کس چیز نے آمادہ کیا؟“ اس نے کہا: چاندنی رات میں میں نے اس کی پنڈلی کی سفیدی دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم اس سے اس وقت تک الگ رہو جب تک کہ تم اپنی طرف سے کفارہ ادا نہ کر دو”۔
ایلاء
ایلاء کے لغوی معنی قسم کھانے کے ہیں، اوراصطلاح شرع میں ایلاء یہ ہے کہ شوہر جو جماع کی طاقت رکھتا ہو،اس بات پر قسم کھائے کہ وہ اپنی بیوی کو چار ماہ سے زائد عرصہ تک کے لیے جدا رکھے گااور اس سے جماع نہیں کرے گا۔امام ترمذی نے ایلاء کی تعریف یہی کی ہے:وَاْلِایْلَاءُ:ھُوَ اَنْ یَحْلِفَ الرَّجُلُ اَنْ لَّا یَقْرَبَ اِمْرَاَتَہٗ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ فَاَکْثَرَ(ایلاء یہ ہے کہ ٓدمی چار ماہ یا اس سے زیادہ دنوں تک اپنی بیوی کے قریب نہ جانے کی قسم کھا لے،کتاب الطلاق واللعان۔باب ماجاء فی الایلا) ایلاء کرنے والا اگر اپنی قسم توڑ لے تو اس پر کفارہ یمین لازم ہو گا اور کفارہ یمین دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑا پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے، اگر ان تینوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھنا ہے۔
عن عائشۃ قَالَتْ: ” آلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِهِ وَحَرَّمَ، فَجَعَلَ الْحَرَامَ حَلَالًا، وَجَعَلَ فِي الْيَمِينِ كَفَّارَةً “(ترمذی کتاب الطلاق واللعان،باب ماجا فی الایلاء ۔حدیث نمبر1201)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے ایلاء کیا اور (ان سے صحبت کرنا اپنے اوپر) حرام کر لیا۔ پھر آپ نے حرام کو حلال کر لیا اور قسم کا کفارہ ادا کر دیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایلاء لغوی اعتبار سے تھا اور مباح تھا کیونکہ آپ نے صرف ایک ماہ تک کے لیے ایلاء کیا تھا، اور اس ایلاء کا سبب یہ تھا کہ ازواج مطہرات نے آپ سے مزید نفقہ کا مطالبہ کیا تھا۔
کفارۂ یمین
یمین کے معنی داہنا ہاتھ،قوت وتوانائی اورحلف یا قسم اٹھانے کے آتے ہیں اوراصطلاح شرع میں اس قسم کو کہتے ہیں کہ جو اللہ کے نام سے یا اس کی کسی صفت سے کھائی جائے جیسا کہ واللہ‘ باللہ‘ تاللہ عربی میں اور اردو میں اللہ کی قسم، رحمن کی قسم،رحیم کی قسم وغیرہ۔ اسی کو حلف کہتے ہیں۔ چونکہ اللہ کے نام سے قسم میں قوت اور تاکید ہوجاتی ہے اس لیے اس کو یمین کہتے ہیں۔قسم یاحلف ایسا عقد ہے جس کے ذریعے قسم کھانے والا کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرتاہے۔
قسم کی تین قسمیں ہیں:(۱)یمین غموس(۲)یمین لغو(۳)یمین منعقدہ۔
یمین غموس:ایسی قسم جو گذشتہ زمانے کے متعلق کسی امر پر اٹھائی گئی ہواور قصداً اس میں جھوٹ بولا گیا ہو۔ایسی قسم اٹھانے والاسخت گناہگار ہوتا ہے لیکن توبہ کے سوا کوئی کفارہ وغیرہ لازم نہیں آتا۔
یمین لغو:ایسی قسم جو گذشتہ زمانے سے متعلق کسی امر پر اٹھائی گئی ہو۔اور وہ امر قسم اٹھانے والے کے علم کے مطابق واقع ہولیکن درحقیقت ایسا نہ ہو۔اس پرکوئی کفارہ نہیں۔
یمین منعقدہ:مستقبل کے کسی فعل کے متعلق کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھانا ایسی قسم میں حانث ہونے پر کفارہ لازم آتا ہے۔
یمین شرعی ایسی قسم جو گناہ اور کفارہ کو لازم کرے یہ قسم اللہ تعالی کے نام کے ساتھ اٹھائی جاتی ہے۔ایسی قسم کا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے اگر یہ نہ ہو تو دس مسکینوں کو کھانا کھلانایا کپڑے پہنانا ہے اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو پھر تین دن کے مسلسل روزے رکھنا ہے۔
لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَ لٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُھُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (٨٩ ۔ مائدہ)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مؤاخذہ نہیں فرماتا لیکن مؤاخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مضبوط کردو۔ اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا دینا ہے اوسط درجے کا جو اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے اور جس کو مقدور نہ ہو تو تین دن کے روزے ہیں یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھا لو اور اپنی قسموں کا خیال رکھو! اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے واسطے اپنے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو۔
کفارۂنذر
جس شخص نے کسی چیز کی نذ ر مان لی تو اس کو پورا کرنا اس پرلازم ہوجاتاہے اوراگر پورانہیں کرسکا تو کفارہ لازم ہوگا۔
عن عمر قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي كُنْتُ نَذَرْتُ أَنْ أَعْتَكِفَ لَيْلَةً فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ , قَالَ: ” أَوْفِ بِنَذْرِكَ ” (سنن ترمذی۔ کتاب النذر والایمان۔باب ماجا ء فی وفاء النذر۔حدیث نمبر١٥٣٩ )
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات مسجد الحرام میں اعتکاف کروں گا، آپ نے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کرو”
عن عائشۃ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ , وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَ اللَّهَ فَلَا يَعْصِهِ “(سنن ترمذی۔ کتاب النذ ر والایمان۔باب من نذر ان یطیع اللہ فلیطعہ۔حدیث نمبر١٥٢٦ )
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص نذر مانے کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو وہ اللہ کی اطاعت کرے، اور جو شخص نذر مانے کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے”۔
نذر غیر معین:جس نے کوئی نذر مانی اور اس کا نام نہیں لیا یعنی صرف اتنا کہا کہ اگر میری مراد پوری ہو جائے تو مجھ پر نذر ہے تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔
عَن عُقبہ بن عامر ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” كَفَّارَةُ النَّذْرِ إِذَا لَمْ يُسَمَّ كَفَّارَةُ يَمِينٍ سنن ترمذی۔ کتاب النذ ر والایمان۔باب ماجاء فی کفارۃ النذر اذا لم یسم۔حدیث نمبر١٥٢٨ )
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غیر متعین نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے”
اگر کسی نے کسی معصیت کی نذر مان لی تو اس کو پورا کرنا لازم نہیں ہے بلکہ اس کا کفارہ اداکرکے اللہ سے توبہ واستغفار کرنا چاہئے۔
عَن عائشۃ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:” مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ , وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَ اللَّهَ فَلَا يَعْصِهِ (سنن نسائی۔کتاب الایمان والنذور، باب النذر فی المعصیۃ۔ حدیث نمبر٣٨٣٨ )
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”معصیت کی نذر نہیں ہے (یعنی اس کا پورا کرنا جائز نہیں ہے) اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے”۔
عَن عقبۃ بن عامر , أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أُخْتٍ لَهُ نَذَرَتْ أَنْ تَمْشِيَ حَافِيَةً غَيْرَ مُخْتَمِرَةٍ , فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مُرْهَا فَلْتَخْتَمِرْ , وَلْتَرْكَبْ , وَلْتَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ”.(سنن نسائی۔کتاب الایمان والنذور،اذا حلفت المرأۃ لتمشی حافیۃ غیر مختمرۃ۔حدیث نمبر٣٨٤٦ )
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ایک بہن کے بارے میں پوچھا جس نے نذر مانی تھی کہ وہ ننگے پیر اور ننگے سر حج کرے گی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اسے حکم دو کہ اپنا سر ڈھانپ لے اور سواری پر سوار ہو اور (بطور کفارہ) تین دن کے روزے رکھے”۔
کفارۂ صوم
رمضان کے روزے ہرمسلمان مردوعورت عاقل وبالغ پرفرض ہیں اوران کی ادائیگی ہر حال میں لازم ہے ا لّایہ کہ کوئی شرعی عذر موجود ہو۔ اگر کسی نے رمضان کاروزہ شروع کرنے کے بعد جان بوجھ کر توڑ دیا تو اس پرکفارہ لازم ہوجاتاہے۔اب وہ یا توایک غلام آزاد کرے یا ساٹھ روزے لگاتار رکھے یاساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔
عَن ابی ھریرۃ ، قَالَ: أَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكْتُ، قَالَ: ” وَمَا أَهْلَكَكَ؟ ” قَالَ: وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: ” هَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُعْتِقَ رَقَبَةً؟ ” قَالَ: لَا، قَالَ: ” فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ؟ ” قَالَ: لَا، قَالَ: ” فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُطْعِمَ سِتِّينَ مِسْكِينًا؟ ” قَالَ: لَا، قَالَ: ” اجْلِسْ ” فَجَلَسَ، فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ وَالْعَرَقُ الْمِكْتَلُ الضَّخْمُ، قَالَ: ” تَصَدَّقْ بِهِ ” فَقَالَ: مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا أَحَدٌ أَفْقَرَ مِنَّا، قَالَ: فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ، قَالَ: ” فَخُذْهُ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ “. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي مَنْ أَفْطَرَ فِي رَمَضَانَ مُتَعَمِّدًا مِنْ جِمَاعٍ، وَأَمَّا مَنْ أَفْطَرَ مُتَعَمِّدًا مِنْ أَكْلٍ أَوْ شُرْبٍ، فَإِنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ قَدِ اخْتَلَفُوا فِي ذَلِكَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَيْهِ الْقَضَاءُ وَالْكَفَّارَةُ، وَشَبَّهُوا الْأَكْلَ وَالشُّرْبَ بِالْجِمَاعِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَيْهِ الْقَضَاءُ وَلَا كَفَّارَةَ عَلَيْهِ، لِأَنَّهُ إِنَّمَا ذُكِرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكَفَّارَةُ فِي الْجِمَاعِ وَلَمْ تُذْكَرْ عَنْهُ فِي الْأَكْلِ وَالشُّرْبِ، وَقَالُوا: لَا يُشْبِهُ الْأَكْلُ وَالشُّرْبُ الْجِمَاعَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: وَقَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلرَّجُلِ الَّذِي أَفْطَرَ فَتَصَدَّقَ عَلَيْهِ خُذْهُ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ، يَحْتَمِلُ هَذَا مَعَانِيَ: يَحْتَمِلُ أَنْ تَكُونَ الْكَفَّارَةُ عَلَى مَنْ قَدَرَ عَلَيْهَا، وَهَذَا رَجُلٌ لَمْ يَقْدِرْ عَلَى الْكَفَّارَةِ، فَلَمَّا أَعْطَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا وَمَلَكَهُ، فَقَالَ الرَّجُلُ: مَا أَحَدٌ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنَّا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” خُذْهُ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ “(سنن ترمذی۔کتاب الصیام،باب ماجاء فی کفارۃ الفطر فی رمضان۔حدیث نمبر724)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! میں ہلاک ہو گیا، آپ نے پوچھا: ”تمہیں کس چیز نے ہلاک کر دیا؟” اس نے عرض کیا: میں رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر بیٹھا۔ آپ نے پوچھا: ”کیا تم ایک غلام یا لونڈی آزاد کر سکتے ہو؟” اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا:”کیا مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟” اس نے کہا: نہیں، تو آپ نے پوچھا: ”کیا ساٹھ مسکین کو کھانا کھلا سکتے ہو؟” اس نے کہا: نہیں، تو آپ نے فرمایا:”بیٹھ جاؤ” تو وہ بیٹھ گیا۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بڑا ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں، آپ نے فرمایا: ”اسے لے جا کر صدقہ کر دو”، اس نے عرض کیا: ان دونوں ملے ہوئے علاقوں کے درمیان کی بستی (یعنی مدینہ میں) مجھ سے زیادہ محتاج کوئی نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے ساتھ والے دانت دکھائی دینے لگے۔ آپ نے فرمایا:”اسے لے لو اور لے جا کر اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دو”۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ رمضان کا روزہ قصداً توڑنے سے ظہارکی طرح کفارہ لازم ہے، وہ شخص چونکہ بہت زیادہ محتاج تھے اس لئے نبی کریم ﷺ نے اس مال کواپنے گھروالوں پرخرچ کرنے کی اجازت دے دی یہ ان کی خصوصیت ہے۔ لیکن کفارہ بہر حال وہی ہے جواوپربیان کیاگیا۔