آصف قاسمی

خرچ میں میانہ روی اختیار کرنا

تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

اعتدال اورمیانہ روی ہرکام میں پسندیدہ ہے اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگ پسند ہیں جو اعتدال پسند اورمیانہ رَو ہوتے ہیں اور اپنے تمام ترمعاملات کسی کمی بیشی کے بغیر اوسط معیارکے ساتھ حل کرتے ہیں۔انہیں میں مال بھی شامل ہے۔اموال کی جتنی بھی قسمیں ہیں وہ تمام کی تمام اللہ تعالیٰ کی عطا اوراس کی بخشش ہیں اس لئے ان کواللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق خرچ کرناہی باعث برکت ہے اس لئے نہ تو خرچ کرنے میں اسراف وتبذیر سے کام لینا چاہئے او ر نہ ہی بخل اور کنجوسی اختیار کرنا چاہے بلکہ ان دونوں کے بیچ میانہ روی کا راستہ اختیا رکرنا چاہئے جولوگ فضول خرچی اوربخل سے بچتے ہوئے اپنے اموال کواعتدال کے ساتھ خرچ کرتے ہیں وہ اللہ کے محبوب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

وَالَّذِیْنَ اِِذَا اَنفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا۔ (67۔فرقان)

ترجمہ: اور(رحمن کے سچے بندے وہ ہیں) جو خرچ کرتے وقت نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی، بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں۔

اللہ کے بندوں کی یہ خاص صفت ہے کہ وہ نہ تو اسراف کرتے ہیں اورنہ ہی بخالت سے کام لیتے ہیں بلکہ افراط وتفریط سے بچتے ہوئے ایک میانہ چال چلتے ہیں۔جولوگ افراط وتفریط سے بچتے ہیں وہ کبھی دوسروں کامحتاج نہیں ہوتے اللہ کی مدد ہمیشہ ان کے ساتھ رہتی ہے۔فضول خرچی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے شیطان کا بھائی قرار دیا ہے اوربخل کرنے والوں کی ملامت فرمائی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَ الْمِسْکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(٢٦ )اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَ کَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا(٢٧ ) وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْھُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ تَرْجُوْھَا فَقُلْ لَّھُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا(٢٨ ) وَ لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلیٰ عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا (٢٩ ) اِنَّ رَبَّکَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُاِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرً ا بَصِیْرًا(٣٠ ۔بنی اسرائیل)

ترجمہ:  اور رشتے داروں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو اور اسراف اور بیجا خرچ سے بچو۔ بیجا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے اور اگر تجھے ان سے منھ پھیر لینا پڑے اپنے رب کی اس رحمت کی جستجو میں، جس کی تو امید رکھتا ہے تو بھی تجھے چاہئے کہ عمدگی اور نرمی سے انہیں سمجھا دے۔ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ پھر ملامت کیا ہوا درماندہ بیٹھ جائے۔ یقیناً تیرا رب جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کردیتا ہے اور جس کے لئے چاہے تنگ۔ یقیناً وہ اپنے بندوں سے باخبر اور خوب دیکھنے والا ہے۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے خرچ کرنے کاحکم دیا ہے اوراپنے عزیزوں رشتہ داروں کے علاوہ مسافروں کاحق اداکرنے کابھی حکم دیاہے اس کے ساتھ ہی تبذیر سے منع فرمایاہے۔

”تبذیر کہتے ہیں غیر حق میں خرچ کرنے کو۔ اپنا کل مال بھی اگراللہ کی راہ میں دیدے تو یہ تبذیر و اسراف نہیں اور غیر حق میں تھوڑا سا بھی دے تو مبذر ہے۔ بنو تمیم کے ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مالدار آدمی ہوں اور اہل و عیال کنبے قبیلے والا ہوں تو مجھے بتائیے کہ میں کیا روش اختیار کروں؟ آپ نے فرمایا اپنے مال کی زکوٰۃ الگ کر، اس سے تو پاک صاف ہو جائے گا۔ اپنے رشتے داروں سے سلوک کر سائل کا حق پہنچاتا رہ اور پڑوسی اور مسکین کا بھی۔ اس نے کہا یارسول اللہ! اور تھوڑے الفاظ میں پوری بات سمجھا دیجئے۔ آپ نے فرمایا قرابت داروں مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کر اور بیجا خرچ نہ کر۔ اس نے کہا حسبی اللہ اچھا یارسول اللہ! جب میں آپ کے قاصد کو زکوٰۃ ادا کر دوں تو اللہ و رسول کے نزدیک میں بری ہو گیا؟ آپ نے فرمایا ہاں جب تو نے میرے قاصد کو دے دیا تو تو بری ہو گیا اور تیرے لیے اجر ثابت ہو گیا۔ اب جو اسے بدل ڈالے اس کا گناہ اس کے ذمے ہے۔ مسند احمد

یہاں فرمان ہے کہ اسراف اور بیوقوفی اور اللہ کی اطاعت کے ترک اور نافرمانی کے ارتکاب کی وجہ سے مسرف لوگ شیطان کے بھائی بن جاتے ہیں۔ شیطان میں یہی بد خصلت ہے کہ وہ رب کی نعمتوں کا ناشکرا، اس کی اطاعت کا تارک، اس کی نافرمانی اور مخالفت کا عامل ہے۔“(تفسیر ابن کثیر سورہ بنی اسرائیل آیت٢٦ ۔٢٧ )

ان آیات میں اپنے مال کوخرچ کرنے کے جائز راستوں کی ہدایت دی گئی ہے۔ایک توانسان کی اپنی ذاتی ضروریات ہوتی ہیں جن میں وہ خرچ کرتاہے ان کی دوصورتیں ہیں ایک یہ کہ اپنے حلال مال سے جائز ضرورتوں کو پورا کرے۔ ظاہر ہے اس پر کوئی بازپرس نہیں ہوگی۔اس لئے کہ مال حاصل کرنے کامقصد ہی یہ ہوتاہے کہ انسان اپنی جائز ضروریات کو تکمیل تک پہونچائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اپنے حلال مال کوناجائز مصارف میں خرچ کرکے اپنی شیطانی اور بہیمی قوتوں کونفع پہونچائے۔ یہ سراسر غلط اورتبذیر میں داخل ہے۔مال کوخرچ کرنے کی دوسری راہ اللہ کے لئے خرچ کرنا ہے۔ اس کی بھی دوصورتیں ہیں ایک حق واجب ہے جو ہرصاحب نصاب پر لازم ہے کہ وہ سال میں اپنے اموال کاحساب کرکے زکوۃ اداکرے،اس کے علاوہ صدقۃ الفطر،قربانی وغیرہ میں خرچ کرے۔انہی حقوق واجبہ میں ایک یہ بھی ہے کہ اگر اس پر حج فرض ہے تو زندگی میں ایک بار حج کے مصارف برداشت کرکے اس فریضہ کی ادائیگی کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ حقوق واجبہ اداکرنے کے بعد بھی اپنے ضرورت مند رشتہ داروں میں،پڑوسیوں،مسکینوں،یتیموں،بیواؤں وغیرہ پر خرچ کرنے کے علاوہ خیر کے دیگر مصارف جیسے مدارس ومساجد کے قیام و تعمیر یا ثواب جاریہ کی دیگرصورتوں میں خرچ کرے۔ پہلی صورت حق واجب ہے اور دوسری صورت مندوب۔ اس کے علاوہ مال کو ایسی جگہ خرچ کرنا جس میں خرچ کرنے والے کو ذاتی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوتا اورنہ اس سے اللہ کی رضاحاصل ہوتی ہے ایسی جگہ مال خرچ کرنے کوتبذیر کہاگیاہے جیسے اپنے مال کو لہو لعب میں خرچ کرنا، اورایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے شیطان کابھائی قرار دیا ہے۔شیطان نے اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی قوتوں کابیجا استعمال کیا اور اس کو اللہ کی اطاعت میں استعمال نہ کر کے اس کوعصیان اور ناشکری میں استعمال کیا اس لئے وہ راندہئ درگاہ ہوا۔ مال بھی چونکہ اللہ تعالیٰ کی عطا اور بخشش ہے اس لئے اس کااستعمال بھی ایسے ہی کاموں میں ہونا چاہئے جو اللہ کوپسند ہوں اور اس کے علاوہ کسی اور راہ میں استعمال کرنااللہ کی ناشکری ہے اس سے اجتناب نہایت ہی ضروری ہے چونکہ یہ سب شیطان کے بہکاوے میں آکر ہوتاہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کوشیطان کابھائی قرار دیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ انسان کو اپنے مستقبل کا کوئی علم نہیں ہے اس لئے  اپنے اموال میں سے واجبات شرعیہ ادا کرنے اور اپنی جائز ضروریات کو پوری کرنے کے بعد جو کچھ بچ رہے اس کی حفاظت کرنی چاہئے یعنی عام حالات میں ایسا نہیں ہوناچاہئے کہ آدمی بے جا خرچ کر بیٹھے اور بعد میں تنگدستی اورافلاس کا سامنا کرنا پڑے۔اس لئے نبی کریمﷺ نے اسراف سے منع فرمایا ہے۔ ذیل میں چند احادیث اس عنوان سے نقل کی جاتی ہیں۔

عن عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” كُلُوا وَتَصَدَّقُوا، وَالْبَسُوا فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ وَلَا مَخِيلَةٍ”(سنن نسائی۔کتاب الزکوۃ، باب الاختیال فی الصدقہ۔حدیث نمبر٢٥٦٠ )

حضر ت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کھاؤ، صدقہ کرو، اور پہنو، لیکن اسراف اور غرور سے بچو”۔

 عَنْ کَاتِبِ مُغِیرَۃ بن شُعبۃ، قَالَ: كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمُغِیْرَۃَ ابُنِ شُعْبَۃَ ، أَنِ اكْتُبْ إِلَيَّ بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:” إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا، قِيلَ وَقَالَ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ”.(صحیح بخاری۔کتاب الزکوۃ۔باب قول اللہ تعالیٰ لایسالون الناس الحافا۔حدیث نمبر١٤٧٧ )

حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کے منشی وراد نے بیان کیا۔ کہ حضرت معاویہؓ نے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کو لکھا کہ انہیں کوئی ایسی حدیث لکھئے جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو۔حضرت مغیرہؓ نے لکھا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتیں پسند نہیں کرتا۔ بلاوجہ کی گپ شپ، فضول خرچی اور لوگوں سے بہت مانگنا۔

 عَنْ عبداللہ بن عمرو بن العاص ،  قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لَا أَجِدُ شَيْئًا وَلَيْسَ لِي مَالٌ وَلِي يَتِيمٌ لَهُ مَالٌ، قَالَ:” كُلْ مِنْ مَالِ يَتِيمِكَ غَيْرَ مُسْرِفٍ وَلَا مُتَأَثِّلٍ مَالًا قَالَ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ وَلَا تَقِي مَالَكَ بِمَالِهِ”۔ (سنن ابن ماجہ ۔کتاب الوصایا۔باب قولہ من کان فقیرا فلیاکل بالمعروف۔حدیث نمبر٢٧١٨ )

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے پاس ایک شخص آیا، اور اس نے عرض کیا: میرے پاس کچھ بھی نہیں اور نہ مال ہی ہے، البتہ میری پرورش میں ایک یتیم ہے جس کے پاس مال ہے، آپ ؐ نے فرمایا: ”یتیم کے مال میں سے بغیر فضول خرچی کئے اور بغیر اپنے لیے پونجی بنائے، کھاؤ” میرا خیال ہے آپؐ نے فرمایا: ”اپنا مال بچانے کے لیے اس کا مال اپنے مصرف میں نہ خرچ کرو”

بعض صحابہ کرام وصحابیات جیسے حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ،حضرت ابوبکرؓنے اپنا تمام مال اللہ کی راہ میں کئی کئی بار خرچ کیا اور نبی کریم ﷺ نے ان کی تعریف اورحوصلہ افزائی فرمائی لیکن عام صحابہ کرام نے جب اپنے کل مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی درخواست کی تو آپؐ نے انہیں منع فرمادیاکہ کہیں بعد میں انہیں کسی پریشانی اورتنگی کاسامنا نہ کرنا پڑجائے۔ 

حضرت کعب ابن مالک ؓ ایک جنگ میں پیچھے رہ گئے تھے۔جس کاانہیں بہت افسوس تھا اورچونکہ یہ سب مال کی وجہ سے ہوا اس لئے انہوں نے اپنا کل مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کاارادہ کرلیالیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں روک دیا۔

عَنْ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ  قَالَ: قُلْتُ:” يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ، فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِيَ الَّذِي بِخَيْبَرَ”(سنن ابو داود۔کتاب الایمان والنذور باب فی من نذر ان یتصدق بمالہ۔حدیث نمبر٣٣١٧ )

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری توبہ یہ ہے کہ میں اپنے سارے مال سے دستبردار ہو کر اسے اللہ اور اس کے رسول کے لیے صدقہ کر دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا کچھ مال اپنے لیے روک لو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے” تو میں نے عرض کیا: میں اپنا خیبر کا حصہ اپنے لیے روک لیتا ہوں۔

عَن سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:” كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي وَأَنَا مَرِيضٌ بِمَكَّةَ، فَقُلْتُ: لِي مَالٌ أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَالشَّطْرِ، قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَالثُّلُثِ، قَالَ: الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ فِي أَيْدِيهِمْ وَمَهْمَا أَنْفَقْتَ، فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ حَتَّى اللُّقْمَةَ تَرْفَعُهَا فِي فِي امْرَأَتِكَ وَلَعَلَّ اللَّهَ يَرْفَعُكَ يَنْتَفِعُ بِكَ نَاسٌ وَيُضَرُّ بِكَ آخَرُونَ”.(صحیح بخاری ۔کتاب النفقات۔ باب فضل النفقۃ علی الاھل۔حدیث نمبر٥٣٥٤ )

حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں اس وقت مکہ مکرمہ میں بیمار تھا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے پاس مال ہے۔ کیا میں اپنے تمام مال کی وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا پھر آدھے کی کر دوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں! میں نے کہا، پھر تہائی کی کر دوں (فرمایا) تہائی کی کر دو اور تہائی بھی بہت ہے۔ اگر تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ کر جاؤ یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج و تنگ دست چھوڑو کہ لوگوں کے سامنے وہ ہاتھ پھیلاتے پھریں اور تم جب بھی خرچ کرو گے تو وہ تمہاری طرف سے صدقہ ہو گا۔ یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھنے کے لیے اٹھاؤ گے اور امید ہے کہ ابھی اللہ تمہیں زندہ رکھے گا، تم سے بہت سے لوگوں کو نفع پہنچے گا اور بہت سے دوسرے (کفار) نقصان اٹھائیں گے۔

بخل

جائز ضروریات میں اپنے اموال کوخرچ کرنے میں بخالت سے کام لینا اللہ کو پسند نہیں ایسے لوگ ملامت کے لائق ہیں۔اللہ تعالیٰ نے جب مال عطا فرمایا ہے تو اسے فراخی سے خرچ کرنا چاہئے اوراللہ تعالیٰ سے برکت اورمزید فضل واحسان کی امید رکھنا چاہئے۔بخیلی اورکنجوسی سے اجتناب کرنا چاہئے۔اللہ تعالیٰ نے بخل کو نہایت ہی بری خصلت بتایاہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْ بَلْ ھُوَ شَرٌّ لَّھُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ لِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(آل عمران۔١٨٠ )

ترجمہ:جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لئے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لئے نہایت بدتر ہے، عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے،(یعنی جس چیز میں بخل کرتے تھے انہی چیزوں کو طوق بناکر ان کے گلے میں ڈال دیا جائے گا) آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو، اس سے اللہ تعالیٰ آگاہ ہے۔

غور فرمائیں جولوگ بخل کی وجہ سے اللہ کاحق ادانہیں کرتے ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے کس قدر شدید وعید فرمائی ہے۔ بخل ایسی بری صفت ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی دعاؤں میں کنجوسی سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔

كَانَ سَعْدٌ يُعَلِّمُ بَنِيهِ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ كَمَا يُعَلِّمُ الْمُعَلِّمُ الْغِلْمَانَ , وَيَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَعَوَّذُ بِهِنَّ دُبُرَ الصَّلَاةِ:” اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ , وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، فَحَدَّثْتُ بِهَا مُصْعَبًا فَصَدَّقَهُ”. (سنن نسائی۔کتاب الاستعاذۃ بَابْ الاستعاذہ من البخل۔حدیث نمبر ٥٤٤٩ )

حضرت سعد رضی اللہ عنہ اپنے بیٹوں کو یہ کلمات سکھاتے تھے جیسے معلم لڑکوں کو سکھاتا ہے اور کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد ان کلمات کے ذریعے پناہ مانگتے تھے۔ ”اَللّٰھُمُّ اِنِّی اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَاَعُوْذُ بِکَ اَنْ اَرُدَّاِلٰی اَرْذَلِ الْعُمُرِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیَا وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ”اے اللہ! میں کنجوسی سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بزدلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میں لاچاری اور مجبوری کی عمر کو پہنچوں، میں دنیا کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں“۔ پھر میں نے اسے مصعب سے بیان کیا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی۔

ایک حدیث میں نبی کریمﷺ نے اس طرح بخل سے بچنے کی ترغیب دلائی ہے۔

عَنْ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما  قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:” إِيَّاكُمْ وَالشُّحَّ فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِالشُّحِّ، أَمَرَهُمْ بِالْبُخْلِ فَبَخِلُوا، وَأَمَرَهُمْ بِالْقَطِيعَةِ فَقَطَعُوا، وَأَمَرَهُمْ بِالْفُجُورِ فَفَجَرُوا” (سنن ابو داؤ۔کتاب الزکوۃ۔باب فی الشح۔حدیث نمبر١٦٩٨ )

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا:”بخل و حرص سے بچو اس لیے کہ تم سے پہلے لوگ بخل و حرص کی وجہ سے ہلاک ہوئے، حرص نے لوگوں کو بخل کا حکم دیا تو وہ بخیل ہو گئے، بخیل نے انہیں ناتا توڑنے کو کہا تو لوگوں سے ناتا توڑ لیا اور اس نے انہیں فسق و فجور کا حکم دیا تو وہ فسق و فجور میں لگ گئے”۔

جس طرح اسراف سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے اسی طرح بخل سے بھی منع کیا ہے ایک حدیث جس کو امام بخاری ومسلم نے ایک ساتھ روایت کیا ہے اس میں بخیل اورسخی کوایک مثال کے ذریعہ سمجھایا ہے۔

عَن ابی ھُریرۃَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:” مَثَلُ الْبَخِيلِ , وَالْمُنْفِقِ كَمَثَلِ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا جُبَّتَانِ مِنْ حَدِيدٍ مِنْ ثُدِيِّهِمَا إِلَى تَرَاقِيهِمَا، فَأَمَّا الْمُنْفِقُ فَلَا يُنْفِقُ إِلَّا سَبَغَتْ أَوْ وَفَرَتْ عَلَى جِلْدِهِ حَتَّى تُخْفِيَ بَنَانَهُ وَتَعْفُوَ أَثَرَهُ، وَأَمَّا الْبَخِيلُ فَلَا يُرِيدُ أَنْ يُنْفِقَ شَيْئًا إِلَّا لَزِقَتْ كُلُّ حَلْقَةٍ مَكَانَهَا فَهُوَ يُوَسِّعُهَا وَلَا تَتَّسِعُ” (صحیح بخاری۔کتاب الزکوۃ۔باب مثل المتصدق والبخیل۔حدیث ١٤٤٣ )

حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ کہتے سنا کہ بخیل اور خرچ کرنے والے کی مثال ایسے دو شخصوں کی سی ہے جن کے بدن پر لوہے کے دو کرتے ہوں چھاتیوں سے ہنسلی تک۔ خرچ کرنے کا عادی (سخی) خرچ کرتا ہے تو اس کے تمام جسم کو (وہ کرتہ) چھپا لیتا ہے یا (راوی نے یہ کہا کہ) تمام جسم پر وہ پھیل جاتا ہے اور اس کی انگلیاں اس میں چھپ جاتی ہے اور چلنے میں اس کے پاؤں کا نشان مٹتا جاتا ہے۔ لیکن بخیل جب بھی خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کرتے کا ہر حلقہ اپنی جگہ سے چمٹ جاتا ہے۔ بخیل اسے کشادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ کشادہ نہیں ہو پاتا۔

اسلام اپنے ماننے والوں کوہرمعاملے میں افراط وتفریط سے بچاتا اور اعتدال کی راہ دکھاتا ہے۔ ایک طرف جہاں انفاق فی سبیل اللہ اور سخاوت کے محاسن بیان کرتاہے، وہیں دوسری طرف اسراف  وتبذیر سے منع بھی کرتاہے۔اس طرح جہاں اسلام کفایت شعاری اور صبر کی تلقین کرتاہے وہیں بخل اورکنجوسی سے منع بھی کرتاہے۔ بیجا خرچ کرنا اور اسراف سے نہ بچنا ایک طرح سے مال کو ضائع کرنا ہے نبی کریم ﷺ نے مال ضائع کرنے کوناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔

عَنِ  الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ عُقُوقَ الْأُمَّهَاتِ، وَوَأْدَ الْبَنَاتِ، وَمَنَعَ وَهَاتِ، وَكَرِهَ لَكُمْ قِيلَ وَقَالَ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةَ الْمَالِ”. (بخاری،کتاب الاستقراض،باب ماینھی عن اضاعۃ المال۔حدیث نمبر٢٤٠٨ )

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی،لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا، حقوق کی ادائیگی نہ کرنا اور (دوسروں کا مال ناجائز طریقہ پر) دبا لینا حرام قرار دیا ہے۔ اور فضول بکواس کرنے اور کثرت سے سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

اعتدال ومیانہ روی ہر حال میں پسندیدہ ہے اس لئے ایمان والوں کو چاہئے کہ وہ میانہ روی کواپنا شیوہ بنائیں۔آج کل شادیوں کی تقریبات میں اس قدر بیجا اخراجات ہوگئے ہیں کہ بعض لوگ دیکھا دیکھی قرض لے کر سماج میں اپنی ناک کو اونچی رکھنے کے لئے اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں اور پھر ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے پوری عمر پریشان رہتے ہیں۔یہ اسلامی مزاج اور تعلیمات نبوی کے خلاف عمل ہے اس لئے اس سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *