مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

اسلام میں عفت و عصمت کی حفاظت کا فریضہ

اسلام میں عفت وعصمت

 

تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی 

عفت و عصمت کا تحفظ ایمان کاحصہ

اسلام نے انسان کو جو بلند مقام عطا کیا ہے، اس کی بنیاد عزت و عصمت کے احترام پر قائم ہے۔ دینِ اسلام نہ صرف اپنی ذات کی عزت و ناموس کی حفاظت کو لازم قرار دیتا ہے بلکہ دوسروں کی آبرو، عفت و عزت اور حرمت کے تحفظ کو بھی ایمان کا حصہ بتاتا ہے۔ کوئی شخص حقیقی مومن اس وقت تک نہیں بن سکتا جب تک وہ دوسروں کی عزت کو اپنی عزت کی طرح مقدس نہ سمجھے۔ قرآنِ کریم نے ان لوگوں کے لیے سخت وعید بیان کی ہے جو دوسروں پر بہتان لگاتے ہیں، کسی کی عزت و ناموس کونیلام کرتے ہیں، فحاشی پھیلاتے ہیں یا کسی پاکدامن انسان کی عزت کو مجروح کرتے ہیں۔ عزت و عصمت کی حفاظت دراصل ایک صالح معاشرے کی بنیاد ہے، اور جو قومیں اس فریضے کو بھلا دیتی ہیں، ان کے اخلاقی زوال کا آغاز ہو جاتا ہے۔

اسلام کے ماننے والوں کو ہمیشہ اس بات کاخیال رکھنا چاہئے کہ کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے اس کی عزت وناموس میں داغ لگے یاکسی اور کی عفت وعصمت کادامن تار تارہو۔عصمت وعفت ایک ایسی نازک چیز ہے کہ اگر اس میں داغ لگ جائے تو اس کا دھلنا مشکل ہوجاتاہے، دنیاکی نظروں میں وہ گرجاتاہے اورکسی بھی صالح معاشرہ میں اس کی عزت نہیں کی جاتی۔ جس قدر اس کی اہمیت ہے اسی قدر اس کی حفاظت کی ذمہ داریاں بھی انسان پرعائد ہوتی ہیں اور جولوگ اس کا خیال نہیں رکھتے اور دوسروں کی عزت سے کھیلتے ہیں اور انہیں بدنام کرنے کی کوششیں کرتے ہیں،اسلام نے ان کے لئے سخت سزاتجویز کی ہے۔ باری تعالیٰ کاارشاد ہے:

اِِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ اَنْ تَشِیعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ (سورہ نور 19)

ترجمہ:        جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزومند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔

جولوگ برائی کو پھیلانے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ مومن مردوں اور عورتوں کو اپناشکار بناتے ہیں اوران کی عزت و ناموس سے کھیلتے ہوئے ان کے دامن عفت کو داغدار کرنے کی کوششیں کرتے ہیں،ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبردارکردیا ہے کہ دنیا میں بھی ان کے لئے سخت سزا ہے اور آخرت میں بھی بڑا دردناک عذاب ہے۔یہ آیت کریمہ حضرت عائشہ ؓ کے برأت میں نازل ہوئی جب کہ منافقین نے ایک سازش کے تحت آپؓ کو بدنام کرنے کی کوشش کی جو واقعہ افک کے نام سے اسلامی تاریخ میں ایک مشہو رواقعہ ہے اس واقعہ کی تفصیل ابن کثیر کے الفاظ میں یہ ہے: 

یہ آیات ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جب کہ منافقین نے آپ پر بہتان باندھا تھا جس پر اللہ کو بہ سبب قرابت داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم غیرت آئی اور یہ آیتیں نازل فرمائیں تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آبرو پر حرف نہ آئے۔ ان بہتان بازوں کی ایک پا رٹی تھی۔ اس لعنتی کام میں سب سے پیش پیش عبد اللہ بن ابی بن سلول تھا جو تمام منافقوں کا گرو گھنٹال تھا۔ اس بے ایمان نے ایک ایک کے کان میں بنا بنا کر اور مصالحہ چڑھ چڑھا کر یہ باتیں خوب گھڑ گھڑ کر پہنچائی تھیں۔ یہاں تک کہ بعض مسلمانوں کی زبان بھی کھلنے لگی تھی اور یہ چہ میگوئیاں قریب قریب مہینے بھر تک چلتی رہیں۔ یہاں تک کہ قرآن کریم کی یہ آیتیں نازل ہوئیں اس واقعے کا پورا بیان صحیح احادیث میں موجود ہے۔

واقعۂ افک

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت مبارکہ تھی کہ سفر میں جانے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی بیویوں کے نام کا قرعہ ڈالتے اور جس کا نام نکلتا اسے اپنے ساتھ لے جاتے۔ چنانچہ ایک غزوے کے موقعہ پر میرا نام نکلا۔ میں آپ کے ساتھ چلی، یہ واقعہ پردے کی آیتیں اترنے کے بعد کا ہے۔ میں اپنے ہودج میں بیٹھی رہتی اور جب قافلہ کہیں اترتا تو میرا ہودج اتار لیا جاتا۔ میں اسی میں بیٹھی رہتی جب قافلہ چلتا یونہی ہودج رکھ دیا جاتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم غزوے سے فارغ ہوئے، واپس لوٹے، مدینے کے قریب آ گئے رات کو چلنے کی آواز لگائی گئی میں قضاء حاجت کے لئے نکلی اور لشکر کے پڑاؤ سے دور جا کر میں نے قضاء حاجت کی۔ پھر واپس لوٹی، لشکر گاہ کے قریب آ کر میں نے اپنے گلے کو ٹٹولا تو ہار نہ پایا۔ میں واپس اس کے ڈھونڈنے کے لئے چلی اور تلاش کرتی رہی۔ یہاں یہ ہوا کہ لشکر نے کوچ کر دیا جو لوگ میرا ہودج اٹھاتے تھے انہوں نے یہ سمجھ کر کہ میں حسب عادت اندر ہی ہوں، ہودج اٹھا کر اوپر رکھ دیا اور چل پڑے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت تک عورتیں نہ کچھ ایسا کھاتی پیتی تھیں نہ وہ بھاری بدن کی بوجھل تھیں۔ تو میرے ہودج کے اٹھانے والوں کو میرے ہونے نہ ہونے کا مطلق پتہ نہ چلا اور میں اس وقت اوائل عمر کی تو تھی ہی۔ الغرض بہت دیر کے بعد مجھے میرا ہار ملا جب میں یہاں پہنچی تو کسی آدمی کا نام و نشان بھی نہ تھا نہ کوئی پکارنے والا، نہ جواب دینے والا، میں اپنے نشان کے مطابق وہیں پہنچی، جہاں ہمارا اونٹ بٹھایا گیا تھا اور وہیں انتظار میں بیٹھ گئی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب آگے چل کر میرے نہ ہونے کی خبر پائیں گے تو مجھے تلاش کرنے کے لئے یہیں آئیں  گے۔ مجھے بیٹھے بیٹھے نیند آ گئی۔

 اتفاق سے حضرت صفوان بن معطل سلمی ذکوانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو لشکر کے پیچھے رہتے تھے اور پچھلی رات کو چلے تھے، صبح کی روشنی میں یہاں پہنچ گئے۔ ایک سوتے ہوئے آدمی کو دیکھ کر خیال آنا ہی تھا۔ غور سے دیکھا تو چونکہ پردے کے حکم سے پہلے مجھے انہوں نے دیکھا ہوا تھا۔ دیکھتے ہی پہچان گئے اور با آواز بلند ان کی زبان سے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ نکلا ان کی آواز سنتے ہی میری آنکھ کھل گئی اور میں اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانپ کر سنبھل بیٹھی۔ انہوں نے جھٹ اپنے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے ہاتھ پر اپنا پاؤں رکھا میں اٹھی اور اونٹ پر سوار ہو گئی۔ انہوں نے اونٹ کو کھڑا کر دیا اور بھگاتے ہوئے لے چلے۔ قسم اللہ کی نہ وہ مجھ سے کچھ بولے، نہ میں نے ان سے کوئی کلام کیا، نہ سوائے اناللہ کے میں نے ان کے منہ سے کوئی کلمہ سنا۔ دوپہر کے قریب ہم اپنے قافلے سے مل گئے۔ پس اتنی سی بات کا ہلاک ہونے والوں نے بتنگڑ بنا لیا۔ ان کا سب سے بڑا اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والا عبد اللہ بن ابی بن سلول تھا۔ مدینے آتے ہی میں بیمار پڑ گئی اور مہینے بھر تک بیماری میں گھر ہی میں رہی، نہ میں نے کچھ سنا، نہ کسی نے مجھ سے کہا جو کچھ غل غپاڑہ لوگوں میں ہو رہا تھا، میں اس سے محض بے خبر تھی۔ البتہ میرے جی میں یہ خیال بسا اوقات گزرتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مہرو محبت میں کمی کی کیا وجہ ہے؟ بیماری میں عام طور پر جو شفقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو میرے ساتھ ہوتی تھی اس بیماری میں وہ بات نہ پاتی تھی۔ مجھے رنج تو بہت تھا مگر کوئی وجہ معلوم نہ تھی۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لاتے،سلام کرتے اور دریافت فرماتے طبیعت کیسی ہے! اور کوئی بات نہ کرتے اس سے مجھے بڑا صدمہ ہوتا مگر بہتان بازوں کی تہمت سے میں بالکل غافل تھی۔

 اب سنئے اس وقت تک گھروں میں پاخانے نہیں ہوتے تھے اور عرب کی قدیم عادت کے مطابق ہم لوگ میدان میں قضاء حاجت کے لئے جایا کرتے تھے۔ عورتیں عموماً رات کو جایا کرتی تھیں۔ گھروں میں پاخانے بنانے سے عام طور پر نفرت تھی۔ حسب عادت میں، ام مسطح بنت ابی رہم بن عبدالمطلب بن عبدمناف کے ساتھ قضائے حاجت کے لئے چلی۔ اس وقت میں بہت ہی کمزور ہو رہی تھی یہ ام مسطح میرے والد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خالہ تھیں ان کی والدہ صخر بن عامر کی لڑکی تھیں، ان کے لڑکے کا نام مسطح بن اثاثہ بن عباد بن عبدالمطلب تھا۔ جب ہم واپس آنے لگے تو حضرت ام مسطح کا پاؤں چادر کے دامن میں الجھا اور بے ساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ مسطح غارت ہو۔ مجھے بہت برا لگا اور میں نے کہا کہ تم نے بہت برا کلمہ بولا، توبہ کرو، تم اسے گالی دیتی ہو جس نے جنگ بدر میں شرکت کی۔ اس وقت ام مسطح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا بھولی بیوی آپ کو کیا معلوم؟ میں نے کہا کیا بات ہے؟ انہوں نے فرمایا وہ بھی ان لوگوں میں سے ہے جو آپ کو بدنام کرتے پھرتے ہیں۔ مجھے سخت حیرت ہوئی میں ان کے سر ہو گئی کہ کم از کم مجھ سے سارا واقعہ تو کہو۔ اب انہوں نے بہتان باز لوگوں کی تمام کارستانیاں مجھے سنائیں۔ میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، رنج و غم کا پہاڑ مجھ پر ٹوٹ پڑا، مارے صدمے کے میں تو اور بیمار ہو گئی۔

 بیمار تو پہلے سے ہی تھی، اس خبر نے تو نڈھال کر دیا، جوں توں کر کے گھر پہنچی۔ اب صرف یہ خیال تھا میں اپنے میکے جا کر اور اچھی طرح معلوم تو کر لوں کہ کیا واقعی میری نسبت ایسی افواہ پھیلائی گئی ہے؟ اور کیا کیا مشہور کیا جا رہا ہے؟ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس آئے، سلام کیا اور دریافت فرمایا کہ کیا حال ہے؟ میں نے کہا اگر آپ اجازت دیں تو اپنے والد صاحب کے ہاں ہو آؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اجازت دے دی، میں یہاں آئی، اپنی والدہ سے پوچھا کہ اماں جان لوگوں میں کیا باتیں پھیل رہی ہیں؟ انہوں نے فرمایا بیٹی یہ تو نہایت معمولی بات ہے تم اتنا اپنا دل بھاری نہ کرو، کسی شخص کی اچھی بیوی جو اسے محبوب ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں وہاں ایسی باتوں کا کھڑا ہونا تو لازمی امر ہے۔ میں نے کہا سبحان اللہ کیا واقعی لوگ میری نسبت ایسی افواہیں اڑا رہے ہیں؟ اب تو مجھے غم و رنج نے اس قدر گھیرا کہ بیان سے باہر ہے۔ اس وقت سے جو رونا شروع ہوا واللہ ایک دم بھرکے لئے میرے آنسو نہیں تھمے، میں سر ڈال کر روتی رہتی۔ کس کا کھانا پینا، کس کا سونا بیٹھنا، کہاں کی بات چیت، غم و رنج اور رونا ہے اور میں ہوں۔ ساری رات اسی حالت میں گزری کہ آنسو کی لڑی نہ تھمی دن کو بھی یہی حال رہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلوایا، وحی میں دیر ہوئی، اللہ کی طرف سے آپ کو کوئی بات معلوم نہ ہوئی تھی، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں حضرات سے مشورہ کیا کہ آپ مجھے الگ کر دیں یا کیاکریں؟ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو صاف کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم آپ کی اہل پر کوئی برائی نہیں جانتے۔ ہمارے دل ان کی عفت، عزت اور شرافت کی گواہی دینے کے لئے حاضر ہیں۔ ہاں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کی طرف سے آپ پر کوئی تنگی نہیں، عورتیں ان کے سوا بھی بہت ہیں۔ اگر آپ گھر کی خادمہ سے پوچھیں تو آپ کو صحیح واقعہ معلوم ہو سکتا ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی وقت گھر کی خادمہ حضرت بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بلوایا اور ان سے فرمایا کہ عائشہ کی کوئی بات شک و شبہ والی کبھی بھی دیکھی ہو تو بتاؤ۔ بریرہؓ نے کہا اللہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں نے ان سے کوئی بات کبھی اس قسم کی نہیں دیکھی۔ ہاں صرف یہ بات ہے کہ کم عمری کی وجہ سے ایسا ہو جاتا ہے کہ کبھی کبھی گندھا ہوا آٹا یونہی رکھا رہتا ہے اور سو جاتی ہیں تو بکری آ کر کھا جاتی ہے، اس کے سوا میں نے ان کا کوئی قصور کبھی نہیں دیکھا۔ چونکہ کوئی ثبوت اس واقعہ کا نہ ملا اس لئے اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر کھڑے ہوئے اور مجمع سے مخاطب ہو کر فرمایا کون ہے؟ جو مجھے اس شخص کی ایذاؤں سے بچائے جس نے مجھے ایذائیں پہنچاتے پہنچاتے اب تو میری گھر والیوں میں بھی ایذائیں پہنچانا شروع کر دیاہے۔ واللہ میں جہاں تک جانتا ہوں مجھے اپنی گھر والیوں میں سوائے بھلائی کے کوئی چیز معلوم نہیں، جس شخص کا نام یہ لوگ لے رہے ہیں، میری دانست تو اس کے متعلق بھی سوائے بھلائی کے اور کچھ نہیں وہ میرے ساتھ ہی گھر میں آتا تھا۔ یہ سنتے ہی حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں موجود ہوں اگر وہ قبیلہ اوس کا شخص ہے تو ابھی ہم اس کی گردن تن سے الگ کرتے ہیں اور اگر وہ ہمارے خزرج بھائیوں سے ہے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم جو حکم دیں ہمیں اس کی تعمیل میں کوئی عذر نہ ہو گا۔ یہ سن کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہو گئے یہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے۔ تھے تو یہ بڑے نیک بخت مگر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہنے لگے نہ تو تو اسے قتل کرے گا نہ اس کے قتل پر تو قادر ہے اگر وہ تیرے قبیلے کا ہوتا تو تو اس کاقتل کیا جانا کبھی پسند نہ کرتا۔ یہ سن کر حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہو گئے یہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھتیجے ہوتے تھے کہنے لگے اے سعد بن عبادہ تم جھوٹ کہتے ہو، ہم اسے ضرور مار ڈالیں گے آپ منافق آدمی ہیں کہ منافقوں کی طرف داری کر رہے ہیں۔ اب ان کی طرف سے ان کا قبیلہ اور ان کی طرف سے ان کا قبیلہ ایک دوسرے کے مقابلے پر آگیا اور قریب تھا کہ اوس و خزرج کے یہ دونوں قبیلے آپس میں لڑ پڑیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے منبر پر سے ہی انہیں سمجھانا اور چپ کرانا شروع کیا یہاں تک کہ دونوں طرف خاموشی ہو گی۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم بھی چپکے ہو رہے یہ تو تھا وہاں کا واقعہ۔ میرا حال یہ تھا کہ یہ سارا دن بھی رونے میں ہی گزرا۔ میرے اس رونے نے میرے ماں باپ کے بھی ہوش گم کر دیئے تھے، وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ رونا میرا کلیجہ پھاڑ دے گا۔ دونوں حیرت زدہ مغموم بیٹھے ہوئے تھے اور مجھے رونے کے سوا اور کوئی کام ہی نہ تھا اتنے میں انصار کی ایک عورت آئیں اور وہ بھی میرے ساتھ رونے لگیں ہم یونہی بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور سلام کر کے میرے پاس بیٹھ گئے۔ قسم اللہ کی جب سے یہ بہتان بازی ہوئی تھی آج تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس کبھی نہیں بیٹھے تھے۔ مہینہ بھر گزر گیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی یہی حالت تھی۔ کوئی وحی نہیں آئی تھی کہ فیصلہ ہو سکے۔ آپ نے بیٹھتے ہی اول تو تشہد پڑھا پھر اما بعد فرما کر فرمایا کہ اے عائشہ! تیری نسبت مجھے یہ خبر پہنچی ہے۔ اگر تو واقعی پاک دامن ہے تو اللہ تعالیٰ تیری پاکیزگی ظاہر فرما دے گا اور اگر فی الحقیقت تو کسی گناہ میں آلودہ ہو گئی ہے تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کر اور توبہ کر، بندہ جب گناہ کر کے اپنے گناہ کے اقرار کے ساتھ اللہ کی طرف جھکتا ہے اور اس سے معافی طلب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے۔ آپ اتنا فرما کر خاموش ہو گئے یہ سنتے ہی میرا رونا دھونا سب جاتا رہا۔ آنسو تھم گئے یہاں تک کہ میری آنکھوں میں آنسو کا ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا۔ میں نے اول تو اپنے والد سے درخواست کی کہ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو آپ ہی جواب دیجئے لیکن انہوں نے فرمایا کہ واللہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو کیا جواب دوں؟ اب میں نے اپنی والدہ کی طرف دیکھا اور ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جواب دیجئے لیکن انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں نہیں سمجھ سکتی کہ میں کیا جواب دوں؟ آخر میں نے خود ہی جواب دینا شروع کیا۔ میری عمر کچھ ایسی بڑی تو نہ تھی اور نہ مجھے زیادہ قرآن حفظ تھا۔ میں نے کہا، آپ لوگوں نے ایک بات سنی اور اسے دل میں بٹھا لیا اور گویا سچ سمجھ لیا۔ اب اگر میں کہوں گی کہ میں اس سے بالکل بَری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بالکل بے گناہ ہوں توآپ لوگ ابھی مان لیں گے۔ میری اورآ پ  لوگوں کی مثال تو بالکل حضرت ابو یوسف علیہ السلام کا یہ قول ہے فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَاتَصِفُوْنَ پس صبر ہی اچھا ہے جس میں شکایت کا نام ہی نہ ہو اور تم جو باتیں بناتے ہو ان میں اللہ ہی میری مدد کرے، اتنا کہہ کر میں نے کروٹ پھیر لی اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ اللہ کی قسم مجھے یقین تھا کہ چونکہ میں پاک ہوں اللہ تعالیٰ میری برأت اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو ضرور معلوم کرا دے گا لیکن یہ تو میرے شان و گمان میں بھی نہ تھا کہ میرے بارے میں قرآن کی آیتیں نازل ہوں گی۔ میں اپنے آپ کو اس سے بہت کم تر جانتی تھی کہ میرے بارے میں کلام اللہ کی آیتیں اتریں۔ ہاں مجھے زیادہ سے زیادہ یہ خیال ہوتا تھا کہ ممکن ہے خواب میں اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو میری برأت دکھا دے۔ واللہ ابھی تو نہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم اپنی جگہ سے ہٹے تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی گھر سے باہر نکلا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نازل ہونی شروع ہو گئی اور چہرہ پر وہی آثار ظاہر ہوئے جو وحی کے وقت ہوتے تھے اور پیشانی سے پسینے کی پاک بوندیں ٹپکنے لگیں۔ سخت جاڑوں میں بھی وحی کے نزول کی یہی کیفیت ہوا کرتی تھی، جب وحی اتر چکی تو ہم نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ ہنسی سے شگفتہ ہو رہا ہے۔ سب سے پہلے آپ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا عائشہ خوش ہو جاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہاری برات نازل فرما دی۔ اسی وقت میری والدہ نے فرمایا بچی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کھڑی ہو جاؤ۔ میں نے جواب دیا کہ واللہ نہ تو میں آپ کے سامنے کھڑی ہوں گی اور نہ سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کی تعریف کروں گی اسی نے میری برأت اور پاکیزگی نازل فرمائی ہے۔ پس اِنَّ الَّذِیْنَ جَا ؤا بِالْاِفْکِ سے لے کر دس آیتیں نازل ہوئیں۔

(تفسیر ابن کثیر سورہ نور آیت۱۱۔صحیح بخاری کتاب التفسیر  باب  قولہ تعالیٰ۔لولا اذ سمعتموہ ظن المؤمنین والمؤمنات بانفسھم خیراوقالی ھذا افک مبین………………)

جس طرح حضرت عائشہ ؓ کی ذات پرتہمت لگایا گیا تو آپؓ کے پیروں تلے زمین کھسک گئی اور آپ کے ہوش وحواس گم ہوگئے اسی طرح عام عورتوں کی حالت بھی ہے کہ جب ان پر کوئی تہمت لگائی جاتی ہے اور ان کی عصمت و عفت پرانگلی اٹھائی جاتی ہے تو ان کے اوپر بھی وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی لئے ایک تو اسلام نے اس کے ثبوت کے لئے کڑی شرطیں رکھی ہیں اور اگر یہ الزام اور تہمت غلط ثابت ہوجائے تو سخت سزا بھی متعین کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَاءَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃً وَّلاَ تَقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا وَّاُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ (۴)اِِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا فَاِِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ (۵)وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُمْ شُہَدَاءُ اِِلَّا اَنفُسُہُمْ فَشَہَادَۃُ اَحَدِھِمْ اَرْبَعُ شَہَادَاتٍ بِاللّٰہِ اِِنَّہٗ لَمِنْ الصَّادِقِیْنَ (۶) وَالْخَامِسَۃُ اَنَّ لَعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِِنْ کَانَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ (۷)وَیَدْرَؤُا عَنْہَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْہَدَ اَرْبَعَ شَہَادَاتٍ بِاللّٰہِ اِِنَّہٗ لَمِنَ الْکَاذِبِیْنَ (۸)وَالْخَامِسَۃَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰہِ عَلَیْہَا اِِنْ کَانَ مِنْ الصَّادِقِیْنَ (۹۔ نور)  

ترجمہ:          اور وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ نہ لائیں تو انھیں اسّی (۰۸) کوڑے مارو اور ان کی کوئی گواہی کبھی قبول نہ کرو اور وہی نافرمان لوگ ہیں۔ مگر جو لوگ اس کے بعد توبہ کریں اور اصلاح کر لیں تو یقینا اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔اور جو لوگ اپنی عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور خود اُن کے سوا اُن کے گواہ نہ ہوں تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ پہلے تو چار بار اللہ کی قسم کھائے کہ بیشک وہ سچا ہے۔ اور پانچویں بار یہ (کہے) کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اُس پر اللہ کی لعنت  اور عورت سے سزا کو یہ بات ٹال سکتی ہے کہ وہ پہلے چار بار اللہ کی قسم کھائے کہ بیشک یہ جھوٹا ہے اور پانچویں دفعہ یوں (کہے) کہ اگر یہ سچا ہو تومجھ پر اللہ کا غضب (نازل ہو)۔

پہلی با ت تویہ ہے کہ کسی بھی عورت کے بارے میں اگر کوئی الزام لگائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ گواہ پیش کرے۔ اور گواہ بھی عام گواہوں کی طرح نہیں کہ دو گواہ ہوں بلکہ عصمت وعفت کے معاملے میں اللہ نے اتنی سختی فرمائی ہے جب تک چار گواہ نہ ہوں اس وقت تک جرم ثابت نہیں ہوگااور اگر گواہی نہیں پیش کرسکے تو الزام لگانے والوں کے لئے اسّی کوڑے کی سزا تجویز کی گئی ہے اور اس کے بعد تاحیات ان کو گواہی کے قابل نہیں مانا گیا ہے۔ہاں توبہ کادروازہ ان کے لئے بھی کھلاہوا ہے اگر وہ سچے دل سے توبہ کریں تواللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔اگر شوہرگواہی نہ لاسکے اور وہ الزام پرمصر ہوتو شریعت نے اس کے لئے ایک دوسراطریقہ بھی بتایاہے کہ وہ چار گواہیوں کے بدلے چار قسمیں کھائے کہ وہ اپنے دعوے میں بالکل سچا ہے اور پانچویں باراپنی ذات کو لعنت کامستحق قرار دے کہ اگر وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔اسی طرح عورت اپنی پاکدامنی ثابت کرنے کے لئے قسمیں کھائے کہ اس پر الزام لگانے والا شوہرجھوٹا ہے اور پانچویں بار یہ کہے کہ اگر وہ اپنے دعوے میں سچا ہے تو میرے اوپر اللہ کی لعنت ہو۔

جولوگ مسلمانوں کی عزت وناموس کی حفاظت کرتے ہیں ان کے لئے نبی کریم ﷺ نے بشارتیں سنائی ہیں اور یہ وعدہ فرمایا ہے کہ جولوگ کسی مسلمان کی سترپوشی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کی ستر پوشی کرے گا۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ دوسرے لوگوں کے عیوب کو اچھالنے کے بجائے چھپانے کو ترجیح دیں۔ تاکہ اللہ تعالیٰ بھی حشر کے میدان میں ان پر ستاری کامعاملہ فرمائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index