مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

اخلاص عمل : قبولیت عمل کی شرط

اخلاص عمل

 

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی 

اخلاص نیت عمل کی روح

 اخلاص عمل کا مطلب عمل کو اللہ واحد کی طرف پھیرنے اور اس سے قربت حاصل کرنے کی نیت کرنا ہے’ جس میں کوئی ریا ونمود، زائل ہونے والے ساز و سامان کی طلب،غیراللہ سے اجر کی امید اور بناوٹ نہ ہوبلکہ بندہ صرف اللہ واحد سے ثواب کی امید کرے، اس کے عذاب سے ڈرے اور اس کی رضا مندی کا طلب گا ر ہواور جوبھی عمل کرے وہ خالصتاً لوجہ اللہ کرے۔

انسان کے جتنے بھی اعمال ہیں ان کا دارومدار اخلاص نیت پر ہے اگر نیتوں میں اخلاص ہوگاتو اللہ تعالیٰ کے یہاں ان اعمال کی قدر ہوگی اور اس پر اجر بھی مرتب ہوگا اور اگر اعمال اخلاص سے خالی ہوں گے تو بڑا سے بڑاعمل بھی کسی کام کا نہیں ہوگا۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں جابجا اعمال میں اخلاص کی اہمیت کو بتایاہے اور تلقین فرمایا کہ اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کرو۔ایک جگہ ارشاد ہے:

وَمَا اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ (بینۃ۔۵)

ترجمہ:انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں، ابراہیم حنیف (علیہ السلام)کے دین پر اور نماز کو قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیتے رہیں یہی سیدھی ملت کا دین ہے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ کی عبادت اخلاص کے ساتھ کرنے کا حکم دیاگیا ہے او راسی کو دین حنیف اور دین قیم سے تعبیر کیاگیاہے اس لئے جو لوگ دنیاوی جاہ و جلال اورعزت و شہرت کے لئے کوئی عمل کرتے ہیں وہ محض ضیائے وقت کرتے ہیں حقیقت میں وہ عبادت گزار بندوں میں شامل نہیں ہیں اور نہ ہی دین حنیف کے پیرو کار ہیں۔جولوگ اپنی آخر ت کو سنوارنے کے لئے اعمال خیر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے اعمال میں برکت عطا فرماتے ہیں اور اس کو کئی گناکر کے عطا فرماتے ہیں اس کے برعکس جولوگ دنیاوی مال ومتاع اور دکھاوے کے لئے عمل کرتے ہیں،ہوسکتاہے کہ دنیامیں ان کو کچھ دے دیاجائے لیکن آخرت میں ان کے لئے کوئی حصہ نہیں ہے: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْآخِرَۃِ نَزِدْ لَہٗ فِیْ حَرْثِہِ وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤتِہِ مِنْہَا وَمَا لَہٗ فِی الْآخِرَۃِ مِنْ نَّصِیبٍ (شوریٰ۔٢٠)

ترجمہ         :جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو ہم اسے اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے اور جو دنیا کی کھیتی کی طلب رکھتا ہو ہم اسے اس میں سے ہی کچھ دے دیں گے، ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔

اس آیت کریمہ میں صاف او رواضح انداز میں یہ بتادیا گیاہے کہ اللہ کے یہاں انہی اعمال کی قدر ہے جو آخرت کو پیش نظر رکھ کر کئے گئے ہیں،جن اعمال کو دنیا کے لئے کیا گیا ہو گا ان کا آخرت میں کوئی اعتبار نہیں۔

سودی قرض اور زکوٰۃ میں فرق

ربا اور سود کے لالچ میں جو شخص اپنا مال کسی کودیتاہے، ظاہرہے اس کا مقصد دنیاوی مال ومتاع حاصل کرنا ہے، اس میں نہ ضروتمند کی ضرورت کا خیال ہے اور نہ ہی آخرت کو سامنے رکھ کر دیاگیاہے۔ اس لئے اللہ تعالی کے یہاں ایسے اموال کی کوئی قدر نہیں بلکہ الٹا اس پر سخت تہدید کی گئی ہے۔لیکن یہی مال اگر زکوٰۃ کے طورپر لوجہ اللہ دیا گیا تو اس میں ضرورتمندوں کی ضرورت بھی پوری ہوتی ہے اورلوگ احسان مند بھی ہوتے ہیں اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مال کی پرورش کرکے کئی گنا اضافہ کے ساتھ ایسے وقت میں واپس کریں گے جب کہ بندہ کو اس مال کی سخت ضرور ت ہوگی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:  

وَ مَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًالِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ وَ مَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ  تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُوْنَ(روم۔٣٩ )

ترجمہ:        اور جو کوئی سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ لوگوں کے اموال میں بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا اور جو کچھ تم زکوٰۃسے دیتے ہو، اللہ کی رضا کا ارادہ کرتے ہو، تو وہی لوگ کئی گنا بڑھانے والے ہیں۔

اس آیت کریمہ میں بھی اخلاص کو خاص اہمیت دی گئی ہے بلکہ اسی کو بنیاد بناکر اجر مرتب کرنے کا وعدہ کیاگیا ہے۔انسانی زندگی کے جتنے بھی اعمال ہیں ان سب پر اجر اسی وقت مرتب ہوتاہے جب کہ وہ خالص اللہ کی خوشنودی کے لئے کیا جائے اسی کانام اخلاص فی العمل ہے اور یہی وہ چیز ہے جواللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کاسبب بنتی ہے جو ایمان والوں کامقصود حیات ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی (١٧ )الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی (١٨ )وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی (١٩ )اِِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی (٢٠ ) وَلَسَوْفَ یَرْضٰی(٢١ )۔(سورۃ اللیل)

ترجمہ         : اور اس سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیزگار ہو گا۔ جو پاکی حاصل کرنے کے لئے اپنا مال دیتا ہے۔ کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو۔ بلکہ صرف اپنے پروردگار بزرگ وبلند کی رضا چاہنے کے لئے۔ یقیناً وہ (اللہ بھی) عنقریب رضامند ہو جائے گا۔

انسان دنیامیں جوبھی عمل کرتاہے چاہے مال خرچ کرے،یاجسمانی طور پر کوئی عبادت کرے، اللہ کے مخلوق کی خدمت اور ان کے ساتھ الفت وہمدری کابرتاؤ کرے،اللہ کی راہ میں قربانی پیش کرے، یہ مادی اشیاء اللہ کے یہاں نہیں پہونچتیں بلکہ دلوں کا اخلاص اور تقویٰ اللہ کی بارگاہ میں پہونچتا اوراللہ کے یہاں اسی کی قدر ہے۔ارشاد ہے:

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَ لَا دِمَآؤُھَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ (سورہ حج٣٧ )

ترجمہ:        کہ(قربانی کا) نہ تو گوشت اللہ کے یہاں پہونچتاہے اور نہ ہی اس کاخون پہنچتاہے بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتاہے۔

قربانی کا عمل تقرب الہی کاایک اہم ذریعہ ہے لیکن اس کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرما یا کہ قربانی کاگوشت یااس کا خون اللہ کے یہاں نہیں پہونچتاہے بلکہ دلوں کاتقویٰ پہنچتا ہے اور نبی کریم ﷺ نے ایک حدیث میں اپنے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما یاہے کہ تقویٰ یہاں ہوتاہے اور ظاہر ہے کہ دلوں میں ہی ارادے بنتے ہیں اور خواہشات بھی پید ا ہوتے ہیں اگر دلوں میں اخلاص ہے تو عمل اللہ کے یہاں شرف قبولیت پائے گا ورنہ مردو د ہوجائے گا اس لئے اپنے اعمال میں سب سے پہلے اخلاص پید اکرنے کی ضرور ت ہے اور دلوں سے ریا،شہرت، چاپلوسی اور اپنی بڑائی کو نکال کر خالص لوجہ اللہ اعمال کرنا چاہئے۔نبی کریم ﷺ کے ارشادات بھی اس معاملے میں بہت کثیر او رواضح ہیں۔چند حدیثیں ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں۔ 

نبی کریم ؐ کا اپنی دعاؤں میں کلمہ اخلاص کومانگنا

اخلاص کی اہمیت کا انداز ہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی دعاؤں میں کلمہ اخلاص کو اللہ سے طلب کیا کرتے تھے۔ذیل کی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے دیگر چیزوں کے ساتھ کلمہ اخلاص کی دعا فرمائی ہے:

عَنْ قیس بن عباد ، قَالَ: صَلَّى عمار بن یاسر بِالْقَوْمِ صَلَاةً أَخَفَّهَا فَكَأَنَّهُمْ أَنْكَرُوهَا , فَقَالَ: أَلَمْ أُتِمَّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ؟ , قَالُوا: بَلَى , قَالَ: أَمَا إِنِّي دَعَوْتُ فِيهَا بِدُعَاءٍ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو بِهِ:” اللَّهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ أَحْيِنِي مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِي , وَتَوَفَّنِي إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِي , وَأَسْأَلُكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ , وَكَلِمَةَ الْإِخْلَاصِ فِي الرِّضَا وَالْغَضَبِ , وَأَسْأَلُكَ نَعِيمًا لَا يَنْفَدُ , وَقُرَّةَ عَيْنٍ لَا تَنْقَطِعُ , وَأَسْأَلُكَ الرِّضَاءَ بِالْقَضَاءِ وَبَرْدَ الْعَيْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَلَذَّةَ النَّظَرِ إِلَى وَجْهِكَ وَالشَّوْقَ إِلَى لِقَائِكَ , وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ ضَرَّاءَ مُضِرَّةٍ وَفِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ , اللَّهُمَّ زَيِّنَّا بِزِينَةِ الْإِيمَانِ وَاجْعَلْنَا هُدَاةً مُهْتَدِينَ”.(سنن نسائی۔کتاب السہو۔باب:نوع آخر۔حدیث نمبر١٣٠٧ )

حضرت قیس بن عباد کہتے ہیں کہ حضرت عمار بن یاسرؓ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور اسے ہلکی پڑھائی، تو گویا کہ لوگوں نے اسے ناپسند کیا، تو انہوں نے کہا: کیا میں نے رکوع اور سجدے پورے پورے نہیں کیے ہیں؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور کیا ہے، پھر انہوں نے کہا: سنو! میں نے اس میں ایسی دعا پڑھی ہے جس کو نبی اکرم ﷺپڑھا کرتے تھے وہ یہ ہے: اَللّٰھُمَّ بِعِلْمِکَ الْغَیْبِ وَقُدْرَتِکَ عَلَی الْخَلْقِ اَحْیِنِی مَاعَلِمْتَ الْحَیَاۃَ خَیْرًا لِّیْ،وَتَوَفِّنِیْ اِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاتَ خَیْرًا لِّیْ، وَاَسْاَلُکَ خَشْیَتَکَ فِی الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ،وَکَلِمَۃَ الْاِخْلَاصِ فِی الرِّضَا وَالْغَضَبِ وَاَسْاَلُکَ نَعِیْمًا لَّایَنْفَدُ وَقُرَّۃَ عَیْنٍ لَّاتَنْقَطِعُ،وَاَسْاَلُکَ الرِّضَاء بِالْقَضَاء وَبَرْدَ الْعّیْشَ بَعْدَ الْمَوْتِ وَلَذَّۃَ النَّظْرِ اِلٰی وَجْھِکَ وَالشَّوْقَ اِلٰی لِقَاءِکَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ ضَرَّاءِ مُضَرَّۃٍ وَفِتْنَۃٍ مُضِلَّۃٍ اَللّٰھُمَّ زَیِّنَا بِزِیْنَۃِ الْاِیْمَانِ وَلَذَّۃَ النَّظْرِ اِلیٰ وَجْھِکَ وَالشَّوْقِ اِلٰی لِقَاءِکَ، وَاَعُوْذبِکَ مِنْ ضَرَّاءٍ وَفِتْنَۃٍ مُّضِلَّۃٍ اَللّٰھُمَّ زَیِّنَا بِزِیْنَۃِ الْاِیْمَانِ وَاجْعَلْنَا ھُدَاۃً مُّھْتَدِیْنَ۔ترجمہ:اے اللہ! میں تیرے علم غیب اور تمام مخلوق پر تیری قدرت کے واسطہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک تو جانے کہ زندگی میرے لیے باعث خیر ہے اور مجھے موت دیدے جب تو جانے کہ موت میرے لیے بہتر ہے، اے اللہ! میں غیب و حضور دونوں حالتوں میں تیری خشیت کا طلب گار ہوں، اور میں تجھ سے خوشی و ناراضگی دونوں حالتوں میں کلمہ اخلاص کی توفیق مانگتا ہوں، اور میں تجھ سے ایسی نعمت مانگتا ہوں جو ختم نہ ہو، اور میں تجھ سے ایسی آنکھوں کی ٹھنڈک کا طلبگار ہوں جو منقطع نہ ہو، اور میں تجھ سے تیری قضاء پر رضا کا سوال کرتا ہوں، اور میں تجھ سے موت کے بعد کی راحت اور آسائش کا طلبگار ہوں، اور میں تجھ سے تیرے دیدار کی لذت، اور تیری ملاقات کے شوق کا طلبگار ہوں، اور پناہ چاہتا ہوں تیری اس مصیبت سے جس پر صبر نہ ہو سکے، اور ایسے فتنے سے جو گمراہ کر دے، اے اللہ! ہم کو ایمان کے زیور سے آراستہ رکھ، اور ہم کو راہنما و ہدایت یافتہ بنا دے۔

اعمال میں نیت کی اہمیت

اخلاص فی العمل کا تعلق دل سے ہے انسان جب کو ئی عمل کرتاہے تو اس کی کوئی نہ کوئی نیت ہوتی ہے اگر اس کے دل میں حب جاہ اور حب مال ہے تو اس کا عمل اسی کے لائق ہوتاہے، آخرت میں اس پر کوئی جزا مرتب نہیں ہوگی۔ لیکن اگر نیت میں اخلاص ہے اورمحض اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی مقصود ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے خوش بھی ہوتے ہیں اور اس عمل پر اجر بھی مرتب فرماتے ہیں نیز اس کی وجہ سے دوسرے اعمال کی توفیق بھی عطا فرماتے ہیں ایک حدیث جس کو امام بخار ی اور ان کے علاوہ دیگرمحدثین نے اپنی کتابوں کے شروع میں بیان کیا ہے جس میں نیت کی اہمیت اور اعمال کا انحصار نیتوں پر بیان کیا گیا ہے،ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:

اخلاص نیت

عن علقمۃ بن وقاص اللیثی ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عمر بن الخطاب رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:” إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ” (صحیح بخاری، کتاب الوحی،باب کیف کان بدء الوحی الی رسول ا للہ ﷺ۔ حدیث نمبر١ )

حضرت علقمہ بن وقاص لیثی کا بیان ہے کہ میں نے مسجد نبوی میں منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی زبان سے سنا، وہ فرما رہے تھے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترک وطن) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔

اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ اعمال کادارومدار نیتوں پرہے اگر کوئی شخص کسی دنیاوی مقصد کے حصول کے لئے کوئی بھی کام کرتاہے،چاہے ظاہری طور پر وہ عبادت ہو لیکن اللہ کے یہاں اس کاشمار عبادت میں نہیں ہوگابلکہ جس مقصد کے لئے وہ کام کیا گیازیادہ سے زیادہ وہی حاصل ہوگا اورمثال دے کر نبی کریم ﷺ نے بتادیا کہ ہجرت ایک اہم عبادت ہے جس میں انسان اپنے وطن کو چھوڑ کر محض اپنے دین کی حفاظت کے لئے اجنبیت کی زندگی اختیار کرتاہے، اگر واقعی یہ ہجرت اللہ کے لئے ہوگی تواللہ تعالی کے یہاں اس کی یقینا قدر ہے لیکن اس کے برخلاف اگر ہجرت کرنے والے کی نیت کوئی دنیا وی غرض ہے جیسے مال و متاع کو حاصل کرنا یا کسی عورت سے شادی کرنا تو پھر وہ اپنے اسی مقصد کو حاصل کرسکے گا اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کی کوئی قدر نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ایسے لوگوں کو خبر دار کردیاہے دنیا کی زیب وزینت کاارادہ کرنے والوں کے اعمال حبط وضائع ہوجاتے ہیں اور آخر ت میں ان کے لئے کوئی حصہ نہیں ہے۔ ارشاد ہے:

مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا نُوَفِّ اِلَیْھِمْ اَعْمَالَھُمْ فِیْھَا وَ ھُمْ فِیْھَا لَا یُبْخَسُوْنَ(١٥ ) اُولٰٓئکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْھَا وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ  (١٦ ۔سورہ ھود)

ترجمہ:جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ایسوں کو ان کے کل اعمال کا بدلہ یہیں بھرپور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انہیں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انہوں نے یہاں کیا ہوگا وہاں سب اکارت ہے اور جو کچھ ان کے اعمال تھے سب برباد ہونے والے ہیں۔

دکھاوا او رشہرت کی خواہش سے اعمال حبط ہوتے ہیں

جولوگ دنیا وی مفاد،دکھاوے اورشہرت کے لئے عمل کرتے ہیں، چاہے وہ جہاد فی سبیل اللہ ہو،انفاق فی سبیل اللہ ہو یا اللہ کے دین کی تعلیم اور اس کے تعلم میں مشغولیت ہو،ان سب کے اعمال حشر میں ذلت ورسوائی کا سبب بن جائیں گے اوردنیامیں انہوں نے جو کچھ کمالیا وہ اس پر افسردگی کے سواکچھ حاصل نہیں کرپائیں گے ذیل کی حدیث میں میدان حشر کے ایک منظر کابیان ہے:

عَنْ سلیمان بن یسار، قَالَ: تَفَرَّقَ النَّاسُ عَنْ ابی ھریرۃ، فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ: أَيُّهَا الشَّيْخُ حَدِّثْنِي حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:” أَوَّلُ النَّاسِ يُقْضَى لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَةٌ: رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ، فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ، قَالَ: كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِيُقَالَ فُلَانٌ جَرِيءٌ، فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَهُ، وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ، فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُهُ، وَقَرَأْتُ فِيكَ الْقُرْآنَ، قَالَ: كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ، لِيُقَالَ عَالِمٌ، وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ قَارِئٌ، فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ، فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ، فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ، فَعَرَفَهَا، فَقَالَ: مَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ؟ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَلَمْ أَفْهَمْ تُحِبُّ كَمَا أَرَدْتُ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيهَا لَكَ قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنْ لِيُقَالَ إِنَّهُ جَوَادٌ فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ، فَأُلْقِيَ فِي النَّارِ”. (سنن نسائی،کتاب الجہاد۔باب من قاتل لیقال فلان جریئ۔حدیث نمبر٣١٣٩ )

حضرت سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے لوگ جدا ہونے لگے، تو اہل شام میں سے ایک شخص نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: شیخ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کوئی حدیث مجھ سے بیان کیجئے، کہا: ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”قیامت کے دن پہلے پہل جن لوگوں کا فیصلہ ہو گا، وہ تین (طرح کے لوگ) ہوں گے، ایک وہ ہو گا جو شہید کر دیا گیا ہو گا، اسے لا کر پیش کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے اپنی نعمتوں کی پہچان کروائے گا۔ وہ انہیں پہچان لے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے کہیں گے: یہ ساری نعمتیں جو ہم نے تجھے دی تھیں ان میں تم نے کیا کیا؟وہ کہے گا: میں تیری راہ میں لڑا یہاں تک کہ میں شہید کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: تو جھوٹ بول رہا ہے۔ بلکہ تو اس لیے لڑاتا کہ کہا جائے کہ فلاں تو بڑا بہادر ہے چنانچہ تجھے ایسا کہا گیا، پھر حکم دیا جائے گا: اسے لے جاؤ تو اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر لے جایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ایک وہ ہو گا جس نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور قرآن پڑھا، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائیں گے تو وہ انہیں پہچان لے گا، اللہ تعالیٰ کہیں گے: ان نعمتوں کا تو نے کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم سیکھا اور اسے سکھایا اور تیرے واسطے قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ کہیں گے: تو نے جھوٹ اور غلط کہا تو نے تو علم اس لیے سیکھا کہ تجھے عالم کہا جائے، تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے چنانچہ تجھے کہا گیا۔ پھر اسے لے جانے کا حکم دیا جائے گا چنانچہ چہرے کے بل گھسیٹ کر اسے لے جایا جائے گا یہاں تک کہ وہ جہنم میں جھونک دیا جائے گا“۔ ایک اور شخص ہو گا جسے اللہ تعالیٰ نے بڑی وسعت دی ہو گی طرح طرح کے مال و متاع دیئے ہوں گے، اسے حاضر کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے اپنی عطا کردہ نعمتوں کی پہچان کرائیں گے تو وہ انہیں پہچان لے گا۔ اللہ تعالیٰ کہیں گے: ان کے شکریہ میں تو نے کیا کیا؟ وہ کہے گا: اے رب! میں نے کوئی جگہ ایسی نہیں چھوڑی جہاں تو پسند کرتا ہے کہ وہاں خرچ کیا جائے مگر میں نے وہاں خرچ نہ کیا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: تو جھوٹ بکتا ہے، تو نے یہ سب اس لیے کیا کہ تیرے متعلق کہا جائے کہ تو بڑا سخی اور فیاض آدمی ہے،چنانچہ تجھے کہا گیا، اسے یہاں سے لے جانے کا حکم دیا جائے گا چنانچہ چہرے کے بل گھسیٹتا ہوا اسے لے جایا جائے گا۔ اور لے جا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

غور فرمائیے کہ یہ اعمال جن کاتذکرہ اس حدیث میں کیا گیا ہے کتنے بڑے بڑے اعمال ہیں لیکن اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے سارے اعمال اکارت ہوگئے۔ یہ صرف تین شخصوں کی بات نہیں ہے بلکہ تین درجات کابیان ہے کہ قیامت کے میدان میں اولاً ان تین طرح کے لوگوں کافیصلہ کیا جائے گا۔

قرآن کریم کے آیات او ر احادیث نبوی میں عمل کے اندر اخلاص او ر للہیت پیداکرنے کی بار بار تلقین کی گئی ہے اور جو لوگ ایسا نہیں کرتے ان کی تنبیہہ کے لئے تنبیہی ارشادات بھی موجود ہیں۔ اس لئے ایمان والوں کے لئے ضرور ی ہے کہ اپنے تمام اعمال کے اندر خلوص پیداکرنے کی کوشش کریں او راپنے اعمال کو ضائع او راکارت ہونے سے بچائیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کے اعمال میں خلوص عطافرمائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index