مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

امیر کی اطاعت:اجتماعیت اور استحکام امت کی بنیاد

امیر کی اطاعت

 

تحریر:مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

اسلامی نظام میں اطاعت امیر کی اہمیت

اللہ تعالیٰ نے نظام دنیا کوچلانے اور امور عالم کوبحسن وخوبی انجام تک پہنچانے کے لئے ایک مستحکم نظام قائم فرمایا اور ہر شخص کو اس کاپابند بنایا ہے ان میں نمایاں طور پر اطاعت اور فرماں برداری کو اہم مقام حاصل ہے اسی کے ذریعہ امور عالم میں تنظیم اور ثبات قائم ہوتاہے اگر لوگوں میں اطاعت کاجذبہ نہ رہے ہر شخص اپنی مرضی پر عمل کرناشروع کردے تونظام عالم تباوہ برباد ہوجائے گا اورامت انتشار وافتراق کاشکار ہوجائے گی اور منتشر جماعت اپنا وجود باقی رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو اطاعت کاحکم دیا ہے۔

اطاعت کابنیادی جز اللہ اوررسول کی اطاعت ہے اور اسی کی بنیاد پر اولوالامر کی اطاعت بھی فرض ہے۔ جب تک رسول اللہ ﷺ بہ نفس نفیس اس کائنات میں موجود تھے ہر امر کافیصلہ آپؐ ہی فرماتے رہے مسلمانوں میں جب کوئی اختلاف ہوتا تو لوگ اپنے قضایا نبی کریمﷺ کی خدمت میں پیش کرتے اور آپ ؐ اللہ کی مرضی کے مطابق فیصلے فرمادیا کرتے تھے جس کوماننا ہر مسلمان پر فرض تھا۔ جب آپ ؐ اس دارفارنی سے رحلت فرماگئے تو آپ کے ارشادات ہمارے لئے راہ عمل ہیں اور آپ کی ھدایات ہمارے لئے فیصل کادرجہ رکھتے ہیں۔لیکن ظاہر ہے ان ھدایات وارشادات کاصحیح طور پر نفاذ اسی وقت ہوسکتاہے جب کہ اس کو نافذکرنے والا شخص اس لائق ہوجس کی اطاعت کو واقعی میں اللہ اور رسول کی اطاعت  کہا جاسکے ہر کس وناکس اس منصب کے لائق نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ہرشخص آزاد رہ کر اپنا فیصلہ خود کرلینے کا اختیار رکھتاہے۔

اجتماعیت اور نظم و ضبط  امت کی بقا اور کامیابی کی بنیاد  ہے۔ جب تک مسلمانوں میں قیادت کی اطاعت کا جذبہ زندہ رہے گا، امت متحد، منظم اور طاقتور رہے گی۔ لیکن جب لوگ اپنے امیر کی بات ماننے کے بجائے انفرادی فیصلے کرنے لگیں تو نظام درہم برہم ہوجائے گا اور امت انتشار کا شکار ہو جائے گی۔ قرآنِ کریم نے اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:
“اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ”
یعنی   اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ 
یہ آیت اس بات کا اعلان ہے کہ اسلامی نظام کی بقا اور امت کے استحکام کا راز اللہ، رسول ﷺ اور امیر کی اطاعت میں پوشیدہ ہے۔ جو قوم اپنی قیادت کے تابع رہتی ہے، وہی دنیا میں عزت اور نظم و وحدت کی مثال بن کر ابھرتی ہے۔

امیر کی خوبیاں

امیر کی اطاعت ہمارے اوپر فرض ہے۔ظاہر ہے اصل اطاعت تو اللہ اور اس کے رسول کی ہے اس لئے امیر کے اندر وہ خوبیاں ہونی ضروری ہیں جن کی بناء پر امیر کی اطاعت اللہ اور رسول کی اطاعت کے مترادف ہوجائے اس لئے امیر کے لئے کچھ شرائط ہیں، جن کو علماء مجتہدین نے غور خوض کے بعد متعین فرما دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو خلافت ارضی عطاکرنے کا فیصلہ کیااور فرشتوں کو اپنے فیصلہ سے آگاہ کیا۔تو فرشتوں نے اپنے شعور کے مطابق حضرت آدمؑ کی خلافت پرجو تنقید کی اس سے معروضی طور پر خلافت کے شرائط کا پتہ چلتاہے:

وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓءِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَ یَسْفِکُ الدِّمَآءَ  وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ قَالَ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ(٣٠ ۔ بقرہ)

ترجمہ:        اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا بے شک میں زمین میں ایک جانشین بنانے والا ہوں۔ انھوں نے کہا کیا تو اس میں اس کو بنائے گا جو اس میں فساد کرے گا اور بہت سے خون بہائے گا اور ہم تیری تعریف کے ساتھ ہر عیب سے پاک ہونا بیان کرتے ہیں اور تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔ فرمایا بے شک میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں امام تفسیر ابن کثیر ؒنے تفصیل بیان کیاہے،جس سے امامت کاوجوب،امام کے فرائض اور اس کے اندر موجود اوصاف پر روشنی پڑتی ہے ذیل میں اسے من وعن نقل کیا جاتاہے:

 خلیفہ کے فرائض اور خلافت کی نوعیت

امام قرطبی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ہے تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرے، ان کے جھگڑے چکائے، مظلوم کا بدلہ ظالم سے لے، حدیں قائم کرے، برائیوں کے مرتکب لوگوں کو ڈانٹے ڈپٹے وغیرہ، وہ بڑے بڑے کام جو بغیر امام کے انجام نہیں پا سکتے۔ چونکہ یہ کام واجب ہیں اور یہ بغیر امام کے پورے نہیں ہو سکتے اور جس چیز کے بغیر واجب پورا نہ ہو وہ بھی واجب ہو جاتی ہے لہٰذا خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ثابت ہوا۔

امامت یا تو قرآن و حدیث کے ظاہری لفظوں سے ملے گی جیسے کہ اہل سنت کی ایک جماعت کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نسبت خیال ہے کہ ان کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے لیے لیا تھا یا قرآن و حدیث سے اس کی جانب اشارہ ہو۔ جیسے اہل سنت ہی کی دوسری جماعت کا خلیفہ اول کی بابت یہ خیال ہے کہ اشارۃً ان کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے لیے کیا۔ یا ایک خلیفہ اپنے بعد دوسرے کو نامزد کر جائے جیسے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔ یا وہ صالح لوگوں کی ایک کمیٹی بنا کر انتخاب کا کام ان کے سپرد کر جائے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا یا اہل حل و عقد (یعنی بااثر سرداران لشکر علماء و صلحاء وغیرہ) اس کی بیعت پر اجماع کر لیں یا ان میں سے کوئی اس کی بیعت کر لے تو جمہور کے نزدیک اس کا لازم پکڑنا واجب ہو جائے گا۔ امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے ”وَاللہْ اَعلَمْ“۔ یا کوئی شخص لوگوں کو بزور و جبر اپنی ماتحتی پر بے بس کر دے تو بھی واجب ہو جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر بیعت کر لیں تاکہ پھوٹ اور اختلاف نہ پھیلے۔

امام کا مرد ہونا، آزاد ہونا، بالغ ہونا، عقلمند ہونا، مسلمان ہونا، عادل ہونا، مجتہد ہونا، آنکھوں والا ہونا، صحیح سالم اعضاء والا ہونا، فنون جنگ اور رائے سے خبردار ہونا، قریشی ہونا واجب ہے اور یہی صحیح ہے۔(تفسیر ابن کثیر۔سورہ بقرہ آیت ٣٠ کی تفسیر سے ماخوذ)

اس کے علاوہ ابن کثیر نے کچھ اختلافی امور کو بھی بیان کیا ہے جن کویہاں نقل نہیں کیاگیا ہے۔

اس عبارت کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ اسلام کے احکام نیز اختلافات میں فیصلہ اور حق کی راہ پرچلنے کے لئے ایک امام یاامیر کاہونا ضروری ہے ورنہ احکام پر عمل کرنادشوار ہوجائے گا اور مسلمانوں کوچاہئے کہ وہ اپنا ایک امیر منتخب کرلیں اور جب امیر کاانتخاب عمل میں آجائے تو دل وجان سے اس کی کامل اطاعت کریں اور اس کی مخالفت سے اپنے آپ کوبچائے رکھیں ورنہ فتنہ میں مبتلا ہوجائیں گے۔

اطاعت امیر کی شرعی حدود

واضح رہے کہ یہ اطاعت اسی وقت تک فرض ہے جب تک وہ امیر اللہ اور رسول کی اطاعت کاحکم دیتا رہے اگر کسی موقع پر وہ کوئی ایسا حکم دیتا ہے جس سے اللہ اور رسول کی نافرمانی لازم آتی ہے تو اس وقت اطاعت کے بجائے مخالفت کرنا ضروری ہوجاتاہے ایسا ہی ایک واقعہ نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ میں پیش آیا:

عَنْ  عَلِیٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً، فَاسْتَعْمَلَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يُطِيعُوهُ، فَغَضِبَ، فَقَالَ: أَلَيْسَ أَمَرَكُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُطِيعُونِي؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَاجْمَعُوا لِي حَطَبًا، فَجَمَعُوا، فَقَالَ: أَوْقِدُوا نَارًا، فَأَوْقَدُوهَا، فَقَالَ: ادْخُلُوهَا، فَهَمُّوا، وَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يُمْسِكُ بَعْضًا، وَيَقُولُونَ: فَرَرْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّارِ، فَمَا زَالُوا حَتَّى خَمَدَتِ النَّارُ، فَسَكَنَ غَضَبُهُ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:”لَوْ دَخَلُوهَا مَا خَرَجُوا مِنْهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ”.(صحیح بخاری کتاب المغازی باب سریۃ عبد اللہ بن حذافۃ السھمی وعلقمۃ بن مجزر المدلجی۔حدیث نمبر٤٣٤٠ )

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصر لشکر روانہ کیا اور اس کا امیر ایک انصاری صحابی (عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ) کو بنایا اور لشکریوں کو حکم دیا کہ سب اپنے امیر کی اطاعت کریں پھر امیر کسی وجہ سے غصہ ہو گئے اور اپنے فوجیوں سے پوچھا کہ کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری اطاعت کرنے کا حکم نہیں فرمایا ہے؟ سب نے کہا کہ ہاں فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا پھر تم سب لکڑیاں جمع کرو۔ انہوں نے لکڑیاں جمع کیں تو امیر نے حکم دیا کہ اس میں آگ لگاؤ اور انہوں نے آگ لگا دی۔ اب انہوں نے حکم دیا کہ سب اس میں کود جاؤ۔ فوجی کود جانا ہی چاہتے تھے کہ انہیں میں سے بعض نے بعض کو روکا اور کہا کہ ہم تو اس آگ ہی کے خوف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئے ہیں! ان باتوں میں وقت گزر گیا اور آگ بھی بجھ گئی۔ اس کے بعد امیر کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ جب اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس میں کود جاتے تو پھر قیامت تک اس میں سے نہ نکلتے۔ اطاعت کا حکم صرف نیک کاموں کے لیے ہے۔

اسی طرح ایک دوسری حدیث میں رسول اللہﷺکاارشادہے:

 عن عبداللہ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:” السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ”.(سنن ابوداؤد۔ کتاب الجہاد۔باب فی الطاعۃ۔حدیث نمبر٢٦٢٦ )

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان آدمی پر امیر کی بات ماننا اور سننا لازم ہے چاہے وہ پسند کرے یا ناپسند، جب تک کہ اسے کسی نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے، لیکن جب اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے تو نہ سننا ہے اور نہ ماننا ہے”۔

دورحاضر میں امارت کی ضرورت

آج کے دور میں جب کہ مسلمان دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ ہر جگہ مسلمانوں کو اقتدار حاصل نہیں ہے، تو ایسی صورت میں یہ سوال ہر شخص کے ذہن میں پید ا ہوتاہے کہ مسلمانوں کو کیاکرناچاہئے؟ جب کہ ان کے پاس کوئی ایسا امیر نہیں ہے،جو انہیں حق کی طرف لے جائے۔ یہ اس دور کاایک بہت بڑا سوال ہے،جو یقینالائق توجہ اور محتاج حل ہے۔

نبی کریم ﷺ کی سیر ت کے مطالعہ سے اس سوال کاحل ممکن ہے۔آپ ﷺ کی زندگی کا ایک دور تو وہ ہے جب کہ اسلام کے ماننے والے مٹھی بھر تھے اور نہایت کس مپرسی کی زندگی گزار رہے تھے ان کی زندگی ہر وقت خطرات سے گھری ہوئی تھی۔ اللہ کانام لینا آگ کے انگارے پر چلنے کے مترادف تھا۔ہرشخص اپنے ایمان کے بارے میں فکر مند تھا اسی حالت میں نبی کریم ﷺ نے تیرہ سال صبر کے ساتھ گذار دیئے۔ دوسرا دور وہ آیا جب کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوہجرت کاحکم دیا اور مسلمانوں کے ساتھ نبی کریمﷺ نے بھی مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور مسلمانوں کے لئے ایک پر امن ماحول تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے جہاں مسلمان آزادی کے ساتھ اپنے رب کی اطاعت کرسکتے تھے۔تیسرا دور اسلامی حکومت کے استحکام کادور ہے۔ اس دور میں جب اسلام دشمن عناصر نے مسلمانوں کے امن کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی تو آپ ﷺ نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ان دشمنان اسلام اور دشمنان انسانیت کودنداں شکن جواب دیا۔ غزوات النبی ﷺ اس پر شاہد ہیں اور چوتھا دور وہ ہے جب کہ اسلام غالب ہوگیا اور اسلام مخالف طاقتیں مغلوب ہوکر یا تو ہار مان کر صلح پر مجبور ہوگئیں یادامن اسلام کواپناکر اپنی دنیاو آخرت کو محفوظ کرلیا۔سیرت رسول ؐ کے مطالعہ سے چار طرح کے حالات ہمارے سامنے آتے ہیں۔

پہلی صورت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اوپر کوئی ایسی حکومت مسلط ہوجائے جوانہیں اپنے خالق ومالک کی عبادت سے روکے اور ان کے پاس ظاہری طور پر کوئی طاقت یادوسری کوئی جائے پناہ بھی نہ ہو تو ایسی حالت میں صبر واستقامت سے کام لے کر اللہ کی مدد اور نصرت کاانتظار کریں اور عملی طور پر اس کی جدو جہد کرتے رہیں کہ انہیں پر امن ماحول نصیب ہوجائے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ ان کے لئے کوئی دوسری جائے پناہ ہو جہاں جاکر وہ اپنے دین وایمان کی حفاظت بحسن و خوبی کرسکیں تو انہیں ہجرت کرکے اپنے دین کی حفاظت کاسامان کرنا چاہئے۔

 تیسرے نمبر پر جب مسلمانوں کوپر امن ماحول مل جائے جہاں وہ آزادانہ اپنے دین وایمان اور اس کے تقاضوں کوپورے کرسکتے ہوں تو اب انہیں کسی کوخواہ مخواہ چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر کوئی ریاست انہیں مجبور کردے اور ان کے دین و ایمان کو ختم کرنے کے درپے آجائے تو اسے سبق سکھانے کے لئے جوابی طور پر جنگ وجدال سے احتراز نہیں کرناچاہئے۔

چوتھے نمبر پر جب کہ انہیں پرامن ماحول بھی میسر ہو اور کوئی دوسرا ان کے دین و ایمان میں رخنہ اندازی کرنے والا بھی نہ ہوتو مسلمانوں کوکامل یکسو ہوکر امیر کی اطاعت میں اپنے رب کی عبادت اور دین اسلام کی سرخروئی کے لئے سرگرم عمل رہنا چاہئے۔

لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ جب تک کوئی امیر نہ ہو اس وقت تک ان چاروں امور پر بخوبی عمل نہیں ہو سکتا اس لئے سب سے پہلے  مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنا ایک امیر متعین کریں تاکہ سارے امور بحسن و خوبی انجام پاسکیں ۔

اطاعت امیر کے فوائد وثمرات

تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمانوں میں امیر کی اطاعت کاجذبہ موجود تھا تو دنیاکی ساری قومیں ان کی ا طاعت میں اپنے لئے فخر سمجھتی تھیں لیکن جب یہ جذبۂ اطاعت ختم ہوگیا تو امت مسلمہ آپس میں ٹکرانے لگی اور ان کاشیرازہ بکھر گیا دوسری قومیں جوان کے سامنے دب کررہتی تھیں وہ شیر بن گئیں اور دھیرے دھیرے اسلامی سلطنت کوہڑپ کرنے لگیں۔ آج امت جس کس مپرسی کی شکار ہے اس میں ان کی بد اعمالیوں کے علاوہ اس جذبۂ اطاعت کاختم ہوجانا بھی ایک بہت بڑا سبب ہے۔

امتِ مسلمہ کو اپنے باہمی اختلافات، شخصی ترجیحات اور گروہی تعصبات سے بالاتر ہو کر ایک منظم قیادت کی اطاعت اختیار کرنی چاہیے۔ قیادت کی اطاعت دراصل نظم و وحدت کی علامت ہے، اور اسی سے امت کا وقار اور طاقت وابستہ ہے۔ ہر فرد کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اجتماعیت کی مضبوطی اسی وقت ممکن ہے جب ہر شخص اپنی رائے کو نظمِ جماعت کے تابع رکھے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے امیر کی اطاعت اسی طرح کریں جس طرح قرآن و سنت نے تعلیم دی ہے۔ نہ اندھی تقلید کے طور پر، بلکہ عدل، خیر اور شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے—تاکہ امت دوبارہ وحدت، نظم اور عزت کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

کسی بھی قوم کے لئے کامیابی اسی وقت ممکن ہےجب کہ اس کی قیادت باصلاحیت ، عادل اور اپنے مفاد کی بجائے قوم وملت کی بھلائی اور اس کے مفاد کو ترجیح دینے والی ہو ۔ ورنہ مفاد پرست قیادت خود تو ڈوبے گی ہی اپنے ساتھ پوری قوم کو بھی لے ڈوبے گی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index