انصاف   قائم کرو

تحریر : محمد آصف اقبال قاسمی 

ایک مومن ہونے کی حیثیت سے یہ لازم ہے کہ جب اسے کسی معاملے کا فیصل بنا دیا جائے تو وہ نہایت انصاف اور عدل کے ساتھ فیصلہ کر ے اورظلم وجور کو اپنے قریب نہ آنے دے اس لئے کہ حاکم حقیقی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اوروہ روز جزا کامالک ہے وہ اس دن ہرچیز کافیصلہ حق کے ساتھ کر دے گا اس لئے اس دنیامیں ایمان والوں کوحق وانصاف کا دامن نہیں چھوڑ ناچاہئے۔ یہ ان کے کمال ایمان کی علامت ہے۔ اوراسی میں ان کی بھلائی اور کامرانی مضمر ہے۔حق جل شانہ کاارشاد ہے: 

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَاوَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالَعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا(نسا٥٨ )

ترجمہ:        اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ! اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل وانصاف سے فیصلہ کرو! یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالیٰ کر رہا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ سنتا ہے، دیکھتا ہے۔

اس آیت کریمہ کے الفاظ وسیع المعنی ہیں اس میں نماز،روزہ، زکوۃ، نذر اور امانات تمام کے تمام آگئے یہ آیت کریمہ فتح مکہ کے وقت طواف کے درمیان نازل ہوئی جس کے بعد آ پ ؐ نے خانہئ کعبہ کی کنجی عثمان ابن ابی طلحہ کو عطافرمائی۔اس آیت کریمہ میں ایک تو امانات کی ادائیگی پر زور دیاگیاہے اور دوسرے فیصلے کے وقت حق وانصاف کے ساتھ فیصلے کا حکم دیا گیا ہے اور پھر تاکید کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسے مسلمانوں کے حق میں بہتر بتایاہے۔ اس لئے کہ ایک مومن کا اس پر ایمان ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ ہر چیز کافیصلہ فرمادیں گے اور کوئی انصاف سے محروم نہیں رہے گااس لئے اگر دنیامیں اس نے حق و انصاف کا دامن چھوڑا اور ناانصافی اور ظلم و جور کاراستہ اختیا رکیا تو اللہ کے دربارمیں وہ پکڑ سے بچ نہیں سکتااس لئے اس دنیا میں حق وانصاف کے ساتھ اگر چہ دل پر زور دینا پڑے لیکن یہ بہ نسبت اس کے آسان ہے کہ وہ اللہ کے یہاں جواب دہ ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو دین ہم کو دیاہے اور جس کتاب کی ہم پیروی کرتے ہیں اس کے نازل کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ دنیاکے اندر انصاف اور عدل کی حکمرانی ہو اور خیانت نیز ظلم وستم کی روش کو جڑ سے اکھاڑ پھینکاجائے۔ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:

اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰیکَ اللّٰہُ وَ لَا تَکُنْ لِّلْخَآءِنِیْنَ خَصِیْمًا(نساء۔(١٠٥ )

ترجمہ:        یقیناً ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو شناسا کیا ہے اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مخاطب فرماکر یہ بتایا ہے کہ کہ آپؐ پر جو کتاب نازل کی گئی ہے وہ مکمل مبنی بر حق ہے اور اس میں از ابتدا تاانتہا کوئی بات ناحق نہیں ہے اس لئے آپ اس کتاب کی روشنی میں ہمیشہ حق کا فیصلہ کریں۔

ایک بات واضح رہے کہ کوئی بھی حاکم دلائل وشواہد کے مطابق فیصلے کرتاہے ایسا ممکن ہے کہ صاحب حق کے پاس دلائل و شواہد نہ ہوں اور جو حقدار نہیں ہے وہ شواہد جمع کردے اس لئے ایک عادل اورمنصف مزاج حاکم سے بھی غلط فیصلہ ہوسکتاہے اب مدعی اور مدعا علیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ حق بات کوہی قبول کریں ورنہ قیامت کے دن وہ مواخذہ سے بچ نہیں سکیں گے۔نبی کریم ﷺ نے اس بات کو واضح فرمادیا ہے جس کو امام بخاری نے اپنے صحیح میں ذکر کیاہے:

عن ام سلمۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا بِقَوْلِهِ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ، فَلَا يَأْخُذْهَا”. (صحیح بخاری: کتاب الشھادات۔ باب من اقام البینۃ بعد الیمین۔حدیث نمبر٢٦٨٠ )

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم لوگ میرے یہاں اپنے مقدمات لاتے ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک تم میں سے دوسرے سے دلیل بیان کرنے میں بڑھ کر ہوتا ہے (قوت بیانیہ بڑھ کر رکھتا ہے) پھر میں اس کو اگر اس کے بھائی کا حق (غلطی سے) دلا دوں، تو وہ حلال (نہ سمجھے) اس کو نہ لے، میں اس کو دوزخ کا ایک ٹکڑا دلا رہا ہوں۔

 انصاف کرنے والے اللہ کو پسند ہیں

شَھِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَ المَلٰئکَۃُ وَ اُولُواالعِلمِ قَآءِمًا بِالقِسطِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ العَزِیزُ الحَکِیمُ (آل عمران۔١٨ )

ترجمہ:اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کی الوہیت اور معبودیت مسلّم ہے اس میں کسی شک وشبہہ کی گنجائش نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت کے اثبات پر خود ہی شہادت دی ہے کہ وہ معبود حقیقی ہے اور اس کے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں ہے اور اس شہادت میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور اہل علم کو بھی شامل کیا ہے جو یقینا ان کے فضل اور برگزیدہ ہونے کی دلیل ہے۔الوہیت و معبودیت کی شہادت کے بعد اللہ تعالیٰ نے امتیازی طور پر اپنی صفت  قَآءِمًا بِالقِسط کو نمایاں طور پر بیان فرمایا کہ اللہ کی خاص صفت ہے کہ وہ عدل وانصاف کوقائم کرنے والا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانوں میں جو شخص اس صفت کے ساتھ موصوف ہوگا اور دنیامیں عدل وانصاف قائم کرے گاوہ گویا اللہ تعالیٰ کے اس صفت خاص کا اجرا اور اثبات کررہا ہے جو یقینا اللہ کے یہاں نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ جوحاکم عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کرتاہے وہ گویامنجانب اللہ فیصلہ ہے اس لئے دونوں فریق کو ماننا ضروری ہے اور اگر کسی فریق نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کیا اور ظلم و بغاوت کارخ اختیار کیا تو ایسے لوگو ں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک کہ حق و انصاف قائم نہ ہوجائے۔ ارشاد ہے:

وَاِِنْ طَاءِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاھُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیءَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِِنْ فَاءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوا اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ (حجرات۔۹)

ترجمہ:     اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو۔ پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

اس آیت کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ دومسلم جماعتوں کے درمیان اگر اختلاف کی صورت پیدا ہوجائے تو دیگر مسلمانوں کو چاہئے کہ ان کے درمیان صلح صفائی کی فضا ہموار کریں اور ان کو آپس میں مل جل کر رہنے کی تلقین کریں اور اس صلح صفائی کی تمام کوششوں کے باوجود ان میں سے کوئی فریق اگر بغاوت پر اترجائے تو بزور ان کومطیع و فرمانبردار بنانے کی کوشش کی جائے گی۔یعنی اسلام کی روح یہ ہے کہ دنیامیں ظلم اور ناانصافی بالکل باقی نہ رہے اور ہر شخص امن و امان کے ساتھ رہے کوئی آدمی بھی حق وانصاف سے محروم نہ رہنے پائے۔ نبی کریم ﷺ کے ارشادات اس بارے میں بہت واضح اور کثیر ہیں جن سے عدل وانصاف کے قیام اور اس کو جاری و ساری رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَآخَرُ آتَاهُ اللَّهُ حِكْمَةً فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا”. (صحیح بخاری:کتاب الاحکام۔ باب اجر من قضی بالحکمۃ۔حدیث نمبر٧١٤١ )

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”رشک بس دو آدمیوں پر ہی کیا جانا چاہئے۔ ایک وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا اور پھر اس نے وہ حق کے راستے میں بے دریغ خرچ کیا اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے حکمت دین کا علم (قرآن و حدیث کا) دیا ہے وہ اس کے موافق فیصلے کرتا ہے”۔

حسد اور رشک

انسانی عادات و اطوار میں دو چیزیں ہیں جو بظاہر یکسا ں ہیں مگر ان میں قدرے فرق ہے  ان میں ایک حسد ہے جو عند اللہ پسندیدہ نہیں بلکہ حرام ہے اور دوسر ا رشک ہے جو جائز ہے۔

حسد کا مطلب یہ ہے کہ کسی کی ایسی چیز جو اس کے بلندی کا سبب ہے یا وہ چیز اس کو باعزت اور مشرف بناتی ہے تو ہم اسے دیکھ کر دل ہی دل میں جلتے رہیں اور دل میں یہ خواہش پید ا ہوکہ اس سے وہ دولت چھن جائے، چاہے ہمیں ملے یا نہ ملے۔ اس کے برعکس ایک صفت رشک ہے جس کی تعریف یہ ہے کہ کی خوبی کو دیکھ کر ماشا ء اللہ سبحان اللہ کہے اور دل میں یہ خواہش بھی رکھے کہ کاش یہ دولت مجھے بھی نصیب ہوجائے۔

دوشخصو ں کے اعمال اللہ تعالیٰ کو اتنے پسند ہیں کہ رسول اللہ نے ایسے دوشخصوں کے بارے میں رشک کرنے کو جائز قرار دیاہے یعنی دنیا میں اگر رشک کرنے کی کوئی چیز ہے تو وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو مال و دولت سے نوازا اور وہ اس دولت کو اللہ کی راہ میں بے دریغ خرچ کرتاہے دوسرا وہ شخص جس کواللہ تعالیٰ نے علم کی دولت سے نوازا اور وہ اس علم کی روشنی میں اللہ کے بندوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرتاہے۔یہ دو اشخاص ایسے ہیں جن سے رشک کیاجانا چاہئے۔

دیانت دار حاکم دوہرے اجر کامستحق

 ایسا حاکم یا قاضی جواپنے طور پر پوری دیانت داری کے ساتھ فیصلہ کرتاہے اور قرآن وحدیث کے مطابق بالکل صحیح فیصلہ کرتاہے تواللہ تعالیٰ کے یہاں وہ دوہرے اجر کامستحق ہوگا اور اگر بالاتفاق خطا کرجاتاہے تو بھی اسے ایک اجر ضرور ملے گا۔ اس لئے کہ اس نے اپنی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں کی اور اس کی نیت انصاف کو قائم کرنے کی تھی۔

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب حاکم سوچ کر حکم دے پھر صحیح کرے تو اس کو دو اجر ہیں اور جو سوچ کر حکم دے اور غلطی کرے تو اس کو ایک اجر ہے۔”

عن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ، ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ، ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ “، (صحیح مسلم: کتاب الاقضیۃ۔باب بیان اجر الحاکم اذا اجتھد فاصاب او اخطا۔حدیث نمبر٤٤٨٧ )

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: “جب کوئی حاکم فیصلہ کرے اور اجتہاد(حقیقت کو سمجھنے کی بھرپور کوشش) کرے، پھر وہ حق بجانب ہو تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور جب وہ فیصلہ کرے اور اجتہاد کرے، پھر وہ(فیصلے میں) غلطی کر جائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔

حکام کوخیر خواہ ہونا چاہئے

مسلمانوں میں سے کسی شخص کو حاکم بنادیا جائے تو وہ اس عہدہ کو مال غنیمت نہ سمجھے بلکہ اس کو ایک ذمہ داری سمجھے اور حق و انصاف کا بول بالا قائم کرنے کی کوشش کرے ۔نیز رعایا کی ضروریات کا خیال رکھے اور ان کے ساتھ خیر خواہی کا رویہ رکھے ۔

أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ زِيَادٍ عَادَ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَقَالَ لَهُ مَعْقِلٌ: إِنِّي مُحَدِّثُكَ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:” مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاهُ اللَّهُ رَعِيَّةً فَلَمْ يَحُطْهَا بِنَصِيحَةٍ إِلَّا لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ”. (صحیح بخاری: کتاب الاحکام۔باب من استرع رعیۃ فلم ینصح۔حدیث نمبر ٧١٥٠ )

 عبیداللہ بن زیاد،حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے اس مرض میں آئے جس میں ان کا انتقال ہوا تو معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ”جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو کسی رعیت کا حاکم بناتا ہے اور وہ خیر خواہی کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں کرتا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔

مسلمانوں کو چاہئے کہ آپس میں عدل وانصاف کوقائم کرنے کی کوشش کریں اور کسی معاملہ میں جب انہیں فیصل بنادیا جائے تو کسی کی جانب داری کئے بغیر حق وانصاف کے ساتھ فیصلہ کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *