جماعت کے ساتھ رہو
تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اور اپنے ماننے والوں کو اجتماعیت کے ساتھ رہنے کی تعلیم دیتاہے چاہے وہ عبادات ہوں یامعاشرتی مسائل سب میں اجتماعیت مطلوب بھی ہے اور مفید بھی۔ فرد کی طاقت جب جماعت کے ساتھ مل جاتی ہے تو وہ فرد بھی مضبوط ہوجاتاہے اور اس جماعت کی طاقت میں بھی اضافہ ہوجاتاہے اسی لئے امت مسلمہ کو جماعت کے ساتھ نماز اداکرنے کی تعلیم دی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کواجتماعیت کے ساتھ رہنے کی مشق ہوتی رہے۔ حج کی عبادت بھی اجتماعیت کی ایک عظیم مثال ہے۔ جس میں کالے گورے، چھوٹے بڑے، عربی عجمی کاکوئی فرق نہیں رہتا۔ سب کے سب ایک ہی لباس میں ایک ہی ترانے کا ورد کرتے ہوئے اللہ کے گھر کاطواف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی یہی چاہتے ہیں کہ میرے بندے جماعت کے ساتھ رہیں اور جماعت سے الگ ہوکر اپنے آپ کو کمزور نہ کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْاوَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًاوَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ (سورہ آل عمران۔١٠٣ )
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دین دیا ہے اس میں اتحاد و اتفاق اور ایک دوسرے کاتعاون نیز ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا اور جماعت کے ساتھ رہ کر زندگی گزارنے کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کے ذریعہ خود اپنی حفاظت بھی ہے اور قوم وملت کی حفاظت کاراز بھی اسی میں مضمر ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بار بار ایک ساتھ مل کر رہنے کی تلقین فرمائی ہے اور اس اہمیت سے ہمیں خبردار کیاہے۔نبی کریم ﷺ نے بھی اپنی تعلیمات میں یکجہتی اور اتفاق واتحاد کو بار بار اختیا ر کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔قرآن کریم کی بہت سی آیات ایسی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو ایک رسی میں پروکر رہنے کی ہدایت کی ہے اور اتحاد کے لئے ایک مستقل راہ عمل بھی بتا دیا ہے جس کے لئے نہ تو کسی انجمن کے قیام کی ضرورت ہے اور نہ کمیٹی کے تشکیل کی ضرورت۔ مندرجہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے اتفاق واتحاد کی صورت یہ بتائی ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو تم خود ہی متحد ہوجاؤ گے۔ اس کے لئے الگ سے جد وجہد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔آپ اندازہ لگائیں کہ عرب کی بدو قوم جو جانوروں سے بد تر زندگی گزار رہی تھی۔ہر ایک نفس دوسرے کے خون کا پیاسا بناہو اتھا، بات بات پرجھگڑے اور خون خرابہ کی نوبت آجاتی تھی اور کوئی کسی کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ایسے ناگفتہ بہ حالات میں جب اسلام کا پیغام تڑپتی انسانیت کے لئے پیغام امن و سلامتی بن کر عرب کے ریگزاروں میں گونجنے لگااور صحرا نشینوں کی ٹولیاں دھیرے دھیرے اس گلشن صد رنگ کے قریب آنے لگیں تو دیکھتے دیکھتے وہی قوم جو ایک دوسرے کی جانی دشمن تھی اور سر جھکادینے کے بجائے سر کٹادینا فخر سمجھتی تھی وہ جذبہ سرفروشی تو برقرار رہا لیکن اس کی نہج بدل گئی۔ اب وہی قوم امن کاپیامبر بن کر پوری دنیا کے افق پر نمودار ہوئی اور اس پیام امن کی بقا وتحفظ کے لئے اپنے جان ومال کو قربان کردینا ان کے لئے اتنا آسان ہوگیا کہ اس موقع کی تلاش میں رہا کرتے تھے کہ ہماری جان اللہ کی راہ میں قربان ہوجائے۔ان کے اس جذبہ ایثار وقربانی کی مثالیں تاریخ کی کتابوں میں بھری پڑی ہیں اس جذبہ سرفروشی نے اسلام کی ترویج اشاعت میں بہت اہم کردار اداکیاہے۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے ایسا موقع عطا کیا، انہوں نے اسے اپنی کامیابی کی سند سمجھ لیا۔
عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ ، قَالَ: جَاءَ نَاسٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: أَنِ ابْعَثْ مَعَنَا رِجَالًا يُعَلِّمُونَا الْقُرْآنَ وَالسُّنَّةَ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ سَبْعِينَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُمُ الْقُرَّاءُ، فِيهِمْ خَالِي حَرَامٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ وَيَتَدَارَسُونَ بِاللَّيْلِ يَتَعَلَّمُونَ، وَكَانُوا بِالنَّهَارِ يَجِيئُونَ بِالْمَاءِ فَيَضَعُونَهُ فِي الْمَسْجِدِ وَيَحْتَطِبُونَ، فَيَبِيعُونَهُ وَيَشْتَرُونَ بِهِ الطَّعَامَ لِأَهْلِ الصُّفَّةِ وَلِلْفُقَرَاءِ، فَبَعَثَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فَعَرَضُوا لَهُمْ فَقَتَلُوهُمْ قَبْلَ أَنْ يَبْلُغُوا الْمَكَانَ، فَقَالُوا: اللَّهُمَّ بَلِّغْ عَنَّا نَبِيَّنَا أَنَّا قَدْ لَقِينَاكَ فَرَضِينَا عَنْكَ وَرَضِيتَ عَنَّا، قَالَ: وَأَتَى رَجُلٌ حَرَامًا خَالَ أَنَسٍ مِنْ خَلْفِهِ، فَطَعَنَهُ بِرُمْحٍ حَتَّى أَنْفَذَهُ، فَقَالَ: حَرَامٌ فُزْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: ” إِنَّ إِخْوَانَكُمْ قَدْ قُتِلُوا وَإِنَّهُمْ قَالُوا: اللَّهُمَّ بَلِّغْ عَنَّا نَبِيَّنَا أَنَّا قَدْ لَقِينَاكَ فَرَضِينَا عَنْكَ وَرَضِيتَ عَنَّا” (صحیح مسلم: کتاب الامارۃ۔باب ثبوت الجنۃ للشہیدحدیث نمبر٤٩١٧ )
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے ہمارے ساتھ چند آدمی کردیجئے جو ہم کو قرآن اور حدیث سکھلا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ستر انصاری آدمیوں کو کر دیا جن کو قرّاء کہتے تھے،حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ان میں میرے ماموں حرامؓ(حرام ؓبن ملحان) بھی تھے۔ وہ لوگ قرآن مجید پڑھا کرتے تھے اور رات کو قرآن مجید کی تحقیق کرتے،سیکھتے اور دن کو پانی لا کر مسجد میِں رکھتے اور لکڑیاں اکٹھی کرتے پھر اس کو بیچتے اورصفہ والوں اور فقیروں کے لیے کھانا خریدتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔(لیکن ان لوگوں نے دغابازی سے کام لیتے ہوئے ان اصحاب رسول کو قتل کرنے کی سازش رچی)اپنے ٹھکانے پر پہنچنے سے پہلے انہوں نے راستہ میں ان کا مقابلہ کیا اور ان کو قتل کیا۔ انہوں نے (جام شہادت نوش کرتے وقت) کہا: یا اللہ! ہمارے نبی کو پہنچا دے کہ ہم تجھ سے مل گئے اور راضی ہیں تجھ سے اور تو ہم سے راضی ہے۔ ایک شخص (کافروں میں سے) حضرت حرامؓ کے پاس آیا اور ان کو ایسابرچھا مارا کہ پار ہو گیا۔ حضرت حرامؓ نے کہا: قسم ہے کعبہ کے مالک کی میں مراد کو پہنچ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ”تمہارے بھائی مارے گئے اور انہوں نے یہ کہا کہ یا اللہ! ہمارے نبی کو خبر کر دے کہ ہم تجھ سے مل گئے اور تجھ سے راضی ہیں اور تو ہم سے راضی ہے۔“
اصحاب رسول ﷺ نے ایثا ر وقربانی، اتفاق و اتحاداور باہمی یکجہتی کابے مثال نمونہ پیش کیا ہے چاہے وہ میدان جنگ میں ہوں یا پرامن ماحول میں، کبھی انہوں نے تفرد کاراستہ اختیا ر نہیں کیا بلکہ ہمیشہ جماعت کے ساتھ رہنا ہی پسند کیااور یہی ان کی کامیابی کاراز ہے۔اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو کامیابی وفتحیابی کا راز یہ بتایا ہے کہ ایک دوسرے سے جڑکررہو آپس میں اختلاف پیدانہ کرو ورنہ تمہاری ہوااکھڑ جائے گی۔ ارشاد ہے:
وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَ اصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(انفال۔٤٦ )
ترجمہ: اور اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرتے رہو، آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر و سہارا رکھو، یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اس کی عملی مثال پیش کی اور ہر مقام پر ایک دوسرے سے جڑے رہے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے کبھی جماعت سے الگ ہٹ کر اپنی راہ نہیں بنائی جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ آج پوری دنیامیں اسلام کا پیغام پہنچ گیا ہے اور ہر جگہ اسلام کے ماننے والے موجود ہیں دنیا کی بڑی بڑی قوتیں چاہے وہ روم وفارس ہوں یا ترک اقوام،بربر،حبشی،سوڈانی یا قبطی سب کو انہوں نے اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا اور طالبان حق تک پیغام امن پہنچاکر انہیں دنیا وآخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہونے کا پُر امن ماحول فراہم کرنے میں نمایا ں کردار اداکیا۔ جس کی وجہ سے دنیا امن وعا فیت کا گہوارہ بن گئی۔
مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوبھائی بھائی کہاہے۔جس طرح بھائیوں کے ایک ساتھ رہنے سے وہ سب مضبوط ہوتے ہیں اورکوئی دشمن ان کی طرف نظر اٹھاکر نہیں دیکھتا اسی طرح مسلمان جب باہم متحد، منضبط او رمتفق رہیں گے تو دشمن ان سے مرعوب ہوں گے اور انہیں نقصان پہونچانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌفَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔ (حجرات۔١٠ )
ترجمہ: مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کی رسالت اور آپؐ کے اصحاب کرام کاتعارف اس انداز سے فرمایا ہے:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ تَرَاھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْھِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُودِ ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرَاۃِوَمَثَلُہُمْ فِی الْاِِنْجِیلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْءَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَوَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا (فتح۔٢٩ )
ترجمہ: محمد (ﷺ) اللہ کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں اور آپس میں رحم دل (اے دیکھنے والے) تو ان کودیکھتا ہے کہ (اللہ کے آگے) جھکے ہوئے سربسجود ہیں اور اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں (کثرت) سجدے کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ان کے یہی اوصاف تورات میں ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں (وہ) گویاایک کھیتی ہیں جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہو گئی اور کھیتی والوں کو خوش کرنے لگی تاکہ کافروں کا جی جلائے جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے اللہ نے گناہوں کی بخشش اور اجرِ عظیم کا وعدہ کیا ہے۔
غور کیجئے اس آیت کریمہ میں مومنین کی خاص صفات کوبیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمدلی کا معاملہ کرتے ہیں۔یعنی اپنے بھائی سے کبھی کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اس کواپنابھائی سمجھتے ہوئے معاف کردے اوراس کے ساتھ رحم و کرم کامعاملہ کرے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عمل پر اسے اجر عظیم سے نو ازیں اور اس پر اپنی رحمتیں نازل فرمائیں گے۔
مسلمانوں کاقبلہ یکجہتی کی علامت
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی یکجہتی اور ان کی یگانگت کو ثابت وقائم رکھنے کے لئے ان کاقبلہ ایک ہی مقام کوبنایااور ان میں سے ہر ایک کے لئے یہ لازم قرار دے دیا کہ وہ اس قبلہ کو اپنائیں اور مسلمان چاہے جس قبیلہ، خاندان یا ملک سے تعلق رکھنے والے ہوں جب وہ اللہ کے سامنے کھڑے ہوں تو ان کا قبلہ ایک ہونا چاہئے جس کا لازمی اثر یہ ہوناچاہئے کہ جس طرح ہمارا قبلہ وکعبہ ایک ہے اسی طرح ہمارے قلوب بھی ایک ہونے چاہئیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِیْبَیْہِ وَ اِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَۃً اِلَّا عَلَی الَّذِیْنَ ھَدَی اللَّہُ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ اِنَّ اللَّہَ بِالنَّاسِ لَرَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ۔(بقرہ۔١٤٣ )
ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے تم کو امت ِ معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اوررسول تم پر گواہ بنیں اور جس قبلہ پر تم تھے اُس کو ہم نے اس لئے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں کہ کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے اور کون اُلٹے پاؤں پھر جاتا ہے اور یہ بات گراں معلوم ہوئی مگر جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت بخشی ہے اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ تمہارے ایمان کو یونہی کھو دے اللہ تعالیٰ تو لوگوں پر بڑا مہربان اور رحمت والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا صرف قبلہ ایک نہیں بنایا بلکہ اس کو ایک علامت بنادیا جس سے یہ پتہ چل جائے کہ کون رسول کی اتباع کرتا ہے اور کون اپنی من مانی کرتے ہوئے جاہلیت کی طرف مڑ جاتا ہے۔ اسی لئے جماعت سے الگ رہ کر کوئی نئی راہ اپنا نے کو جاہلیت کے مشابہ قرار دیا گیاہے۔
پچھلی امتوں کو اتحاد کا حکم
ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف اسی امت کومتحد رہنے کاحکم دیا ہے بلکہ اس سے پہلے جتنی امتیں آئیں ہیں ان سب کو متحد ومتفق رہنے کاحکم دیا لیکن انہوں نے اس حکم کو بھلادیااور آپس میں اختلاف کرنے لگے جس کی وجہ سے دنیا سے ان کا نام ونشان مٹ گیااوروہ معدوم ہوگئیں۔ اس امت کے لئے بھی وہی تعلیم ہے اگر یہ بھی آپس میں اختلاف پید اکریں گے تو ان میں طرح طرح کے فتنے پیدا ہوں گے ا ور وہ زبوں حالی کے شکار ہوجائیں گے۔ارشاد ربانی ہے:
شَرَعَ لَکُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا وَصَّی بِہٖ نُوحً وَالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰی اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْھُمْ اِِلَیْہِ اَللّٰہُ یَجْتَبِیْٓ اِِلَیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَیَہْدِیْٓ اِِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ (١٣ ) وَمَا تَفَرَّقُوْا اِِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَہُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَہُمْ وَلَوْلاَ کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ اِِلَی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ وَاِِنَّ الَّذِیْنَ اُوْرِثُوا الْکِتٰبَ مِنْ بَعْدِھِمْ لَفِیْ شَکٍّ مِنْہُ مُرِیبٍ (١٤ ۔شوریٰ)
ترجمہ: اس نے تمہارے لئے دین کا وہی رستہ مقرر کیا جس (کے اختیار کرنے کا) نوح(علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جس کی (اے محمد ﷺ!) ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیھم السلام)کو حکم دیا تھا (وہ یہ) کہ دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا جس چیز کی طرف تم مشرکوں کو بلاتے ہو وہ ان کو دشوار گزرتی ہے اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کر لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف سے رستہ دکھا دیتا ہے اور یہ لوگ جو الگ الگ ہوئے ہیں تو علم (حق) آچکنے کے بعد آپس کی ضد سے (ہوئے ہیں) اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک وقت مقرر تک کے لئے بات نہ ٹھہر چکی ہوتی تو ان میں فیصلہ کر دیا جاتا اور جولوگ ان کے بعد (اللہ کی) کتاب کے وارث ہوئے وہ اس (کی طرف) سے شبہے کی الجھن میں (پھنسے ہوئے) ہیں۔
جماعت کو لازم پکڑو
نبی کریم ﷺ نے بھی اپنے ارشادات میں بار بار امت مسلمہ کویکجا اورمتحد رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔تفرد اور انتشار سے منع فرمایا او راس کے نقصانات بتلائے ہیں۔
عن حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ يَقُولُ: ” كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ، وَشَرٍّ فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟، قَالَ: نَعَمْ، فَقُلْتُ: هَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟، قَالَ: نَعَمْ وَفِيهِ دَخَنٌ، قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟، قَالَ: قَوْمٌ يَسْتَنُّونَ بِغَيْرِ سُنَّتِي، وَيَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ، فَقُلْتُ: هَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟، قَالَ: نَعَمْ دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا، قَالَ: نَعَمْ، قَوْمٌ مِنْ جِلْدَتِنَا وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا تَرَى إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟، قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ، فَقُلْتُ: فَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ؟، قَالَ: فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ عَلَى أَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ “.(صحیح مسلم ۔کتاب الامارۃ:۔ باب الامر بلزوم الجماعۃ عند ظہور الفتن وتحذیر الدعاۃ الی الکفر۔حدیث نمبر٤٧٨٤ )
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں اس خوف سے کہیں میں اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شر کے متعلق پوچھا کرتا تھا، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم جاہلیت اور شر میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر(اسلام )عطا کی، تو کیا اس خیر کے بعد پھر سے شر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، لیکن اس(خیر) میں کچھ دھندلاہٹ ہو گی۔“ میں نے عرض کی: اس کی دھندلاہٹ کیا ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت کے بجائے دوسرا طرزِ عمل اختیار کریں گے اور میرے نمونہ عمل کے بجائے دوسرے طریقوں پر چلیں گے، تم ان میں اچھائی بھی دیکھو گے اور برائی بھی دیکھو گے۔“ میں نے عرض کی: کیا اس خیر کے بعد، پھر کوئی شر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہو کر بلانے والے، جو ان کی بات مان لے گا وہ اس کو جہنم میں پھینک دیں گے۔“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے سامنے ان کی(بری) صفات بیان کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، وہ لوگ بظاہر ہماری طرح کے ہوں گے اور ہماری ہی طرح گفتگو کریں گے۔“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر وہ زمانہ میری زندگی میں آ جائے تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مسلمانوں کی جماعت اور مسلمانوں کے امام کے ساتھ وابستہ رہنا۔“ میں نے عرض کی: اگر اس وقت مسلمانوں کی جماعت ہو نہ امام؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان تمام فرقوں(بٹے ہوئے گروہوں) سے الگ رہنا، چاہے تمہیں درخت کی جڑیں چبانی پڑیں یہاں تک کہ تمہیں موت آئے تو تم اسی حال میں ہو۔“
مندرجہ بالاحدیث میں نبی کریمﷺ نے فتنوں کے دور میں امت مسلمہ کے لئے بھلائی کا راستہ متعین کردیاہے کہ حق کے متلاشی مسلمانوں کے جماعت کولازم پکڑلیں اور امام وقت کاساتھ نہ چھوڑیں۔یہ بات واضح ہے امامت اسی کی معتبر ہوگی جوحبل اللہ کومضبوطی سے پکڑے ہو اورکتاب اللہ وسنت رسول اللہ اور صحابۂ کرام کے اسوہ سے ہٹ کر کوئی راہ ایجاد نہ کرے۔
عَنِ اِبنِ عُمَر، قَالَ: خَطَبَنَاعُمَرُ بِالْجَابِيَةِ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي قُمْتُ فِيكُمْ كَمَقَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا، فَقَالَ: ” أُوصِيكُمْ بِأَصْحَابِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ، حَتَّى يَحْلِفَ الرَّجُلُ وَلَا يُسْتَحْلَفُ وَيَشْهَدَ الشَّاهِدُ وَلَا يُسْتَشْهَدُ، أَلَا لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ، عَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ وَإِيَّاكُمْ وَالْفُرْقَةَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَهُوَ مِنَ الِاثْنَيْنِ أَبْعَدُ، مَنْ أَرَادَ بُحْبُوحَةَ الْجَنَّةِ فَلْيَلْزَمْ الْجَمَاعَةَ، مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَذَلِكَ الْمُؤْمِنُ “(سنن الترمذی:کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ ۔ باب ماجاء فی لزوم الجماعۃ۔حدیث نمبر٢١٦٥ )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مقام جابیہ میں (میرے والد) عمر رضی اللہ عنہ ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، انہوں نے کہا: لوگو! میں تمہارے درمیان اسی طرح (خطبہ دینے کے لیے) کھڑا ہوا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اپنے صحابہ کی پیروی کی وصیت کرتا ہوں، پھر ان کے بعد آنے والوں کی پھر ان کے بعد آنے والوں کی، پھر جھوٹ عام ہو جائے گا، یہاں تک کہ قسم کھلائے بغیر آدمی قسم کھائے گا اور گواہ گواہی طلب کیے جانے سے پہلے ہی گواہی دے گا، خبردار! جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے، تم لوگ جماعت کو لازم پکڑو اور پارٹی بندی سے بچو، کیونکہ شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ رہتا ہے، دو کے ساتھ اس کا رہنا نسبتاً زیادہ دور کی بات ہے، جو شخص جنت کے درمیانی حصہ میں جانا چاہتا ہو وہ جماعت سے لازمی طور پر جڑا رہے اور جسے اپنی نیکی سے خوشی ملے اور گناہ سے غم لاحق ہو حقیقت میں وہی مومن ہے۔
اس حدیث میں بھی رسول کریم ﷺ نے جماعت کو لازم پکڑنے کی ہدایت فرمائی ہے اور اس کی تشریح بھی آپ ؐ نے فرمادی کہ اصحاب رسول،تابعین اور تبع تابعین کی جماعت مصدقہ بالھدایت ہے اس لئے ان کی نہج ہی اسلامی نہج ہے اور اسی راہ پر مسلمانوں کوکامیابی ملے گی اس لئے جماعت حقہ کی پہچان کاطریقہ یہ ہے کہ جو ان طبقات کی پیروی کرے اوراسی نہج اور طریقہ کواپنا طریقہ بنائے جوان طبقات ثلاثہ نے اختیار کئے وہ جماعت حق پرقائم ہے۔اس لئے کہ زمانہ نبوت سے قربت اور نبی کریم ﷺ کی مصاحبت اور بعد میں آنے والے تابعین وتبع تابعین کی اصحاب رسول کی مصاحبت نے انہیں دین کے اصل مزاج سے متعارف کر دیا تھا اور انہوں نے قرآن و حدیث کے جومطالب بیان کئے وہی مراد ربانی اورمراد رسول ہیں۔ اس لئے یہ تینوں طبقے امت مسلمہ کے لئے صف اول کادرجہ رکھتے ہیں اور لائق اتباع ہیں۔
عَن ابنِ عباس قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ ” (سنن الترمذی:کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ ۔ باب ماجاء فی لزوم الجماعۃ۔حدیث نمبر٢١٦٦ )
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا ہاتھ (اس کی مدد و نصرت) جماعت کے ساتھ ہوتا ہے”۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے امت مسلمہ کو وہ راہ دکھادی ہے جس پر چل کر وہ اللہ کی رحمت اوراس کی نصرت کو اپنی طرف مائل کرسکتے ہیں اور دنیا وآخرت کی کامرانی کو اپنے دامن میں سمیٹ سکتے ہیں اور وہ جماعت کے ساتھ رہناہے جس کے ساتھ اللہ کی رحمت، نصرت اور مدد ہمیشہ رہتی ہے اس لئے مسلمانوں کو ہمیشہ لازمی طور پر جماعت سے جڑے رہنا چاہئے۔
عَن ابنِ عمر أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي، أَوْ قَالَ: أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ، وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَى النَّارِ (سنن الترمذی:کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ ۔ باب ماجاء فی لزوم الجماعۃ۔حدیث نمبر ٢١٦٧ )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ میری امت کو یا یہ فرمایا: ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا، اللہ کا ہاتھ (اس کی مدد و نصرت) جماعت کے ساتھ ہے، جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں گرا۔”
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے سواد اعظم کی تائید فرمائی ہے کہ میری امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہیں ہوسکتی لہذاکبھی بھی تم جماعت کاساتھ چھوڑ کر تفرد کاراستہ اختیار نہ کرو۔
عن عرفجہ رضی اللہ عنہ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ” إِنَّهُ سَتَكُونُ هَنَاتٌ وَهَنَاتٌ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُفَرِّقَ أَمْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ وَهِيَ جَمِيعٌ، فَاضْرِبُوهُ بِالسَّيْفِ كَائِنًا مَنْ كَانَ “، (صحیح مسلم۔کتاب الامارۃ، باب حکم من فرق امرالمسلمین وھو مجتمع۔حدیث نمبر٤٧٩٦ )
حضرت عرفجہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: “جلد ہی فتنوں پر فتنے برپا ہوں گے، تو جو شخص اس امت کے معاملے (نظام سلطنت) کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہے جبکہ وہ متحد ہو تو اسے تلوار کا نشانہ بنا دو، وہ جو کوئی بھی ہو، سو ہو۔
مسلمانوں کو جس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک ساتھ رہنے اور تفرد اختیار کرنے سے منع فرما یا اسی طرح اس کے نقصانات سے بھی آگاہ فرمایا ہے اس سے پہلے قرآن کریم کی وہ آیت گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایک ساتھ رہو ورنہ تم بزدل ہوجاؤ گے اورتمہاری ہو ااکھڑ جائے گی اورتم مغلوب ہوجاؤ گے۔مندرجہ بالا حدیث میں اس کے سد باب کاراستہ بتایاگیاہے کہ جو شخص تمہارے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرے اسے مارڈالو۔ اس لئے کہ جس قوم میں یہ روگ لگ جاتاہے وہ قوم تباہ وبرباد ہوجاتی ہے اوردنیا کے نقشے سے اس کانام ونشان مٹ جاتاہے اگر چہ ان کی تعدادکثیر ہو۔ آج کے دور میں مسلمانوں کی زبوں حالی اور تباہ حالی کی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں کاکوئی مرکزی مقام نہیں رہااورایک دوسرے کی حمایت و نصرت اور تائیدکاجذبہ ختم ہوگیا۔ہر شخص اپنی ایک الگ راہ نکال کر اسی کوحق اور ھدایت کی راہ سمجھ بیٹھا ہے او رجو اس کے ساتھ نہیں آتا ا سے راہ حق سے بھٹکا ہوا خیال کرتاہے اوراس کی تکفیر کرتارہتاہے نتیجہ یہ ہے کہ آج امت مسلمہ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی ہے او ردشمنان اسلام انہیں الگ الگ کرکے مٹاتے چلے جارہے ہیں اورامت مسلمہ زبوں حالی وتباہ حالی کا شکارہے۔ فاللہ المستعان و الیہ انیب۔