مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

امت محمدیہ کی دعوتی ذمہ داری 

 

امت محمدیہ کی دعوتی ذمہ داری

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

 

دعوت خیر ہر فرد امت کی ذمہ داری  

 اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسانوں کو بسانے کے بعد ان کی رشد وہدایت کے لئے ایک سلسلہ جاری فرمایا جسے ہم سلسلۂ نبوت ورسالت کے نام سے جانتے ہیں۔ سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہیں جو دنیا میں پہلے انسان بھی ہیں اور آپ ہی سے اس دنیا میں انسانی آبادی کی ابتدا ہوئی آپ اپنی اولاد کو وحی الہی کے مطابق پالتے رہے اور انہیں اپنے خالق ومالک کی پہچان کراتے رہے۔ ان کے بعد جب جب دنیا میں گمراہی عام ہوئی اور انسانیت کو راہنما کی ضرورت پڑی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کو دنیا کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا۔ جن کی تعداد تقریباً سوالاکھ تک پہنچتی ہے۔ یہ سارے انبیاء ورسل اپنی قوم کو اللہ کا پیغام دیتے رہے اور انہیں اللہ کے قربت اور اس کی رضا مندی حاصل کرنے کے طریقے بتاتے رہے۔ سب سے آخر میں خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ  مبعوث  کئے گئے جن کے بعد نبوت ورسالت کے سلسلہ کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا گیا اور نسل بنی آدم کی رہنمائی اور رہبری کے لئے اس امت کے ہر فرد کو ذمہ دار ٹھہر ایاگیا۔اب اس امت کے ایک ایک فرد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اللہ کے پیغام کو ان لوگوں تک پہونچائے جوابھی تک غافل ہیں اور اپنے خالق حقیقی سے دور رہ کر زندگی گزار رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے:

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰٓئکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(١٠٤ ۔آل عمران)

ترجمہ:        تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ فلاح ونجات پانے والے ہیں۔

امت محمد یہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو خیر کی دعوت دے اور برائی سے بچنے کی تلقین کرے لیکن یہ ظاہر ہے کہ سارے لوگ اگر ایک ہی کام پرلگ جائیں گے تو دوسرے ضروری کام نہیں ہوپائیں گے اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ضروری ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کاحکم کرے اوربرائی سے روکے۔اس لئے یہ فرض کفایہ ہے اگر امت میں سے کچھ لوگ بھی اس فریضہ کو انجام دے دیں گے تو فریضہ سب کی طرف سے ادا ہوجائے گا اور اگر کسی نے بھی نہیں کیا تو سارے لوگ گنہ گار ہوں گے۔ تفسیر مظہری میں ہے:

”یہاں من تبعیضیہ ہے کیونکہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکرفرض کفایہ ہے اور اس لئے بھی کہ ہر ایک کے لئے مناسب نہیں کہ اس کے لئے علم، احتساب پر قدرت اورتمام لوگوں سے مطالبہ کی شرط لازمی قرار دی جائے یہاں خطاب تمام کوکیا اور بعض سے فعل کا مطالبہ کیا تاکہ اس بات پردلالت ہوکہ واجب تو سب پر ہے یہاں تک کہ اگر سب نے اس عمل کوچھوڑ دیا توسب کے سب گناہ گار ہوں گے۔ لیکن بعض کے عمل کرنے سے سب کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا۔ یہی تو فرض کفایہ کی شان ہوتی ہے۔ یہ بھی جائزہے کہ یہ من بیانیہ ہواورنہی عن المنکر ہر کسی پرواجب ہو اور اس کاکم سے کم مرتبہ یہ ہے کہ وہ اپنے دل سے اسے ناپسند کرے۔“              (تفسیر مظہری جلد دوم ص،١٣١ )

خیر امت کےخطاب کی وجہ:دعوتی فکر 

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی خاص صفت ہے ۔اسی خاص صفت کی وجہ سے اس امت کو خیر امت کا خطاب دیا گیا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو وجہ امتیاز بتایا گیا ہے ارشاد ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر(آل عمران آیت ١١٠ 7)

ترجمہ:        تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی رہنمائی)کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو۔

اللہ تعالیٰ نے مومنین مخلصین کا تعارف کراتے ہوئے ان کی خاص صفات میں سے اس صفت کوبھی بیان فرمایا ہے۔

اَلتَّآءِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآءِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ (توبہ۔ آیت ١١٢ )

ترجمہ:        وہ ایسے ہیں جو توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے،(یا راہ حق میں سفر کرنے والے) رکوع اور سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کی تعلیم کرنے والے اور بری باتوں سے باز رکھنے والے اور اللہ کی حدوں کا خیال رکھنے والے ہیں اور ایسے مومنین کو آپ خوشخبری سنا دیجئے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کاملین کی کچھ خاص صفات بیان کی ہیں،جو خوشخبری اور بشارت کے مستحق ہیں۔ ان میں ایک صفت یہ ہے کہ وہ لوگ نیکیوں کا حکم اور برائیوں سے روکنے والے ہیں۔ اس لئے مومنین کو چاہئے کہ جہاں تک ان کاعلم ہے وہاں تک لوگوں کو تعلیم دیں اور لوگوں کو نیکی کی دعوت دیں نیز اگر کہیں پر برائی ہوتا ہو ا دیکھیں تو اسے روکنے کی حتی الامکان کوشش کریں۔

پچھلی امتوں کی تباہی کا سبب: ترک دعوت

اس سے پہلے بہت سی اقوام کو اللہ تعالیٰ نے اسی وجہ سے ہلاک کردیا کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کرتی تھیں۔بلکہ کچھ لوگ بنی اسرائیل میں ایسے بھی تھے جن کی عادت یہ تھی کہ وہ لوگوں کو بھلائی کا حکم تو ضرور دیتے تھے لیکن پھر ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھے کھاتے پیتے تھے جس کا نتیجہ ہو ا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو آپس میں جوڑدیا جس سے بھلائی اور برائی کا امتیاز ختم ہوگیااسی لئے نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کویہ تعلیم دی ہے جو کچھ تم دوسروں کو کرنے کا حکم دیتے ہو اسے خود بھی کیاکرو۔

عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” إِنَّ أَوَّلَ مَا دَخَلَ النَّقْصُ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَ الرَّجُلُ يَلْقَى الرَّجُلَ، فَيَقُولُ: يَا هَذَا اتَّقِ اللَّهَ وَدَعْ مَا تَصْنَعُ فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ لَكَ، ثُمَّ يَلْقَاهُ مِنَ الْغَدِ فَلَا يَمْنَعُهُ ذَلِكَ أَنْ يَكُونَ أَكِيلَهُ وَشَرِيبَهُ وَقَعِيدَهُ فَلَمَّا فَعَلُوا ذَلِكَ ضَرَبَ اللَّهُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ، ثُمَّ قَالَ: لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ إِلَى قَوْلِهِ فَاسِقُونَ سورة المائدة آية ٧٨   ـ ٨١  ثُمَّ قَالَ: كَلَّا وَاللَّهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ وَلَتَأْخُذُنَّ عَلَى يَدَيِ الظَّالِمِ وَلَتَأْطُرُنَّهُ عَلَى الْحَقِّ أَطْرًا وَلَتَقْصُرُنَّهُ عَلَى الْحَقِّ قَصْرًا”. (سنن ابوداؤد۔کتاب الملاحم،باب الامر والنھی۔حدیث نمبر٤٣٣٦ )

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلی خرابی جو بنی اسرائیل میں پیدا ہوئی یہ تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا تو کہتا کہ اللہ سے ڈرو اور جو تم کر رہے ہو اس سے باز آ جاؤ کیونکہ یہ تمہارے لیے درست نہیں ہے، پھر دوسرے دن اس سے ملتا تو اس کے ساتھ کھانے پینے اور اس کی ہم نشینی اختیار کرنے سے یہ چیزیں اس کے لیے مانع نہ ہوتیں، تو جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ نے بھی بعضوں کے دل کو بعضوں کے دل کے ساتھ ملا دیا“ پھر آپ نے آیت کریمہ:لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَم  سے لے کر۔ اللہ تعالیٰ کے قول فاسقون تک کی تلاوت کی، پھر فرمایا: ”ہرگز ایسا نہیں، قسم اللہ کی! تم ضرور اچھی باتوں کا حکم دو گے، بری باتوں سے روکو گے، ظالم کے ہاتھ پکڑو گے اور اسے حق کی طرف موڑے رکھو گے اور حق و انصاف ہی پر اسے قائم رکھو گے“ یعنی زبردستی اسے اس پر مجبور کرتے رہو گے۔

حدیث میں جن آیات کی تلاوت نبی کریم ﷺ نے فرمائی وہ یہ ہیں۔

لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ (٧٨ )کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ لَبِءْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنْ(٧٩ )تَرٰی کَثِیْرًا مِّنْھُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَبِءْسَ مَا قَدَّمَتْ لَھُمْ اَنْفُسُھُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ وَ فِی الْعَذَابِ ھُمْ خٰلِدُوْنَ (٨٠ )وَ لَوْ کَانُوْا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ النَّبِیِّ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَا اتَّخَذُوْھُمْ اَوْلِیَآءَ وَ لٰکِنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ(٨١ ۔مائدہ)

ترجمہ:        بنی اسرائیل کے کافروں پر (حضرت) داؤد(علیہ السلام) اور (حضرت) عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے۔ آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے، جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً وہ بہت برا تھا۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ وہ کافروں سے دوستیاں کرتے ہیں، جو کچھ انہوں نے اپنے لئے آگے بھیج رکھا ہے وہ بہت برا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔ اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اور نبی پر اور جو نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان ہوتا تو یہ کفار سے دوستیاں نہ کرتے، لیکن ان میں کے اکثر لوگ فاسق ہیں۔

ان آیات میں بنی اسرائیل کے کافروں پر لعنت بھیجی گئی ہے اور یہ لعنت کو ئی نئی نہیں بلکہ حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی زبانی ان پرلعنت بھیجی گئی اور انہیں ملعون قرار دیاگیا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ اللہ کے نافرمان تھے اور ظلم وستم ان کا شیوہ تھا نیز ان کی ایک بڑی غلطی یہ تھی کہ وہ برائیاں ہوتادیکھتے اور چپ چاپ بیٹھے رہتے اور اصلاح کی فکر نہیں کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ خود بھی گرفتار لعنت ہوگئے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کویہ تعلیم دی ہے کہ تم بنی اسرائیل کی اتباع نہ کرنا بلکہ آپ نے قسم دے کرفرمایا کہ تم ضرور لوگو ں کو نیکیوں کا حکم دوگے اور برائیوں سے روکوگے اور جو لوگ اس کام کو نہ کریں تو خوف ہے کہ ان کی دعائیں قبول نہ کی جائیں جو اللہ کی رحمت سے دوری کی علامت ہے۔

دعوت خیر صالحین کی ذمہ داری

عن عائشۃ رضی اللہ عنہا  قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:” مُرُوا بِالْمَعْرُوفِ , وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ , قَبْلَ أَنْ تَدْعُوا فَلَا يُسْتَجَابَ لَكُمْ”.(ابن ماجہ۔کتاب الفتن، باب الامر بالمعروف والنھی عن المنکر۔حدیث نمبر۔٤٠٠٤ )

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”تم بھلی بات کا حکم دو اور بری بات سے منع کرو، اس سے پہلے کہ تم دعا کرو اور تمہاری دعا قبول نہ کی جائے۔”

اگر کوئی شخص ذاتی طور پر ایمان پر قائم ہے اور نیک اعمال بھی کثرت سے کرتاہے لیکن اس کے آس پاس برائیاں پھیل رہی ہیں اور وہ ان سے نظریں ہٹا کر اپنی راہ چلا جارہا ہے اور لوگوں کو برائیوں سے روکنے کی کوئی ترکیب نہیں کرتا تو ہوسکتاہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان بد اعمالوں کو گرفت میں لے تو اسے بھی نہ بخشا جائے اور وہ بھی عذاب کی گرفت میں آجائے۔ اس لئے کبھی بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔

 عن قیس بن ابی حازم  قَالَ: قَامَ ابوبکرفَحَمِدَ اللَّهَ , وَأَثْنَى عَلَيْهِ , ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ , إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الْآيَةَ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ سورة المائدة آية ١٠٥  وَإِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:” إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْمُنْكَرَ لَا يُغَيِّرُونَهُ , أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابِهِ” , قَالَ أَبُو أُسَامَةَ مَرَّةً أُخْرَى: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ. (سنن ابن ماجہ۔کتاب الفتن، باب الامر بالمعروف والنھی عن المنکر۔حدیث نمبر٤٠٠٥ )

قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، اس کے بعد فرمایا: لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ”اے ایمان والو! اپنے آپ کی فکر کرو اور تمہیں دوسرے شخص کی گمراہی ضرر نہ دے گی، جب تم ہدایت پر ہو“ (سورۃ المائدۃ: ١٠٥ ) اور بیشک ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جب لوگ کوئی بری بات دیکھیں اور اس کو دفع نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عام عذاب نازل کر د ے“۔ ابواسامہ نے دوسری بار کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سخت سے سخت حالات میں بھی ذمہ سے ساقط نہیں ہوتا بلکہ اگر وقت کا کو ئی آمر بھی کوئی کام دین وشریعت سے باہر کا کررہا ہے تو ایک مومن کو چاہئے کہ وہ ڈر اور خوف سے پرے ہوکر اس عظیم فریضہ کو انجام دینے کی کوشش کرے۔چاہے وہ کسی بھی مرتبہ میں ہو۔

عن ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ  أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ خَطِيبًا , فَكَانَ فِيمَا قَالَ:” أَلَا لَا يَمْنَعَنَّ رَجُلًا هَيْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ إِذَا عَلِمَهُ” , قَالَ: فَبَكَى أَبُو سَعِيدٍ , وَقَالَ: قَدْ وَاللَّهِ رَأَيْنَا أَشْيَاءَ فَهِبْنَا. (سنن ابن ماجہ۔کتاب الفتن، باب الامر بالمعروف والنھی عن المنکر۔حدیث نمبر٤٠٠٧ )

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مروان نے عید کے دن منبر نکلوایا اور نماز عید سے پہلے خطبہ شروع کر دیا، تو ایک شخص نے کہا: مروان! آپ نے سنت کے خلاف کیا، ایک تو آپ نے اس دن منبر نکالا حالانکہ اس دن منبر نہیں نکالا جاتا، پھر آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کیا، حالانکہ نماز سے پہلے خطبہ نہیں ہوتا، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: اس شخص نے تو اپنا وہ حق جو اس پر تھا ادا کر دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”تم میں سے جو شخص کوئی بات خلاف شرع دیکھے، تو اگر اسے ہاتھ سے بدلنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے ہاتھ سے بدل دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے بدل دے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اس کو دل سے بدل دے، اور یہ ایمان کا سب سے معمولی درجہ ہے“

منکرات کے تغییر کے تین درجات 

مندرجہ بالا حدیث میں نبی کریم ﷺ نے نہی عن المنکر کے تین درجات بیا ن فرمائے ہیں۔

پہلا۔اگر کوئی شخص اتنی طاقت رکھتا ہوکہ وہ برائی کرنے والے کو برائی سے روک کر بھلائی کی طرف موڑ دے تو اسے چاہئے کہ اس برائی کوبھلائی کی طرف موڑ دے۔ظاہر ہے یہ درجہ سب کو حاصل نہیں ہوسکتا۔یہ بطور خاص امراء وحکام کے لئے ہے کہ ان کے پاس طاقت بھی ہوتی ہے اور وہ کسی برائی کو ختم کردینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔جیسے رشوت، خیانت، جعلسازی وغیرہ منکرات میں سے ہیں اگر کوئی حاکم اپنے ماتحت کو اس میں ملوث دیکھے تو اسے چاہئے کہ اس شخص کو ان منکرات سے روکے اور اسے ایمانداری سے کام کرنے کی تلقین کرے اور اگر وہ نہیں کرتاہے تو اسے سزادے۔ اساتذہ طلبہ کے حق میں، مشائخ مریدین کے حق میں،والدین اپنے بچوں کے حق میں بھی اس زمرہ میں شامل ہوسکتے ہیں۔نماز کاترک کرنا کبائر او رمنکرات میں سے ہے اگر اولاد اس کبیرہ گناہ کاارتکاب کررہی ہے تو والدین کوچاہئے کے وہ انہیں زبردستی نماز پڑھنے پرمجبور کریں اور اگر نہ مانیں تو انہیں اپنے اختیار کے بقدر سزا بھی دے سکتے ہیں۔واضح رہے کے سز ا دیتے وقت ایسا نہ ہو کہ خود ظلم کا ارتکاب کر بیٹھیں۔

دوسر ادرجہ ایسے لوگوں کا ہے جو طاقت نہیں رکھتے لیکن علم دین سے واقف ہیں اور امید ہے کہ منکرات کاارتکاب کرنے والوں کو نصیحت کریں گے تو وہ ان کو کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں پہونچائیں گے بلکہ نصیحت قبول کرنے کی امید ہوتو ایسے حضرات کے لئے لازم ہے کہ وہ انہیں نصیحت کرکے اس بات پرآمادہ کریں کہ وہ اس برائی کوچھوڑ کربھلائی کے راستے پر گامزن ہوجائیں۔

تیسرا اور آخری درجہ ان لوگوں کاہے جو نہ ہاتھ سے بدلنے کی طاقت رکھتے ہوں او ر نہ ہی زبان سے۔ اب ان کے لئے یہ درجہ ہے کہ اس برائی کو دل سے بدل دینے کی کوشش کریں۔ اس کی صورت یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے ایسے لوگوں کی ہدایت اور بھلائی کی دعاء دل سے کریں اور جب تک وہ منکرات سے ہٹ کر معروفات تک نہ آجائیں اس وقت تک اللہ سے ان کے حق میں دعائیں کرتے رہیں اور اس کے دل میں غیر محسوس طریقہ سے حق کو اتارنے کی کوشش کریں۔ ھذاماظہر لی واللہ اعلم بالصواب۔

ہر شخص اپنے ماتحتوں کاذمہ دار ہے

منکرات اور برائیوں میں ملوث لوگوں کی ہدایت کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جوان کی سرپرستی کرتے ہیں یاکسی نہ کسی حدتک انہیں فوقیت حاصل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔

عن عبداللہ بن عمر  رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:” كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا، وَالْخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ”. قَالَ: فَسَمِعْتُ هَؤُلَاءِ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَحْسِبُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَالرَّجُلُ فِي مَالِ أَبِيهِ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ.  (صحیح بخاری۔کتاب العتق، باب العبد راع فی مال سیدہ۔حدیث نمبر٢٥٥٨ )

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہر آدمی حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ امام حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ مرد اپنے گھر کے معاملات کا افسر ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی افسر ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا محافظ ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا۔“ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ باتیں سنی ہیں اور مجھے خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مرد اپنے باپ کے مال کا محافظ ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ غرض تم میں سے ہر فرد حاکم ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔

اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ہر شخص کو ذمہ دار بنایا ہے اور ہر شخص کو اس کے اپنے حلقہئ اثر کا نگراں ومحافظ بتایا ہے اس لئے کوئی بھی شخص اس فریضہ سے مبرا نہیں ہوسکتا مندرجہ بالا تین درجات میں سے جودرجہ اس کے منصب کے لائق ہو اس کے مطابق وہ حتی المقدو ر کوشش کرے کہ لوگ منکرات سے بچ کرمعروفات کی طرف آجائیں  ورنہ وہ آخرت میں اس کاجوابدہ ہوگا۔ اسی بات کو نبی کریم  ﷺ نے ایک دوسرے انداز سے بیان فرمایا ہے۔

 عن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللَّهُ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي، إِلَّا كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ، وَأَصْحَابٌ يَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ، ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ، يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ، وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يُؤْمَرُونَ، فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الإِيمَانِ، حَبَّةُ خَرْدَلٍ ” (صحیح مسلم۔کتاب الایمان،باب بیان کون النھی عن المنکر من الایمان وان الایمان یزید وینقص وان الامر بالمعروف والنہی عن المنکر واجبان حدیث نمبر١٧٩ )

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا کہ جس کے اس کی امت میں سے حواری اور اصحاب نہ ہوں جو اس کے طریقے پر چلتے ہیں اور اس کے حکم کی پیروی کرتے ہیں۔ پھر ان لوگوں کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں جو زبان سے کہتے ہیں اور کرتے نہیں اور ان کاموں کو کرتے ہیں جن کا حکم ا نہیں نہیں دیاگیا۔ پھر جو کوئی ان سے لڑے ہاتھ سے وہ مؤمن ہے اور جو کوئی لڑے زبان سے وہ بھی مؤمن ہے اور جو کوئی لڑے ان سے دل سے وہ بھی مؤمن ہے اور اس کے بعد رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں۔

ایمان کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ منکرات کو روکنے کے لئے ہاتھوں کو استعمال کرے اوربرائی کوروکنے کی کوشش کرے۔ متوسط درجہ یہ ہے برائی کو روکنے کے لئے اپنی زبان کا استعمال کرے اور آخری اور ادنی درجہ یہ ہے کہ اپنے دل سے اس کو روکنے کی کوشش کرے۔نبی کریم ﷺ نے ظالم وجابر بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنے کو سب سے افضل جہاد قراردیا ہے۔ اس لئے کہ اس میں آدمی کے مغلوب ہونے اور سزاپانے کا زیادہ خوف ہوتاہے اس کے باوجود اگر کوئی شخص کلمہ حق کہنے سے دریغ نہیں کرتا تو وہ شخص ایمان کے اعلی مرتبہ پرفائز ہے اور وہ جہاد کا سب سے بڑا حق اداکرنے والاہے۔اس لئے ایک مومن کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے ماحول اور آس پاس میں جب کوئی برائی ہوتا ہو ادیکھے تو اپنی بساط کے مطابق اس کو بھلائی سے بدل دینے کی کوشش کرے اور جب تک یہ کام نہ کرلے اس کو کسی پل قرار حاصل نہ ہو اب اگر اسے طاقت وقدرت حاصل ہے تو اسے بروئے کار لاکر اس برائی کو مٹاکر بھلائی کی بنیاد رکھے اور اگر زبان سے کہنے کی صلاحیت ہے تو اس میں بھی پس وپیش نہ کرے اور حق بات اس وقت تک کہتارہے جب تک وہ وہ برائی مٹ نہ جائے اور اگر اس کی بھی صلاحیت نہیں رکھتا تو دل کی گہرائی اور پورے لگن سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دربارمیں ان کے لئے دعائیں کرتارہے تاکہ خالق کائنات اپنے تصرف سے اسے بھلائی کی راہ پر لگادے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index