نیکی او ر تقویٰ میں ایک دوسرے کا تعاون کرنا
تحریر :مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
مومن کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ نیکی اور خیر کی باتوں پر حریص ہوتاہے اورجہاں کہیں بھی اس کو نیکی نظر آتی ہے وہ اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے ان ہی نیکیوں میں سے ایک نیکی یہ بھی ہے کہ نیک عمل پرایک دوسرے کی مددکی جائے۔اللہ تعالیٰ نے مومنین کو بر وتقوی پر تعاون کرنے کا حکم دیاہے:
یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآءِرَ اللّٰہِ وَ لَا الشَّھْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْھَدْیَ وَ لَا الْقَلَآءِدَ وَ لَآ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رِضْوَانًاوَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (مائدہ۔آیت ٢ )
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے شعائر کی بے حرمتی نہ کرو نہ ادب والے مہینوں کی نہ حرم میں قربان ہونے والے اور پٹے پہنائے گئے جانوروں کی جو کعبہ کو جا رہے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو بیت اللہ کے قصد سے اپنے رب تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضاجوئی کی نیت سے جا رہے ہوں، ہاں جب تم احرام اتار ڈالو تو شکار کھیل سکتے ہو، جن لوگوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم حد سے گزر جاؤ، نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔
اس آیت کریمہ میں نیکیوں کی تعلیم کے بعد اللہ تعالیٰ نے نیکی پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کی تلقین فرمائی ہے یعنی ایسانہ ہو کہ اپنے خاندان، کنبہ اور برادری کی طرف تو تمہاری توجہ ہمیشہ رہے اور دوسرے لوگوں کی طرف سے توجہ ہٹ جائے بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ نیک عمل چاہے جوبھی کررہا ہو تمہیں اس کی مددکرنی چاہئے اورعصبیت کو اپنے دل میں بالکل جگہ نہیں دینی چاہئے دین کے کام جو لوگ کررہے ہیں ان کی امداد اور ان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے ان کے راستے کوآسان بنانا یہ ایمان کاتقاضا ہے اوریہ بڑی نیکی ہے۔ آج کل ہمارے معاشرے میں ایک بڑی خرابی پیداہوگئی ہے کہ جگہ جگہ گروہ بندی ہوگئی ہے مسلمانوں کی جماعتیں جوخالص دینی کام کے لئے بنائی گئی ہیں ان میں بھی آپس میں میل نہیں اورایک دوسرے کا تعاون شامل نہیں جس کانتیجہ ہے کہ کوئی کامیاب نہیں ہے جب دونوں جماعتوں کا مقصد دین کی اشاعت اور اس کی ترویج ہے تو ایک دوسرے سے دور بھاگنے کاکیا مطلب؟ یہ سب چیزیں اس وقت پیداہوتی ہیں جب دلوں سے اخلاص ختم ہوجاتاہے اور دینی عزم وحوصلہ اوراللہ کی رضا وخوشنودی کی جگہ جاہ پسندی اور مادیت پسندی آجاتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیاہے کہ جولوگ بھی نیکی کاکام کر رہے ہیں ان کاتعاون ہر حال میں کرتے رہو او رظلم و طغیان میں مددگار نہ بنو۔اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کوبھائی بھائی کہا ہے اور انہیں آپس میں صلح کاحکم دیا ہے۔
اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ(حجرات۔ آیت١٠ )
ترجمہ: سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
ایک مومن دوسرے مومن کامددگار ہوتاہے
وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَالصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ اُولٰٓءِکَ سَیَرْحَمُھُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔(توبہ۔ آیت۔٧١ )
ترجمہ: مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجالاتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے والا حکمت والا ہے۔
اسلامی معاشرے کی تشکیل اسی سے ہوتی ہے کہ حق کی تائید کی جائے اور ناحق کے خلاف آواز بلند کی جائے جس معاشرے میں یہ چیزیں ہوں گی وہاں امن وامان کاماحول ہوگا۔ایک مومن دوسرے مومن کامددگار ہوتاہے اور ہر ایک کودوسرے سے مدد ملتی ہے جیسا کہ ایک عمارت کی اینٹیں ایک دوسرے کے لئے سہارا ہوتی ہیں اور اگر بیچ میں سے کوئی اینٹ نکال دی جائے تو وہ خلا پوری عمارت کی کمزوری بن جاتاہے اور دھیرے دھیرے یہ کمزوری ایک سے دوسری اینٹ تک منتقل ہوتی رہتی ہے جس کانتیجہ یہ ہوتا ہے ایک دن ساری عمارت منہدم ہوکر رہ جاتی ہے۔نبی کریم ﷺ کاارشاد اس ضمن میں یہ ہے:
عن ابی موسیٰ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا، وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهٖ”(صحیح بخاری۔ کتاب المظالم والغصب، باب نصر المظلوم۔حدیث نمبر٢٤٤٦ )
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مومن دوسرے مومن کے ساتھ ایک عمارت کے حکم میں ہے کہ ایک کو دوسرے سے قوت پہنچتی ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کے اندر کیا۔
مومنین کی مثال ایک جسم کی طرح ہے
نبی کریم ﷺ نے مومنین کوایک بدن کے مثل قرار دیا ہے کہ اعضاء بدن میں کہیں بھی کوئی تکلیف ہوتو سارا بدن اس کی ٹیس محسوس کرتاہے اور کسی کَل اس کو قرار نہیں آتا جب تک کے وہ تکلیف دورنہ ہوجائے۔اسی طرح جب کسی مومن کو کوئی تکلیف پہنچے یا وہ کسی پریشانی میں مبتلا ہو تو دوسرے مومنین اس کی تکلیف اور پریشانی کو اپنی تکلیف وپریشانی سمجھ کر اس کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
عن نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ، مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى “.(صحیح مسلم۔ کتاب البر والصلۃ،باب تراحم المومنین و تعاطفھم تعاضدھم۔حدیث نمبر٦٥٨٦ )
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان والوں کی مثال ان کی دوستی اور اتحاد اور شفقت میں ایسی ہے جیسے ایک بدن کی۔ بدن میں جب کوئی عضو درد کرتا ہے تو سارا بدن اس میں شریک ہو جاتا ہے نیند نہیں آتی، بخار آ جاتا ہے.“
مظلوم کی مدد ایمان کی پہچان
ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اور ظلم کو ختم کرکے امن وامان قائم کرنا یہی اسلام کی پہچان ہے اور دنیا میں اسلام اسی کی وجہ سے جانا اور پہچانا گیا ہے یہی وہ جذبہ ہے جس نے مجاہدین اسلام کودنیا کی بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکرانے کا حوصلہ پید اکردیا اور تاریخ نے اس کو دیکھا بھی اور آج تک اس کے دامن میں محفوظ بھی ہے۔ دیگر اقوام جو اپنے حاکموں کے ظلم وستم سہتے سہتے پریشان ومجبور ہوچکی تھیں انہوں نے ان سرفروشان اسلام کو اپنے یہاں آنے کی دعوت ہی نہیں دی بلکہ ان کے لئے راہیں بھی ہموار کیں اور جب ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچادیاگیا تو ان لوگوں نے اسلام کے دامن میں اپنے آپ کو محفوظ کرلیا اور ان کا بھی یہی مشن ہوگیا کہ دنیا سے ظلم کو مٹاکرامن وامان کاپرچم بلند کیاجائے۔ لیکن اسلام کاتصور اس میں کچھ الگ ہے اوروہ ظالموں کو کیفرکردار یا قتل عام کا سیدھا حکم نہیں دیتا بلکہ ان کو راہ راست پرلاکر ان کی مدد کرنے کی تعلیم دیتاہے۔ نبی کریمﷺ کایہ ارشاد ملاحظہ فرمائیں:
عن انس رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا نَنْصُرُهُ مَظْلُومًا، فَكَيْفَ نَنْصُرُهُ ظَالِمًا؟ قَالَ: تَأْخُذُ فَوْقَ يَدَيْهِ”. صحیح بخاری۔ کتاب المظالم والغصب۔ باب اعن اخاک ظالما او مظلوما۔حدیث نمبر٢٤٤٤ )
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو۔
جو شخص ظلم کرنے میں مبتلا ہے وہ اللہ کی نافرمانی کررہاہے۔ اب وہ اپنی غفلت اورشیطان کے ورغلانے کی وجہ سے کسی کے اوپر ظلم کاہاتھ اٹھارہاہے تو ایک مومن ہونے کی حیثیت سے اس شخص کی مدد یہی ہے کہ اس کا ہاتھ پکڑلیا جائے اور اس کو ظلم کرنے سے روک دیا جائے یہی اس کی مدد ہے۔اس حدیث کے ذیل میں امام احمد ابن حنبل نے یہ فرمایا ہے کہ ظالم ایک طرح سے گویا مظلوم ہے او روہ غفلت ونادانی میں اپنے نفس پر خود ہی ظلم کررہا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْءً ا اَوْیَظْلِمْ نَفْسَہٗ اس کا مطلب یہ ہے کہ جوشخص برائی کرتاہے وہ گویا اپنے نفس پر ظلم کررہا ہے اور وہ مظلوم ہے جس کا اسے خود علم نہیں اس لئے اس کے حق میں بہتر یہی ہے کہ اس کو ظلم سے روک کراس کی مدد کی جائے۔
مومن کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے آس پاس ظلم ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا اور بدی کا ساتھ کبھی نہیں دیتا بلکہ ہمیشہ حق کا ساتھ دیتاہے چاہے اس کے سامنے ظالم وجابر بادشاہ یا حکمراں ہی کیوں نہ ہو اس لئے کہ ایسا کرنے والاشخص اللہ کامحبوب ہوتا ہے۔ بلکہ جھوٹ کا ساتھ نہ دینے والوں کے لئے نبی کریم ﷺ نے یہ بشارت دی ہے کہ میدان حشر کی ہماہمی میں وہ شخص نبی کریم ﷺ کے ہاتھوں سے حوض کوثر کاپانی پئے گا اور ظاہر ہے کہ جس خوش قسمت کو یہ موقع نصیب ہوجائے اس کی مغفرت میں کوئی شبہہ نہیں ہے۔ اس کے برخلاف جولوگ حق کے بجائے ناحق کاساتھ دیتے ہیں اور امر اء وحکام کی جھوٹی باتوں کوسچ ثابت کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں ایسے لوگ نبی کریم ﷺ سے شرف ملاقات حاصل نہیں کرسکتے ہیں اورنہ ہی انہیں حوض کوثر کاپانی نصیب ہوگا۔
عن کعب بن عجرۃ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أُعِيذُكَ بِاللَّهِ يَا كَعْبَ بْنَ عُجْرَةَ مِنْ أُمَرَاءَ يَكُونُونَ مِنْ بَعْدِي، فَمَنْ غَشِيَ أَبْوَابَهُمْ فَصَدَّقَهُمْ فِي كَذِبِهِمْ وَأَعَانَهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَلَيْسَ مِنِّي وَلَسْتُ مِنْهُ وَلَا يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ، وَمَنْ غَشِيَ أَبْوَابَهُمْ أَوْ لَمْ يَغْشَ فَلَمْ يُصَدِّقْهُمْ فِي كَذِبِهِمْ وَلَمْ يُعِنْهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ فَهُوَ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ وَسَيَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ، يَا كَعْبَ بْنَ عُجْرَةَ الصَّلَاةُ بُرْهَانٌ وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ حَصِينَةٌ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ، يَا كَعْبَ بْنَ عُجْرَةَ إِنَّهُ لَا يَرْبُو لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ إِلَّا كَانَتِ النَّارُ أَوْلَى بِهِ “۔(سنن ترمذی۔ ابواب السفر،باب ما ذکر فی فضل الصلوۃحدیث نمبر٥١٤ )
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے کعب بن عجرہ! میں تمہیں اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں ایسے امراء و حکام سے جو میرے بعد ہوں گے، جو ان کے دروازے پر گیا اور ان کے جھوٹ کی تصدیق کی، اور ان کے ظلم پر ان کا تعاون کیا، تو وہ نہ مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے ہوں اور نہ وہ حوض پر میرے پاس آئے گا۔ اور جو کوئی ان کے دروازے پر گیا یا نہیں گیا لیکن نہ جھوٹ میں ان کی تصدیق کی، اور نہ ہی ان کے ظلم پر ان کی مدد کی، تو وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ وہ عنقریب حوض کوثر پر میرے پاس آئے گا۔ اے کعب بن عجرہ! صلاۃ دلیل ہے، صوم مضبوط ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو بجھا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے، اے کعب بن عجرہ! جو گوشت بھی حرام سے پروان چڑھے گا، آگ ہی اس کے لیے زیادہ مناسب ہے“۔
نیکی میں مدد کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص ضرورت مند ہے۔ لیکن اس کا کام کسی وجہ سے نہیں ہوپارہا ہے۔یا حاکم کے پاس اس کی پہنچ نہیں ہے۔ اب ایسے لوگ جوحاکموں کے قریب رہنے والے ہیں اور حکام ان کی باتیں سنتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کے پا س سفارش کی درخواست لے کر آتاہے تو انہیں سفارش کردینی چاہئے اس پر اللہ تعالیٰ اجر سے نوازے گا۔نبی کریم ﷺ کا تعامل بھی ایسا ہی تھا اور آپ نے امت کوبھی اسی کی تعلیم دی ہے۔بلکہ ایسا شخص جو کسی نیکی کاذریعہ بن گیا یا جس کی وجہ سے کسی شخص نے کوئی نیک کام کرلیا تو عمل کرنے والے کے برابر اسے بھی ثواب ملے گے اور اس کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔
عن ابی مسعود رضی اللہ عنہ أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَحْمِلُهُ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ أُبْدِعَ بِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” ائْتِ فُلَانًا ” , فَأَتَاهُ فَحَمَلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ “(سنن ترمذی۔کتاب ا لعلم عن رسول اللہ ﷺ۔باب ماجاء الدال علی الخیر کفاعلہ۔حدیث نمبر٢٦٧١ )
حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواری مانگنے آیا، اور کہا: میں بے سواری کے ہو گیا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ”تم فلاں شخص کے پاس جاؤ“، چنانچہ وہ اس شخص کے پاس گیا اور اس نے اسے سواری دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بھلائی کا راستہ دکھایا تو اسے اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا کہ اس کے کرنے والے کو ملتا ہے”۔
عن ابی موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” اشْفَعُوا وَلْتُؤْجَرُوا وَلْيَقْضِ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ مَا شَاءَ ” (سنن ترمذی۔کتاب ا لعلم عن رسول اللہ ﷺ۔باب ماجاء الدال علی الخیر کفاعلہ۔حدیث نمبر٢٦٧٢ )
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شفاعت (سفارش) کرو تاکہ اجر پاؤ، اللہ اپنے نبی کی زبان سے نکلی ہوئی جس بات کو بھی چاہتا ہے پورا کر دیتا ہے۔
داعی کو عامل کے برابر ثواب
لوگوں کو نیکی پر ابھارنا اور انہیں نیک عمل کرنے کی دعوت دینا بذات خود ایک نیک عمل ہے لیکن اس کے علاوہ اگر کسی کی دعوت کی وجہ سے لوگ نیک عمل کرنے لگیں تو ان کے عمل کے برابر اس داعی کوبھی ثواب ملتاہے۔اس کے برخلاف اگر کوئی شخص لوگوں کوگمراہی کی دعوت دیتاہے تو جتنے لوگ اس کی وجہ سے گمراہ ہوگئے ان کی گمراہی کے بقدر اسے بھی گناہ ملے گا۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ يَتَّبِعُهُ لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا , وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ يَتَّبِعُهُ لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا ” (سنن ترمذی۔کتاب ا لعلم عن رسول اللہ ﷺ۔باب ماجاء فی من دعا الی ھدی فاتبع او الی ضلا لۃ۔حدیث نمبر۔٢٦٧٤ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا تو جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر کے برابر ہدایت کی طرف بلانے والے کو بھی ثواب ملے گا بغیر اس کے کہ اس کی اتباع کرنے والوں کے اجر و ثواب میں کچھ بھی کمی ہو، جس نے ضلالت کی طرف بلایا تو جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر گمراہی کی طرف بلانے والے کو بھی گناہ ملے گا بغیر اس کے کہ اس کی وجہ سے ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی ہو”۔
ضرورتمندوں کی مدد کرنے والا اللہ کی مدد کا مستحق ہے
اللہ تعالی کی ایک صفت ناصرہے اور نصرت کرنے والے لوگ اللہ کو پسند ہیں۔ اس لئے اس کے بندوں میں سے کوئی بندہ اللہ کے مخلوق کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے آخرت میں اس کی مدد کرنے کا وعدہ فرماتے ہیں اور جب تک وہ اللہ کی مخلوق کی مدد کرتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی مددکرتے رہتے ہیں۔
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ عَلَى مُسْلِمٍ سَتَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ” (سنن ابو داود۔کتاب الادب، باب فی المعونۃ للمسلم۔حدیث نمبر۔٤٩٤٦ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور کر دے، تو اللہ اس کی قیامت کی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور فرمائے گا اور جس نے کسی نادار و تنگ دست کے ساتھ آسانی و نرمی کا رویہ اپنایا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ دنیا و آخرت میں آسانی کا رویہ اپنائے گا اور جو شخص کسی مسلمان کا عیب چھپائے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کا عیب چھپائے گا، اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد میں رہتا ہے، جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے”۔
آفت ومصیبت میں گرفتار لوگوں کی مدد کرنا اور راہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راستہ بتانا بھی ایک بڑی نیکی ہے رسول اللہ ﷺ نے اس کی ترغیب فرمائی ہے۔
عَنْ ابن حجیر عدوی ، قَالَ:سَمِعتُ عمر بن خطاب ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: وَتُغِيثُوا الْمَلْهُوفَ، وَتَهْدُوا الضَّالَّ. (سنن ابو داود۔کتاب الادب، باب فی الجلوس فی الطرقات۔حدیث نمبر٤٨١٧ )
ابن حجیر عدوی کہتے ہیں کہ میں نے اس قصے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی روایت کرتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا:”اور تم آفت زدہ لوگوں کی مدد کرو اور بھٹکے ہوؤں کو راستہ بتاؤ”۔
عن سعید بن ابی بردہ بن ابی موسیٰ اشعری عن ابیہ عن جدہ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ” قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَجِدْ؟ قَالَ:” فَيَعْمَلُ بِيَدَيْهِ فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ وَيَتَصَدَّقُ” قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَوْ لَمْ يَفْعَلْ؟ قَالَ:” فَيُعِينُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَ” قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ؟ قَالَ:” فَيَأْمُرُ بِالْخَيْرِ أَوْ قَالَ بِالْمَعْرُوفِ” قَالَ: فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ؟ قَالَ:” فَيُمْسِكُ عَنِ الشَّرِّ فَإِنَّهُ لَهُ صَدَقَةٌ”.(صحیح بخاری۔کتاب الادب،باب کل معروف صدقۃ۔حدیث نمبر۔٦٠٢٢ )
سعید بن ابی بردہ بن ابی موسیٰ اشعری نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ان کے دادا (ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اگر کوئی چیز کسی کو (صدقہ کے لیے) جو میسر نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اپنے ہاتھ سے کام کرے اور اس سے خود کو بھی فائدہ پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی اگر اس میں اس کی طاقت نہ ہو یا کہا کہ نہ کر سکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر کسی حاجت مند پریشان حال کی مدد کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اگر وہ یہ بھی نہ کر سکے۔ فرمایا کہ پھر بھلائی کی طرف لوگوں کو رغبت دلائے یا امر بالمعروف کا کرنا عرض کیا اور اگر یہ بھی نہ کر سکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر برائی سے رکا رہے کہ یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔
ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ نیکی کے کاموں میں معاونت کرے اور ظلم وعدوان میں مدد کرنے سے گریز کرے۔اس لئے کہ اول نامہ اعمال میں نیکیوں کے اضافہ کا سبب ہے اور دوم اعمال کے حبط ہونے کا ذریعہ ہے۔