والدین کے ساتھ حسن سلوک
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
اللہ تعالیٰ خالق مطلق ہیں اور ہر چیز کو براہ راست پید اکرنے پرقادر ہیں لیکن اس دنیا کا نظام اللہ نے اسباب پر قائم کیا ہے ہر چیز کے وجود کے لئے کوئی نہ کوئی سبب بنادیا ہے۔ انہی میں انسان کے توالد وتناسل کا سلسلہ بھی ہے۔ اس دنیا میں انسان کے آنے کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے والدین کو بنایا انہی کے ذریعہ انسان اس دنیا میں آتاہے اور جب تک وہ محتاج ہوتاہے اس کی تمام تر ضروریات والدین کے ذریعہ پورے ہوتے ہیں۔قدرت نے والدین کے دلوں میں ایسی محبت ڈال دی ہے کہ وہ بچوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے اپنی جان کی بازی لگادیتے ہیں اپنے آرام وراحت کو تج کر بچوں کے آرام و راحت کا سامان بہم پہونچاتے ہیں، بچوں کی ذراسی تکلیف بھی ان کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے بعد انسان کے اوپر اس کے ماں باپ کے حقوق رکھے ہیں۔اپنی عبادت اور وحدانیت کے اقرار کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ہے:
وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْ کِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّ لَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا(٢٣ )وَ اخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا(٢٤ ۔اسراء)
ترجمہ: اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔
اس آیت کریمہ میں غور فرمائیے۔ اولاً اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ عبادت اسی کی کی جائے اور اس کی ذات میں کسی کوشریک نہ کیا جائے اس لئے شرک ظلم عظیم ہے اور معاً اس کے بعد ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اقرار کے بعد جو درجہ ہے وہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کادرجہ ہے۔آیت میں ”قضیٰ“ کالفظ حکم کی قطعیت پر دلالت کرتاہے یعنی یہ قطعی حکم ہے کہ عبادت ا للہ کی ہونی چاہئے اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک میں کسی طرح کی کمی نہ آنی چاہئے اور پھر آگے تفصیل بیان کرتے ہوئے یہ حکم دیاگیا کہ اگر والدین یاان میں سے کوئی ایک ماں ہو یا باپ بڑھاپے کی عمرکو پہنچ جائیں تو ان کے سامنے اف تک نہ کہاجائے۔عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ اگر ماں باپ نے کسی کام کوکرنے کاحکم دیا تو آدمی طوعاً وکرہاً وہ کام کرتو دیتاہے لیکن دل سے نہیں کرتا۔ ایسے موقع پرانسان کی زبان سے ”اف“ نکل جاتاہے یہ ناگواری کاکلمہ ہے ایسا کرنے سے بھی اللہ تعالیٰ نے منع فرمادیاہے۔ڈانٹنے اور جھڑکنے کی بات تو بہت دور کی بات ہے زبان سے کوئی ایسا کلمہ بھی نہ نکلے جس سے ناگواری جھلکتی ہواور یہی نہیں بلکہ تواضع اور انکساری کے ساتھ ہمیشہ اپنی گردن ان کے سامنے جھکی ہوئی رکھنی چاہئے اوریہ تصور کرتے ہوئے کہ بچپن میں جس طرح بچہ مجبور و لاچار ہوتا ہے اور اپنی ایک ایک ضرورت کو پوری کرنے کے لئے ماں باپ کامحتاج ہوتاہے ایسے وقت میں ماں باپ بچوں کی ضروریات بڑی خوشی کے ساتھ پوری کرتے ہیں اور ان کوہنستا مسکراتادیکھ کر ان کے دل باغ باغ ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ماں باپ جب بڑھاپے کو پہنچ جائیں تووہ بھی ایک طرح سے مجبور ہوجاتے ہیں اور اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے دوسروں کے محتاج ہوجاتے ہیں ایسے وقت میں بچوں پر لازم ہے کہ ماں باپ کی خدمت اسی انداز سے کریں جس انداز سے انہوں نے بچپن میں اپنی اولاد کی پرورش کی ہے اور ان کے لئے ہمیشہ دعا گو بھی رہنا چاہئے جس کا طریقہ بھی اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں بتادیا ہے۔کہ یااللہ ان کی پرورش آپ اسی طرح کیجئے جس طرح انہوں نے بچپن میں ہماری پرورش کی ہے۔
والدین کی اطاعت صرف اللہ کے لئے
ماں باپ کی اطاعت و فرمانبرداری واجب ہے اور جہاں تک ہوسکے ان کی اطاعت لازمی طور پر کرنی چاہئے لیکن یہ واضح رہے کہ والدین کی اطاعت کاحکم اور ان کایہ حق اللہ تعالیٰ نے دیاہے اس لئے اللہ کی مرضی اور والدین کی اطاعت میں اگر ٹکراؤ ہوجائے تو اولیت اللہ کی مرضی کو حاصل ہوگی اور ایسے کسی معاملے میں والدین کی اطاعت نہیں کی جائے گی جو اللہ کی مرضی کے خلاف ہو۔جیسے والدین اگر اولاد کو شرک وبدعت کاحکم دیں تو وہاں اطاعت نہیں بلکہ مخالفت واجب ہوجاتی ہے۔ اللہ جل شانہ کاارشاد ہے:
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًاوَ اِنْ جَاھَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(٨ ۔عنکبوت)
ترجمہ: ہم نے ہر انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے ہاں اگر وہ یہ کوشش کریں کہ تم میرے ساتھ اسے شریک کرو جس کا تمہیں علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مانو، تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے پھر میں ہر اس چیز سے جو تم کرتے تھے تمہیں خبر دوں گا۔
والدین کے احسانات
ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کاحکم کوئی ایسا حکم نہیں ہے جو انسان پرجبری طور پر عائد کردیا گیا ہے بلکہ ماں باپ کے جو اَن گنت احسانات ہیں ان ہی کے بدلے انسان کوماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کاحکم دیاگیا ہے بلکہ ان احسانات کا بدلہ تو انسان کے بس کی بات ہی نہیں وہ کبھی ان کا بدلہ ادا ہی نہیں کرسکتا۔جیسے ماں کے پیٹ میں جب بچہ پلتاہے تو ماں کتنی تکلیفیں اٹھاکر اس کے بوجھ کو ڈھوتی رہتی ہے اور کبھی اس کے چہرے پر ناگواری کے اثرات پید انہیں ہوتے بلکہ نہایت خوش دلی سے اس بوجھ کو اٹھاتی ہے بلکہ اس کی حفاظت کاسارا سامان مہیا کرتی ہے۔ اسی طرح ولادت کی تکلیف کو برداشت کرتی ہے اور پھر ولادت کے بعد اس کی پرورش اور اس کی ضروریات کا خیال رکھنا کتنا مشکل کام ہے لیکن ماں ان سب کاموں کونہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیتی ہے اور کبھی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتی۔ اسی لئے ماں کادرجہ بھی بہت بڑا ہے اور اس کی خدمت بھی اولین درجہ کی خدمت ہے۔جولوگ ماں باپ کی خدمت کاحق اداکرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے یہاں بہترین بدلہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف جولوگ کوتاہی برتتے ہیں ان کاانجام بہت براہوتاہے۔
وَوَصَّیْنَا الْاِِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِِحْسٰنًا حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرھًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْھًا وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰ ثُوْنَ شَہْرًا حَتّٰی اِِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِی فِیْ ذُرِّیَّتِی اِِنِّی تُبْتُ اِِلَیْکَ وَاِِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (١٥ ) اُوْلٰٓءِکَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْہُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجاوَزُ عَنْ سَیِّاٰتِہِمْ فِیْ اَصْحٰبِ الْجَنَّۃِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ (١٦ ) وَالَّذِیْ قَالَ لِوَالِدَیْہِ اُفٍّ لَکُمَا اَتَعِدَانِنِی اَنْ اُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُوْنُ مِنْ قَبْلِی وَھُمَا یَسْتَغِیثَانِ اللّٰہَ وَیْلَکَ اٰمِنْ اِِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَیَقُوْلُ مَا ھٰذَا اِِلَّا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ (١٧ ) اُوْلٰٓءِکَ الَّذِیْنَ حَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ فِیْ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِِنسِ اِِنَّہُمْ کَانُوْا خَاسِرِیْنَ (١٨ ) وَلِکُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا وَلِیُوَفِّیَہُمْ اَعْمَالَہُمْ وَھُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ (١٩ ۔احقاف)
ترجمہ: اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا۔ اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا اے میرے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجالاؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کیا ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اولاد بھی صالح بنا، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال تو ہم قبول فرما لیتے ہیں اور جن کے بداعمال سے درگزر کر لیتے ہیں، جنتی لوگوں میں ہیں۔ اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتا تھا۔ اور جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تم سے میں تنگ آگیا، تم مجھ سے یہی کہتے رہو گے کہ میں مرنے کے بعد پھر زندہ کیا جاؤں گا مجھ سے پہلے بھی امتیں گزر چکی ہیں، وہ دونوں جناب باری میں فریادیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں تجھے خرابی ہو تو ایمان لے آ، بیشک اللہ کا وعدہ حق ہے، وہ جواب دیتا ہے کہ یہ تو صرف اگلوں کے افسانے ہیں۔ وہ لوگ ہیں جن پر(اللہ کا) وعدہ صادق آگیا، ان جنات اور انسانوں کے گروہوں کے ساتھ جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں، یقیناً یہ نقصان پانے والے تھے اور ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجے ملیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال کے پورے بدلے دے اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا۔
اللہ کے بعد والدین کاحق
اللہ تعالیٰ کے حقوق اداکرنے کے بعد سب سے اونچا عمل ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے۔یہاں تک کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ایک ایسا عمل ہے جو اللہ کے کلمے کو بلندی تک پہنچانے کاذریعہ ہے۔ اور دنیا سے شروفسادختم کرکے امن و امان کی بحالی کا سبب ہے اس سے بھی اونچا عمل ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کابرتاؤ کرنا ہے۔
عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ قَالَ: ”الصَّلاَةُ عَلَى وَقْتِهَا” . قَالَ ثُمَّ أَيُّ قَالَ: ”ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ” . قَالَ ثُمَّ أَيّ قَالَ: ”الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ” . قَالَ: حَدَّثَنِي بِهِنَّ وَلَوِ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي. (صحیح بخاری۔ کتاب الادب، باب قول اللہ تعالیٰ (ووصینا الانسان بوالدیہ۔حدیث نمبر٥٩٧٠ )
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ پسند یدہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وقت پر نماز پڑھنا۔ پوچھا کہ پھر کون سا؟ فرمایا کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، پوچھا پھر کون سا؟ فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ان کاموں کے متعلق بیان کیا اور اگر میں اسی طرح سوال کرتا رہتا تو آپ جواب دیتے رہتے۔
غور فرمائیے اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے سائل کو نماز کے بعد ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کاحکم دیا ہے اس کے بعد اللہ کے راستے میں جہاد کا درجہ بتایاہے۔اس بات کی تائید مندجہ ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
عن عبداللہ بن عمرو قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُجَاهِدُ قَالَ:” لَكَ أَبَوَانِ” قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:” فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ”.۔(صحیح بخاری۔ کتاب الادب، باب لایجاھد الا باذن الابوین۔حدیث نمبر٥٩٧٢ )
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓنے بیان کیا کہ ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں بھی جہاد میں شریک ہو جاؤں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے ماں باپ موجود ہیں انہوں نے کہا کہ جی ہاں موجود ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر انہیں میں جہاد کرو۔
والدین میں ماں کا حق مقدم
والدین میں بھی ماں چونکہ بچوں کی پرورش وپرداخت میں زیادہ تکلیفیں جھیلتی ہے اور بچے پر باپ کی بہ نسبت ماں اپنی جان زیادہ لٹاتی ہے،نیز خلقی اعتبار سے ماں کمزور بھی ہے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے باپ سے پہلے ماں کا درجہ بتایا ہے۔بلکہ چار میں سے تین حصے کاحقدار ماں کو بتایا گیا ہے۔
عن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قَالَ:” أُمُّكَ” قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:” ثُمَّ أُمُّكَ” قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:” ثُمَّ أُمُّكَ” قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:” ثُمَّ أَبُوكَ”،۔(صحیح بخاری۔ کتاب الادب، باب من احق الناس بحسن الصحبۃ۔حدیث نمبر٥٩٧١ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔(سائل نے پھر) پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہارا باپ ہے۔
والدین کی خدمت نیکیوں میں اضافہ کاسبب
نیکیاں انسان کے لئے ایسے وقت میں کام آنے والی ہیں جب کہ دنیا کے سارے اسباب ختم ہوجائیں گے۔ عزیز رشتہ دار سب چھوٹ جائیں گے اور ہر شخص نفسی نفسی کے عالم میں ہوگا اس وقت ایک ایک نیکی کے لئے آدمی دنیا ومافیھا خرچ کرنے کو تیار ہو جائے گااگر اس کے بس میں ہو۔ ایسے وقت میں انسان کے لئے اس کی نیکیاں ہی سہارا بنیں گی اور میدان حشر میں ان کے ذریعہ عرش کاسایہ بھی نصیب ہو گا او رجنت میں قیام کاپروانہ بھی ملے گا۔ان نیکیوں میں بہت سارے اعمال ہیں جن کا رسول پاک ﷺ نے مختلف مواقع پر بیان فرمایا ہے لیکن ان سب میں ماں باپ کی خدمت، ان کے ساتھ حسن سلوک اور نرمی کابرتاؤ سب سے زیادہ انسان کے نامہئ اعمال میں نیکیوں کااضافہ کرنے والی چیز ہے۔
عن عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما قَالَ: ” أَقْبَلَ رَجُلٌ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أُبَايِعُكَ عَلَى الْهِجْرَةِ وَالْجِهَادِ أَبْتَغِي الْأَجْرَ مِنَ اللَّهِ، قَالَ: فَهَلْ مِنْ وَالِدَيْكَ أَحَدٌ حَيٌّ؟ قَالَ: نَعَمْ، بَلْ كِلَاهُمَا، قَالَ: فَتَبْتَغِي الْأَجْرَ مِنَ اللَّهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَارْجِعْ إِلَى وَالِدَيْكَ فَأَحْسِنْ صُحْبَتَهُمَا ” (صحیح مسلم۔ کتاب البر والصلۃ،باب بر الوالدین وانھما احق بہ۔حدیث نمبر٦٥٠٧ )
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا میں آپ سے بیعت کرتا ہوں ہجرت اور جہاد پر، اللہ سے اس کا ثواب چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے۔“ وہ بولا: دونوں زندہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اللہ سے ثواب چاہتا ہے.” وہ بولا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا. ”تو لوٹ جا اپنے ماں باپ کے پاس اور نیک سلوک کر ان سے۔”
عن معاویہ بن جاہمہ سلمی رضی اللہ عنہ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أَرَدْتُ الْجِهَادَ مَعَكَ أَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَ:” وَيْحَكَ، أَحَيَّةٌ أُمُّكَ؟” قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:” ارْجِعْ، فَبَرَّهَا”، ثُمَّ أَتَيْتُهُ مِنَ الْجَانِبِ الْآخَرِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أَرَدْتُ الْجِهَادَ مَعَكَ أَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَ:” وَيْحَكَ، أَحَيَّةٌ أُمُّكَ”، قُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:” فَارْجِعْ إِلَيْهَا فَبَرَّهَا”، ثُمَّ أَتَيْتُهُ مِنْ أَمَامِهِ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ أَرَدْتُ الْجِهَادَ مَعَكَ أَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَ:” وَيْحَكَ، أَحَيَّةٌ أُمُّكَ”، قُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:” وَيْحَكَ الْزَمْ رِجْلَهَا فَثَمَّ الْجَنَّةُ”،((ابن ماجہ۔کتاب الجہاد۔باب الرجل یغزو ولہ ابوان حدیث نمبر٢٧٨١ )
حضرت معاویہ بن جاہمہ سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر عرض کیا: میں اللہ کی رضا اور دار آخرت کی بھلائی کے لیے آپ کے ساتھ جہاد کرنا چاہتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”افسوس، کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟” میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واپس جاؤ، اور اپنی ماں کی خدمت کرو”پھر میں دوسری جانب سے آیا اور میں نے عرض کیا: میں اللہ کی رضا جوئی اور دار آخرت کی خاطر آپ کے ساتھ جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کیا تیری ماں زندہ ہے”؟ میں نے پھر کہا: ہاں! اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اس کے پاس واپس چلے جاؤ اور اس کی خدمت کرو”، پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے آیا اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اللہ کی رضا اور دار آخرت کے لیے آپ کے ساتھ جہاد کا ارادہ کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”افسوس، کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟ میں نے جواب دیا: ہاں! اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”افسوس! اس کے پیر کے پاس رہو، وہیں جنت ہے”۔
نفلی عبادات کی بہ نسبت والدین کی خدمت
ماں باپ کا حق اتنا بڑ ا ہے کہ نفلی عبادات میں اگر کوئی شخص مشغول ہو او رماں باپ یاان میں سے کوئی ایک آواز دیں تو اپنی عبادت چھوڑ کر ان کی آواز پرلبیک کہنا چاہئے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ورنہ اگر ان کادل دکھ گیا اور ان کی زبان سے کوئی بد دعائیہ جملہ نکل گیا تو انسان تباہ و برباد ہوکر رہ جائے گا۔اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی دعائیں بہت جلد سنتے ہیں۔
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ أَنَّهُ قَالَ: ” كَانَ جُرَيْجٌ يَتَعَبَّدُ فِي صَوْمَعَةٍ، فَجَاءَتْ أُمُّهُ، قَالَ حُمَيْدٌ: فَوَصَفَ لَنَا أَبُو رَافِعٍ صِفَةَ أَبِي هُرَيْرَةَ، لِصِفَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّهُ حِينَ دَعَتْهُ كَيْفَ جَعَلَتْ كَفَّهَا فَوْقَ حَاجِبِهَا، ثُمَّ رَفَعَتْ رَأْسَهَا إِلَيْهِ تَدْعُوهُ، فَقَالَتْ يَا جُرَيْجُ: أَنَا أُمُّكَ كَلِّمْنِي، فَصَادَفَتْهُ يُصَلِّي، فَقَالَ: اللَّهُمَّ أُمِّي وَصَلَاتِي، فَاخْتَارَ صَلَاتَهُ، فَرَجَعَتْ، ثُمَّ عَادَتْ فِي الثَّانِيَةِ، فَقَالَتْ يَا جُرَيْجُ: أَنَا أُمُّكَ فَكَلِّمْنِي، قَالَ: اللَّهُمَّ أُمِّي وَصَلَاتِي، فَاخْتَارَ صَلَاتَهُ، فَقَالَتْ: اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا جُرَيْجٌ وَهُوَ ابْنِي وَإِنِّي كَلَّمْتُهُ، فَأَبَى أَنْ يُكَلِّمَنِي اللَّهُمَّ فَلَا تُمِتْهُ حَتَّى تُرِيَهُ الْمُومِسَاتِ، قَالَ: وَلَوْ دَعَتْ عَلَيْهِ أَنْ يُفْتَنَ لَفُتِنَ، قَالَ: وَكَانَ رَاعِي ضَأْنٍ يَأْوِي إِلَى دَيْرِهِ، قَالَ: فَخَرَجَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الْقَرْيَةِ فَوَقَعَ عَلَيْهَا الرَّاعِي، فَحَمَلَتْ فَوَلَدَتْ غُلَامًا، فَقِيلَ لَهَا: مَا هَذَا؟ قَالَتْ: مِنْ صَاحِبِ هَذَا الدَّيْرِ، قَالَ: فَجَاءُوا بِفُؤُوسِهِمْ وَمَسَاحِيهِمْ فَنَادَوْهُ فَصَادَفُوهُ يُصَلِّي، فَلَمْ يُكَلِّمْهُمْ، قَالَ: فَأَخَذُوا يَهْدِمُونَ دَيْرَهُ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ نَزَلَ إِلَيْهِمْ، فَقَالُوا لَهُ: سَلْ هَذِهِ، قَالَ: فَتَبَسَّمَ ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَ الصَّبِيِّ، فَقَالَ: مَنْ أَبُوكَ؟ قَالَ: أَبِي رَاعِي الضَّأْنِ، فَلَمَّا سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْهُ، قَالُوا: نَبْنِي مَا هَدَمْنَا مِنْ دَيْرِكَ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، قَالَ: لَا، وَلَكِنْ أَعِيدُوهُ تُرَابًا كَمَا كَانَ ثُمَّ عَلَاهُ “.(صحیح مسلم۔ کتاب البر والصلۃ،باب تقدیم بر الوالدین علی التطوع بالصلاۃ وغیرھا۔حدیث نمبر٦٥٠٨ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ(بنی اسرائیل میں ایک عابد جس کانام تھا) جریج اپنے عبادت خانہ میں عبادت کر رہا تھا، اتنے میں اس کی ماں آئی۔ حمید(جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) نے کہا: ابورافع(بھی اس حدیث کے ایک راوی ہیں) نے بیان کیا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جیسے بیان کیا، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ اس کی ماں نے اپنا ہاتھ ابرو پر رکھا اور سر اٹھایا جریج کو پکارنے کو،تو بولی: اے جریج! میں تیری ماں ہوں، مجھ سے بات کر۔ جریج اس وقت نماز میں تھا، وہ (اپنے دل میں)بولا: یا اللہ! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں، پھر وہ اپنی نماز میں رہا اس کی ماں لوٹ گئی۔ دوسرے دن، پھر آئی اور بولی: اے جریج! میں تیری ماں ہوں، مجھ سے بات کر۔ وہ کہنے لگا: اے رب میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں۔ آخر وہ نماز میں مشغول رہے۔ وہ بولی: یا اللہ! یہ جریج ہے اور میرا بیٹا ہے میں نے اس سے بات کی لیکن اس نے بات کرنے سے انکار کیا۔ یا اللہ! مت مارنا اس کو جب تک بدکار عورتو ں کو نہ دیکھ لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ دعا کرتی جریج کسی فتنہ میں پڑے، البتہ پڑ جاتا (پر اس نے صرف اسی قدر دعا کی کہ بدکار عورتوں کو دیکھے)۔ ایک چرواہا تھا بھیڑوں کا جو جریج کے عبادت خانہ کے پاس ٹھہرا کرتا تھا، تو گاؤں سے ایک عورت باہر نکلی وہ چرواہا اس پر چڑھ بیٹھا اس کو حمل ٹھہر گیا۔ ایک لڑکا جنا۔ لوگوں نے اس سے پوچھا: یہ لڑکا کہاں سے لائی؟ وہ بولی: اس عبادت خانہ میں جو رہتا ہے اس کا لڑکا ہے۔ یہ سن کر (بستی کے لوگ) اپنی کدالیں اور پھاوڑے لے کر آئے اور جریج کو آواز دی۔ وہ نماز میں تھا اس نے بات نہ کی، لوگ اس کا عبادت خانہ گرا نے لگے جب اس نے یہ دیکھا تو اترا۔ لوگوں نے اس سے کہا: اس عورت سے پوچھ کیا کہتی ہے؟ جریج ہنسا اور اس نے لڑکے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا: تیرا باپ کون ہے؟ وہ بولا: میرا باپ بھیڑوں کا چرواہا ہے۔ جب لوگوں نے بچہ سے یہ بات سنی تو کہنے لگے: جتنا عبادت خانہ ہم نے تیرا گرایا ہے وہ سو نے اور چاندی سے بنا دیتے ہیں۔ جریج نے کہا: نہیں مٹی ہی سے درست کر دو جیسا پہلے تھا، پھر اس کے اوپرچڑھ گیا۔
غور کرنے کا مقام ہے کہ جریج اللہ کی عبادت میں مشغول تھا اسی دوران اس کی ماں نے آواز دی اور اس نے اپنی عبادت کو چھوڑ کر ماں کی آواز پر لبیک کہنا ضروری نہیں سمجھا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے ایک آزمائش میں ڈال دیا تو جو لوگ خالی بیٹھے ہوں او رماں باپ کی آواز سننے کے بعد بھی ان کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی ان کا کیا حشر ہوگا۔
اس واقعہ میں ایک بات غور کرنے کی ہے کہ اولاد چاہے کتنی بھی نافرمان ہوجائے ماں باپ کے دل میں ان کی محبت موجود رہتی ہے اور کسی بھی موقع سے اپنی اولاد کوتکلیف میں دیکھناگوارہ نہیں کرتے۔ دیکھئے جریج کی ماں نے اپنے بیٹے کوبددعابھی دی توکیسی پیار بھری بددعادی۔ اس نے یہ نہیں کہاکہ جریج برائی میں مبتلاہوجائے اس لئے کہ یہ برائی ایک تو اس کے نامہئ اعمال کو خراب کردیتی اور اس کی عبادتوں پرپانی پھرجاتا۔ دوسرے یہ کہ لوگوں پرجب اس کی برائی کاانکشاف ہوتاتو لوگ اس سے بدظن ہوجاتے اورممکن تھاکہ اسے سزابھی دیں۔ اس نے یہ بددعا دی کہ وہ بدکار عورتوں کودیکھ لے اورہوابھی ویسا ہی لیکن یہ واقعہ جریج کوعبرت ونصیحت کے ساتھ اس کی عزت میں اضافہ کاسبب بھی بن گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بچے سے اس کی بے گناہی کاثبوت دے دیا۔
والدین کی نافرمانی کرنے والا بدنصیب ہے
ماں باپ تو اولاد کے جنت کی ضمانت ہیں اور ان کی خدمت کرنے والا یقینا جنت کا حقدار ہوگا۔ بدنصیب ہے وہ شخص جو ماں باپ جیسی عظیم ہستیوں کی خدمت کرکے اپنی جنت نہ بناسکے اور اپنی عاقبت خراب کربیٹھے۔چہ جائے کہ ان کی نافرمانی کا ارتکاب کرکے اپنی بدنصیبی کو آواز دے۔ ماں باپ کی نافرمانی اسی طرح حرام ہے جس طرح بچیوں کو زندہ درگور کرنا،اس لئے اس سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
عن مغیرہ ابن شعبۃ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ عُقُوقَ الْأُمَّهَاتِ، وَمَنْعًا وَهَاتِ، وَوَأْدَ الْبَنَاتِ، وَكَرِهَ لَكُمْ قِيلَ وَقَالَ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةَ الْمَالِ”.(صحیح بخاری۔ کتاب الادب، باب عقوق الوالدین من الکبائر۔حدیث نمبر٥٩٧٥ )
حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے تم پر ماں کی نافرمانی حرام قرار دی ہے اور (والدین کے حقوق) نہ دینا اور ناحق ان سے مطالبات کرنا بھی حرام قرار دیا ہے، لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا (بھی حرام قرار دیا ہے) اور”قیل وقال“(فضول باتیں) کثرت سوال اور مال کی بربادی کو بھی ناپسند کیا ہے۔
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: رَغِمَ أَنْفُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ، قِيلَ: مَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: ” مَنْ أَدْرَكَ أَبَوَيْهِ عِنْدَ الْكِبَرِ أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَيْهِمَا فَلَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ “. (صحیح مسلم۔ کتاب البر والصلۃ،باب رغم انف من ادرک ابویہ او احدھما عند الکبر فلم یدخل الجنۃ۔حدیث نمبر٦٥١٠ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی ناک خاک آلودہ ہو، پھراس کی ناک خاک آلودہ ہو، پھراس کی ناک خاک آلودہ ہو۔” کہا گیا کس کی یا رسول اللہ!؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو اپنے ماں باپ کو بوڑھا پائے دونوں کو یا ان میں سے ایک کو، پھر جنت میں نہ جائے۔“
والدین کے ساتھ حسن سلوک او ران کے حق میں دعائیں کرنا اولاد پر والدین کا حق ہے اس کی وجہ سے اس کے درجات بلند ہوتے ہیں اور نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے جس طرح یہ عمل بہت اونچا مقام رکھتا ہے اسی طرح ماں باپ کی نافرمانی، ان کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آنا یا ان کے ساتھ گالی گلوج کا معاملہ َروارکھنا سب سے بڑ اگناہ ہے۔ماں باپ کا رشتہ اتنا پاکیزہ اور عظیم رشتہ ہے کہ اپنے والدین تو دور دوسروں کی ماں باپ کو بھی گالیا ں دینے اور ان پر لعنت بھیجنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس لئے کہ کسی بھی شخص کے ماں باپ کو گالیاں دینا ایک طرح سے اپنے ماں باپ کو گالیاں دینے کے مترادف ہے۔اس لئے کہ جب کسی کے ماں باپ کو گالی دی جائے گی تو لازماً وہ شخص بھی جوابی طور پر اس کے ماں باپ کو گالیاں دے گا۔اس گالی کا سبب چونکہ وہی ہے جس نے سب سے پہلے گالی دی ہے تویہ ایسا ہی ہے گویا اس نے خود اپنے ماں باپ کو گالی دی ہے۔ ذیل کی حدیث ملاحظہ کیجئے۔
عن حضرت عبداللہ بن عمر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ أَنْ يَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ” قِيلَ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ يَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ؟ قَالَ:” يَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ وَيَسُبُّ أُمَّهُ”.(صحیح بخاری۔ کتاب الادب، باب لایسب الرجل والدیہ۔حدیث نمبر٥٩٧٣ )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً سب سے بڑے گناہوں میں سے یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعنت بھیجے۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! کوئی شخص اپنے ہی والدین پر کیسے لعنت بھیجے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص دوسرے کے باپ کو برا بھلا کہے گا تو دوسرا بھی اس کے باپ کو اور اس کی ماں کو برا بھلا کہے گا۔
والدین کی خدمت کا دعا کی قبولیت میں اثر
والدین کی خدمت، ان کے ساتھ حسن سلوک او ران کی ضروریات کودوسری ضرورتوں پر فوقیت دینا انسان کے دعاء کی قبولیت میں بہت موثر ہے اور اس کی وجہ سے خود ماں باپ بھی اسے دعاؤں سے نوازتے ہیں۔ذیل کی حدیث میں دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نے تین اشخاص کو کس طرح ایک مصیبت سے نجات دی۔ان میں ایک شخص ایسا بھی ہے جس نے اپنے ماں باپ کی خدمت کا حوالہ دے کر اللہ سے دعا کی اور اللہ نے اس کی دعا سن لی۔
عن عبد بن عمر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” بَيْنَمَا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ يَتَمَاشَوْنَ أَخَذَهُمُ الْمَطَرُ فَمَالُوا إِلَى غَارٍ فِي الْجَبَلِ فَانْحَطَّتْ عَلَى فَمِ غَارِهِمْ صَخْرَةٌ مِنَ الْجَبَلِ فَأَطْبَقَتْ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: انْظُرُوا أَعْمَالًا عَمِلْتُمُوهَا لِلَّهِ صَالِحَةً، فَادْعُوا اللَّهَ بِهَا لَعَلَّهُ يَفْرُجُهَا، فَقَالَ أَحَدُهُمْ: اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ لِي وَالِدَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ وَلِي صِبْيَةٌ صِغَارٌ كُنْتُ أَرْعَى عَلَيْهِمْ، فَإِذَا رُحْتُ عَلَيْهِمْ فَحَلَبْتُ بَدَأْتُ بِوَالِدَيَّ أَسْقِهِمَا قَبْلَ وَلَدِي، وَإِنَّهُ نَاءَ بِيَ الشَّجَرُ فَمَا أَتَيْتُ حَتَّى أَمْسَيْتُ فَوَجَدْتُهُمَا قَدْ نَامَا، فَحَلَبْتُ كَمَا كُنْتُ أَحْلُبُ فَجِئْتُ بِالْحِلَابِ فَقُمْتُ عِنْدَ رُءُوسِهِمَا، أَكْرَهُ أَنْ أُوقِظَهُمَا مِنْ نَوْمِهِمَا، وَأَكْرَهُ أَنْ أَبْدَأَ بِالصِّبْيَةِ قَبْلَهُمَا وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَيَّ، فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ دَأْبِي وَدَأْبَهُمْ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ لَنَا فُرْجَةً نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ، فَفَرَجَ اللَّهُ لَهُمْ فُرْجَةً حَتَّى يَرَوْنَ مِنْهَا السَّمَاءَ، وَقَالَ الثَّانِي: اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَتْ لِي ابْنَةُ عَمٍّ أُحِبُّهَا كَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَاءَ فَطَلَبْتُ إِلَيْهَا نَفْسَهَا فَأَبَتْ حَتَّى آتِيَهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ فَسَعَيْتُ حَتَّى جَمَعْتُ مِائَةَ دِينَارٍ فَلَقِيتُهَا بِهَا، فَلَمَّا قَعَدْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا قَالَتْ: يَا عَبْدَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ، وَلَا تَفْتَحِ الْخَاتَمَ إلا بحقه فَقُمْتُ عَنْهَا، اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي قَدْ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ لَنَا مِنْهَا فَفَرَجَ لَهُمْ فُرْجَةً، وَقَالَ الْآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنِّي كُنْتُ اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقِ أَرُزٍّ فَلَمَّا قَضَى عَمَلَهُ قَالَ أَعْطِنِي حَقِّي فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَقَّهُ فَتَرَكَهُ وَرَغِبَ عَنْهُ، فَلَمْ أَزَلْ أَزْرَعُهُ حَتَّى جَمَعْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرَاعِيَهَا، فَجَاءَنِي فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَظْلِمْنِي وَأَعْطِنِي حَقِّي، فَقُلْتُ: اذْهَبْ إِلَى ذَلِكَ الْبَقَرِ وَرَاعِيهَا، فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَهْزَأْ بِي، فَقُلْتُ: إِنِّي لَا أَهْزَأُ بِكَ فَخُذْ ذَلِكَ الْبَقَرَ وَرَاعِيَهَا فَأَخَذَهُ فَانْطَلَقَ بِهَا، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ مَا بَقِيَ فَفَرَجَ اللَّهُ عَنْهُمْ”. (صحیح بخاری۔ کتاب الادب، باب اجابۃ دعاء من بر والدیہ۔حدیث نمبر٥٩٧٤ )
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمی چل رہے تھے کہ بارش نے انہیں آ لیا اور انہوں نے مڑ کر پہاڑی کی غار میں پناہ لی۔ اس کے بعد ان کے غار کے منہ پر پہاڑ کی ایک چٹان گری اور اس کا منہ بند ہو گیا۔ اب بعض نے بعض سے کہا کہ تم نے جو نیک کام کئے ہیں ان میں سے ایسے کام کو دھیان میں لاؤ جو تم نے خالص اللہ کے لیے کیا ہو تاکہ اللہ سے اس کے ذریعہ دعا کرو، ممکن ہے وہ غار کو کھول دے۔ اس پر ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! میرے والدین تھے اور بہت بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ میں ان کے لیے بکریاں چراتا تھا اور واپس آ کر دودھ نکالتا تو سب سے پہلے اپنے والدین کو پلاتا تھا اپنے بچوں سے بھی پہلے۔ ایک دن چارے کی تلاش نے مجھے بہت دور لے جا ڈالا چنانچہ میں رات گئے واپس آیا۔ میں نے دیکھا کہ میرے والدین سو چکے ہیں۔ میں نے معمول کے مطابق دودھ نکالا پھر میں دوھا ہوا دودھ لے کر آیا اور ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا میں گوارا نہیں کر سکتا تھا کہ انہیں سونے میں جگاؤں اور یہ بھی مجھ سے نہیں ہو سکتا تھا کہ والدین سے پہلے بچوں کو پلاؤں۔ بچے بھوک سے میرے قدموں پر لوٹ رہے تھے اور اسی کشمکش میں صبح ہو گئی۔ پس اے اللہ! اگر تیرے علم میں بھی یہ کام میں نے صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے کشادگی پیدا کر دے کہ ہم آسمان دیکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے (دعا قبول کی اور) ان کے لیے اتنی کشادگی پیدا کر دی کہ وہ آسمان دیکھ سکتے تھے۔ دوسرے شخص نے کہا: اے اللہ! میری ایک چچا زاد بہن تھی اور میں اس سے محبت کرتا تھا، وہ انتہائی محبت جو ایک مرد ایک عورت سے کر سکتا ہے۔ میں نے اس سے اسے مانگا تو اس نے انکار کیا اور صرف اس شرط پر راضی ہوئی کہ میں اسے سو دینار دوں۔ میں نے دوڑ دھوپ کی اور سو دینار جمع کر لایا پھر اس کے پاس انہیں لے کر گیا پھر جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان میں بیٹھ گیا تو اس نے کہا کہ اے اللہ کے بندے! اللہ سے ڈر اور مہر کو مت توڑ۔ میں یہ سن کر کھڑا ہو گیا (اور زنا سے باز رہا) پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیری رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے کچھ اور کشادگی (چٹان کو ہٹا کر) پیدا کر دے۔ چنانچہ ان کے لیے تھوڑی سی اور کشادگی ہو گئی۔ تیسرے شخص نے کہا: اے اللہ! میں نے ایک مزدور ایک فرق چاول کی مزدوری پر رکھا تھا اس نے اپنا کام پورا کر کے کہا کہ میری مزدوری دو۔ میں نے اس کی مزدوری دے دی لیکن وہ چھوڑ کر چلا گیا اور اس کے ساتھ بے توجہی کی۔ میں اس کے اس بچے ہوئے دھان کو بوتا رہا اور اس طرح میں نے اس سے ایک گائے اور اس کا چرواہا کر لیا (پھر جب وہ آیا تو) میں نے اس سے کہا کہ یہ گائے اور چرواہا لے جاؤ۔ اس نے کہا اللہ سے ڈرو اور میرے ساتھ مذاق نہ کرو۔ میں نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ مذاق نہیں کرتا۔ اس گائے اور چرواہے کو لے جاؤ۔ چنانچہ وہ انہیں لے کر چلا گیا۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیری رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا توچٹان کی وجہ سے غار سے نکلنے میں جو رکاوٹ باقی رہ گئی ہے اسے بھی کھول دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پوری طرح کشادگی کر دی جس سے وہ باہر آ گئے۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک اگرچہ وہ مشرک ہوں
ماں باپ اگر کفر و شرک کی حالت میں ہیں اور وہ اسلام اور مسلمانوں سے نبر دآزما یا برسرِپیکار نہیں ہیں تو ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کابرتاؤ کرنا چاہئے۔ ہاں اگر وہ اسلام او ر مسلمانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے ہوں اور جنگ کی حالت میں باپ بیٹے کا آمنا سامنا ہوجائے تو وہا ں رشتوں کالحاظ کرنا گویا اسلامی عَلم کو سرنگوں کرنا ہے اس لئے وہاں مقابلہ آرائی کی اجازت ہے۔
عن اسماء بنت ابی بکر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ:” أَتَتْنِي أُمِّي رَاغِبَةً فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: آصِلُهَا؟ قَالَ: نَعَمْ”، قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهَا لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ سورة الممتحنة آية ٨ . (صحیح بخاری۔ کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک۔حدیث نمبر٥٩٧٨ )
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میری والدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں میرے پاس آئیں، وہ اسلام سے منکر تھیں۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی لاَیَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوھُمْ وَتُقْسِطُوا اِِلَیْہِمْ اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ یعنی”اللہ پاک تم کو ان لوگوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے ہمارے دین کے متعلق کوئی لڑائی جھگڑا نہیں کرتے۔”
حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں ماں باپ کے اس قدر حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک کے فضائل بیان کئے گئے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ اللہ کے بعد انسان کے لئے اس کے ماں باپ کا ہی درجہ ہے۔یہاں تک کہ جنت جس کے لئے انسان ساری محنتیں کرتاہے اور دنیاوی لذتوں سے کنارہ کشی اختیار کرکے اپنے نفس کے خلاف کام کرتاہے۔وہ جنت ماں باپ کی خدمت سے ہی مل سکتی ہے اور اگر ان کی نافرمانی کی گئی تو ہوسکتاہے کہ اس کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں۔ اس لئے والدین کی خدمت گزاری اور ان کے ساتھ حسن سلوک میں کبھی کوتاہی نہیں برتناچاہئے،یہی ایمان کاتقاضاہے۔