رشتوں کااحترام : قرآنی حکم اور نبوی تعلیمات
تحریر:مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
رشتوں اور قرابتوں کی اہمیت
اللہ تعالیٰ نے اس دنیامیں انسان کو بسا یا،انہیں رہنے سہنے کاسلیقہ سکھایا،چیزوں کو استعمال کرنے اور برتنے کی سمجھ عطاکی اور دیگر حیوانات سے الگ اس کی زندگی کااسلوب بنایا۔ جانوروں کی زندگی ایسی ہے کہ وہ کسی درخت کے نیچے بیٹھ کر یا کسی سوراخ میں رہ کر زندگی گذار سکتے ہیں۔ لیکن انسان جہاں بھی رہتاہے بستیاں بساکر اپنے ہم مثل دیگر انسانوں کے ساتھ رہتاہے۔ اس میں بھی اس کا اپنا ایک حلقہ ہوتاہے جس میں وہ جانا پہچانا جاتاہے یا جن کے ذریعہ وہ جانا پہچانا جاتاہے۔ قبیلہ، خاندان،قومیت اور برادری سے اس کی پہچان بنتی ہے۔یہ تمام رشتے اس کے لئے ضروری ہوتے ہیں اور ضرورت کے وقت وہ ان رشتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے اس لئے ان رشتوں کا احترام اور ان میں جوڑ پیداکرکے رکھنا ہی اس کے لئے مفید ہے اگر ان رشتوں میں دراڑ پیداہوگئی تو انسان کی زندگی اجیرن بن کے رہ جاتی ہے۔ ان میں کچھ رشتے تو بہت ہی قریب کے ہوتے ہیں جن کے حقوق اداکرنا اس پرلازم کیاگیا ہے جیسے ماں باپ، بھائی بہن وغیرہ۔ کچھ رشتے ایسے بھی ہوتے جو اس کے ماں باپ سے ملتے ہیں لیکن ذرا دور ہوتے ہیں۔ایسے رشتوں کی قدر کرنا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا یہ ایمان کاحصہ ہے اور ایک مومن کو چاہئے کہ ان رشتوں اور قرابتوں کو ملاکر چلے ان میں تفریق اور دراڑ پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے۔اللہ تعالیٰ کے یہاں رشتوں کو جوڑنے والے لوگ بہت پسندیدہ ہیں او رجولوگ رشتوں کو توڑتے رہتے ہیں انہیں اللہ کے یہاں حساب کی سختی سے بچنے کی فکر کرنی چاہئے۔
وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِ(٢١ ۔رعد)
ترجمہ: اور اللہ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے وہ اسے جوڑتے ہیں اور وہ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کی سختی کا اندیشہ رکھتے ہیں۔
رشتوں کو جوڑنے والے اللہ کومحبوب
رشتوں میں جوڑ پیدا کرنا،ان کے ساتھ محبت کے ساتھ پیش آنا اور ان کو عزت واحترام کی نظر سے دیکھنا اللہ کو پسند ہے اور جو لوگ رشتوں کو توڑتے ہیں وہ اللہ کے نزدیک لعنت کے مستحق ہیں۔
وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓئکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَ لَھُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ(٢٥ ۔رعد)
ترجمہ: اور جو اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جن چیزوں کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے انہیں توڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، ان کے لئے لعنتیں ہیں اور ان کے لئے برا گھر ہے۔
فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا اَرْحَامَکُمْ (٢٢ ) اُوْلٰٓئکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمْ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمْ وَاَعْمَی اَبْصَارَھُمْ (٢٣ ۔ محمد)
ترجمہ: اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔ یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے۔
الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ(٢٧ ۔ بقرہ)
ترجمہ: جو لوگ اللہ تعالیٰ کے مضبوط عہد کو توڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے، انہیں کاٹتے اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْ بَعْدُ وَ ھَاجَرُوْا وَ جٰھَدُوْا مَعَکُمْ فَاُولٰٓئکَ مِنْکُمْ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ٧٥ ۔انفال)
ترجمہ: اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمھارے ساتھ مل کر جہاد کیا تو وہ تم ہی سے ہیں اور رشتے دار اللہ کی کتاب میں، ان کے بعض بعض کے زیادہ حق دار ہیں۔ بے شک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
مندرجہ بالاتمام آیات میں صلہ رحمی کی اہمیت اور اس کی فضلیت بتائی گئی ہے اور قطع رحمی کے نقصانات کو واضح انداز میں بیان کیا گیاہے۔ نبی کریم ﷺ کے ارشادات بھی اس معاملے میں بالکل واضح اور کثیر تعداد میں ہیں۔
عن ابی ایوب انصاری رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ، فَقَالَ الْقَوْمُ: مَا لَهُ مَا لَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَبٌ مَا لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” تَعْبُدُ اللَّهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ” ذَرْهَا قَالَ: كَأَنَّهُ كَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ. (صحیح بخاری۔کتاب الادب، باب فضل صلۃ الرحم۔حدیث نمبر٥٩٨٣ )
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صاحب نے کہا: یا رسول اللہ! کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں لے جائے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ اسے کیا ہو گیا ہے، اسے کیا ہو گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں کیا ہو گیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کر اور اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کر، نماز قائم کر، زکوٰۃ دیتے رہو اور صلہ رحمی کرتے رہو۔ چل اب نکیل چھوڑ دے۔ راوی نے کہا شاید اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔
رشتوں کو جوڑنا اور صلہ رحمی کا مقام
اللہ تعالیٰ کی توحید کااقرار تو ایسا عمل ہے جس کے بغیر کوئی عمل قبول ہی نہیں ہوتا۔ اس کے بعد نمازوں کا قائم کرنا، روزے رکھنا اور زکوۃ دینا یہ سب اسلام کے بنیادی ارکان ہیں ان کے بغیر اسلام کی بنیاد کھڑی نہیں ہوسکتی۔ ان کے بعد جو اعمال ہیں ان میں صلہ رحمی کوبہت اونچا مقام حاصل ہے، جس کو نبی کریم ﷺ نے جنت میں لے جانے والے اعمال میں شمار کیا ہے۔اس کے علاوہ صلہ رحمی کا دنیامیں بھی بڑ افائدہ ہے اس کی وجہ سے رزق میں فراخی اور عمر میں برکت ہوتی ہے۔
عن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:” مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَأَنْ يُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ”.(صحیح بخاری۔کتاب الادب، باب من بسط فی الرزق بصلۃ الرحم۔حدیث نمبر ٥٩٨٥ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جسے پسند ہے کہ اس کی روزی میں فراخی ہو اور اس کی عمردراز کی جائے تو وہ صلہ رحمی کیا کرے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک صلہ رحمی کااتنا بڑا مقام ہے کہ دنیا کو پید اکرنے کے بعد رحم یعنی رشتہ داری سے یہ عہد کیا ہے کہ جو تمہیں جوڑے گا اسے جوڑ کے رکھوں گااور جوتجھے توڑے گا میں اسے توڑ دوں گا۔
عن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ حَتَّى إِذَا فَرَغَ مِنْ خَلْقِهِ قَالَتْ: الرَّحِمُ هَذَا مَقَامُ الْعَائِذِ بِكَ مِنَ الْقَطِيعَةِ قَالَ: نَعَمْ، أَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ أَصِلَ مَنْ وَصَلَكِ وَأَقْطَعَ مَنْ قَطَعَكِ؟، قَالَتْ: بَلَى يَا رَبِّ، قَالَ فَهُوَ لَكِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ سورة محمد آية ٢٢ “.۔“(صحیح بخاری۔کتاب الادب، باب من وصل وصلہ اللہ۔حدیث نمبر٥٩٨٧ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی اور جب اس سے فراغت ہوئی تو رحم نے عرض کیا کہ یہ اس شخص کی جگہ ہے جو قطع رحمی سے تیری پناہ مانگے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہاں کیا تم اس پر راضی نہیں کہ میں اس سے جوڑوں گا جو تم سے اپنے آپ کو جوڑے اور اس سے توڑ لوں گا جو تم سے اپنے آپ کو توڑ لے؟ رحم نے کہا کیوں نہیں، اے رب! اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پس یہ تجھ کو دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد فرمایا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا اَرْحَامَکُمْ یعنی ”کچھ عجیب نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم ملک میں فساد برپا کرو اور رشتے ناطے توڑ ڈالو۔ٗ
جس طرح نبی کریم ﷺ نے صلہ رحمی کو جنت میں لے جانے والے اعمال میں شمار کیاہے اس کے برعکس قطع رحمی کو جنت میں داخلہ سے روکنے والا عمل بھی بتایا ہے۔
إِنَّ جبیر بن مطعم أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:” لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ”.(صحیح بخاری۔کتاب الادب، باب اثم القاطع۔حدیث نمبر٥٩٨٤ )
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبر دی انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔
ہر حال میں رشتوں کاپاس ولحاظ
صلہ رحمی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی رشتوں کا پاس ولحاظ ہر حال میں کرتارہے اس کاانتظار نہ کرے کہ دوسرا میرے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کرے گا تو میں بھی اس کے ساتھ حسن سلوک کابرتاؤ کروں گا۔جیسے آج کل ہمارے معاشرے میں یہ چلن ہوگیا ہے کہ جن کے یہاں سے ہدایا،تحائف آتے ہیں ان ہی کے یہاں ہدیے بھیجے جاتے ہیں او رجن کے یہاں سے ہدایا نہیں آتے ان کی طرف التفات نہیں کی جاتی۔یہ نہایت غلط طریقہ ہے بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ بدلہ کی امید رکھے بغیر آدمی کو صلہ رحمی کرتے رہناچاہئے۔بلکہ دوسرے لوگ اگر حسن سلوک کا بدلہ بد سلوکی سے دیتے ہیں تب بھی صلہ رحمی سے باز نہیں آنا چاہئے بلکہ برابر ان کے ساتھ اچھا برتاؤکرتے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کا بدلہ ضرور ملے گا۔
أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: ” يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي قَرَابَةً أَصِلُهُمْ وَيَقْطَعُونِي، وَأُحْسِنُ إِلَيْهِمْ وَيُسِيئُونَ إِلَيَّ، وَأَحْلُمُ عَنْهُمْ وَيَجْهَلُونَ عَلَيَّ، فَقَالَ: لَئِنْ كُنْتَ كَمَا قُلْتَ، فَكَأَنَّمَا تُسِفُّهُمُ الْمَلَّ، وَلَا يَزَالُ مَعَكَ مِنَ اللَّهِ ظَهِيرٌ عَلَيْهِمْ مَا دُمْتَ عَلَى ذَلِكَ “.(صحیح مسلم۔ کتاب البر والصلۃوالآداب،باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتہا۔حدیث نمبر٦٥٢٥ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص بولا: یا رسول اللہ! میرے کچھ ناتے والے ہیں میں ان سے احسان کرتا ہوں اور وہ برائی کرتے ہیں، میں ناتا ملاتا ہوں اور وہ توڑتے ہیں، میں بردباری کرتا ہوں اور وہ جہالت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر حقیقت میں تو ایسا ہی کرتا ہے تو ان کے منہ پر جلتی راکھ ڈالتا ہے اور ہمیشہ اللہ کی طرف سے تیرے ساتھ ایک فرشتہ رہے گا جو تم کو ان پر غالب رکھے گا جب تک تو اس حالت پر رہے گا۔
ذیل کی حدیث سے یہ بات اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے کہ صلہ رحمی کسی بدلے کی وجہ سے نہیں کرناچاہئے۔ بلکہ صرف لوجہ اللہ کرنا چاہئے۔
رَفَعَهُ حَسَنٌ، وَفِطْرٌ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، وَلَكِنِ الْوَاصِلُ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا”.۔(صحیح بخاری۔کتاب الادب، باب لیس الواصل بالمکافی۔حدیث نمبر٥٩٩١ )
حضرات حسن ؔاور فطرؔ دونوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً بیان کیا، فرمایا کہ کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ نہ کیا جا رہا ہو تب بھی وہ صلہ رحمی کرے
اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں ”رحمن” اور”رحیم” دو ایسے نام ہیں جو عَلَم کے قریب قریب ہیں۔ یہ دونوں نام اللہ کے صفاتی ناموں میں کافی ممتاز بھی ہیں اور اللہ کو پسند بھی ہیں۔اسی مادے سے ”رحم” کا لفظ بھی آتاہے۔ اس لئے اللہ کے ناموں اور ”رحم” میں ایک گونہ معنوی قربت پائی جاتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ جو ”رحم” یعنی رشتہ داری کو جوڑے رکھے گا میں اسے جوڑ کر رکھوں گا یعنی اسے اپنی رحمتوں سے قریب رکھوں گااور جو شخص اس ”رحم“کو کاٹ دے گا میں اسے بھی کاٹ دوں گا۔یعنی اپنی رحمتوں سے دور کردوں گا۔
عن عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ قال سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: قَالَ اللَّهُ:” أَنَا اللَّهُ، وَأَنَا الرَّحْمَنُ، خَلَقْتُ الرَّحِمَ، وَشَقَقْتُ لَهَا مِنَ اسْمِي، فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ، وَمَنْ قَطَعَهَا بَتَتُّهُ”(سنن ترمذی۔ کتاب البر والصلۃ عن رسول اللہ ﷺ،باب ماجاء فی قطیعۃ الرحم۔حدیث نمبر١٩٠٧ )
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے”رحم” (رشتے ناتے) کو پیدا کیا ہے، اور اس کا نام اپنے نام سے (مشتق) رکھا ہے، اس لیے جو اسے جوڑے گا میں اسے جوڑے رکھوں گا اور جو اسے کاٹے گا میں بھی اسے کاٹ دوں گا”۔
قطع رحمی کی قسم کھالے تو کفارہ اداکرے
کسی بھی کام کے کرنے کے لئے اگر کوئی قسم کھالے کہ میں اسے کر کے رہوں گا تو اب شرعی طور پر بھی اس پر لازم ہوجاتاہے کہ وہ اس قسم کو پور اکرے اور اگر کسی وجہ سے وہ اس قسم کوپور ا نہیں کرسکا تو اسے کفارہ دینا پڑتاہے۔ لیکن اگر کسی نے قطع رحمی کی قسم کھالی تو اسے اس قسم کو توڑ کر کفارہ دینالازم ہوجاتاہے۔ اس لئے کہ قطع رحمی اللہ کے یہاں بہت مبغوض چیز ہے۔ اس کی وجہ سے انسان کے اعمال برباد ہوکر رہ جاتے ہیں۔
عن سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ أَنَّ أَخَوَيْنِ مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ بَيْنَهُمَا مِيرَاثٌ، فَسَأَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ الْقِسْمَةَ، فَقَالَ: إِنْ عُدْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْقِسْمَةِ، فَكُلُّ مَالٍ لِي فِي رِتَاجِ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ لَهُ عمرُ : إِنَّ الْكَعْبَةَ غَنِيَّةٌ عَنْ مَالِكَ، كَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ، وَكَلِّمْ أَخَاكَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: لَا يَمِينَ عَلَيْكَ، وَلَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةِ الرَّبِّ، وَفِي قَطِيعَةِ الرَّحِمِ، وَفِيمَا لَا تَمْلِكُ”.(سنن ابو داؤد۔ کتاب الایمان والنذور،باب الیمین فی قطیعۃ الرحم۔حدیث نمبر٣٢٧٢ )
حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ انصار کے دو بھائیوں میں میراث کی تقسیم کا معاملہ تھا، ان میں کے ایک نے دوسرے سے میراث تقسیم کر دینے کے لیے کہا تو اس نے کہا: اگر تم نے دوبارہ تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا تو میرا سارا مال کعبہ کے دروازے کے اندر ہو گا۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: کعبہ تمہارے مال کا محتاج نہیں ہے، اپنی قسم کا کفارہ دے کر اپنے بھائی سے بات چیت کرو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرما رہے تھے: ”قسم اور نذر اللہ کی نافرمانی اور رشتہ توڑنے میں نہیں اور نہ اس مال میں ہے جس میں تمہیں اختیار نہیں۔
رشتہ داروں پر خرچ کرنا بہترین مصرف
اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا نہایت فضیلت کاباعث ہے۔قرآن کریم اور احادیث میں جابجا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا ذکر اور اس کے بدلے اللہ تعالیٰ کی نوازشوں کا بیان آیا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ کو قرض سے تعبیر فرمایا ہے یعنی جس طرح قرض کی واپسی بالکل ضروری ہوتی ہے اسی طرح اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہوا مال اللہ کے خزانے میں محفوظ ہوتاہے اور انسان جب اس دنیا سے رخصت ہوکر آخرت میں جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس مال کو المضاعف کرکے عطافرمائیں گے اس کے لئے جومصارف بیان کیے گئے ہیں ان میں سب سے اچھا مصر ف اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنا ہے۔ اس لئے کہ اس میں اجر دوہر اہوجاتاہے ایک صلہ رحمی کا اور دوسرے انفاق فی سبیل اللہ کا۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے اپنے رشتے داروں پرخرچ کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ذیل میں چند احادیث نقل کی جاتی ہیں جن سے پتہ چلے گا کہ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنے کی رسول اللہ ﷺ نے کتنی تاکید فرمائی ہے۔
عن انس رضی اللہ عنہ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92، قَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَى رَبَّنَا يَسْأَلُنَا مِنْ أَمْوَالِنَا فَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنِّي قَدْ جَعَلْتُ أَرْضِي بِأَرِيحَاءَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” اجْعَلْهَا فِي قَرَابَتِكَ”، فَقَسَمَهَا بَيْنَ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ وَ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ. (سنن ابو داؤد۔ کتاب الزکوۃ۔ باب صلۃ الرحم۔حدیث نمبر١٦٨٩ )
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب”لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ” کی آیت نازل ہوئی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرا خیال ہے کہ ہمارا رب ہم سے ہمارے مال مانگ رہا ہے، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اریحاء نامی اپنی زمین اسے دے دی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دو”، تو انہوں نے اسے حسان بن ثابت اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہما کے درمیان تقسیم کر دیا۔
عن میمونۃ رضی اللہ عنہا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَتْ لِي جَارِيَةٌ فَأَعْتَقْتُهَا فَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ:” آجَرَكِ اللَّهُ، أَمَا إِنَّكِ لَوْ كُنْتِ أَعْطَيْتِهَا أَخْوَالَكِ كَانَ أَعْظَمَ لِأَجْرِكِ”.۔(سنن ابو داؤد۔ کتاب الزکوۃ۔ باب صلۃ الرحم۔حدیث نمبر١٦٩٠ )
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی، میں نے اسے آزاد کر دیا، میرے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ کو اس کی خبر دی، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہیں اجر عطا کرے، لیکن اگر تو اس لونڈی کو اپنے ننھیال کے لوگوں کو دے دیتی تو یہ تیرے لیے بڑے اجر کی چیز ہوتی۔”
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قَالَ: أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّدَقَةِ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عِنْدِي دِينَارٌ، فَقَالَ:” تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى نَفْسِكَ”، قَالَ: عِنْدِي آخَرُ، قَالَ:” تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى وَلَدِكَ”، قَالَ: عِنْدِي آخَرُ، قَالَ:” تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى زَوْجَتِكَ، أَوْ قَالَ: زَوْجِكَ”، قَالَ: عِنْدِي آخَرُ، قَالَ:” تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى خَادِمِكَ”، قَالَ: عِنْدِي آخَرُ، قَالَ:” أَنْتَ أَبْصَرُ”.(سنن ابو داؤد۔ کتاب الزکوۃ۔ باب صلۃ الرحم۔حدیث نمبر١٦٩١ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کا حکم دیا تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس ایک دینار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اپنے کام میں لے آؤ”، تو اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اپنے بیٹے کو دے دو”، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اپنی بیوی کو دے دو”، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اپنے خادم کو دے دو”، اس نے کہا میرے پاس ایک اور ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب تم زیادہ بہتر جانتے ہو”۔
مندرجہ بالا تینوں احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے رشتہ داروں پر مال خرچ کرنے کو اولیت کادرجہ دیا ہے۔ہاں اگر وہ ضرورتمند نہ ہوں تو دوسرے لوگوں پرخرچ کیا جائے۔
صلہ رحمی کی فضیلتیں جو قرآن حدیث میں بیان کی گئی ہیں ان کے پیش نظر ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے رشتہ داروں کو ہمیشہ جوڑ کررکھے، ان کے ساتھ حسن سلوک کابرتاؤکرے اور وقتا فوقتا ان کے یہاں ہدیے اور تحائف بھیجتا رہے کیوں کہ اسے رشتوں کومضبوط رکھنے میں بڑا عمل دخل ہے اور قطع رحمی سے کوسوں دور بھاگنے کی کوشش کرے۔

